اسلامیات

رمضان کی آمد پر نبی ؐکا جامع خطاب

’’ رمضان المبارک ‘‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے ،اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار اور لا تعداد ہیں ، نعمتوں میں سے بعض صرف ایک مرتبہ ملتی ہیں ، بعض کبھی کبھی عطا ہوتی ہیں اور بعض کا وقت مقرر نہیں ہے،لیکن رمضان المبارک وہ عظیم نعمت ہے جس کا وقت بھی مقرر ہے اور ہر سال ملنا بھی طے ہے، امت محمدیہؐ کی خوش نصیبی کہ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے انہیں سرفراز فرمایا ہے ،رمضان المبارک وہ عظیم نعمت ہے جس کے اندر کئی اور نعمتیں پوشیدہ ہیں ،ان میں سے ہر ایک نعمت کا علاحدہ علاحدہ اجر وثواب ہے ، قربان جائیں ذات اقدس ؐ پر کہ آپ نے اپنی امت کو نہ صرف اس نعمت سے مطلع کیا بلکہ اس کی قدر وقیمت سے آگاہ فرمایا ، اس میں کی جانے والی عبادات سے وقف کرایا اور اس پر رحمت الٰہی سے جو کچھ اجر وثواب ملنا طے ہے اسے بتاکر امت کے شوق وذوق کو پر وان چڑھایا ،چنانچہ رمضان المبارک کی آمد سے عین قبل آپ ؐ نے ایک عظیم الشان ،جامع اور بلیغ خطاب ارشاد فرمایا جس میں امت کو رمضان المبارک کی فضیلت ،اہمیت ، اس کی خصوصی عبادت اور اس پر بے شمار اجر وثواب کی خوشخبری سنائی ۔
نبی رحمت ؐ کا جامع خطاب : حضرت سلمان فارسیؓ ۔فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے حضراتِ صحابۂ کرام ؓکے سامنے شعبان کی آخری تاریخ یعنی رمضان المبارک کی آمد سے عین قبل ایک نہایت اہم ،جامع اور بلیغ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات ( شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض فرمائے ہیں اوراس کی راتوں میں بار گاہ ِ خدا وندی میں کھڑے ہونے ( یعنی نماز تراویح پڑھنے ) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب رکھا گیا ہے ) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر نے کی غرض سے کوئی غیر فرض عبادت ( یعنی سنت ونفل ) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر ثواب دیا جائے گا اوراس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا ،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ،یہ ہمدردی اور غم خوارہ کا مہینہ ہے ، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ،جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو ( اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے ) افطار کرایا تو اس کیلئے گناہوں کی مغفرت اور نار جہنم سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ داروں کے برابر ثواب دیا جائے گا ، اور روزہ دار کے ثواب میں کمی بھی نہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ا سے عرض کیا گیا کہ :یا رسول اللہ ا ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا ( تو کیا غربا ء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے ؟) آپ ا نے فرمایا کہ : اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دیں گے جو تھوڑی سی لسی سے یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کا افطار کرادے ( پھر آپ ا نے مزید یہ بات ارشاد فرمائی کہ )اور جو کوئی روزہ دار کو پورا کھا نا کھلادے اس کو اللہ تعا لی میرے حوض ( حوض کوثر ) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا ۔۔۔۔۔( اس کے بعد مزید یہ ارشاد فرمایا کہ)اس ماہِ مبارک کا پہلا حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے ( اس کے بعد پھر فرمایا کہ ) جو کوئی اس مہینے میں اپنے غلام وخادم کے کام میں تخفیف کرے گا اللہ تعا لی اس کی مغفرت فرمادیں گے اوراس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دلادیں گے ، ( مشکوۃ ،کتاب الصوم ،حدیث :۱۹۶۵)۔
نبی اکرم ؐ نے اس نہایت اہم خطبہ میں آٹھ باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے (۱) رمضان کی عظمت : اس عظیم خطبہ میں آپ ؐ نے اس ماہ مبارک کی عظمت واہمیت، بزرگی ، خصوصی برکات ، د وسرے مہینوں پر اس کی برتری اور ذات الٰہی سے اس کی خاص نسبت بیان فرمائی ، جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک اللہ تعا لی کی طرف سے عطا کردہ عظیم اور ایک قیمتی تحفہ ہے جو اس امت کو خصوصیت کے ساتھ عنایت ہوا ہے ،لہذا ان کی قدردانی ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی قدر وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اس کی عظمت وتوقیر ہوتی ہے اور جو ناقدرے ہوتے ہیں وہ نعمت کی ناقدری کرتے ہیں اور اپنے آپ کو محروموں میں شامل کر تے ہیں ۔ (۲) شب قدر کی قدردانی: اس جامع ترین خطبہ میں رسول اللہ ؐ نے شب قدر کا تذکرہ فرمایا کہ یہ رمضان المبارک کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے، شبِ قدر جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے ، یہ وہ عظیم اور نہایت بابرکت رات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے ،یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن ِ مجید کا نزول ہوا ہے ،اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے ،اس رات اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے اور ان کے سردار جبرئیل ِ امین ؑ اُترتے ہیں ، یہ رات غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک سراپا سلامتی ہی سلامتی اور رحمت ہی رحمت ہے ، نبی کریم ؐ نے شبِ قدر میں عبادت کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور جو شب ِ قدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے ( عبادت کیلئے ) کھڑا ہو تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔ (بخاری : ۱۸۷۸)، اس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے افضل ہونے کے باوجود اگر کوئی اس سے محروم ہوتا ہے تو گویا وہ تمام خیر ہی سے محروم ہوجاتا ہے ،نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : جو شخص اس رات ( شب ِقدر) سے محروم رہ گیا وہ بڑے خیر سے محروم ہوگیا اور اس رات کی خیروبرکت سے محروم وہی رہتا ہے جو واقعی محروم ہے ،( ابن ماجہ : ۱۶۴۴)،نبی کریم ؐ نے اس مبارک رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ( شبِ قدر کو) رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو،(بخاری ۱۸۸۱) ،ام المؤمنین عائشہ ؓ نے رسول اللہ ؐ سے عرض کیا کہ : مجھے بتائیے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کونسی رات شب ِ قدر ہے تو میں اُس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں ؟ آپ ؐ نے فرمایا یہ دعا مانگو :’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیۡمٌ تُحِبُّ الۡعَفۡوَ فَاعۡفُ عَنِّیۡ‘‘ (ترمذی:۳۸۵۵)’’اے میرے اللہ ! تو بہت معاف فرمانے والا کریم ہے اورمعاف کردینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرمادے‘‘۔
(۳)روزوں کی فرضیت : اس اہم خطبہ میں نبی کریم ؐ نے رمضان المبارک کی اہم ترین عبادت روزہ کا ذکر فر مایا ، ہجرت کے دوسرے سال واقعہ بدر سے تقریبا ایک ماہ اور چند روز قبل رمضان المبارک کے پورے ماہ کے روزے فرض کئے گئے ، رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان ،عاقل ،بالغ اور مرد وعورت پر فرض ہیں ،یہ اسلام کاا ہم رکن ہے اس کا منکر کافر اور بلا عذر چھوڑ دینے والا سخت گنہگار ہوگا ۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ)،رمضان المبارک کے روزوں کو بلا عذر شرعی چھوڑ نے پر سخت وعید ائی ہے ،ایک حدیث میں نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے بغیر کسی عذر کے رمضان کا روزہ افطار کر لیا ( توڑ دیا ) وہ اگر ساری عمر بھی روزہ رکھے تو اس ایک روزے کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکتا ۔(ترمذی : ۴۹۱)،مطلب واضح ہے کہ اگر کوئی بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان کے روزے اوردیگر عبادات سے منہ موڑ تا ہے تو اگر وہ غیر رمضان میں کفارے کے طور پر ساری عمر بھی روزہ رکھے تب بھی رمضان کے ایک روزہ کے اجر وثواب کو نہیں پہنچ سکتا اورنہ ہی رمضان کے بر کات و ثمرات کا مستحق ہو سکتا ہے بلکہ ایسے محروم القسمت کی تو رات بھی کا لی ہے اور دن بھی سیہ ہے (الامان والحفیظ ) ،روزہ صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ ربانی تربیت کا ایک جامع ترین نسخہ بھی ہے ،روزہ کے ذریعہ جہاں روح کو تازگی ملتی ہے ،اس کو عروج نصیب ہوتا ہے ،رفعت وبلندی عطا ہوتی ہے اورخدا کا قرب حاصل ہوتا ہے وہیں یہ جسمانی بہت سے امراض کا علا ج ہے،غریبوں کی غربت کا احساس ہے، انسان کو اس کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے،منعم کی نعمتوں کو یاد دلا تا ہے اور بوقت افطار شکر الٰہی کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔(۴) نماز تراویح: اس خطبہ میں آپ ؐ نے نماز تراویح کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسے رمضان المبارک کی اہم عبادات قرار دیتے ہوئے اس کی فضیلت اور اس کی ادائیگی پر ثواب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جولوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل ( نماز ِ تراویح ) پڑھیں گے ان کے پچھلے سب گناہ معاف کر دئے جائیںگے۔ ( مشکوۃ :۱۲۹۶) ، نماز تراویح مسلمان عاقل بالغ مردوں اور عورتوں کے لئے سنت ِ مؤ کدہ ہے ، مگر عورتوں کے لئے جماعت سنتِ مؤ کدہ نہیں ہے اور تراویح بغیر کسی شدید عذر کے چھوڑ نے والے خطاکار اور گنہگار ہوں گے ،(کفایت المفتی :۳؍ ۳۶۱ )، روزہ کی ادائیگی کے بعد نماز تراویح دراصل خدا کے حضور شکرانہ ہے کہ اس نے اس عظیم فریضہ کی ادائیگی توفیق عطافرمائی اور اپنی مدد ونصرت کے ذریعہ اسے پورا فرمایا ،جب بندہ یہ جذبہ و تصور لے کر نماز تراویح ادا کرتا ہے تو اس پر عبدیت کی کیفیت آنے لگتی ہے اور وہ اس کیفیت میں ڈوب کر اپنے معبود کی طرف متوجہ ہوتا ہے ،اس وقت رحمت الٰہی اس پر سایہ فگن ہوتی ہے اور اسے ہر طرف سے ڈ ھانپ لیتی ہے ،پھر اس کے لئے اعلان مغرفت ہوتا ہے ، رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اس کے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ،اس بندہ کو رکوع وسجود اور قعود وقیام میں اس قدر سرور ملتا کہ وہ بعد رمضان تسلسل کے ساتھ نماز تہجد اور دیگر نوافل کے سلسلہ کو جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ رمضان المبارک کی رحمتیں اسے گھیر لیتی ہیں، یہاں پر ایک چیز یہ بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حدیث میں نماز تراویح کے اہتمام کی طرف توجہ دلائی ہے ،چونکہ تراویح میں قرآن کریم پڑھا اور سنا جاتا ہے اور پڑھنے والے تلاوت کا اور سننے والے سماعت کا لطف اُٹھا تے ہیں ،ہم کو چاہیے کہ تراویح کے علاوہ بھی دن کے اوقات میں بھی قرآن کی تلاوت سے اپنی زبانوں کو تر اور قلوب کو منور رکھنے کی کوشش کریں ، رسول اللہ ؐ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے ، اور اس لئے بھی کہ یہ نزول قران کا مہینہ ہے اس لئے جسے پڑھنا آتا ہے وہ کثرت سے پڑھتے رہیں اورجنہیں پڑھنا نہیں آتا وہ سیکھنے کی کوشش کریں اور اگر فی الحال ایسا موقع نہ ملے تو کم از کم تلاوت کرنے والوں کے قریب بیٹھ کر چپ چاپ سننے کی کوشش کریں ،حدیث میں ہے کہ جو ثواب قرآن پڑھنے والے کو ملے گا وہی ثواب سننے والے کو بھی حاصل ہو گا ، انشاء اللہ اس طرح ہم رمضان کے انوار وبرکات سے بہرور ہوں گے ۔
(۵)نفل پر فرض کا ثواب:رسول اللہ ؐ نے اپنے اس بلیغ خطبہ میں رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کا ذ فرمایا اور اس کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ماہ مبارک کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتے ہیں اور اپنے غیبی اور لامحدود خزانوں سے بے پایاں عنایت فرماتے ہیں ،جو کوئی اس ماہ میں نوافل اداکرتا ہے تو اس پر اسے فرائض کا اجر دیا جاتا ہے اور جو فرائض ادا کرتا ہے تو اسے ستر فرضوں کا اجر وثواب عنایت ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ نے ماہ مقدس کو گویا اس امت کے لئے نیکیوں کا موسم بہار بنادیا ہے ،جو شخص بھی اپنے دامن کو نیکیوں سے بھر نا چاہئے وہ بھر سکتا ہے اور نیکیوں کے ذریعہ اپنے لئے اعمال صالحہ کے پہاڑ کھڑے کر سکتا ہے،آپ ؐ نے اس خطبہ کے ذریعہ امت کو استقبال رمضان کی طرف متوجہ کیا بلکہ خود آپ ؐ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی روزوں کی کثرت کے ذریعہ رمضان کا استقبال فرماتے تھے اور اپنے معمولات میں اضافہ فرماکر اپنے شوق عبادت اور قربت الٰہی کا اظہار فرمایا کرتے تھے ، جب رمضان شروع ہوجاتا تو کمربستہ ہو جاتے تھے اور عبادات میں ہمہ وقت مشغول ہوجاتے تھے ،نبی اکرم ؐ جن کی عبادات اور تعلق مع اللہ کا کیا کہنا ،جن کا ہر وقت یا د الٰہی میں صرف ہوتا تھا ، پھر بھی رمضان المبارک کا اس قدر اہتمام ،یہ دراصل امت کے لئے پیغام ہے کہ یہ وہ لمحات ہیں جو بار بار ملا نہیں کرتے ،اس کی قدردانی بندہ کو قادر مطلق کی نظر میں قابل قد بنادیتی ہے ،اس لئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرائض وواجبات کے علاوہ نوفل کی کثرت کے ذریعہ رحمت الٰہی کو سمیٹنا چاہئے ،معلوم نہیں پھر موقع ملے نہ ملے۔(۶) رمضان صبر کا مہینہ : لفظ صبر تین حروف پر مشتمل ہے جس کے معنی ہیں نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضہ کر رہی ہو، لفظ صبر ہے تو چھوٹا سا جملہ مگر اس میں پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے،ہمت ،حوصلہ ،بھلائی ،تحمل ،خیر اور سکون سب کو شامل ہے ،ر سول اللہ ؐ نے اپنے جامع ترین خطاب میں ماہ رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے ،یعنی اس ماہ کی اہم ترین عبادت روزہ آدمی کے اندر صبر وہمت پیدا کرتی ہے ،جب وہ دن بھر بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور کھانے پینے پر قدرت وطاقت رکھنے کے باوجود محض حکم الٰہی کی تعمیل میں روزہ رکھتا ہے اور بھوک وپیاس کو صبر و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتا ہے تو اس میں صابرانہ قوت پیدا ہونے لگتی ہے جو آگے چل کر اسے تقرب الٰہی کی منزل تک پہنچاتی ہے ،کیونکہ صبر ایک ایسی نعمت ہے جسے ملتی ہے اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیتی ہے ،صبر ایک ایسی زبردست صفت ہے جو خاص خاص اور خال خال لوگوں میں پائی جاتی ہے ، صبر وثبات انبیائؑ ،صحابہ ؓصلحاء ،علماء ،اہل اللہ اور اتقیاء ومقربین کی علامت اور ان کی نشانی ہے ،صبر آدمی کو لوگوں سے بے نیاز اور خدا کا نور نظر بنادیتی ہے ، صابر کے ساتھ خدا کی مدد ونصرت ہوتی ہے ،وہ اپنے صبر سے بہت سے ایسے کام پورے کرلیتا ہے جس کی لوگوں کو خبر تک نہیں ہوتی ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں ستر سے زائد مقامات پر صبر کی تلقین کی گئی ہے، ایک آیت مبارکہ میں صبر اور نماز کو نصرت الٰہی کا ذریعہ بتایا گیا ہے، ارشاد ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوۡا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیۡنَ(البقرہ:۱۵۳)’’اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو،بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ ،ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : وَاصۡبِرُوۡا إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیۡنَ ( الانفال: ۴۶) ’’ اور صبرکرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ ، قرآن کریم میں ایک مقام پر صبر کرنے والوں کو بلا حساب اجر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے،ارشاد ہے : إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوۡنَ أَجۡرَہُمۡ بِغَیۡۡرِ حِسَابٍ(الزمر: ۱۰) ’’ جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں ان کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا‘‘،متعدد احادیث میں صبر اور صابرین کی فضیلت بیان کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک صبر کس درجہ اہمیت رکھتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے صبر کو روشنی سے تعبیر فرمایا ہے ،ارشاد ہے : الصبر ضیاء ( مسلم) ’’ صبر ایک روشنی ہے‘‘ ،اور ایک جگہ آپؐ نے صبر کو نصف ایمان کہا ہے ،ارشاد ہے:والصبر نصف الایمان ( بیہقی:۴۴۴۸) ’’اور صبر آدھے ایمان کے برابر ہے‘‘،اس قدر اہم اور بندوں کو خدا کے نزدیک کرنے والی چیز یعنی صبر ماہ مقدس اور اس کی عبادات سے حاصل ہوتی ہیں ،خوش نصیب ہیں وہ بندے جو اس سے بھر پور مستفید ہوتے ہیں اور اپنے اندر صبر جیسی عظیم صفت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،یقینا جنہیں صبر کی کیفیت حاصل ہوگئی تو سمجھو کہ اسے بہت بڑی دولت حاصل ہوگئی جو اسے دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر سر خرو کرنے کے لئے کافی ہے۔
(۷) غمخواری و رزق میں کشادگی کا مہینہ: رمضان المبارک کی ایک اور اہم چیز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ماہ مقدس غمخواری وہمدردی کا مہینہ ہے ، لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنا رحمن کو بہت پسند ہے ،وہ انسانوں کی خدمت واعانت اور ان کے ضروریات کی تکمیل میں مدد کرنے والوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، حقیقی انسانیت یہی ہے کہ آدمی صرف خود کا نہیں بلکہ خدا کے ان بندوں کا لحاظ کرے جو مفلوک الحال اور تمہاری اعانت ومدد کے مستحق ہیں ،اپنے لئے جینے والا شخص انسان نما تو ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں ہو سکتا، مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ،خیر خواہی اور غمخواری کے بغیر خالق سے تعلق و محبت ہر گز نہیں ہو سکتا،اگر کوئی اس کے بغیر محبوبیت خداوندی کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ صرف اس کا گمان اور دھوکہ ہے ، جو انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے تو وہ خدا کی رحمت وشفقت کا مستحق قرار پاتا ہے ، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے : جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا ،اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور فرمائیں گے اور کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا( مسلم) ،رمضان المبارک میں لوگ روزہ سے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی غذائی ضروریات اور بھوک وپیاس کا صحیح احساس بھلا روزہ داروں سے بڑھ کر کون لگا سکتا ہے ،جنہیں مالی کشادگی حاصل ہے وہ روزہ کے ذریعہ غریبوں کی مفلسی اور بھوک پیاس کا صحیح اندازہ کر یں ، ان سے ہمدردی رکھیں اور اپنے دل میں ان کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں ، افطار کے وقت اگر کوئی مختلف انواع واقسام کی غذاؤں سے خود تو پیٹ بھر لیتا ہے مگر اپنے پڑوس میں بسنے والے غریب ومفلس کا خیال نہیں کرتا تو ایسا شخص سنگ دل ہے، انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے ،ہو سکتا ہے کہ ہمدردی کے جذبہ سے عاری ہونے اور خود غرضی کی بلا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس کی عبادتیں قبول نہ ہوں ، رمضان کے ذریعہ ہمدردی اور خیر خواہی کا مزاج پیدا کیا جارہا ہے اور اس کے ذریعہ مالداروں کے دلوں میں خیر خواہی کا جذبہ بیدار کیا جارہا ہے اور اس پر اجر عظیم کی بشارت سنائی جارہی ہے ، روزہ داروں کوافطار کرانے ، شرعی معذورین کی طرف سے فدیہ لازم کرکے اور صدقہ فطر کی ادائیگی کے حکم کا مقصد بھی مستحقین کے ساتھ مدد و اعانت اور ہمدردی وخیر خواہی مقصود ہے ،رسول اللہ ؐ سے بڑھ کر اس دنیا میں کون فیاض ہو سکتا ہے ،آپ ؐ کا وصف خاص یہ تھا کہ خود بھوکے رہ کر دوسروں کا پیٹ بھرا کرتے تھے ،خود حاجت مند ہو کر بھی دوسروں کی حاجت پوری فرماتے تھے اور خود فاقے سے رہ کر دوسروں کا شکم بھر تے تھے ،اسی کو حالی ؒ نے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے ؎
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نفع پہنچانے میں لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبرئیل ؑآپ ؐ سے ملتے تو اوربھی (زیادہ) سخی ہوجاتے تھے ، اورجبرئیل ؑ آپ ؐ سے رمضان میں ہر رات ملتے تھے ،یہاں تک کہ رمضان گزرجاتا جبرئیلؑ آپ ؐ کے سامنے قرآن پڑھتے تھے،جب جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تھے تو آپ ؐطوفانی ہَوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے( بخاری )، نبوی تعلیمات بھی یہی بتلاتی ہیں کہ ماہ مقدس میں خوب جود وسخاء کا مظاہرہ کریں اور ہمدری وخیر خواہی کا اپنے اندر مزاج پیدا کریں تاکہ یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہے اور اس کے ذریعہ رب کی رحمتوں وعنایتوں کے مستحق بن سکیں ،چونکہ اس ماہ کی برکت سے مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے ، خدا کی طرف سے رزق میں کشادگی پیدا کردی جاتی ہے یا پھر رزق میں برکت ڈالدی جاتی ہے ، دونوں صورتیں ہو سکتی ہے ،اس کا ایک سبب خیر خیرات اور ہمدردی وخیر خواہی بھی ہے، متعدد احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں کہ خیر ات کرنے اور لوگوں پر خرچ کرنے سے رزق میں کشادگی آتی ہے ، رمضان کی طرح غیر رمضان میں بھی اس سلسلہ کو باقی رکھنا چاہئے اور اس کے ذریعہ رزق میں کشادگی اور برکت حاصل کرنا چاہئے ۔
(۸)تینوں عشروں کی خصوصیات: اس اہم ترین خطاب میں آپ ؐ نے رمضان کے تینوں عشروں کی الگ الگ فضیلت بیان فرمائی ہے اور ان کی فضیلتوں سے بھر پور استفادہ کی طرف توجہ دلائی ہے ،چنانچہ آپ ؐ کا ارشاد ہے : اس ماہ ِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اوردرمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ نار جہنم سے آزادی ہے( مشکوۃ: ۱۹۶۵)، حضرت مولانا منظور نعمانی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ،درمیانی حصہ مغفرت ہے ، اورآخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے ،،اس عاجز کے نزدیک اس کی راجح اوردل کو زیادہ لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں ،(۱) وہ اصحاب ِ صلاح وتقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ واستغفار سے اس کی صفائی وتلافی کر لیتے ہیں تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے ؛ بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ،(۲)وہ طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں ؛ لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں ،تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال ِ خیر اور توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت ومغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔اور(۳) اُن لوگوں کا طبقہ ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ واستغفار کرکے اپنی سیاہ کا ریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں ( جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے ) اللہ تعالی دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔( معارف الحدیث ج۴ ص ۱۰۳) ۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×