سیاسی و سماجی

جشن سال ِ نو بے حیائی کا سیلاب

ہر سال کی طرح سال رواں یعنی ۲۰۲۰ بھی ہم سے رخصت ہونے کیلئے تیار ہے اور سالِ نو یعنی ۲۰۲۱ تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آ نے اور اپنی رنگینیوں کے ساتھ ہم پر چھاجانے کے لئے پوری طرح تیار ہے، یقینا دن ورات اور ماہ وسال کا آنا جانا دنیوی نظام کا ایک حصہ ہے ، دنیا میں ہر آنے والے کو جانا ہوتاہے اور اس کی جگہ دوسرے کو لینا ہوتا ہے ، یہاں کی ہر ایک چیز وقت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور وقت ہے کہ اپنی رفتار کے ساتھ چلا جارہا ہے ،وہ کسی کا پابند نہیں ہے کہ بلانے پر آجائے اور روکنے پر رک جائے بلکہ وہ تو اپنے بنانے والے کے تابع اور اسی کے حکم کا محتاج ہے ،جو وقت کے ساتھ چلتا ہے وقت اس کا ساتھ دیتا ہے اور جو وقت سے غافل ہوتا ہے وقت اسے گمنامی میں ڈھکیل دیتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ وقت کے قدرداں دنیا میں قدرومنزلت پاتے ہیں اور ناقدرے ذلت ورسوائی سے دوچار ہوتے ہیں،وقت کی قدردانی کے لئے لمحہ اور لحظہ کی حفاظت ضروری ہے کیونکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت بیش قیمت بلکہ لاقیمت ہے جسے پوری دنیا مل کر بھی خرید نہیں سکتی ، چنانچہ عقل مندوں نے کہا ہے کہ ’’ الوقت اثمن من الذہب‘‘ وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے، عربی کا مشہور مقولہ ہے: الوقت کالسیف ان لم تقطعہ قطعک’’ وقت تلوار کی طرح ہے ،اگر تم اس کو نہیں کاٹوگے تو وہ تم کو ضرور کاٹے گا‘‘، کسی ہوش مند نے لمحہ بھر کو پوری صدی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لمحہ گزر گیا تو سمجھو کہ صدی گزر گئی اور کسی شاعر نے وقت کے گزرنے کے بعد پلٹ کر نہ آنے کو بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
یہ سال تو گزر جائے گا اور اسے گزرنا ہی ہے اور اس کی جگہ نیا سال آجائے گا اور اسے آنا ہی ہے اورجب نیا سال آئے گا تو آتے ہی ہماری زندگی کا حصہ بن جائے گا اور اس کے آتے ہی یہ سال رواں تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گا اور صرف یادوں میں بس کر رہ جائے گا ، دستور یہی ہے کہ قفسِ دنیا میں قید ہر نفس اپنے اپنے مزاج ومذاق کے لحاظ سے جانے والے مہمان (سالِ گزشتہ) کو رخصت اور آنے والے مہمان(سالِ نو) کا استقبال کرتاہے، ادیب وشاعر اور اہل قلم اپنے ہاتھوں میں قلم تھامے گذر جانے والے سال کے نتائج کو اپنے نوک قلم سے صفحۂ قرطاس پر رقم کر رہے ہوں گے ،جس میں کہیں غم کے آنسوٹپک رہے ہوں گے تو کہیں خوشی کے پھول کھل رہے ہوں گے ،ان کے قلم میں نئے سال کے لئے نئے انداز میں مبارک بادیاں بھی ہوں گی اسی طرح انکی تحروں میں مستقبل کے لئے نیک تمنائیں بھی ہوں گی اور انکی آنکھوں میں حسین خواب بھی ہوں گے ، مگر ذرا ایک نظر گھر کے اس ذمہ دار فرد پر ڈالئے جوسال کے قریب الختم پر بازار سے تیز قدم گھر لوٹتا ہے ،اس کے بغل میں نئے سال کا نیا کیلنڈر ہوتا ہے ،وہ جلدی سے نیا کیلنڈر نکا لتا ہے اور دیوار پر ایک سال سے لٹک رہے پُرانے کیلنڈر کو بڑی بے دردی سے نکال کر اس کی جگہ اس نئے کیلنڈر کو آویزاں کر د یتا ہے ، بے جان پرا نا کیلنڈر اپنے اندر غیرت کی جان ڈال کر اسکی اس بے مروتی پر حیرت سے ہاتھ مل کر رہ جاتا ہے اور اسکی خود غرضی پر زبان حال سے کہتا ہے ’’ اے خدا! دنیامیں کیسے کیسے لوگ ہیں ، انکی انسانیت وشرافت کہاں کھو گئی ہے ،ان کے یہاں تو مروت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ، یہاں تو ہر ایک چڑھتے سورج کی پوجا کرتا دکھائی دے رہا ہے ، اس نے نئے سال کا کیلنڈر کیا دیکھ لیا اس کی غیرت ومروت ہی مردہ ہوگئی ،اسے گراں قدر قیمت میں خرید کر لاتا ہے اور مجھے بے قیمت بناکر بڑی بے مروتی سے نکال دیتا ہے اور اس جگہ اس نئے کیلنڈر کو آوایزاں کر دیتا ہے، وہ اس پر برہم ہو کر اس سے مخاطب ہو کر ہوش اڑا دینے والی باتیں کرتا ہے ،کہتا ہے ،’’ اے انسان تو کتنا خود غرض ہو گیا ہے ، تو نے تو شرافت کا لباس ہی اتار دیا، تو بڑا خود غرض اور مفاد پرست نکلا ،تو نے تو آن واحد میں سارے تعلقات توڑ لئے اور کسی اجنبی کی طرح بے رخی اختیار کر لی ،پھر گھر والوں کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے! اے گھر والو! اس خود غرض پر بھروسہ نہ کرو ،اس مفاد پرست کا اعتبار نہ کرو ،یہ تو درندوں سے بھی زیادہ درندہ نکلا ،اس نے بے وفائی کی ساری حدیں پار کردی ،جب یہ میر ے ساتھ اس طرح کی حرکت کر سکتا ہے تو آگے چل کر اپنے رشتوں اور اس کے تقدس کو تک فراموش کر سکتا ہے اور کسی دن تمہارے ساتھ بھی یہ سب کچھ کر سکتا ہے جو کچھ آج اس نے میرے ساتھ کیا ہے ،پھر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، کاش مجھے پاؤں ہوتے تو میں خود ہی اس خود غرض سے دور چلاجاتا ، وہ بُری طرح جھنجلا کر کوڑے دان سے چیختا اور چلا تا ہے مگر نقار خانہ میں طوطی کی آواز۔چہ معنیٰ دار؟ ۔
ڈسمبر کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی پوری دنیا میں مغرب پرست اور تہذیب جدید کے دلدادہ جشن سال نو کی تیاری میں مشغول ہوجاتے ہیں ،پارکوں کو سجایا جاتا ہے ،ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں کی بکنگ تیز ہوجاتی ہے،نت نئے آلات موسیقی خریدے جاتے ہیں اور اکتیس ڈسمبر کی رات آنے تک تمام تر تیاریاں مکمل کر دی جاتی ہیں ،تعجب اس نسل نو پر جن کے گزرے سال کو الوداع کہنے اور نئے سال کے آمد کی خوشی میں جشن منانے کا عجیب وغریب انداز ہے ،سڑکوں پر گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں ،بازار رنگ ونور سے نہلائے جاتے ہیں ،نائٹ کلبس میں دھوم مچی ہوتی ہے ،پارکوں میں ایک شور بپا ہوتا ہے اور سڑکوں پر ایک جم غفیر نظر آتا ہے جن کے ہاتھوں میں نئے سال کی تختیاں ہوتی ہیں ، جن میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور مرد وعورتیں سب ہوتے ہیں ،سب کی نظریں گھڑی پر گڑی ہوتی ہیں ، جیسے ہی بارہ بجتے ہیں گویا سب کے اخلاق وشرافت کے بارہ بج جاتے ہیں ، چاروں طرف سے ایک طوفان ِ بدتمیزی برپا ہو تی ہے ،پٹاخے ،ہارن اور گاڑیوں کے شور اور چیخوں کی آواز سے زمین دہل جاتی ہے ،آسمان لرز اٹھتا ہے اور فضاء تھرا اُٹھی ہے ، کیا بچے ،کیا بڑے اور کیا بوڑھے سب ہی چیختے چلاتے،نغمے گاتے اور ہیپی نیوائیر کے گیت گاتے ہوئے ایک دوسرے سے گلے مل کر نئے سال کی مبارک باد دینے لگے ہیں ، شرافت کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں اور عزت وناموس کی دیوارگرادیتے ہیں ، ہر طرف بے حیائی اور بے شرمی کا ننگا ناچ ہونے لگتا ہے ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رموسقی کی دھن پر تھرکنے لگے ہیں ،شراب کی بوتلیں خالی کی جاتی ہیں اور اس کے نشے میں بد مست ہو کر وہ بے ہودہ حرکتیں کرتے ہیں جس کے تصور سے شرم آنے لگتی ہے ،یہ سب کچھ کھلم کھلا اور ماں باپ ،بھائی بہنوں اور رشتے دار واقارب کے سامنے ہوتا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر سے حیا وشرافت کی چادر یں اتار پھینک د ی ہے ،اس منظر کو دیکھ کر مارے شرم کے شرافت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے،یہ ہے نئے سال کی آمد کا جشن اور اس میں خوشی منانے کا انداز جس نے تہذیب وشرافت کی تما م حدوں کو پار کرتے ہوئے مہذب معاشرہ کا دیوالیہ نکالدیا ہے ،کتنی تعجب خیز بات ہے کہ دنیا نئے سال کی آمد پر جشن مناتی ہے حالانکہ یہ وقت خوشی ومسرت اورسرور و مستی کا نہیں بلکہ گذرے ہوئے اوقات و لمحات کے محاسبہ کا ہے ،کیا کوئی دولت کے کم ہونے پر جشن منایا کرتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ تو سر پکڑ کر حساب لگانے بیٹھ جاتا ہے کہ اتنا سارا مال کہاں اور کیسے خرچ ہوگیا ،زندگی اور اس کا وقت تو لاقیمت دولت ہے ،یہ جب خرچ ہوجاتی ہے تو پھر لوٹ کر نہیں آتی ،اس کے مقابلہ میں دولت تو آنی جانی ہے ،آج کا مالدار کل فقیر ہوسکتا ہے اور کل کا فقیر پر سوں مالدار بن سکتا ہے ،مگر یہ لا قیمت ساعت جب گذر جاتی ہے تو پھر لوٹ کر نہیں آتی اور اس کے جانے پر دنیا ماتم کرنے کے بجائے جشن منانے لگی ہے ،شاید انکی عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں ، ان کی اس نامعقول اور اخلاق سوز حرکتوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ نئے سال کا جشن اور اس کی تقریبات جو دراصل غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ سرے سے غیر اخلاقی بھی ہیں غیروں کا دیکھا دیکھی ،مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر یا پھر جدید تعلیم یافتہ ہو نے کاسہارا لے کر بہت سارے مسلمان بھی جشن سال نو منانے لگے ہیں اور مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اسلام کی مبارک تعلیمات کو چھوڑ کر تہذیب جدید کی لعنت میں گرفتار ہو رہے ہیں ،دراصل جشن سال نو کا تصور اسلامی نہیںبلکہ یہ جدید ذہنیت ،بے ہودہ رسومات ، پراگندہ خیالات اور آخرت میں جواب دہی کے منکر عقائد رکھنے والوں یعنی یہود ونصاریٰ کی دین ہے ،اسلامی تعلیمات اور اس کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی فانی اور اُخروی زندگی باقی اور لا محدود ہے ،دنیا اور دنیا کی ہر شے خدا کی امانت ہے ، انسان کو روز قیامت زندگی اور اس کے شب وروز کا حساب دینا ہے کہ کہاں شب بسری کی اور کیسے کی ، زندگی خدا کی مرضیات پر چلنے اور اسکی منہیات سے رکنے کانام ہے،زندگی خالص خدا کی عبادت واطاعت کے لئے ہے اور زندگی کا ہر وہ کام جو خدا کی مرضی کے موافق ہو وہ عبادت میں داخل ہے، خدا کے دربار میں انسان سے زندگی کے قیمتی لمحات کے سلسلہ میں سخت باز پرس ہو گی ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : لاتزول قدما عبدٍ حتی یُساء ل عن خمسٍ عن عمرہ فیما افناہ ،وعن علمہ فیما فعل ،وعن مالہ من این اکتسبہ ،وفی ما انفقہ ،وعن جسمہ فیما ابلاہ (ترمذی) ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت سے آدمی اس وقت تک ہٹ نہیں سکتا جب تک اس سے پانچ باتوں کے متعلق حساب نہیں لے لیا جاتا (چنانچہ) اس سے پوچھا جائے گا کہ عمر کن کاموں میں گزاری؟ دین کا علم حاصل کیا تو اس پر کہاں تک عمل کیا؟ مال کن ذرائع سے کمایا؟ کمایا ہوا مال کہاں خرچ کیا؟ جسم کو ( صحت وتندرستی میں ) کس کام میں لگایا‘‘۔اس مبارک ارشاد میں انسانیت کے سب سے بڑے محسن ومربی نے وقت کی قدر وقیمت اور زندگی کی اہمیت کو بڑے ہی دلنشین انداز میں سمجھایا ہے،زندگی خدا کی عظیم نعمت ہے جو ہر فرد بشر کو عطا ہوئی ہے ، بادشاہ ہو یا فقیر ،امیر ہو یا غریب ،آقا ہو یا غلام ،ہر ایک کی رات اور دن برابر ہوتا ہے ، دن اور رات کی خصوصیت یہ ہے کہ جب یہ گذر جاتے ہیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے ،ہر ایک دن اور ہر ایک رات ہم سے چھین لی جاتی ہے ،جس قدر دن گذر تے جاتے ہیں انسان اتنا ہی موت کے قریب ہوتا جاتا ہے ،آدمی جب زندگی اور وقت کو کام میں لاتا ہے تو وہی کامیابی پاتا ہے اور جو وقت کی ناقدری کرتا ہے تو وقت بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر اس طرح دبے پاؤں چلاجاتا ہے کہ اُسے احساس تک نہیں ہوتا ؎
آہٹ بھی نہ محسوس ہوئی ختم سفر تک

یہ عمرِ رَواں کتنا دبے پاؤں چلے ہے
اصولی بات یہ ہے کہ انسان یوں ہی پیدا نہیں کیا گیا کہ جس طرح چاہے، جہاں چاہے اور جیسے چاہے زندگی گزار دے بلکہ وہ تو پابند بنایا گیا ہے ،اسے باضابطہ ایک دستور دیا گیا ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا اسے پابند بنایا گیا ہے ،ایک مسلمان اسلام کے ذریعہ اسی دستور کی پابندی کا عہد کرتا ہے اور خود کو اس ضابطہ کا پابند بناکر زندگی گزارتا ہے ،اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اسی ضابطہ حیات پر چلنے ہی میں اس کی کامیابی ہے ،جو کچھ دنیوی زندگی ہے وہ اس کے پاس امانت ہے قیامت میں اس امانت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا اور جب تک وہ زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کے بارے میں صحیح جواب نہیں دے دیتا بار گاہ رب العالمین سے ہٹ نہیں سکتا ،اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اچھے کاموں کے کرنے کی تلقین کرتا ہے بلکہ بُرے اور بے ہودہ کاموں سے بچنے کی تعلیم بھی دیتا ہے ، اسلام کی نظر میں ایک سچا مسلمان وہ ہے جو لایعنی اور بے فضول کاموں سے خود کو دور رکھتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے بھی ایک حدیث میں آدمی کے اسلام کی خوبی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ(ترمذی) ’’آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے پچا رہے‘‘،اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے معروف عالم دین ،محدث جلیل حضر ت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے فرما تے ہیں کہ: انسان اشرف المخلوقات ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے ،اللہ چاہتے ہیں کہ انسان کو وقت اور صلاحیتوں کا جو سرمایہ دیا گیا ہے وہ اسے بالکل ضائع نہ کرے ،بلکہ صحیح طور سے اسے استعمال کرے ،زیادہ تر اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی فکر کرے ،یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور اس کا لب لباب ہے ،اس لئے جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اُسے کمال ایمان حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ اور دھبہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کھلے گناہوں اور بد اخلاخیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے اپنے کو بچائے رکھے اور اپنی تمام تر خدا داد صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو ۔
سال نو کا جشن یہ کوئی مبارک اور مفید کام نہیں ہے ،اگر اس میں کسی بھی طرح کا اصلاحی وتربیتی پیغام ہوتا یا کسی بھی طرح کا خیر اور انسانی زندگی کے لئے سامان نصیحت ہوتا تو اسلام ضرور اس کی اجازت دیتا کیونکہ اسلام نے ہر اس چیز کے اجازت دی ہے جو انسانی زندگی کے لئے نافع ہو اور اس سے انسان کو خیر کی طرف بڑھنے میں مدد مل سکے یا جس سے انسانیت کا فائدہ ہو ،جشن سال نو اور اس کی تقریبات پر اگر سنجیدگی سے غور کریں تو اجمالی طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس میں مال کا نقصان ،وقت کا ضیاع اور اخلاق کی بربادی ہے ، جشن سال نو کی شناعت اور اس کے نقصانات میں سے چند یہ ہیں (۱) جشن سال نو غیروں بلکہ اسلام دشمنوں کا طرز عمل ہے ، یہ ان کا عمل ہے جن کو قرآن کریم نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے دشمن کہا ہے،احادیث میں ان کی مشابہت سے سختی سے منع کیا گیا ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے : من تشبہ بقوم فھو منہم (ابوداؤد) ’’ جو بھی کسی قوم کی تقلید کرتا ہے وہ بھی انہیں میں سے ہے‘‘، (۲) مال کی بربادی ، سال نو کے جشن کے موقع پر آزاد خیال اور تہذیب جدید کے دلدادہ بے تحاشہ مال برباد کرتے ہیں ،موسیقی ،آتشبازی ،شراب نوشی اور دیگر حرام وفضول کاموں میں قیمتی روپیہ پیسہ برباد کیا جاتا ہے جو کہ شریعت کی نظر میں ناجائز اور حرام ہے ،قرآن کریم میں بے فضول پیسہ خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے،یہ مال کا ضیاع اور نعمت کی ناقدری ہے جو کہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے پھٹکار کا موجب ہے ،(۳)وقت کی ناقدری، سال نو کے موقع پر جشن منانے والے وقت جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کرتے ہیں ،اسے غیر ضروری کاموں میں برباد کرتے ہیں جو ایک خطرناک جرم ہے ،وقت انسان کے پاس اللہ کی دی ہوئی امانت ہے ،قیامت کے دن اس کے متعلق سوال کیا جائے گا اور اس کی ناقدری کرنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی ،مومن کے لئے سب سے بڑی بدبختی اور محرومی کی بات یہ ہے کہ اس کا قیمتی وقت غفلت میں گزر جائے ،(۴) لہو ولعب،انسان دنیا میں کھیل تماشہ کے لئے نہیں بلکہ رب کی عبادت واطاعت کے لئے بھیجا گیا ہے،کھیل تماشہ اور لایعنی کاموں میں وقت کو برباد کرنا ایک قسم کا خود پر ظلم کرنا ہے ، مومن کی شان نہیں ہے کہ وہ کھیل تماشہ کے لئے اپنا قیمتی وقت برباد کرے ،لہو ولعب سے انسان کی روحانی کیفیت مجروح ہوجاتی ہے ،اس پر دن بدن غفلت کا پردہ پڑتاجاتا ہے ،اگر اس پر توجہ نہ دی جائے تو آگے چل کر غفلت اسے بے دینی اور الحاد کی طرف بھی لے جاسکتی ہے ،قرآن کریم میں دنیوی زندگی کی عیش وعشرت اور کھیل تماشہ میں پڑ کر آخرت سے غافل نہ ہونے کی ترغیب دی گئی ہے ، یہ بات بتائی گئی کہ اس شخص سے برا محروم القسمت اور اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو فانی زندگی میں پڑ کر آخرت کی باقی زندگی سے محروم ہو جائے ،( ۵) مرد وزن کا اختلاط ،جشن سال نو کے نام پر مرد وزن کا اختلاط ہوتا ہے جو کہ معاشرتی اخلاق کے لئے زہر قاتل ہے ،مرد وزن کے اختلاط ہی کے نتیجہ میں بہت سی بے ہودہ اور اخلاق سوز بُرائیاں جنم لیتی ہے ،اسی لئے اسلام نے مرد وزن کے اختلاط پر سختی سے روک لگائی ہے اور اسے پاکیزہ معاشرہ کے لئے بربادی کاسامان قرار دیا ہے،مرد وزن کے اختلاط کو آگ وپٹرول سے تشبیہ دی گئی ہے ،ان کے اختلاط سے معاشرتی پاک صاف زندگی میں آگ لگ جاتی ہے اور اس سے جہاں انسان کے اخلاق جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں وہیں بے ہودگی اور بے حیائی کا دھواں ہر طرف پھیل جاتا ہے ،ان کے علاوہ اور بھی دینی واخلاقی خرابیاں سال نو کے جشن کے موقع پر پائی جاتی ہیں ۔
اسلام کی خوبصورت اور حسین تعلیمات کو چھوڑ کر جو مسلمان مغربی لعنتی اخلاق سوز تعلیمات اپنا رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے اس میں ان کے لئے عارضی ، وقتی اور جسمانی لذت تو ہو سکتی ہے مگر دائمی وقلبی نہیں ، یا تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ،یا ان کے پاس دین کی صحیح تعلیم کا فقدان ہے ، یاوہ مغرب سے بہت زیا دہ متاثر ہو چکے ہیں یا پھر عیش پرستی میں پڑ گئے ہیں یا پھر اندھی تقلید ہی میں کامیابی سمجھنے لگے ہیں ،جس کا نتیجہ ہے کہ وہ سال کے ختم ہونے پر محاسبہ کرنے کے بجائے نئے سال کی آمد پر جشن میں لگے ہوئے ہیں ،اگر نئے سال کی آمد پر جشن ہے تو پھر گزرے ہوئے سال پر محاسبہ کیوں نہیں ،جب کہ محاسبہ آئیندہ کے لئے درست رہنمائی کرتا ہے اور جشن حالات سے بے خبر کر تا ہے ، ایک مسلمان کو یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ اس کی کامیابی مغرب اور اس کے پرستار بننے میں نہیں بلکہ دین اسلام اور اس کے غلام بننے اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے ، کاش کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×