شخصیات

آہ !استاذ الحفاظ حافظ محبوب میواتی ؒ چل بسے

اس دنیا میں ہر روز ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں لوگ وفات پاتے ہیں، یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں کا قیام بھی عارضی ہے ، قانون الٰہی کی رو سے ہر آنے والے کو اپنے متعینہ دن گزار نے کے بعد ایک مقررہ وقت پر یہاں سے جانا ہے،چنانچہ ہر روز آنے والے آتے رہتے ہیں اور جانے والے جاتے رہتے ہیں ،آنے والے کو آنے سے اور جانے والے کو جانے سے کوئی روک نہیں سکتا ، جس طرح دنیا میں آنے کا دن مقرر ہے اسی طرح یہاں سے جانے کا دن بھی متعین اور الٰہی رجسٹر میں نوٹ ہے ، وقت مقررہ کے علاوہ کسی کو بھی مزید کوئی مہلت نہیں دی جاتی ، موت کا وقت ہر جاندار کے لئے متعین ہے ،شاہ وگدا ،امیر وغریب ،عالم وجاہل ،پیروجوان اورمتقی وملحد سب ہی کو اپنے اپنے وقت پر مرنا ہے ،قرآن مجید میں ہے :وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إِذَا جَائَ أَجَلُہَا (المنافقون:۱۱)’’اور جب کسی شخص کا متعین وقت آجائے گا تو اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دے گا‘‘ ،بلکہ کسی کے لئے بھی تقدیم وتاخیر نہیں کی جائے گی ،قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَائَ أَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلاَ یَسْتَقْدِمُوْن(الاعراف:۳۴)’’ اور ہر قوم کے لئے ایک میعاد مقرر ہے ،چنانچہ جب ان کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے اگے پیچھے نہیں ہو سکتے‘‘،اللہ نے انسانی فطرت وطبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ انسان کی پیدائش پر اسے خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے اور اس کی وفات پر غم و افسوس ہوتا ہے ، عام لوگوں کی موت پر ان کے اہل خانہ اور متعلقین کو غم وافسوس ہوتا ہے مگر کچھ خاص لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی موت پر دنیا افسوس کرتی ہے اور ان کی جدائی پر صرف جن وانس ہی نہیں بلکہ زمین وآسمان بھی اشک برساتے ہیں ، یقیناموت تو ہر ایک کو آنی ہے اور ہر ایک کو ایک دن دنیا چھوڑنا ہے مگر اس شخص کی موت موت ہے جس پر زمانہ افسوس کرتا ہے اور اس کی جدائی کو اپنے لئے بڑا خسارہ تصور کرتا ہے ؎
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
استاذ محترم حافظ قاری محمد محبوب میواتی ؒ مدرس شعبہ حفظ قرآن جامعہ عربیہ قاسم العلوم اودگیر ضلع لاتور مہاراشٹرا کی رحلت نے زمانہ کو افسردہ کرکے رکھدیا ہے اور خصوصاً آپ کے شاگردوں اور مستفیدین کو غم وافسردگی کی وادی میں پہنچادیا ہے ، جمعہ ۷؍اگست ۲۰۲۰ مطابق ۱۶؍ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ کو واٹس ایپ کے ذریعہ جیسے ہی آپ کی وفات کی خبر پہنچی آنکھیں اشکبار اور دل مغموم ہو گیا اور آپ کی نورانی مسکراتی ہوئی صورت جس پر تلاوت قرآن کی چمک نمایاں ظاہر ہوتی تھی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی ، لڑکھڑاتی زبان سے انا للہ ونا الیہ راجعون پڑھا ، بلاشبہ ہم سب کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے اور سبھی کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ،مذکورہ الفاظ آخرت پر ایمان کی تجدید ،غم کو ہلکا اور صبر کی قوت پیدا کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بوقت مصیبت اسے پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے ، حافظ صاحبؒ کی وفات دینی حلقوں ، آپ کے تلامذہ ومستفدین اور خصوصاً جامعہ عربیہ قاسم العلوم اودگیر کے لئے عظیم خسارہ ہے، خدا کا یہ محبوب بندہ قرآن مجید کا جید حافظ اور ہزاروں علماء وحفاظ کا معلم ومربی تھا،جنوبی ہند کے مختلف علاقوں میں اور خاص کر مہاراشٹرا ،آندھراتلنگانہ اور کرناٹک کے مختلف مدارس دینیہ میں مسند درس پر فائز معلمین اور بہت سی مساجد میں منبر ومحراب کی زینت بنے ہوئے ائمہ کرام آپ ؒ کے بالواسطہ یا بلاواسطہ شاگر د ہیں ، حافظ صاحب ؒ اس عظیم سعادت پر ہر وقت شکر بجالاتے تھے ،یقینا قرآن مجید کی خدمت اپنے آپ میں بہت بڑی سعادت ہے ،انہیں مبارک ہستیوں کو رسول اللہ ؐ نے امت کا بہترین طبقہ کہہ کر ان کی عظمت بیان کی ہے اور انہیں تمغۂ خیر سے نوازا ہے ،ارشاد نبوی ؐ ہے : خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ(بخاری:۵۰۲۷)’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھلائے ‘‘،حفاظ کرام اور علماء عظام کے لئے یہ سب سے بڑا اعزاز اور انعام ہے چنانچہ اس کے بعد پھر کسی انعام واکرام کی انہیں ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی خواہش رکھتے ہیں ،نبوی تمغہ ان کی عزت وشرف کو بتانے کے لئے کافی ہے اور دنیا کے تمام تمغوں سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ قیمتی ہے۔
حافظ صاحب ؒ میوات کے رہنے والے تھے اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے میواتی لکھا کرتے تھے ،آپ ؒ نابینا تھے مگر بلا کا حافظہ پایا تھا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو اپنی مصلحت کے تحت کسی نعمت سے محروم رکھتے ہیں تو اس کے لئے دوسری نعمت کو دوگنا کر دیتے ہیں ، آپؒ آنکھوں کی نعمت سے محروم تھے مگر حافظہ کی دولت سے مالامال تھے ،اس عظیم نعمت کے ذریعہ آپ نے قرآن مجید کے حفظ کی عظیم سعادت کو حاصل کیا تھا،فرماتے تھے کہ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھ جیسے ناکارہ نابینا کو حفظ قرآن کی دولت عطا کی چنانچہ میں اسی کے شکرانے میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں ، حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد آپ نے حیدرآباد کا رخ کیا تھا اور پھر وہاں سے اودگیر تشریف لائے تھے ،جنوبی ہند کی عظیم علمی وروحانی شخصیت قطب دکن حضرت مولانا شاہ محمد عبدالغفور قریشی ؒ شاگر رشید وخلیفہ شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے آپ بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے تھے ، ان کی مجالس میں شرکت اور ان کی صحبت کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے ،چنانچہ اسی محبت وتعلق کی بنیاد پر جامعہ عربیہ قاسم العلوم اودگیر سے وابستہ ہو گئے تھے،جامعہ میں درسی خدمات پاکر آپ بے حد مسرور تھے ،آپ ؒ کو جامعہ کے قدیم ترین استاذ ہونے کا شرف حاصل تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہانت کے ساتھ تدریس کی قابلیت سے بھی نوازا تھا ،نابینا ہونے کے باوجود جماعت کے طلبہ پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے،ان کے حالات سے باخبر رہتے تھے ،سبق ،پارے سبق یا پھر آموختہ کے ناغہ ہونے یا پھر مقررہ مقدار میں کمی پر سزا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے ،خاص بات یہ تھی کہ آپ تین چار طلبہ کا بیک وقت قرآن سنتے تھے اور ہر ایک کی غلطی پر فوراً اسے متنبہ بھی کرتے تھے ، آپ کی شبانہ روز محنتوں اور شخصی دلچسپی نے شعبہ ٔ حفظ قرآن کو چار چاند لگادئے تھے ،نماز تہجد کے وقت طلبہ ٔ حفظ قرآن کو بیدار کرتے تھے اور اسی وقت سے سبق ،پارہ سبق کے سننے سنانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا ،آپ ؒ طلبہ عزیز میں مسابقت کا جذبہ پیدا کرتے تھے اور سبق وآموختہ کی زیادتی پر ان کی خوب حوصلہ افزائی کرتے تھے جس کی وجہ سے طلبہ کے جوش وخروش میں اضافہ ہوتا تھا اور آگے چل کر بہت سے طلبہ مختصر مدت میں تکمیل حفظ قرآن کا اعزاز حاصل کرتے تھے ،چنانچہ کئی طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے ایک سال ،نوماہ اور چھ ماہ میں حفظ قرآن تکمیل کیا ہے ، تقریباً پچیس تیس سال پہلے دیہات وقصبات کے اکثر طلبہ دینی تعلیم سے ناآشنا ہوتے تھے اور بعض عمر بلوغ تک پہنچ جاتے تھے مگر صحیح طور پر ناظرہ پڑھ نہیں سکتے تھے ،آپؒ ایسے طلبہ پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے بہت کم وقت میں ان کے حفظ قرآن کی تکمیل کیا کرتے تھے ، چونکہ اس زمانہ میں مدارس دینیہ کی قلت اور اہل علم کی کمی تھی جس کی وجہ سے بڑے بڑے دیہات علمی روشنی سے محروم اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے ، ایسے دور میں حضرت قطب دکنؒ کی شخصیت شمع علم کی حیثیت رکھتی تھی اور آپ ؒ کا قائم کردہ ادارہ دینی و علمی مرکز اور ام المدارس کی حیثیت رکھتا تھا ،حضرت قطب دکنؒ کا اخلاص اور اساتذہ کی محنتوں سے طلبہ ٔ عزیز کندن بن کر نکلتے تھے ،چنانچہ ہر سال دسیوں کی تعداد میں طلبہ حافظ قرآن اور تفسیر جلالین تک عالمیت کی تکمیل کرکے جاتے تھے ، اس غیر معمولی کار کردگی کو دیکھ کر بہت سے حضرات اسے حضرت قطب دکنؒ کی کرامت کہا کرتے تھے ، شعبہ ٔ حفظ قرآن میں نابینا حافظ قرآن کی محنت وجستجو دیکھ کر حضرت قطب دکنؒ بڑے خوش ہوتے تھے اور انہیں ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے تھے ،ادھر حافظ صاحب ؒ بھی حضرت قطب دکن ؒ کی سرپرستی ومعیت پاکر بے حد مسرور ہوتے تھے اور اسے اپنے لئے بڑی سعادت اور دولت تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ جامعہ سے آخری سانس تک وابستہ رہے اور آپ کی وابستگی تقریبا ً چالیس سال سے زائد رہی ہے ،گویا اللہ کا یہ مخلص بندہ اور قرآن کا یہ خادم قرآن مجید کی خدمت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوا ،ذالک فضل اللہ ۔
حافظ صاحب ؒ گرچہ سے بہت سی خوبیوں کے مالک اور بے شمار صفات حمیدہ کے حامل تھے مگر قرآن مجید کی تلاوت ان کا خاص شغف تھا،چلتے پھرتے اور سفر وحضر ہر وقت زبان تلاوت قرآن میں مشغول رہتی تھی ، حافظ صاحب ؒ اورراقم الحروف کے والد گرامی[ حضرت مولانا شاہ محمد اظہار الحق قریشی مظفرؔ قاسمی مدظلہ العالی خلف اکبر وخلیفہ مجاز حضرت قطب دکنؒ جو تقریبا ً پندرہ سال جامعہ عربیہ قاسم العلوم میں درجہ علیاء کے استاذ اور صدر المدرسین کے عہدہ پر فائزرہے ]میں گہرا تعلق تھا ،وہ والد گرامی کا حد درجہ احترام کرتے تھے اور ان کی خدا داد صلاحیت ، علمی قابلیت اور جامعہ کی ترقی کی کوششوں سے متاثر تھے ،کبھی بذریہ ریل یہ دونوں حضرات حیدرآباد کا سفر بھی کرتے تھے ،ایک موقع پر یہ دونوں حضرات اودگیر سے حیدرآباد کے لئے ریل میں سوار ہوئے ،والد محترم مدظلہ قرآن مجید نکال کر تلاوت میں مصروف ہو گئے جیسا کہ ان کا سفر وحضر میں تلاوت کا معمول ہے اور دوسری طرف حافظ صاحب ؒ نے بھی قرآن کی تلاوت شروع کردی اور مسلسل تلاوت کرتے رہے ، والد محترم کے پوچھنے پر بتایا کہ اودگیر سے حیدرآباد اور پھر یہاں سے اودگیر تک الحمد للہ میں مکمل قرآن کی تلاوت کر لیتا ہوں اور یہ میرا اکثر معمول بھی ہے ،والد محترم فرماتے ہیں کہ یہ سن کر مجھے حافظ صاحب ؒ پر رشک آنے لگا ، رسول اللہ ؐ کا ارشاد یاد آگیا جس میں آپ ؐ نے دوشخصوص کو قابل رشک قرار دیا ہے ،چنانچہ آپ ؐ کا ارشاد ہے کہ رشک کے قابل تو دولوگ ہیں ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کی نعمت دی اور وہ شب وروز اس کی تلاوت میں مشغول رہتا ہے،دوسرے وہ جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا رہتا ہے(بخاری: ۲۵۲۹)۔
حافظ صاحب ؒ نابینا ہونے کے باوجود زندگی بھر خدمت خلق کی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے ، آپ ؒ روحانی علم سے واقف تھے اور اس کے ذریعہ بیمار اور متاثرہ لوگوں کا علاج ومعالجہ کیا کرتے تھے ، آپ کو اس پر کافی عبور بھی حاصل تھا ، درسی مشغولیات سے فارغ ہونے کے بعد خدمت خلق کی حیثیت سے اس کام میں مشغول ہوجاتے تھے ، جادو سے متاثر اور جنات کے شر کا شکار لوگ آپ سے رجوع ہوتے تھے قرآنی آیات اور بزرگان دین کے مجرب نسخوں کو سامنے رکھ مختلف امراض کے شکار مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے اور بیمار لوگ بفضل الٰہی شفایاب ہوتے تھے ،خدمت خلق کے لئے متعینہ دنوں میں آپ اسفار بھی کیا کرتے تھے ، آپ کے مستفدین کی تعداد ہزاروں میں ہو گی ، لوگووں کی مصیبت اور ان کے دکھ درد میںکام آنا اور اسے دور کرنے کی فکر وجستجو کرنا بھی عبادت اور رضاء الٰہی کا ذریعہ ہے ،آپ ؒ کے پیش نظر رضاء الٰہی اور حصول ثواب ہوتا تھا چنانچہ اس خدمت کو عبادت سمجھ کر ہی انجام دیتے تھے ، بلاشبہ حافظ صاحب ؒ کی زندگی کا ہر پہلو درخشاں ، ان کی ہر ادا نرالی اور کام کا ہر انداز قابل قدر تھا،انہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن کی خدمت اور انسانیت کے لئے وقف کردی تھی ، زندگی کی آخری سانس تک پوری خوش دلی کے ساتھ اسے انجام دیتے رہے ، اللہ تعالیٰ ان کی جملہ دینی ،علمی اور رفاہی خدمات کو شرف قبولیت عطا کرے ،ان تمام خدمات کا انہیں بہترین بدلہ عطا کرے اور ان کے شاگردوں کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔

٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×