اسلامیاتسیاسی و سماجی

سوشل میڈیاپر بلا تحقیق اشاعت۔۔

اللہ تعالیٰ نے جس وقت دنیا کی تخلیق فرمائی تب ہی ایک خاص انداز سے اس کا نظام بھی مرتب فرمایا ،اُسی نظام کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا ہے اور دنیا اپنا سفر طے کرتی جارہی ہے ،صدیوں سے دنیا نظام چل رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا ،مگر خدا ہی بہتر جانتے ہیں کہ قیامت کب قائم ہوگی ،اس دنیا میں اگر چہ بہت سی مخلوقات پائی جاتی ہیں مگر ان میں انسان کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ،اللہ تعالیٰ نے اسے بَلا کی ذہانت وصلاحیت عطا کی ہے ، وہ اپنی سہولت کی خاطر ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے ہر دن نئی نئی ا یسی چیزیں ایجاد کررہاہے جس کا پچھلے زمانے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کو ’’دور جدید‘‘ اور اس سے پہلے زمانہ کو ’’ دور قدیم‘‘ کہا جاتا ہے ، دور جدید میں سائنسی ترقی نے تو دنیا کو ایک نئی جہت عطا کی ہے جس سے انسانوں کی زندگی یکسر بد ل کر رہ گئی ہے ، مہینوں کا سفر گھنٹوں میں ،گھنٹوں کا سفر منٹوں میں ہونے لگا ہے،ٹیلی فون نے پوری دنیا کو مٹھی میں کر لیا ہے ،صرف نمبر ڈائل کر کے دنیا کے کسی کونے میں کسی بھی انسان سے بات کی جاسکتی ہے ،ٹیلی ویژن کے ذریعہ اپنی آنکھوں سے دنیا کے کسی بھی خطہ کا براہ راست نظارہ کیا جاسکتا ہے ،اسی طرح کسی بھی تحریر کو انگلیوں کی حرکت کے ذریعہ سکنڈوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں بیٹھے ہوئے لا کھوں ،کروڑوں لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے ، دور قدیم میں قاصدوں کے ذریعہ خطوط پہنچائے جاتے تھے مگر آج جدید ذرائع کا سہارا لے کر بڑی سہولت کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے چند لمحات میں اپنی بات دورسوں تک پہنچا ئی جا سکتی ہے اور جس چیز کے ذریعہ نہایت سرعت کے ساتھ یہ کام پائے تکمیل کو پہنچتا ہے اسے ’’ انٹر نیٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ، اس وقت انٹر نیٹ پوری دنیا کا نور نظر بن چکا ہے ،اس کے بغیر ان کی زندگی کا تصور محال ہو گیا ہے ، بعض لوگ تو اس قدر اس کے عادی ہوچکے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے انٹر نٹ سگنل نہ آنے لگے تو ان کی سانسیں رُک جاتی ہیں اور ان کا بدن پسینہ میں شرابور ہوجاتا ہے،گویا انٹر نیٹ ان کی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے، انٹر نیٹ کا کمال ہے کہ’’ذرائع ابلاغ ‘‘ اور ’’ میڈیا‘‘ اسی کا سہارا لے کر جی رہے ہیں،واٹس ایپ ،فیس بک اور انسٹا گرام سب اسی کی اولاد یں ہیں ، اس وقت پوری دنیا میں دو ارب سے زائد لوگ واٹس ایپ کا استعمال کر رہے ہیں اور اس کے ذریعہ علمی ،معلوماتی ، مذہبی ،سیاسی ، شخصی، سماجی، ملکی اور غیر ملکی معلومات و خبریں ایک دوسرے سے شیئر کرنے میں مصروف ہیں۔
سوشل میڈیا کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہیں اس کے ان گنت نقصانات بھی ہیں جس سے کسی کو انکار نہیں ،یہ بات مسلم ہے کہ جو چیز کس مقصد کے لئے بنائی جاتی ہے اگر اس کا استعمال اسی کے لئے کیا جاتا ہے تو اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اگر اس کا غلط استعمال ہوتا ہے تو پھر اس کے نقصانات غالب ہوکر اس کے نفع کو مغلوب کر دیتے ہیں ، یہی کچھ اس وقت سوشل میڈیا کے ساتھ ہورہا ہے ،بہت سے لوگ اسے اچھے کام کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو بہت سے غیر ذمہ دار ، سنجیدگی سے عاری ،لا شعور اور نقصانات سے بے پرواہ لوگ بلا تحقیق وبلا تصدیق دینی و دنیوی باتوں کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ،حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ بلا تحقیق ایسی کسی بھی بات کا دو سروں تک پہنچانا قانوناً اور شرعاً جرم ہے جس سے معاشرہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ،اس وقت سوشل میڈیا پر ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو یا تو خود اپنی طرف سے باتوں کو یا پھر آ ئے ہوئے میسجس کو بلا تحقیق دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں اور یہ غیر مصدقہ اور جعلی میسجس ایک دوسرے کے ذریعہ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس کی تحقیق کرنے اور اس کے صحیح ہونے یانہ ہونے کی فکر نہیں کرتا ،اس طرح پہلے شخص سے لے کر آخری شخص تک اور نہ جانے یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا سب کے سب جھوٹی خبر پھیلانے کے جرم میں برابر کے شریک ہوتے جاتے ہیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ جہاں سیاسی ،سماجی اور ملکی حالات بلا تحقیق وتصدیق پہنچائی جارہی ہیں وہیں دینی ومذہبی باتوں کے پھیلانے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے ، دینی عنوان سے میسج آ نے پر یہ شخص سمجھتا ہے گویا نیکیوں کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے ،اس کی تحقیق تو درکنار اسے مکمل پڑھے بغیر دوسرے ہی لمحے دسیوں گروپ کے ذریعہ سینکڑوں کو لوگوں تک اسے پہنچا دیتا ہے اور اس کے بعد سمجھتا ہے کہ اس نے کار خیر میں حصہ لے کر اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کے انبار لگادیا ہے ،حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے جھوٹی بات پھیلاکر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیا ہے ،رسول اللہ ؐ نے سنی سنائی بات پر یقین کرنے اور اسے دوسروں میں پھیلانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے بلکہ ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع ( مسلم)’’ آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے‘‘،اس ارشاد مبارکہ کے ذریعہ امت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں اور بلا تحقیق وغیر مصدقہ مضامین ولٹریچرس دوسروں تک ہر گز نہ پہنچائیں ، پہلے تحقیق کریں کہ یہ کس نے بھیجا ہے ، کہاں سے بھیجاہے اور اس میں کہاں تک صداقت وسچائی ہے ، مستند دینی ادارے ،معروف دینی شخصیات اور وہ اشخاص جن پر آپ کو مکمل بھروسہ واطمینان حاصل ہے کہ یہ خوف خدا رکھنے والے ہیں اور ان کی صداقت مسلم ہے اگر ان کی طرف سے کوئی دینی ومذہبی باتیں آپ تک پہنچتی ہیں تو ان باتوں پر یقین کریں اور عمل کی نیت سے ان کا دوسروں تک پہنچانا جائز ہی نہیں بلکہ صدقہ جاریہ ہے ۔
بہت سے میسجس ایسے ہوتے ہیں جن میں احادیث نقل کی جاتی ہیں اور ان کے آخر میں بطور حوالہ معتبر کتابوں کے نام بھی درج ہوتے ہیں مگر حقیقت میں وہ حدیثیں کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں ہوتی ہیں،جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یہ کسی دشمن اسلام کی سازش ہے یا اعمال دین سے دور رکھنے کا حربہ ہے یا پھر اس کے ذریعہ ایک منصوبہ بناکر جھوٹی باتوں کو پھیلا کر گمراہ کرنے کی سازش اور چال رچی جارہی ہے ، چنانچہ ایک میسج میں لکھا تھا کہ شب برأت یا شب قدر میں چار رکعت چار قل کے ساتھ پڑھنے والے کی چھوٹی ہوئیں ساری نمازیں معاف ہوجاتی ہیں ، بعض من گھڑت باتوں کو حدیث کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے ،اسی طرح خوابوں کے ذریعہ اطلاع دی جاتی ہے اور اسے اتنے اتنے لوگوں تک پہنچانے پر اتنا اتنا اجر وثواب ملنے کی خبر دی جاتی ہے ،جیسے ہی یہ واٹس ایپ پر شیئر کیا جاتا ہے سینکڑوں لوگ بلا تحقیق اسے فاروڈ کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کے نیچے تحریر لکھ کر اگے پہنچانے کی ترغیب دیتے ہیں ،حالانکہ رسول اللہ ؐ نے اپنی طرف جھوٹی باتوں کو منصوب کرنے والوں کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل کئے جانے کی وعید سنائی ہے ،ارشاد فرمایا :من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار(بخاری۱۰۷)’’ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا،وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘ ، یہ ارشاد مبارک حضرات صحابہ ؓ کی نگاہوں کے سامنے ہمہ وقت رہتا تھا ،احادیث رسول ؐ کے بیان کرنے میں یہ حضرات نہایت احتیاط کا مظاہرہ کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات روایت کے قبول کرنے میں بھی غیر معمولی محتاط رہتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب ؓ نے حضرت عمرؓ کی موجود گی میں ایک حدیث بیان کی جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا جو حدیث تم نے بیان کی ہے اس پر ثبوت پیش کرنا تم پر لازم ہے ،حضرت ابی بن کعب ؓ متفکر ہوئے اور انصار کے چند لوگوں سے اس کا ذکرکیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی اس حدیث کو رسول اللہ ؐ سے سنا ہے ،اور انہوں نے حضرت عمرؓ کے سامنے اس کا ذکر کیا تو حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ فرمایا : میں نے تم پر الزام نہیں لاگایا بلکہ اس بارے میں قطعیت کو جاننا چاہا( تذکرۃ الحفاظ)، اس واقعہ کے ذریعہ حضرت عمر ؓ لوگوں کا بتانا چاہتے تھے کہ احادیث رسول ؐ کے بیان وسماعت کے بارے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ، صحابہ ؓ وتابعین ؒ کے بعد فقہاء ومحدثین ؒ اور حضرات علماء بھی احادیث مبارکہ کے ذکر کرنے اور اس کے نقل کرنے میں بہت ہی احتیاط سے کام لیتے ہیں ،کیونکہ احادیث کا ذکر نا اور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا ایسا نازک معاملہ ہے جس کی غلطی آدمی کو سیدھے جہنم کا مستحق بنادیتی ہے ،واٹس ایپ پر جو لوگ احادیث بھیجتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ پہلے وہ ان کی تحقیق کرلیں ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے بھیجنے والوں کے بارے میں معلوم کریں کہ یہ کون ہیں اور ان کا علمی مقام کیا ہے یا ان میسجس کی نسبت جس علمی شخصیت کی طرف کی گئی ہے وہ حقیقت میں درست ہے یا نہیں ،اگر اطمینان حاصل ہو جائے تب اسے آگے بھیجیں ،بلا تحقیق وتصدیق اور اطمینان حاصل کئے بغیر دینی ،علمی اور قرآن وسنت کی باتوں کو فارورڈ کرنا سنگین قسم کا جرم اور علمی دھوکہ ہے ۔
قرآ ن کریم میں ارشاد ہے : یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا إِنۡ جَائَ کُمۡ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوۡا أَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نَادِمِیۡنَ (الحجرات:۶)’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ ‘‘،اس آیت مبارکہ میں ایک خاص واقعہ طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی تفصیل تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے مگر اس کے ذریعہ امت کو دو باتوں کی ہدایت دی گئی ہے، ایک یہ کہ کوئی بھی اجنبی شخص جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو اور اس کی شخصیت کے بارے میں تم جانتے نہیں ہو اس کی باتوں پر بلا تحقیق اعتبار مت کرو،دوسرے فوراً اس کی باتیں دوسروں تک مت پہنچاؤ ، اگر ایسا تم کروگے تو اس سے نقصان وضرر کا قوی اندیشہ ہے ،پھر بعد میں افسوس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ،واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کو اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مسیج بھیجنے والے کے متعلق جب تک تحقیق نہ ہو کہ وہ سچا ہے یا نہیں یا علمی اعتبار سے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں یا پھر دین وشریعت کی باتیں پہنچانے میں خوف خدا رکھتا ہے یا نہیں تب تک اس کی باتیں دوسروں تک نہ پہنچائیں اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ،پہلے اچھی طرح تحقیق وتصدیق کرلیں اس کے بعد ہی دوسروں تک پہنچائیں ،سوشل میڈیا کے استعمال میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے اور خصوصاً اس وقت جب کہ اس کا تعلق کتاب وسنت اور دین وشریعت سے ہو، اکثر لوگ بلا تحقیق اِدھر کی باتیں اُدھر پہنچاتے رہتے ہیں ،اسی میں کام میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے رہتے ہیں اور اسی کو کار خیر سمجھتے بھی رہتے ہیں حالانکہ جو بات تحقیق سے درست ثابت ہو جائے تو پہلے اس پر عمل کی کوشش کریں ،عملی جدجہد سے بے نیاز ہو کر صرف دوسروں تک پہنچانے کی فکر کرنا بہت بڑی عملی کوتا ہی بلکہ ایک طرح کی زبردست غفلت ہے ،اس پر توجہ نہ دینا بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing