مزدوروں کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی
پوری دنیا میں کورونا وائرس کا قہر جاری ہے ، اس مہلک وباء سے اب تک ہزاروں لوگ لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کی لپیٹ میں ہیں ،طب کے ماہرین رات دن ان کے علاج میں سر گرداں ہیں ،ان میں سے کئی تو علاج کرتے کرتے خود بیمار ہو کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو چکے ہیں ، دنیا بھر میں طب پر مہارت رکھنے والے ماہرین اس مہلک مرض کی دوا بنانے میں اپنی ساری توانائی صرف کر رہے ہیں ، ماہرین کے مطابق اس مہلک مرض کی دوا بننے میں لگ بھگ اٹھارہ مہینے درکار ہو سکتے ہیں ، لیکن دوا کے متعلق حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے کتنے لوگوں کی جانیں بچ سکتی ہیں ، اس وقت عالمی ادارہ صحت پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے ،اس کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر ہی اس مہلک وائرس سے بچنے کا واحد حل ہے ،چنانچہ اس زہریلی اور ہلاکت خیز وباء سے بچنے کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے ،لوگوں کو بلا کسی شدید ضرورت کے گھروں سے نہ نکلنے ،سماجی فاصلہ برقرار رکھنے ،مصافحہ و معانقہ سے گریز کرنے ،صفائی کا خیال کرنے ، وقفہ وقفہ سے ہاتھ منہ دھوتے رہنے،چہرہ پر ماسک لگائے رکھنے اور وائرس کی کسی ایک علامت پائے جانے پر فوراً محکمہ صحت سے رجوع ہونے اور کورنٹائن ہوجانے کی مسلسل ہدایات دی جارہی ہیں ،بہت سے ممالک میں محکمہ پولیس دن رات اسی کام میں مصروف ہے ،بلاوجہ گھروں سے نکلنے پر ملکی قانون کی خلاف وزی اور خود کے علاوہ دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنے کے جرم میں ان پر جرمانے اور انہیں مختلف قسم کی سزائیں دی جارہی ہیں، یہاں تک کہ مذہبی عبادت گاہوں کو تک مقفل کر دیا گیا ہے اور مذہبی وسماجی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس وقت پوری دنیا پر ایک انجان سا خوف طاری ہے ، دنیا والوں کی ایک طرح سانسیں رک گئیں ہیں ،ترقی کے دعوے کرنے والے بڑے بڑے ممالک کے سر جھکے ہوئے ہیں ،جو دوسروں پر شیر کی طرح غراتے تھے اس وقت بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں ،جو بلا وجہ دوسروں کی جانیں تلف کر دیا کرتے تھے شاید انہیں آج جان کی قیمت کا اندازہ ہو چکا ہے ،یقینا جان تو جان ہی ہے چاہے جس کی ہو ،جان کی قیمت تو جہان سے بھی زیادہ ہوتی ہے ،کوروناوائرس نے کئی چیزوں کی پول کھول کر رکھ دی ہے ، اس نے انسانوں کو پیغام دیا ہے کہ خود کا قدر چاہے جتنا بڑا ہو آسمان کی بلندی چھو نہیں سکتا ،چاہے خود کی طاقت جتنی ہو خدائی طاقت کے مقابلہ میں وہ تنکے کے حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے ،انسان کو اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہئے وہ بے بس ہے اور بے بس ہی رہے گا ، وباء کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سر حد ،دولت،حشمت اور مذہب دیکھ کر نہیں آتی کہ غریب سے لپٹ جائے اور امیر سے گزرجائے ،وہ تو بسااوقات انسانوں کو ان کے اوقات یاد دلانے اور ان کا امتحان لینے کے لئے آتی ہے،ہمدرد ، خود غرض اور انسا ن وحیوان کے چہروں سے نقاب اٹھادیتی ہے ،بہت سے انسان وہ ہوتے ہیں جو اس موقع سے فائدہ اٹھاکر انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور بہت سے وہ ہوتے ہیں جو انسانیت کے نام پر فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں،کورونا وائرس نے ایسے کئی چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے جو مہلک وباء کی نازک صورت حال میں بھی انسانیت کا خون چوسنے اور نفرت کو ہوا دینے میں مصروف ہیں اور کئی چہرے ایسے بھی ہیں جو محبت ،پیار اور انسانیت باٹنے میں مصروف ہیں ۔
ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہوئے تقریبا ً دو مہینے ہونے جا رہے ہیں ،تمام تر احتیاط کے باوجود کورونا کا قہر بڑھتا ہی جارہا ہے ، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ہندوستان میں متاثین کی تعداد چین سے بھی آگے بڑھ چکی ہے ،خدا کا شکر ہے کہ مہلوکین کی تعداد دیگر متاثرہ ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے ، لاک ڈاؤن کے اثر سے ہر ایک متاثر نظر آرہا ہے ،جہاں ایک طرف ملک کی معیشت میں پر زبردست گراوٹ آئی ہے تو دوسری طرف چھوٹے تجارت پیشہ ، متوسط آمدنی رکھنے والے اور مزدوری کرنے والے لوگ مالی بحران کی وجہ سے بد حالی کا شکار ہو چکے ہیں، مزدور پیشہ افراد کی تو جان ہی نکل رہی ہے ، اس وقت روزانہ کی محنت ومشقت کے ذریعہ معمولی مزدوری کے ذریعہ کماکر اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر نے والوں کا بہت بُرا حال ہے،اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ مزدور پیشہ لوگ کورونا سے اتنے خوف زدہ نہیں ہیں جتنا کہ فاقہ کشی سے خوف زدہ ہیں ،ان بیچاروں پر تو چاروں طرف سے مصیبت آن پڑی ہے ، وطن سے دور، مزدوری سے محروم ، مالکوں کی عدم توجہی ، دو وقت کے روٹی کی فکر اور حکومت سے توقعات کے مطابق مدد نہ ملنا ، جس سے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ،آنکھیں چھلک پڑیں ہیں ، بھوک سے معصوم بچوں کا تڑپنا ان سے دیکھا نہیں جا رہا ہے ، بوڑھے ماں باپ اور بیوی کی اداسی سے ان آنکھیں بھیگ رہی ہیں ،ان حالات کے ماروں کو مجبور ی وبے بسی نے سڑکوں پر لا کھڑا کر دیا ہے ، وہ بے سروسامانی کے ساتھ سروں پر سامان اُٹھائے ،گودوں میں بچے لئے اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں کے ساتھ پیدل وطن جانے کے لئے سڑکوں پر نکل پڑے ہیں ، سوشل میڈیا پر لگاتار ان مزدوروں کی دل ہلا دینے والی ،آنکھیں رُلا دینے والی اور وجود کو تڑپادینے والی مجبور ولاچار اور بے بس وبے حساب تصویریں وائرل ہوتی جارہی ہیں ،سینکڑوں مزدور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کئی سو کیلو میٹر کا سفر پیدل طے کرتے جارہے ہیں ،سر پر سامان کا بوجھ ہے،گود میں شیر خوار بچہ ہے،چلچلاتی دھوپ ہے ، چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں ہیں اور پیٹ کو صاف پانی بھی میسر نہیں ہے مگر عزم وحوصلے کی چٹان بن کر وہ چلتے جارہے ہیں ،بعض وہ ہیں جنہوں نے بڑی مشقت کے بعد گھر تو جیسے تیسے پہنچ گئے مگر لمبے سفر کی تھکان نے انہیں بیمار کر کے ہمیشہ کی نیند سلادیا ،بعض وہ ہیں جو راستہ ہی میں زندگی کی بازی ہار گئے ،بعض وہ ہیں جنہیں بھوک وپیاس نے مارڈالا ، بعضوں کو بچوں کا بھوک سے بلبلانہ دیکھا نہ گیا وہ اپنے بچوں کے ساتھ درخت پر جھول کر زندگی کی جھنجال سے چھٹکارہ حاصل کر کے زندگی سے جان چھڑا لی ، بعض تو وہ ہیں جن کا پورا خاندان راستے ہی میں حادثہ کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ کر چلتا بنا ،مہاراشٹرا میں اورنگ آباد کے قریب وطن کو لوٹنے والے مزدور ٹرین کی پٹریوں پر تھکن اُتار نے کے لئے سوئے تھے کہ مال گاڑی کی زد میں آکر ہمیشہ کی نیند سوگئے ،جن کی خون میں لت پت لاشیں ،ٹوٹا ہوا سامان اور سوکھی روٹیوں کا بکھرا توشے دان ان مزدوروں کی بے بسی کی منہ بولتی تصویر پیش کر رہا تھا ،جس نے بھی اس خوف ناک منظر کو دیکھا وہ دیکھتا ہی رہ گیا ، دیکھنے والوں کی آنکھیں نہیں دل رورہے تھے ،مزدوروں کے مٹی لگے ہوئے خشک ہونٹ اپنے اطراف کھڑے لوگوں سے بزبان حال کہہ رہے تھے کہ ان روٹیوں کو ہمارے بوڑھے ماں باپ تک پہنچادو شاید ان کی بھوک مٹ جائے ،قومی شاہراؤں پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے اپنے وطن جانے والے ہزاوں مزوروں کے عجیب وغریب اور دل دہلانے والے نظارے سوشل میڈیا کے ذریعہ دیکھنے کو مل رہے ہیں ، یہ مزدور دن ورات کی پرواہ کئے بغیر قافلوں کی شکل میں چلتے ہی جارہے ہیں ،بعض کے پیر چلتے چلتے پھٹ چکے ہیں ،بعض کے پیر وں میں چھالے پڑچکے ہیں ،بعضوں نے پیروں میں چپل کے بجائے پانی کی بوتلیں باندھ رکھی ہیں ، ان میںبعض حاملہ خواتین بھی ہیں جن کے چہرے زرد پڑ چکے ہیں ، ایک کم سن بچہ سوٹ کیس پر سویا ہوا ہے اور اس کی ماں اس سوٹ کیس کو کھینچ کر لے جارہی ہے ،سوشل میڈیا پر یہ تصویر اور ویڈیو کافی وائرل ہو ئی ہے ،دیکھنے والوں کی آنکھیں نم ہو کر رہ گئیں ،بعضے مزدوروں کو آٹو ٹرالیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر جاتے ہوئے دیکھا گیا ،اگر ان منظر کو بھیڑ بکریاں بھی دیکھ لیں تو شاید وہ بھی اپنے آنسو روک نہ پائیں گے ،بعض لوگ ٹرکوں پر سوار ہیں ، وطن پہنچنے کی خواہش وخوشی میں بلا خوف خطر سفر طے کرتے جارہے ہیں مگر انہیں کیا پتہ کہ کچھ دیر بعد ٹرک حادثہ کا شکار ہو نے والا ہے اور وہ گھر نہیں قبرستان پہنچنے والے ہیں ، جس سے ان کے گھر جانے کی خواہش ہمیشہ کے لئے دل میں دفن ہو کر رہ جائے گی ،تیز رفتار ٹرک کچھ دور جاکر حادثہ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر سوار سارے مزدور مقام حادثہ پر ہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ،ان مزدوروں کی بے بسی ،لاچاری اور اُداسی کو دیکھ کر من میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی غربت اتنی بُری چیز ہے؟ کیا ان کے ساتھ بے رخی کا یہ سلسلہ آگے بھی چلتا رہے گا؟ کیا ان کی جانیں اس قدر سستی ہیں ؟ کیا یہ بے چار ے صرف استعمال ہوتے رہیں گے؟ مرکزی اور علاقائی حکومتوں کی جانب سے ان کی فلاح وبہبود کے لئے کئے گئے وعدہ کیاصرف تقریروں کی حد تک محدود رہیں گے؟ کیا یہ بے چارے مزدور کبھی تنگد ستی سے باہر بھی نکل پائیں گے یا صرف اعلانات سن کر ہی خوش ہوتے رہیں گے ؟ آخر وہ دن کب آئے گا جب مزدور خوش حالی کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور انہیں ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا ۔
ملک میں لاک ڈاؤن کے بعد سے جو کچھ حالات پیش آرہے ہیں اس سے حکومت کی جلد بازی ،ناسمجھی ،ٹھوس لائحہ عمل کا فقدان اور مستقل کے حالت پر گہری نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہے ،اگر مرکزی حکومت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی تو شاید حالات اس قدر خراب نہ ہوتے ،یہ بات مسلم ہے کہ عالمی مہلک وباء سے بچاؤ کا واحد راستہ لاک ڈاؤن ہی ہے لیکن کچھ رعایتوں کے ساتھ یا پھر معمولی وقفہ کے بعد لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا تو نہ ہی لاکھوں لوگ پھنستے اور نہ ہی صورت حال اس قدر سنگین ہوتی،اچانک لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں سب سے زیادہ متاثر مزدور اور غریب افراد ہی ہوئے ہیں ،ان مزدور پیشہ حضرات کی جو صورت حال ہے وہ انسانیت اور ملک دونوں ہی کے لئے انتہائی شرمناک ہے، یہ غریبوں کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہوتا نظر آرہا ہے، غریبوں کی بے قیمتی کو ظاہر کر رہا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا کھلا ثبوت نظر آرہا ہے ، سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک وبیرون ملک کے لاکھوں انسان ان بے بس ولاچار مزدوروں کو دیکھ رہے ہوں گے تو ان پر اس کا کیا اثر ہو رہا ہوگا ،یقینا اس سے ملک کے متعلق غلط تاثر پہنچ رہا ہوگا ،حکومت کی بے توجہی واضح ہوتی جارہی ہے جس سے ملک کی نیک نامی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ،اس سلسلہ میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو ٹھوس قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے ،مزدور پیشہ افراد کے لئے خصوصی پیکج کا نہ صرف اعلان کرنا ہوگا بلکہ اسے فی الفور عملی جامہ پہنانا بھی ہوگا ،بعض ریاستوں نے اپنی ریاست میں مزدور طبقہ اور غریب افراد کے لئے راحت پیکج کا اعلان کرکے انہیں فوراً راحت بھی پہنچائی ہے جو قابل ستائش ہے مگر انہیں چائے کہ اسی پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان کے لئے مزید سہولیات پہنچانے کے اقدامات کریں ،کیونکہ ان حالات میں جتنی اور جس قدر راحت کے کام کئے جائیں وہ سب کم ہیں ،مرکزی حکومت نے بھی لاکھوں ،کروڑوں کے اعلان کئے ہیں مگر اس میں مزدوروں کی روٹی پر دال آتی نظر نہیں آرہی ہے ،اگر چہ ان کے لئے مفت چاول اور دال دینے کا اعلان کیا گیا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مماثل ہے ،اس سے ان کے زخموں پر مرحم نہیں لگا یا جاسکتا ہے ،اس وقت مزدور پیشہ افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ان کے گھروں تک پہنچنے کا ہے ، اگر حکومت انہیں اپنے مقامات تک مفت سواری فراہم کرتی تو یہ ان کے لئے اس وقت کی سب سے بڑی راحت ہوگی مگر حکومت نے اس طرف سوچنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی ، ملک کی ایک سب سے قدیم سیاسی پارٹی نے مزدوروں کے لئے کرایہ کا انتظام کرکے انہیں کچھ حد تک راحت پہنچانے کا کام کیا ہے ،افسوس تو اس بات پر ہے کہ حکومت کے اعلانات لاک ڈاؤن کے بعد کے حالات کو ذہن میں رکھ کر کئے گئے ہیں جبکہ مزدور وں اور دیگر مستحقین کو فی الوقت راحت کی ضرورت ہے ،بعض قائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مزدور پیشہ اور غریب طبقہ کے اکاونٹ میں کم از کم پانچ چھ ہزار روپئے ڈالیں جائیں تاکہ انہیں کچھ راحت تو حاصل ہو،ہم بھی ریاستی ومرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس مصیبت کی گھڑی میں مزدور وں اور غریبوں کی بھر مدد کریں ، حکومت کے خزانوں سے ہی نہیں بلکہ خود کے خزانوں سے بھی ان کی خوب مدد کریں۔
لاک ڈاؤن کے نازک ترین صورت حال میں جو تنظیمیں انسانیت کے نام پر بلا لحاظ مذہب وملت انسانوں کی خدمت کر رہی ہیں وہ لائق ستائش اور قابل فخر ہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ دکھایا جارہا ہے کہ بہت سی تنظیمیں ،متمول حضرات اور دردمند اشخاص لاک ڈاؤن کے بعد سے مسلسل اس کار خیر میں مصروف ہیں ،شہروں ،دیہاتوں کے علاوہ شاہراؤں پر جہاں مزدور پیدل یا سواریوں کے ذریعہ اپنے اپنے وطن کو لوٹ رہے ہیں انہیں غذائی پیکٹس ،پانی اور نقد رقم سے ان کی مدد کر رہے ہیں ،بعض لوگوں نے تو انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی ایک مثال قائم کی ہے ،وہ مسلسل چوبیس گھنٹے اسی کام میں مصروف ہیں ، بعض نیک دل سیاسی قائدین بھی اس موقع پر دل کھول کر غذائی ،مالی اور ہر طرح کی مدد کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں ، ان کا یہ عمل دیگر سیاسی قائدین کے لئے ایک مثال ہے ، جو ملی ،رفاہی تنظیمیں یا جو اشخاص اس نازک ترین حالات میں مسیحا بن کر انسانوں کی خدمت کر رہے ہیں ریاستی اور مرکزی حکومت کو چاہئے کہ ان کی نہ صرف ستائش کرے بلکہ باضابطہ اعلان کرکے ان کا شکریہ ادا کرئے کہ جو کام جنگی خطوط پر اور حکومتی سطح پر ذمہ داران کو کرنا چاہئے تھا انہوں نے اپنے سر لے کر اسے انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں ،اسی طرح اس کار خیر میں ان لوگوں کو شامل ہو نا چاہئے جو اب تک شامل نہیں ہوئے ہیں خصوصاً وہ سیاسی قائدین جنہوں نے عوام کے ووٹ سے اپنا مستقبل تابناک بنایا ہے اس موقع پر ان کا فریضہ ہے کہ وہ قوم وملت کی مدد کے لئے آگے آئیں اور بلالحاظ مذہب وملت اور حلقوں کی بندش سے باہر نکل کر مجبوروں کی مدد کریں ،یاد رکھیں ملک اور اس کا ہر شہری عزیز ہے اور ان کی خدمت واعانت ہر ایک کا انسانی وملکی فریضہ ہے ،خصوصاً حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رعایا کا بھر پور خیال رکھے اور ان کی خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھیں ، امید کہ حکمران اس جانب توجہ دیںگے اور غریبوں ،مزدوروں اور حاجت مندوں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں گے ۔
٭
muftifarooqui@gmail.com
9849270160