اسلامیات

آؤ اے مسلمانو! مسجدیں بلاتی ہیں

مساجد اہل ایمان کیلئے جہاں عبادت واعمال کے مراکز ہیں وہیں ان کی اجتماعی قوت وطاقت اور خلوص و محبت کے اظہار کا اہم ذریعہ بھی ہیں، مسلمان دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں حاضر ہوکر اپنے رب کے حضور اپنا ماتھا ٹیک کر اس کی بڑائی ،کبریائی اور عظمت وبرتری کا اقرار کرتے ہوئے اپنی بندگی اور درماندگی کا اظہار کرتے ہیں ، یہ وہ جگہ ہے جہاں پہنچ کر سب برابر ہوجاتے ہیں ،یہاں بادشاہ وفقیر ،امیر وغریب ،عالم وجاہل اور تخت نشین وفرش نشین کا فرق ختم ہوجاتاہے ، اس جگہ بادشاہ بھی کشکول لئے کھڑا نظر آتا ہے ،وہ بھی سب کے ساتھ مل کر پروردگار عالم اور شہنشاہ اعظم کی شان میںباادب کھڑا ہوکر کہتا ہے ’’ ائے پروردگار عالم:سب تعریفیں آپ ہی کیلئے ہیں ،آپ ہی تو سارے جہانوں کے پالنہار ہیں،مخلوق پر بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں،انصاف کے دن کے مالک ہیں(خدایا) ہم (آپ کے بندے) آپ ہی کی عبادت کرتے ہیںاور آپ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ،(خدایا ہم بندوں پر مہربانی فرما کہ )آپ ہم کو سیدھے راستے پر لے چلئے ،ان کے راستے پر جن پر آپ کا انعام ہوا ہے نہ کہ ان کے راستے پر جن پر آپ کا غضب ہوا ہے اور نہ ان کے راستے پر جو (صراطِ مستقیم چھوڑکر) گمراہ ہوئے‘‘،پھر نہایت ادب کے ساتھاپنی پیٹ کو جھکاتا ہے اور کہتا ہے ’’ سبحان ربی العظیم ‘‘ پاکی بیان کرتاہوں اپنے عظیم پروردگار کی،پھر سجدہ میں جاکر اپنی جبین ٹیک کر کہتا ہے ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ بڑائی بیان کرتا ہوں اپنے پروردگارِ برترکی، کبھی کھڑا ہوتا ہے، کبھی رکوع کرتا ہے، کبھی سجدہ کرتا ہے تو کبھی باادب دوزانوں بیٹھ کر حمد وثنا ء بیان کرتا ہے اور پوری عبادت میں یہی تصور کرتا ہے کہ گویا ایک غلام اور بھکاری اپنے آقا ومالک کے سامنے ہے اور اس کے ان گنت انعامات واحسانات پر شکریہ ادا کررہا ہے،اسی انداز عبادت کا نام نماز ہے۔
مساجد جن میں روزانہ پانچ مرتبہ پہنچ کر بندہ مومن اپنے خدا کو یاد کرتا ہے ،اس کی عبادت کرتا ہے اور اس کے آگے ماتھا ٹیک کر اسی سے فریاد کرتا ہے اس کی عظمت اورشان کے کیا کہنے ،یقینا یہ اہل ایمان کے لئے صرف عبادت گاہیں ہی نہیں بلکہ ان کے روحانی مراکز اور مذہبی علامت بھی ہیں ، رسول اللہ ؐ نے مساجد کی عظمت اور خدا تعالیٰ کی نظر میں ان کے مقام کو بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ کی نظر میں روئے زمین پر سب سے بہترین جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے بد ترین جگہیں بازار ہیں‘‘(مسلم)، اس حدیث میںآپ ؐ ؐ نے نہایت وضاحت کے ساتھ بتلا دیا کہ مسجدیں رحمن کی پسندیدہ جگہیں ہیں اس لئے کہ یہاں بندۂ مومن نماز ، دیگر عبادات جیسے اعتکاف،تلاوت قرآن اورذکر واذکار کے ذریعہ دل ودماغ کی تسکین روح کی غذا اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرتا ہے جو در حقیقت انسان کااہم سرمایا اور اس کی زندگی کا حاصل ہے ، روئے زمین کے وہ حصے جس میں مسجدیں بنائی گئی ہیں ان پر ہر وقت خدا کی تجلیات وانوارات بارش کی طرح برستی رہتی ہیں جس کے نتیجہ میں یہ روشن اور منور ہوکر ستاروں کی مانند جگمگانے لگتی ہیں،چنانچہ یہ آسمان والوں کو ستاروں کی مانند دکھائی دیتے ہیں ، رسول اللہ ؐ ؐؐنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ’’مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں ،یہ آسمان والوں کیلئے ایسے چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کیلئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں ‘‘(طبرانی)، یقینا آسمان پر فرشتے مساجد اور انہیں آباد رکھنے والوں کو قدر بلکہ رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اے پروردگار عالم ! جس طرح ان لوگوں نے آپ کے گھر کو آباد رکھا ہے آپ بھی ان کے گھروں کو آباداور شاد رکھئے۔
مسجدوں کی تعمیر وتوسیع کرانا ، انکی حفاظت کی طرف توجہ دینا اور انہیں صاف ستھرا رکھنے کی فکر کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے،رحمت دوعالمؐنے مسجدوں کی تعمیر کرانے والوں کیلئے جنت میں محل کی خوشخبری سنائی ہے ،ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ ( سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے) کیلئے مسجد تعمیر کرائے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک شاندار محل تعمیر فرمائیں گے‘‘(بخاری)،ایک دوسری حدیث ہے جس میں بٹیر پرندہ کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنانے پر جنت میں عالیشان محل کی بشارت دی گئی ہے ،ارشاد نبویؐ ہے’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ (کی رضا وحصولِ ثواب)کیلئے بٹیر کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائی (تو) اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک شاندار محل تعمیر کریں گے‘‘(بطرانی)،ان حدیثوں میں مسجدوں کی مکمل تعمیر کرنے یا حسب استطاعت اس میں حصہ لینے والے دونوں کیلئے جنت میں عظیم الشان محل کی خوشخبری سنائی گئی ہے ، بندوں پرکس قدر اللہ تعالیٰ کی عنایتیں ہیں کہ جو کم حیثیت کا حامل ہے مکمل تعمیر مسجد کی استطاعت نہیں رکھتا لیکن تعمیر مسجد میں شریک ہوکر خدا کی خوشنودی کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندہ کو بھی تعمیر مسجد کے اجر وثواب سے محروم نہیں فرماتے ہیںبلکہ جنت میں عالیشان محل کی تعمیر کا وعدہ فرماکر اسے بھی شاداں وفرحاںکر دیتے ہیں، مساجد کی تعمیر وتوسیع باعث ثواب ہی نہیں بلکہ صدقہ جاریہ کا سبب ہے یعنی مرنے کے بعد بھی اسے برابر ثواب ملتا ر ہتا ہے ،چنانچہ رسول اللہ ؐ ؐ نے ارشاد فرمایا’’جن اعمال اور حسنات کا ثواب آدمی کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ان میں سے (ایک) وہ ’’علم‘‘ ہے جو دوسروں کو سکھایا جائے ،(دوسرے)’’نیک اور صالح اولاد ہے‘‘،(ان کے نیک اعمال کا اجر وثواب ماں باپ کو پہنچتا رہتاہے)(تیسرے)’’قرآن مجید‘‘ ہے (جو لوگ جب تک اسکی تلاوت کرتے رہیں گے ،خرید نے والے کو تب تک اس کا ثواب حاصل ہوتا رہے گا)(چوتھے)’’تعمیر مسجد‘‘ ہے(جس نے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے مسجد تعمیر کی اسے برابر ثواب پہنچتا رہے گا)(پانچوے)’’مسافر خانہ کی تعمیر یا نہر کی کھدوائی ‘ ‘ ہے ( جس نے بھی مسافروں کی سہولت کی خاطر مسافر خانہ بنوائے یا لوگوں کو سہولت پہنچانے کیلئے نہر یا کنواں کھدوائے تو اسے مرنے کے بعد بھی برابر ثواب ملتا رہتا ہے)(چھٹے)’ ’ زمانۂ صحت میں خیر خیرات کرنا‘‘ ہے(جو شخص صحت وتندرستی کے زمانے میں اپنے مال سے بے کسوں ،بے بسوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے تو اس عمل پر مرنے کے بعد بھی اسے ثواب دیا جاتا رہے گا )‘‘(ابن ماجہ)،اس حدیث میں ایسے متعدد اعمال کے بارے میں خوشخبری سنائی ہے کہ جن کا اجر وثواب انسان کو اس کے مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا ،ان میں تعمیر مساجد بھی شامل ہے ،کس قدرخوش قسمت اور قابل رشک ہیں وہ لوگ کہ جنہیں ان عظیم اعمال کے انجام دینے کی توفیق عطا ہوئی ہے۔
جس طرح مساجد کی تعمیر وتوسیع قابل قدر اور باعث اجر عمل ہے اسی طرح ان میں نمازوں کی ادائیگی کیلئے صبح وشام آتے رہنا ایمان کی نشانی اور کامل مؤمن ہونے کی علامت بھی ہے، یقینامساجد ہر متقی کا گھر ہیں ، ان میں آنے والے خدا کے مہمان ہیں بلکہ ان میں آنے والوںکا شمار مجاہدین فی سبیل اللہ کی صف میں ہوتا ہے ، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے ’’رحمت دوعالم ؐ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص صبح وشام مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں مہمانی کا انتظام فرماتے ہیں ،جتنی مرتبہ صبح وشام مسجد جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے مہمانی کا نظم فرماتے ہیں ‘‘(بخاری) ، مسجد میں بکثرت آنے جانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا جب تم کسی کو کثرت سے مسجد میں آنے والا دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ’’مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں‘‘(ترمذی)، ایک حدیث ہے جس میں آپ ؐ نے مسجدوں کو متقین کے گھروں سے تشبیہ دی ہے اور ان کیلئے رحمت ومغفرت ،پل صراط میں آسانی اور جنت کی خوشخبری سنائی ہے ارشاد فرمایاکہ ’’ مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ جس کا گھر مسجد ہو اسے راحت دوں گا ،اس پر رحمت کروں گا،پُل صراط کا راستہ آسان کر دوں گا،اپنی رضا نصیب کر دوں گا اور اسے جنت عطا کروں گا‘‘(طبرانی) ،مسجدوں کی طرف قدم بڑھانے والوں کو خدا کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’صبح وشام مسجد جانا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے میں داخل ہے‘‘(طبرانی)، بڑے خوش نصیب ہیں وہ جو نماز وں ،ذکر وتلاوت اور اعتکاف کی غرض سے بکثرت مسجد جایا کرتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کا اجر پاتے ہیں۔
قیامت کے روز بعض خوش بخت وہ لوگ ہوں گے کہ جنہیں عرش اعظم کا سایہ نصیب ہوگا ،لوگ ان کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھں گے ا ور دل ہی دل میں گمان کریں گے کہ شاید یہ قوموں کے انبیاء یا پھر خدا کی راہ میں جان کی بازی لگادینے والے مجاہدین ہوں گے لیکن انہیں بتایا جائے گا کہ یہ کون ہیں اور کن اعمال کے صلہ میں انہیں یہ اعزاز دیا جا رہا ہے ، رسول اللہ ؐ نے سات قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک ’’وہ مرد مؤمن جس کا حال یہ ہے کہ مسجد سے باہر جانے کے بعد بھی اس کا دل مسجد ہی میں اٹکا رہتا ہے جب تک کہ پھر مسجد میں نہ آجائے‘‘(بخاری)، اس حدیث میں اس شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سایۂ رحمت کی بشارت سنائی گئی ہے جس کا دل مسجد ہی میں رہتا ہے ،وہ نماز پڑھنے کے بعد گھر یا بازار لوٹ کر ضروریات زندگی میں مصروف تو ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا دل مسجد ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے ،پھر جیسے ہی مسجد کی میناروں سے مؤذن ندا لگا تا ہے تو وہ لپک کر مسجد پہنچ جاتا ہے ،یہی وہ قابل قدر اور قابل فخر بندے ہیں جن کی صفات حمیدہ کو قرآن مجید اس طرح بیان کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے: رِجَالٌ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیۡۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیۡتَائِ الزَّکَاۃِ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡأَبۡصَارُ(النور ۳۷)وہ لوگ ایسے ہیں جنہیں یادخدا سے اور نماز پڑھنے اورزکوٰۃدینے سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ ہی خرید وفروخت ،وہ اس دن ( یعنی محشر کے دن پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہونے)سے ڈر تے ہیں ، جس دن دل اور آنکھیں پھر جائیں گی،(اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہم کو بھی ان میں شامل فرمائیں آمین)۔
مساجد میں آنے جانے والے اور ان سے گہرا تعلق رکھنے والوں سے فرشتے دوستی کرتے ہیں ،جب وہ مسجد میں ہوتے ہیں تو فرشتے ان کے ہم نشین بن جاتے ہیں ،اگر وہ بیماری یا پھر کسی عذر کی بناپر مسجد نہ آسکیں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں حتیٰ کہ اگر بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کرتے ہیں ، رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا’’ جولوگ کثرت سے مسجدوں میں جمع رہتے ہیں وہ مسجدوں کے کھونٹے ہیں،فرشتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں ،اگر وہ مسجدوں میں موجود نہ ہوں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں ،اگر وہ بیمار ہو جائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں ،اگر وہ کسی ضرورت کیلئے جائیں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں،آپ ؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا :مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ حاصل کر لیتا ہے ،کسی بھائی سے ملاقات ہوتی ہے جس سے کوئی دینی فائدہ ہوجاتا ہے یاکوئی حکمت کی بات سننے کو مل جاتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی رحمت مل جاتی ہے جس کا ہر مسلمان کو انتظار رہتا ہے‘‘(مسند احمد)۔
مسجدوں سے خصوصی تعلق و شغف اور اس میں کثرت سے آنے جانے والوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ بے حد خوش ہوتے ہیں ،اپنی رحمت وبرکت کی چادر اس پر تان دیتے ہیں ،ا سے اپنا تعلق اور تقرب عطا کرتے ہیں ،تقرب الٰہی اور نظر عنایت کی وجہ سے انہیں بھی مسجدوں کی طرف آنے اور دیر تک ٹہرے رہنے میں قلبی سکون ملنے لگتا ہے ، مسجدوں سے خصوصی تعلق رکھنے والوں سے خدا تعالیٰ خوشی کا کس طرح اظہار فرماتے ہیں رسول اللہ ؐ نے اسے بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’ ،ارشاد فرمایا’’ جو مسلمان نماز وں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کیلئے مساجد کو اپنا ٹھکانا بنا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے گھر کے لوگ اپنے کسی گمشدہ کے واپس آنے پر خوش ہوتے ہیں‘‘(ابن ماجہ)،خدا تعالیٰ تو بندوں کے اپنے گھر حاضری پر اس قدر خوشی ومسرت کا اظہار فرمارہا ہے لیکن بندوں کی بد بختی اور محرومی دیکھئے کہ خانۂ خدا کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ،انہیں اور کام تو یاد ہیں مگر خانۂ خدا کی حاضری یاد نہیں ہے ،حالانکہ مسجدیںمسلمانوںکے دین وایمان کی حفاظت کے قلعے ہیں ،مسلمانوں کے جان وایمان کی سلامتی ان کی اجتماعیت مسجدوں کے ساتھ وابستگی میں مضمر ہے ، جو لوگ مساجد سے قطع تعلق رکھتے ہیں یا کم آناجانا کرتے ہیں وہ شیطان کے گود میں چلے جاتے ہیں ،ایسے لوگوں پر شیطان بڑی آسانی سے قابو پالیتا ہے اور ان پر اس طرح شکنجہ کس لیتا ہے جس طرح ریوڑ سے دور چلی جانے والی بکریوں کو بھیڑ یا پکڑ لیتا ہے ، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے : ان الشیطان ذئب الانسان کذئب الغنم یاخذالشاۃ القاصیۃ والناحیۃ فایاکم والشعاب وعلیکم بالجماعۃ والعامۃ والمسجد( احمد)’’ شیطان انسان کا بھیڑ یا ہے بکریوں کے بھیڑ ئے کی طرح کہ وہ ہر ایسی بکری کو پکڑ لیتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو،الگ تھلگ ہو،اس لئے گھاٹیوں میں علحدہ ٹہر نے سے بچو ،اجتماعیت کو ،عام لوگوں میں رہنے کو اور مسجد کو لازم پکڑو‘‘، مذکورہ ارشاد میں رسول اللہ ؐ نے اپنی امت کو بڑی عمدہ،نہایت پیاری اور انہیں شیطان مردود سے محفوظ رکھنے والی بے حد اہم ترین چیز بتلائی کہ آپسی اختلافات سے بچو ،اس لئے کہ شیطان اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر زبردست وار کرتا ہے جس سے بچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ،اسی طرح مسجدوں کو لازم پکڑ نے والے خدا کی رحمت اور فرشتوں کی حفاظت میں رہتے ہیں ، ان پر شیطان کا جادو چل نہیں سکتا ،وہ بے بسی اور مایوسی کے ساتھ انہیں دیکھ کر ہاتھ ملتا ہے، شیطان ملعون کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح قوم مسلم مسجدوں سے دور ہوکر خدا کی رحمت ،اس کی نظر عنایت اور اس کے حفظ وامان سے دور چلی جائے ، مسلمانوں کی بے بسی ،لاچاری اور بے وقعتی کی اہم وجہ ان کی مساجد سے دوری اور لاپرواہی ہے ، کثیر آبادی والے مسلم محلوں میں مسجدوں کی ویرانی دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ،یہ وہی قوم ہے جن کے آبا واجداد ہوا کے تیز ہوجانے اور جانوروں کی سرکش ہونے پر مسجدوں کا رخ کرتے ہوئے توبہ واستغفار کرتے تھے اور اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتے تھے ،وہ لوگ تھکے ماندے ہونے کے باوجود موسموں کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے کچی تعمیر کردہ مسجدوں میں گھنٹوں قیام وسجود میں پڑے رہتے تھے ،ان کے آنسووں سے ڈاڑھیاں تر ہوجاتی تھیں ، رات کے سناٹے میں سسکیوں کی آوازیں سنگ دل کو بھی رولادیتی تھیں ،وہ مسجدوں سے ایسے بندھے ہوئے ہوتے تھے جیسے جانور کھوٹے سے بندھے ہوتے ہیں ،فریقین میں جب کسی بات پر اختلاف ہوتا تھا اور مسجد میں قسم کھانے کی بات آتی تھی تو وہ ڈرجاتے تھے ،مسجدوں کے احترام کا عالم یہ تھا کہ ان کے سامنے سے گزرتے ہوئے بلند آواز سے بات کرنا بے ادبی شمارکرتے تھے، اسی زمانے کے متعلق کہنے والے نے کہا ہے کہ اس وقت مسجدیں کچی تھیں لیکن نمازی پکے تھے اور آج مسجدیں پکی ہیں مگر نمازی کچے ہیں ، کسی مفکر نے قوم مسلم کی مساجد کی ویرانی اور مسلمانوں کے پستی کو دیکھ کر کہا ہے کہ ان کی پستی کی وجہ مساجد سے دوری اور بے رخی ہے ،کسی عالم ربانی نے قرآن مجید کی یہ آیت جس میں حضرات صحابہ ؓ کے عظیم اوصاف بیان کئے گئے ہیں جس میںا گیا ہے کہتَرَاہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضۡوَانًا سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ أَثَرِ السُّجُوۡدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِیۡ التَّوۡرَاۃِ وَمَثَلُہُمۡ فِیۡ الۡإِنجِیۡلِ(فتح:۲۹)’’تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں ،کبھی سجدے میں ،(غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں ،ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ،یہ ہیں ان کے اوصاف جو تورات میں مذکور ہے اور انجیل میں ‘‘ ، اس کے ضمن میں انہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے ان کی کامیابی کی اہم وجہ مساجد سے غیر معمولی شغف اور خدا کے حضور حاضری معلوم ہوتی ہے او ر اس کے برخلاف آج مسلمانوں کی رسوائی و ناکامی کی اہم وجہ مسجدوں سے دوری اور خدا کی عبادت سے غفلت نظر آتی ہے ، کیونکہ جو خدا سے قدم پھیر لیتا ہے تو خدا بھی اس سے نظر پھیر لیتا ہے اور جو خدا کے گھروں سے جڑتا نہیں خدا انہیں کثرت کے باوجود توڑ کر رکھ دیتا ہے ، کسی عیسائی قائد نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جس دن مسلمانوں کی مسجدیں نماز جمعہ کی طرح بھر جائیں گی تو اس دن سے دیگر قوموں کا زوال شروع ہوجائے گا ،حقیقت بھی یہی ہے کہ خدا کو راضی کئے بغیر ہم کسی پر غالب نہیں ، جب تک ہمارا رخ مسجدوں کی طرف نہیں پھر جاتا سر خالق کے سامنے جھک نہیں جاتا تب تک کا میاب اور سرخرو نہیں ہوسکتی ،دربارِ خداوندی کی غیر حاضری نے ہمیں دیگر قوموں کی نظروں میں بے وقعت بنادیا ہے،کسی مفکر اور عالم ربانی کا قول ہے کہ ’’جب مسلمانوں کی اکثریت مسجدوں سے دور ہو تی ہے،ان کے دل خدا کی یاد سے غافل اور ان کے شب وروزسنتِ نبوی کے خلاف گذر تے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اس قوم کے پیروں میں ذلت کی بیڑیاں اور گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیتے ہیں‘‘، مسلمانوں کے لئے اس ذلت ورسوائی اور ناکامی ونا امیدی سے نکلنے کا واحد راستہ مسجدوں سے وابستگی میں ہے کسی شاعر نے قوم مسلم کو خوبصورت پیغام دیتے ہوئے کہا ہے ؎
کیوں اداس پھرتے ہو، راحتیں بلاتی ہیں

آؤ اے مسلمانو! مسجدیں بلاتی ہیں
رب کی بندگی کرکے، تم فلاح پاؤ گے

ہر اذان میں تم کو، نصرتیں بلاتی ہیں
مال وزر کے چکر میں رب کو بھول بیٹھے ہو

سر کو رکھ دو سجدے میں نعمتیں بلاتی ہیں
مسجدوں کی ویرانی تم کو بھی اجاڑے گی

آؤ آکے نکھر وتم ،نکھتیں بلاتی ہیں
مسجدوں کو چھوڑا تو سب ہی چھوٹ جائے گا

رب کے بندو آجاؤ عظمتیں بلاتی ہیں
چاہتی ہے یہ دنیا مومنوں کی سوائی

مسجدوں میں آؤ تم ،عزتیں بلاتی ہیں

muftifarooqui@gmail.com
9849270160

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×