اسلامیات

شعبان کی پندرھویں رات؛ امت مسلمہ کے لئے رحمت و مغفرت کی سوغات

’’شعبان المعظم‘‘ یہ اسلامی کیلنڈر کا آٹھواں مہینہ ہے ، یہ مہینہ بڑی عظمت وبرکت والا ہے ، اس ماہ کی عظمت وبزرگی کا اظہار خود اس کے نام ہی سے ظاہر ہے ،لفظ شعبان پانچ لفظوں کا مجموعہ ہے جس کے ہر لفظ سے بزرگی ثابت ہوتی ہے ،امام الاولیاء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ شعبان کے ہر لفظ میں ایک شان ہے مثلاً ’’ش‘‘ سے شرف،’’ع‘‘ سے علو(بلندی) ،’’ب‘‘ سے بِر(نیکی) ،’’ا‘‘ سے الفت،اور ’’ن‘‘ سے نور ہے ،یعنی اس مہینے میں معبود حقیقی کی طرف سے بندوں کو پانچ چیزیں عطا ہوتی ہیں ، گناہوں کو معاف کرکے اسے شرف وعظمت عطا کی جاتی ہے ،پھر اسے بلندی اور اونچائی سے سرفراز کیا جاتا ہے،یہی نہیں نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے جس سے اس کی عظمت وشرف میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،پھر نیک بندے سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں بلکہ اس کی محبت کو دنیا والوں میں پھیلادی جاتی ہے اور پھر اسے وہ نور عطا ہوتا ہے جس کی روشنی میں چل کر وہ مقام والایت پر پہنچ کر جنت کا مستحق بن جاتا ہے،اس ماہ محترم کی عظمت وفضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ جہاں یہ مہینہ بابرکت ہے وہیں دو متبرک مہینوں کے درمیان واقع ہے ، ایک رجب المرجب جو اشہر حرم میں سے ہے اور دوسرا رمضان المبارک جس میں قرآن کا نزول ہوا ہے ، نیز یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی طرف رسول اللہ ؐ نے اپنی نسبت فر ئی ہے ، برکت کی دعا دی ہے ، اور اس میں ایک ایسی رات رکھی ہے جس میں گناہگاروں کی مغفرت اور انہیں جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے ،شعبان وہ مبارک اور برگزیدہ مہینہ ہے جس کی پندرھویں رات نہایت بابرکت ہے جسے عرف عام میں ’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے ، علامہ زمخشری ؒ نے اپنی کتاب الکشاف میں اس رات کے چار نام ر بتائے ہیں ،(۱) ’’لیلۃ المبارکہ‘‘ یعنی برکتوں والی رات ، (۲)’’ لیلۃ الرحمہ ‘‘یعنی رحمت خاوندی کی خاص رات ،(۳) ’’لیلۃ الصک‘‘ یعنی دستاویز والی رات ،اور(۴)’’ لیلۃ البرأہ ‘‘یعنی جہنم سے خلاصی اور چھٹکارہ ملنے والی رات اور چار ناموں میں آخری یہی نام زیادہ مشہور ومعروف ہے اور لوگ اسی نام سے اسے یاد کرتے ہیں اور آپس میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں ،’’شب برأت‘‘ انتہائی مقدس اور نہایت فضیلت وبزرگی والی ہے ،اس رات کی فضیلت و خصوصیت میں دس جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ سے روایات مروی ہیں ، معتبر کتابوں میں ان دس صحابہ کرام ؓ کے اسمائے گرامی بھی نقل کئے گئے ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ،حضرت علی مرتضیٰ ؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسمائے گرامی شامل ہیں ،شعبان کی پندرھیوں رات کی احادیث مبارکہ میں جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں جس کی بنا پر اس رات کو ایک خاص فضیلت اور خصوصیت عطا ہوئی ہے ان میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے ۔
(۱) حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے( الترغیب والترہیب:۲۷۶۷)،ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں پس استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہل بغض کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں (الجامع الصغیر:۱۷۳۹) ،ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے اور ایک روایت مروی ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ اس شب (شب برأت) میں بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گنہگار بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں(مسند احمد ۶؍ ۲۳۸) ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جن میں اسی طرح کا مضمون وارد ہوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت وعانیت سے ان گنت بندوں کی معافی کا اعلان فرماتے ہیں،درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے گناہگار بندوں کیلئے خاص انعام واکرام کی رات ہے ، وہ اس رات اپنے بندوں کی طرف نظر کرم اور نظر رحمت فرماتے ہیں اور ان گنت گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں ،گویا شب برأت امت کے لئے عذاب ِ نار سے چھٹکارے کی نوید اور خوشخبری ہے ، اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی رحمت ومغفرت کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اپنی رحمت وعنایت کا مظا ہرہ فرماتے ہیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غصہ پر حاوی ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں کہا گیا کہ : ان رحمتی سبقت غضبی(متفق علیہ)،اس رات کے علاوہ ہر روز رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا مظاہر ہ فرماتے ہیں اور آسمانِ دنیا پر اتر کر( نزول رحمت فرماکر) بندوں کو ان الفاظ کے ذریعہ پکار تے ہیں:ھل من مذنب یتوب؟ ھل من مستغفر ؟ ھل من داع؟ ھل من سائل؟ الی الفجر(مسند احمد ۱۱۸۹۲) ہے کوئی گناہگار جو توبہ کرے ؟ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا(کہ میں اسے بخش دوں)؟ ہے کوئی پکار نے والا اور سوال کرنے والا(کہ میں اس کا جواب دوں)؟ فجر تک یہی ند الگائی جاتی رہتی ہے۔مگر شب برأت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس رات میں غروب آ فتاب ہی سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان ہوتا رہتا ہے کہ: ھل من مستغفر فاغفر لہ؟ ھل من سآئل فاعطیہ ؟فلا یسأل احد شیأ الا اعطی (شعب الایمان للبیہقی ۳؍۳۸۳) ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اسکی مغفرت کر دوں؟ کوئی ہے مجھ سے مانگنے والا کہ میں اس کو دوں؟اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو شخص بھی مانگتا ہے اس کو دیا جاتا ہے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو روزانہ رات کو خدا کے حضور حاضر ہوکر اس کی رحمت کے خزانوں سے حصہ پاتے رہتے ہیں اور بے حد خوش نصیب ہیں وہ حضرات جنہیں اللہ تعالیٰ نے برأت جیسی مبارک رات عطا فرمائی اور وہ اس کی چادر رحمت میں چھپ کر اپنے گناہوں سے معافی چاہتے ہیں ،اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں ،اس سے بخشش کی درخواست کرتے ہیں اور اس کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرکے نارِ دوزخ سے آزادی کا پروانہ حاصل کر لیتے ہیں ۔
(۲) حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تم جانتی ہوکہ یہ کون سی رات ہے؟ یعنی شب برأت،میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ؐ ! اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے اولاد آدم میں سے ہر ایک کا نام لکھا جاتا ہے ،اس رات میں اعمال بلند کئے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے ،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ؐ ! کیا کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو سکے گا؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: کوئی بھی جنت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا،آپ ؐ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی ،تو حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا : ’’ولا انت یا رسول اللہ ؟ فوضع یدہ علیٰ ھامتہ فقال: ولا انا الا ان یتغمدنی اللہ برحمتہ ،یقولھا ثلاث مرات‘‘، اے اللہ کے رسول ؐ ! کیا آپ بھی؟ آپ ؐ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا: ہاں : میں بھی سوائے اس کے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لے ،آپ ؐ نے تین مرتبہ یہ کلمات ارشاد فرمائے( مشکوۃ المصابیح ،کتاب الصلاۃ )،اس حدیث شریف میں چار باتیں بتائی گئی ہیں (۱) موت کا پروانہ (۲) اعمال کا پیش ہونا(۳) رزق کا اترنا،اور(۴) دخول جنت کے لئے رحمت الٰہی کا ہونا، اس حدیث کی روشنی میں اہل علم فرماتے ہیں کہ تقدیری فیصلوں میں سے کچھ کو اللہ تعالیٰ اس رات میں فرشتوں کے حوالے فرماتے ہیں مثلا ً امسال پیدا ہونے اور وفات پانے والوں کی فہرست فرشتوں کو دی جاتی ہے اور اسی کے مطابق فرشتے اپنے امور انجام دیتے ہیں ،اسی طرح اس رات بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور ان پر ثواب وعقاب کا فیصلہ کیا جاتا ہے ،کون شخص نیکیوں کا حریص ہے اور کون گناہوں کی روش اختیار کئے ہوئے ہے،نیز رزاق کی طرف سے بندوں کا رزق اُتاراجاتا ہے اور ان کے مقدر میں جو کچھ رزق لکھا گیا ہے اس کی تفصیلات فرشتوں کو دی جاتی ہے ،گویا یہ ایک خاص موقع ہے ،ایک اہم وقت ہے اور فیصلہ کی ایک خاص گھڑی ہے جس میں بندوں کے طے شدہ معاملات فرشتوں کے حوالے کئے جاتے ہیں،چنانچہ اس خاص گھڑی میں بندوں کو چاہے کہ وہ رحمت الٰہی کی طرف متوجہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے رحم وکرم اور اس کی خصوصی عنایتوں کا سوال کریں ،کس قدر محرومی کی بات ہوگی کہ آسمانوں پر ہمارا فیصلہ سنایا جارہا ہے اور ہم زمین پر خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، علماء کرام اور مشائخین عظام فرماتے ہیں کہ اس موقع پر جو شخص بھی بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوکر رحمت الٰہی کو متوجہ کرتا ہے اور اپنی درخواست دربارالٰہی میں پیش کرتا ہے اور نظر کرم ، رحمت وعنایت اور رزق میں برکت ،عمر میں اضافہ اور اعمال صالحہ کی قبولت کی درخواست رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے پورا فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سائل بندہ پسند ہے نہ کہ بندہ غافل،اس حدیث میں ام المومنین ؓ کے پوچھنے پر دربار رسالت مآبؐ سے ایک اہم بات حاصل ہوئی ہے وہ یہ کہ بندہ اعمال صالحہ پر اترائے نہیں بلکہ قبولیت اور دخول جنت کے لئے رحمت الٰہی کا سہارا لے کیونکہ رحمت الٰہی کے بغیر اعمال کی قبولیت اور دخول جنت ممکن نہیں ہے ، بندوں کی کیا بساط کہ وہ عبادات کے ذریعہ بندگی کا حق ادا کر نے کا دعویٰ کرے ، اگر بندہ پوری زندگی بھی سجدہ میں پڑ ا رہے اور زبان سے حمد وثناء کا ورد کرتا رہے تب بھی وہ فضل الٰہی سے ملی ایک سانس کا بھی بدلہ نہیں ادا کر سکتا ،چنانچہ امام حاکم ؒ نے مستدرک حاکم میں حضرت جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے : حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ ایک مرتبہ گھر سے باہر تشریف لاکر فرمایا کہ ابھی ابھی میرے دوست حضر ت جبرئیل ؑ تشریف لائے تھے اور یہ فرمایا کہ پچھلی امتوں میں سے اللہ کا ایک بندہ اپنے گھر بار عزیز واقارب ،مال ودولت سب کچھ چھوڑ کر سمند کے بیچ پہاڑ نما ایک ٹیلہ پر جاکر عبادت کرنا شروع کردیا،وہ سمندر اتنا وسیع تھا کہ اس ٹیلہ کی ہر جانب چار ہزار فرسخ دوری تک سمند تھا ،وہاں پر کوئی کھانے کی چیز نہیں تھی اور سمندر کا پانی نمکین تھا،اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں ایک انار کا درخت اُگادیا اور انگلی کے برابر میٹھے پانی کا چشمہ جاری کر دیا،یہ عابد رات دن چوبیس گھنٹے اپنی عبادت میں گزاردیتا اور چوبیس گھنٹے میں انار کا ایک پھل کھالیتا تھا اور میٹھے پانی کے چشمے سے ایک گلاس پانی نوش کر لیتا تھا ،اسی حالت میں پانچ سو سال گزر گئے،پانچ سو سال کے بعد جب اس عابد کی موت کا وقت آیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ سجدے کی حالت میں اس کی روح پرواز کر جائے اور اس کی نعش کو مٹی وغیرہ ہر چیز پر حرام کردے اور قیامت تک سجدے کی حالت میں صحیح وسالم رہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی ،سجدے کی حالت میں روح پر واز کر گئی او اللہ تعالیٰ نے وہاں ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ قیامت تک وہاں کسی انسان کی رسائی نہیں ہو سکتی ، قیامت کے دن اس عابد کو اللہ کے دربار میں حاضر کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ٰ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ میرے اس بندہ کو میرے فضل سے جنت میں داخل کردو، تو وہ عابد کہے گا ’’رب بل بعملی‘‘ کہ اے میرے رب بلکہ میرے عمل کے بدلے جنت میں داخل کر دیجئے، کیونکہ میں نے پانچ سو سال تک ایسی عبادت کی ہے جس میں کسی قسم کی ریا کاری کا شائبہ بھی نہیں تھا ،تو اللہ تعالیٰ پھر فرمائیں گے کہ میری رحمت سے داخل کردو،تو یہ بندہ کہے گا میرے عمل کے بدلے میں، تو اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے عمل اور میری دی ہوئی نعمتوں کا موازنہ کرو،تو موازنہ کرکے دیکھا جائے گا کہ اللہ نے جو اس کو بینائی عطا فرمائی ہے صرف بینائی کی نعمت اس کی پانچ سو سال کی عبادت کا احاطہ کر لے گی ،اس کے بعد پورے جسم میں کان کی نعمت ،زبان کی نعمت ،ہاتھ کی نعمت ،ناک کی نعمت ،پیر کی نعمت ،دل ودماغ کی نعمت ،ان سب کا بدل باقی رہ جائے گا ،پھر ان کے علاوہ جو پانچ سو سال تک اللہ نے میٹھا پانی پلایا اور انار کا پھل کھلایا ہے ان تمام کا بدل باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کی پانچ سو سال کی عبادت تو صرف نعمت بھر کے بدلے میں ختم ہوگئی ،ہماری باقی نعمتوں کا بدل کہاں ہے ،لہذا اس کو جہنم میں داخل کردو، تو فرشتے اسے گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے جائیں گے تو وہ چلا کر کہنے لگے گا ’’ رب برحمتک ادخلنی الجنۃ ‘‘ اے میرے رب محض اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخل فرمادیجئے ،تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تجھے تو اپنی پانچ سوسال کی عبادت پر بڑا ناز تھا ،اب تیری عبادت کہاں چلی گئی اور خطرناک سمندر کے بیچ میں نے تجھے انار کے پھل کھلائے اور پانچ سو سال تک مسلسل میٹھا پانی پلایا ،میری ان نعمتوں کے بدلے تم کیا لائے ہو ؟تو وہ کہے گا،اے اللہ آپ اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخل فرمادیجئے ،یقینا آپ کی رحمت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ،پھر آخر میں جب حجت تمام ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری رحمت ومیرے فضل کے ذریعہ اس کو جنت میں داخل کردو ،پھر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے ذریعہ جنت میں داخل ہو سکے گا( الترغیب والترہیب بحوالہ انوار ہدایت: ۲۶۹)، واقعہ بتاتا ہے کہ کوئی چاہے کتنا ہی بڑا عبادت گزار ہو اسے اپنی عبادت پر فخر وناز نہیں کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو بڑا عابد وزاہد کہنا نہیں چاہیے ،اس دھوکہ میں نہیں رہنا کہ میرے پاس نیکیوں کی انبار ہے اور اسی بنیاد پر جنت میں داخلہ دیا جائے گا ، باوجود یہ کہ رسول اللہ ؐ حبیب اللہ ہیں اور آپؐ کی عبادتیں پورے جن وانس کی عبادتوں پر بھاری ہیں ،پھر بھی آپ ؐ فرمارہے ہیں کہ میں بھی فضل الٰہی کا متمنی ہوں تو دوسروں کی کیا مجال ،لہذا عبادات پر فخر کرنا چھوڑ دیں ، اپنی عبادات وریاضات پر فخر وتکبر میں مبتلا نہ ہوں ، خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر نہ سمجھیں اور اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ میں بڑا عابد وزاہد ہوں میری بخشش یقینی ہے بلکہ متواضع بن کر اور ایک غلام کی حیثیت سے عبادات کرتے رہیں اور اس کے ذریعہ فضل الٰہی کو تلاش کرتے رہیں ۔
(۳)حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،پس استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیں اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہل بغض کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں ( الجامع الصغیر: ۶۵۴) ،اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار ،رحم وکرم اور بخشش ومعافی طلب کرنے کی رات ہے ،چونکہ اس وقت رحمت الٰہی جوش میں ہوتی ہے اور معافی ومغفرت کا عام اعلان ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ دعا ئیں قبول کی جاتی ہیں اس لئے اس موقع کو غنیمت جان کر اس سے خوف فائدہ اٹھاتے ہوئے رحمت الٰہی کو اپنی طرف متوجہ ہونا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس غفلت اور سستی کی وجہ سے ہم رحمت الٰہی سے محروم ہو جائیں یا آئندہ توبہ واستغفار کا موقع نہ ملے اس لئے خود کو پابند کیجئے اور تو بہ واستغفار کرتے ہوئے خوب دعاؤں کا اہتمام کریں اور اس موقع کو غنیمت جان کر اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کریں ۔
(۴)پندرھیوں رات کی اہمیت اور اس کے برکات وفضائل کے سلسلہ میں جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان سب پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس امت میں بعض ایسے محروم اور بد قسمت لوگ ہیں جن کے بد اعمالیوں اور ان کی نحوست کی وجہ سے اس مبارک رات کی برکات اور عمومی معافی سے وہ محروم کر دئے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سچی توبہ نہ کر لیں ، رحمت الٰہی اور مغفرت ربانی سے دور کرنے والے بُرے اعمال اور ان میں ملوث لوگ یہ ہیں : (۱)مشرک(۲) کینہ پرور(الترغیب والترہیب: ۲۷۶۷) (۳) کافر(الجامع الصغیر: ۴۰۱۹)(۴) زانی(الجامع الصغیر: ۶۵۳) (۵)قاتل ناحق(مسند احمد)(۶) قاطع رحم(سنن ابن ماجہ) (۷) ٹخنوں کے نیچے تہبند لٹکانے والا(سنن ابن ماجہ) (۸) والدین کا نافرمان(سنن ابن ماجہ)(۹) شراب نوشی کا عادی(سنن ابن ماجہ)، یقینا یہ ایسے گناہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کو سخت نفرت ہے اور ان گناہوں کے مرتکبین پر سے اللہ تعالیٰ نظر رحمت پھیر لیتے ہیں ،حتی کہ برأت جیسی مغفرت کی عام رات میں بھی وہ رحمت الٰہی سے محروم کر دئے جاتے ہیں ،اس لئے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ ان برے افعال سے اولین وقت میں توبہ کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں ، توبہ واستغفار کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے معلوم نہیں زندگی کا چراغ کب گل ہوجائے اور نہ جانے سانس کس وقت ساتھ چھوڑ دے، اور ان گناہوں میں بھی خاص کر بغض و کینہ سے توبہ کریں اور دل کو کینہ سے پاک صاف کرلیں ،کیونکہ ان احادیث میں پانچ جگہوں پر کینہ کا ذکر آیا ہے ،کینہ وبغض دونوں مترادف لفظ ہیں ،دشمنی ،عداوت ،حسد ،جلن کے معنی میں مستعمل ہیں ،کسی سے بھی کینہ وبغض رکھنا شرعاً ممنوع ،خطرناک روحانی مرض اور نہایت قبیح عمل ہے ،کینہ روحانی امراض میں سے ایک خطرناک بلکہ مہلک ترین مرض ہے ،کینہ رکھنے والا تقرب الٰہی کی منزل پا نہیں سکتا اور نہ ہی ولایت کے درجہ کو پہنچ سکتا ہے ،اس کی تمام عبادتیں معلق رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ کینہ چھوڑ دے ،غصہ اور کینہ دونوں ہی بُرے اعمال ہیں مگر کینہ اور بھی خطرناک ہے کیونکہ کینہ میں مخفی طور پر غصہ شامل رہتا ہے ،بس فرق یہ ہے کہ غصہ وقتی طور پر ہوتا ہے اور اس میں سوچ کر عنصر کم ہوتا ہے جبکہ کینہ مستقبل کے لئے ہوتا ہے اور اس میں سوچ کا عنصر شامل ہوتا ہے اس لئے روحانی طور پر کینہ زیادہ قابل مذمت ہے ،اس کا علاج یہ ہے کہ جس سے کینہ ہو اس کے قصور کو دل سے نکال دیں اور اس سے میل جول رکھیں اگر چکہ بتکلف کیوں نہ ہو،امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کینہ وحسد رکھنے والا ذلت سے دوچار ہوتا ہے،ملائکہ سے لعنت پاتا ہے ،مخلوق سے غم وپریشانی اٹھاتا ہے ،نزع کے وقت سختی میں مبتلا ہوتا ہے اور قیامت کے دن حشر کے میدان میں رسوائی پاتا ہے ۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس مبارک اور رحمت ومغفرت سے بھر پور رات کی قدر کریں ، نیز غیر شرعی ، بے فائدہ اور فضول کا موں میں پڑ کر اس عظیم رات کو ضائع نہ کریں ، پوری شب ذکر و اذکار ، نماز وتلاوت ،توبہ واستغفار میں گذاریں ،رب رحیم سے اپنے صغیرہ وکبیرہ ، ظاہر وپوشیدہ اور جانے انجانے گناہوں کی معافی طلب کریں ،عمر اور رزق میں برکت کی دعاء کریں ، اپنے والدین اور دیگر مرحومین کی مغفرت کی دعا کریں، اپنے لئے شریعت پر استقامت،دین پر ثابت قدم اور ایمان پر خاتمہ کی دعائیں کریں اور پوری دنیا میں امن ومان کے قیام ،ناگہانی مصیبتوں اور مہلک بیماریوں سے حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے خوب دعائیں کریں ۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×