اسلامیات

بارش: مسائل اور حل

گذشتہ دنوں کو ممبئی و مہاراشٹر میں موسلادھار طوفانی بارش سے زندگی تھم سی گئی۔
بے شک اللہ ہی ہے،جو آسمان سے بارش برساتا ہے، جس میں جانداروں کے لیے زندگی کا سامان ہے۔بارش حیوانات کی زندگی کے لیے نہایت ہی ضروی ہے، اسی کے ذریعے حیوانات کے رزق کا انتظام ہوتا ہے۔ بارش نہ ہو تو سوکھا پڑ جاتا ہے اور انسان اور جانور سب پیاس سے تڑپنے لگتے ہیں۔ لیکن یہی بارش اگرضرورت سے زیادہ ہو جائے تو بھی انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ کہیں سیلاب آتے ہیں تو کہیں فصلیں اجڑ جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے،جو تمام کائنات کی پالن ہار ہے،جس کے قبضہ ٔ قدرت میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں،جس کی اجازت کے بغیر کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں ہلتا۔وہی ہے جس نے اس عالم ِرنگ و بو کو وجود بخشا۔اسی کے لطف وکرم سے کائنات کا نظام چل رہا ہے اور وہ جب چاہے گا،آن کی آن میں سب تہہ و بالا کر دے گا۔کون ہے جو اس کے سامنے لب کُشائی کرے؟ کون ہے جو اس سے وجہ طلب کرے؟ کون ہے جو اس کی قدرت کا ادراک کر سکے؟ اس کائنات میں ایسا کوئی نہیں۔ اس لیے کہ وہ خالق ہے،باقی سب مخلوق ہیں۔وہ مالک ہے،باقی سب مملوک ہیں۔وہ غنی ہے،باقی سب فقیر ہیں۔وہ جب چاہتا ہے،جہاں چاہتا ہے،جو چاہتا ہے،جیسے چاہتا ہے،کرتا ہے۔اسے اس کا حق بھی ہے اور قدرت بھی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ  مَاءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ،  فَلاَ  تَجْعَلُوْا  لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(یعنی اللہ تعالیٰ ربِّ کائنات ہے اور ربّ وہ ہے) جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش بنایااور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا۔پھر اس پانی کے ذریعے عدم سے تمھارے لیے پھلوں کی غذا نکالی۔تو اب تو اللہ کا مقابل نہ ٹھہراؤ اور تم جانتے بوجھتے ہو۔ [البقرۃ]
یہاں ان آفاقی نعمتوں کا ذکر فرماکر تمام اقسامِ نعمت کا احاطہ فرمایا گیاہے۔ان آفاقی نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لیے فرش بنا دیا۔نہ پانی کی طرح نرم ہے،جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے،پتھرکی طرح سخت کہ اسے آسانی سے استعمال نہ کر سکیں، بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا بنایا گیاجو عام انسانی ضروریات ِ زندگی میں کام آسکے۔دوسری نعمت یہ کہ آسمان کو ایک مزین اور نظر فریب چھت بنا دیا۔ تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا۔[ معارف القرآن]
اس تمہید کو توجہ سے پڑھیے اور غور کیجیے کہ آخر اس کائنات میں انسان کا کیا عمل دخل ہے؟ آپ کو جواب نفی میں ملے گا۔لیکن کیا کیجیے! اس کے باوجود انسان کی جہالت و غرور کا یہ عالم ہے کہ اتراتا پھرتا ہے۔ اس قادرِ مطلق رب کی نافرمانی کرتا ہے، پھر اپنے منصوبے بناتا ہے اور قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور قدرت سے چھیڑ چھاڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ یا تو بارش کے موسم میں بارش نہیں ہوتی اورجب ہوتی ہے تو اس قدر کہ انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔خیال رہے ،اللہ تعالیٰ اس کائنات کو تباہ نہیں کرنا چاہتے،یہ تو ہمارے اعمالِ بد ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ حادثات پیش آتے ہیں۔
دو تین دن میں ہی اتنا پانی برس گیا کہ لوگ پریشان ہو گئے۔ تا دمِ تحریرممبئی میں زبردست بارش کا سلسلہ جاری ہے۔اس وقت مضمون نگار اپنے قارئین کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ سب بلا سبب نہیں،اس کے پیچھے ہمارے اعمال ِ بد کی سیاہی ہے۔اس لیے ہمیں ایسے موقعوں پر خصوصیت سے اپنے رب سے اپنابگڑا ہوا رشتہ استوار کرنے کی ضروت ہے۔
قربان جائیے رسول اللہﷺ کے!اُفق پر بادل چھا جانے پربھی آپﷺ کے چہرۂ انور کارنگ متغیر ہوجاتا تھا۔آپ بے چینی سے اندر باہر آنے جانے لگتے تھے۔ اس لیے کہ پہلے بھی ایک قوم پر بادل چھا جانے کے بعد اس میں سے پانی کی بجائے آگ کی بارش ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت نبی کریمﷺ بے چین رہتے تھے۔[مسلم] جو ہوائیں بارش کے آنے کی خبر دیتی ہیں،انھیں محسوس کر کے آپﷺ یہ دعا پڑھتے:اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَہَا، وَخَیْرَ مَا فِیہْاَ، وَخَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا، وَشَرِّ مَا فِیْہَا، وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔ اے اللہ! میں آپ سے اس کی خیر وبرکت کا اور جو کچھ اس میں ہےاس کی خیر وبرکت کا اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے،اس کی خیر وبرکت کا سوال کرتا ہوں۔ اور اس کے شر سے اور جو اس کے اندر ہے اس کے شر سے او رجس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہےاس کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔[مسلم]
جب بارش ہونے لگتی تو آپ ﷺیہ دعا فرماتے:اَللّٰہُمَّ صَیِّباً نَافِعاً۔اے اللہ ! خوب برسنے اور نفع دینے والی بارش برسا۔[بخاری]
جب آپﷺ بارش سے خطرہ محسوس فرماتے تو اس طرح دعا فرماتے:اَللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا، اَللّٰہُمَّ عَلَی الْآکَامِ وَالظَّرَابِ وَبُطُوْنِ الْأوْدِیَۃِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ۔ اے اللہ! ہمارے اردگرد (بارش برسا تاکہ ہماری ضرورت پوری ہو جائے)،ہم پر نہ برسا (کہ ہمارے کام کاج ٹھپ ہو جائیں)۔ اے اللہ! پہاڑوں اور وادیوںپر، جنگلوں اور ندی نالیوں پراور درخت اگنے کے مقامات پر بارش برسا۔ [بخاری]
کبھی تیز ہوا کے چلنے پر آپﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اوردعا فرماتے:اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً وَلَا تَجْعَلْہَا عَذَاباً، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا رِیَاحاً وَّلاَ تَجْعَلْہَا رِیْحاً۔اے اللہ ! آپ اسے رحمت بنائیے، عذاب مت بنائیے، اے اللہ ! آپ اسے (مبارک مینہ کا پیش خیمہ اور)مفید بنائیے، بے فایدہ مت بنائیے۔[الاذکار]
ظاہر ہے اس طرح جو بارش ہوگی وہ انسان کے مفاد میں ہوگی لیکن کیا ہم نے بھی کبھی اس طرح اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے؟پھر شکوہ کرتے ہیں کہ یہ بارش ہمارے لیے زحمت بن گئی!بارش جیسی عظیم نعمت ہماری غفلتوں کی وجہ سے اعتدال سے زیادہ ہوتی ہےتو ہم اسے کوسنے لگتے ہیں۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایاہے، اور آپ ﷺ نے فرمایا؛ ایسا کرنے سے فقر وفاقہ آتاہے۔[الاذکار]
اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے معاملات کا حل بارگاہ ِ الٰہی میں تلاش کریں اوراس کے لیے نبوی طریقہ اپنائیں۔ویسے بھی اس وقت پورے عالم کے جو حالات ہیں،ان میں اس بات کی اشدّ ضروت ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کی چادر میں پناہ گزیں ہوں،تاکہ ہمیں امن ملے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ امن کی ہوائیں عام ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×