سیاسی و سماجی

مرکز تبلیغ اور سازشی میڈیا کا طوفان

’’دعوت وتبلیغ‘‘ انتہائی عظیم اور مہتم بالشان کام ہے ،جس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت کی جانب ،نافرمان کو فرماں برداری کی طرف اور مخلوق کو خالق سے جوڑ نے کا کام کیا جاتا ہے، دعوت وتبلیغ کے ذریعہ تقریبا ً سوا لاکھ فرشتہ صفت ،معصوم نبیوں اور رسولوں نے احکام الٰہی کو بندوں تک پہنچایا،ذات نبی رحمت ؐ اسی سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی تھے، قیامت تک آپ ؐ ہی نبی ورسول ہیں اور آپ ؐ ہی کی لائی ہوئی تعلیمات ہر ایک کے لئے کامیابی اور نجات کی ضمانت ہے ، اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں ؐ کے بعد قیامت تک آنے والے لوگوں کو دین وشریعت سے آگاہ کرنے اور احکام الٰہی اور تعلیمات نبویؐ ان تک پہنچانے کی ذمہ داری اس امت کے کندھوں پر ڈالی ہے اور انہیں اس کام کا پابند بھی بنایا ہے ،چنانچہ دور صحابہ ؓ سے لے کر آج تک ہر زمانے میں عموماً امت مسلمہ اور خصوصاً اس امت کے چنندہ اشخاص اس عظیم کام کو مقصد زندگی بناکر انجام دیتے آرہے ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، بلاشبہ دعوت وتبلیغ میں ایک دعوت غیر صاحب ایمان کو دین وایمان کی طرف بلانا ہوتاہے اور دوسرے اہل ایمان کو دین پر استقامت اور احکام شرعیہ کی پابندی کا شوق دلاتے رہنا ہوتا ہے ، بر صغیر میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ان کی ناپاک تہذیب نے یہاں کے باشندگان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ رکنے والا سیلاب بن گیا اور اس کے طوفانی اور سیلابی اثرات سے لوگ متاثر ہونے لگے اور ان کے پاس جو کچھ ایمان ویقین کی رمق تھی وہ کمزور پڑنے لگی ،اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اس وقت کے دور اند یش اور اصحاب بصیرت علماء کرام اور حاملین علوم نبوت نے جگہ جگہ مدارس دینیہ اور مکاتب قرآنیہ کی بنیاد رکھ کر امت کو اسلامی تعلیمات سے جوڑ نے اور انہیں اسلامی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے رہے،اکابرین امت کی شبانہ روز محنتیں رنگ لائی اور مسلم معاشرہ میں فروغ علم دین کے ساتھ اصلاح وتربیت کا کام پھلتا پھولتا رہا ،جو لوگ عمر کی زیادتی یا پھر معاشی مشغولیات کی وجہ سے ضروریات دین سیکھنے سے قاصر تھے اور اہل علم سے دوری کی بناپر رب چاہی زندگی گزرنے کے بجائے من چاہی زندگی گزر تے تھے اگر چہ کہ ان کی اصلاح وتربیت اور ان تک ضروریات دین پہنچانے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی تھیں ،اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جو دین سے دور اور اعمال دین سے بے فکر ہو کر آزادانہ زندگی گزار رہے تھے ،جنہیں دیکھ کر اصھاب علم وفضل اور اکابرین دین کا دل کڑھتا تھا ،انہیں میں سے ایک داعی کبیر مولانا محمد الیاس کا ندھلوی ؒ (ولادت : 1885 م 1303 ھ ،قصبہ کاندھلہ ،ضلع مظفر نگر ،یو پی) تھے یہ من ہی من میں ان کی اصلاح وتربیت کی فکر لئے پھر تے تھے اور سونچتے تھے کہ کوئی ایسی تدبیر ذہن میں آجائے جس سے ان کی اصلاح وتربیت کا راستہ نکل آئے ۔
مولانا الیاس کاندھلویؒ ایک علمی ودینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ،مدارس دینیہ میں رہ کر بلند پایہ علماء و اکابرینؒ سے علم حاصل کیا تھا اور ان کی خدمت و صحبت میں رہ کر اعلیٰ درجہ کی تربیت پائی تھی اور اکابرین کے سینوں میں امت مسلمہ کا جو درد تھا انہوں نے قریب رہ کر اس کا مشاہدہ کیا تھا ،یقینا وہ ان کے سینہ میں منتقل ہو گیا تھا ، مولانا الیاس ؒ ایک جید اور بلند پایہ عالم تھے ،انہوں نے 1326 ھ میں دیوبند پہنچ کر عالم ربانی شیخ الہند مولانا محمد حسن دیوبندی ؒ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند سے بخاری شریف اور ترمذی شریف کا درس لیا تھا ، اس کے بعد بھی آپ نے کئی سال تک اپنے برادر مولانا یحییٰ کاندھلویؒ سے بھی حدیث کی کتابوں کا درس لیتے رہے ،فراغت کے بعد جامعہ مظاہر علوم سہان پور میں مدرس ہوئے ،پھر دہلی منتقل ہوکر ایک چھوٹی سی مسجد میں چند طالب علموں کو پڑھانے لگے ،اپنے وقت کے فقیہ قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سر پرست دارالعلوم دیوبند سے بیعت ہوکر سلوک وتصوف کا راستہ طے کرتے رہے ،پھر ان کے وصال کے بعد مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ سے سلوک کی تکمیل فرمائی ، مولانا الیاس کاندھلویؒ نے 1926 ء میں اصلاح امت کی خاطر دعوت وتبلیغ کے ذریعہ اصلاح وتربیت کا کام شروع کیا ،جو بعد میں تحریک دعوت وتبلیغ کے نام سے مشور ہوئی،آپ ؒ نے اس عظیم کام کا آغاز میوات کے علاقہ ضلع قصور سے کیا ،آپ کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور بہت ہی قلیل مدت میں اس کام نے اس علاقہ پر اپنا اثر چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ اصلاح وتبلیغ کا کام پھلنے اور پھیلنے لگا ،لوگ سہ روزہ،دس روزہ ،چالیس روزہ اور چار مہینوں کے لئے گھروں سے نکل کر دین کی بنیادی باتیں سیکھنے لگے اور سیکھی ہوئی چیزیں دوسروں کو سکھاتے رہے ،یقینا اس جماعت کا ایک اپنا اصول ہے جسے چھ نمبر کا نام دیا گیا ہے ،(۱) ایمان(۲) نماز(۳) علم وذکر(۴) اکرام مسلم(۵) اخلاص نیت(۶) دعوت وتبلیغ ،اس جماعت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی مجالس ،اجتماع اور گشت ومذاکرہ میں ان چھ باتوں ہی پر گفتگو کرتے ہیں ،اسی لئے اس جماعت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرات اپنی محفلوں میں زمین کے نیچے یعنی قبر وبرزخ اور آسمان کے اوپر یعنی جنت وجہنم کی ہی باتیں کرتے ہیں ، اللہ تعا لیٰ کے فضل وکرم ، غیبی نصرت ،اکابرین کی دعاؤں اور مولانا کے اخلاص وللہیت کا اثر یہ ہوا کہ نہایت قلیل عرصہ میں یہ کام منظم اور کار آمد تحریک کی شکل اختیار کرگیا،اسی کام کو اوڑھنا بچھونا بناکر ،ان گنت لوگوں کی زندگیوں کو دین پر لگا کر ،تھکامندا یہ مسافر 13 جولائی 1944 ء کو (59 سال کی عمر پاکر) دار فانی سے دار بقاکی طرف کوچ کر گیا،بلاشہ آپ ؒ کے اخلاص وللہیت اور امت کی تڑپ میں کی گئیں بے لوث خدمات کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ مقبولیت عطا فرمائی اور آج دعوت وتبلیغ کا کام ہند وپاک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے ۔
جماعت دعوت وتبلیغ اور اس کے مخلص ومشفق بانی اور محرک کے متعلق سرسری معلومات کا سطور بالا میں ذکر گیا ہے ،اس کا مر کز بستی نظام الدین بنگلے والی مسجد میں ہے ،ابھی دوتین روز سے ہر طرف قومی ٹی وی چینلس اور سوشل میڈیا پر اسی کا ذکر چھایا ہوا ہے ، وہ احباب جو اجتماع میں شرکت کے لئے مرکز آئے تھے اچانک ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں مقید ہو کر رہ گئے ان میں کورونا وائرس کے مثبت اثرات کے پائے جانے کو لے کر قومی میڈیا نے ایک وبال مچا رکھا ہے ، جس انداز سے بناکر اسے پیش کیا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ یہیں سے ہوا ہے، میڈیا میں طرح کی باتیں بناکر پیش کی جارہی ہیں اور اس کا سلسلہ ابھی تک بھی جاری ہے ،یہ باتیں کہہ نہیں رہے ہیں بلکہ بکتے جارہے ہیں ، میڈیا والے مرکز تبلیغ پر وائرس پھیلانے کا گھناؤنا الزام لگارہے ہیں ،لاک ڈاؤن کے باوجود مجمع اکھٹا کرنے کی جھوٹی بات پھیلائی جارہی ہے ، لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے کا الزام دیا جارہا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر انہیں سزا سنائی جانے کی باتیں کہی جارہی ہیں ، موجودہ قومی میڈیا جسے موجودہ حکومت کا خریدا ہوا غلام بھی کہا جاتا ہے جانبدارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی چرب زبانی ،متعصبانہ مزاج اور جھوٹی باتوں کو پوری قوت کے ساتھ پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے ،نیز حکومت کے ذمہ دار بھی کورونا وائرس کے سلسلہ میں اپنی موثر خدمات اور عوام کو راحت پہنچانے میں ناکامی کو چھپاتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ مرکز تبلیغ کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے ذریعہ اس عظیم تحریک ،اس کے مرکز اور اس سے وابستہ اشخاص کو بدنام کرنا چاہتے ہیں ،لیکن ان عقل کے اندھوں ، نفرت کے پجا ریوں اور منافرت کے سوداگروں کو معلوم ہونا چاہے کہ ؎
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یقینا کورونا وائرس کی مہلک وباء سے ہر کوئی پریشان ہے اور اس مہلک وائرس نے جب سے ملک عزیز ہندوستان میں داخل ہوا ہے تب سے پورے ملک میں ایک سناٹا سا چھایا ہوا ہے ، اس سے پہلے ین آر سی اور ین پی آر کو لے کر بڑے بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک ہر طرف صدائے احتجاج بلند ہورہی تھی اور بلالحاظ مذہب وملت سب لوگ مل جل کر اس سیاہ قانون کی مذمت کر رہے تھے اور اس کے عدم نفاذ کا حکومت وقت سے مطالبہ کر رہے تھے ،کورونا وائرس کی وجہ سے اسے موقوف کرکے ملک کو اس مہلک ترین بیماری سے محفوظ رکھنے اور باشندگان ہند کی جانوں کی حفاظت کے کاموں میں جٹ گئے ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو معاشی صورت حال ہے اسے سب جانتے ہیں بلا لحاظ مذہب ومشرب ایک دوسرے کی مدد کرنے میں مصروف ہوگئے ، اس نازک گھڑی میں ہندو ،مسلم ، سکھ وعیسائی سب ایک دوسرے کی مدد ونصرت کو اپنے لئے ملکی اور انسانی فریضہ سمجھنے لگے جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سب ایک کنبہ اور خاندان کے افراد ہیں ،پیار ومحبت اور ایثار وقربانی کے ا س غیر معمولی جذبہ کو دیکھ کر خوشی سے آنکھیں نم اور دل سرور پانے لگا ہے اور بے ساختہ زبان بول رہی ہے کہ اس ملک میں گنگا جمنا تہذیب اب بھی باقی ہے ،سب کے دل ایک دوسرے کی محبت سے لبریز ہیں ،مگر جو لوگ نفرت کے سوداگر ہیں ،جنہیں اپنا مفاد عزیزہے انہیں جیسے سانپ سوگھ گیا ہے ، قومی میڈیا کی ہوا اتر گئی ،میڈیا کے سامنے گلے پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے اور زہریلے پھونکوں سے نفرت کی آگ بھڑکانے والے گردن جھکاکر اور خود کاگلا دبا تے ہوئے رہ گئے ،تھوڑی دیر کے لئے ایسا لگا کہ کورونا وائرس نے میڈیا پر ہلا بول دیا ہے ،انکی زبانیں گم ہو گئیں ہیں اور دکانیں بند ہوگئیں ہیں ،مگر جیسے ہی مرکز تبلیغ میں کورونا کے متعلق خبر پھیلی فوراً میڈیا اٹھ کھڑا ہوکر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ، قومی میڈیا یہ باور کرانے کی کوشش میں لگ گئی کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کا سبب مرکز تبلیغ ہی ہے ، میڈیا نے تو تعصب کی حد کردی اور اتنا جھوٹ بولا اور اس طرح بولا کہ جھوٹ بھی شرم سے پانی پانی ہوگیا ،صحافت کو جمہوریت کا اہم ستون مانا جاتا ہے مگر ان لوگوں نے اس پر جھوٹ وفریب کی ضرب لگا کر اسے ہلا کر رکھ دیا اور اس کی عزت وعظمت کو تار تار کر دیا ، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی انتہا کر دی اور انسانی بحران اور نازک صورت حال کا بھی خیال نہیں کیا بلکہ اس موقع پر انسانیت باٹنے ،پیار کو پروان چڑھانے اور محبت کو بڑھانے کے بجائے نفرتوں کو پھیلانے کا کام کر رہے ہیں جو کہ انسانیت کے دشمن اور ملک کے مجرم ہیں ۔
مرکز تبلیغ میں ملک وبیرون ملک سے سینکڑوں لوگوں کا دن ورات آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا ہے ،لوگ جماعت کی شکل میں آتے ہیں اور مشورہ کے بعد متعینہ مقامات پر دعوت وتبلیغ کے لئے نکل جاتے ہیں ،اس وقت بھی مرکز میں مقررہ پروگرام کے تحت بہت سے لوگ آئے تھے اور اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے اپنے مقامات پر نہیں جا سکے تھے ، سرکاری وغیر سر کاری حمل ونقل کے مسدود ہونے کی وجہ سے مرکز کے ذمہ داروں نے حکومت کے عہد داروں کی ہدایت پر انہیں روکے رکھا تھا ،مگر میڈیا کی زبان اور اس کی مکاری دیکھئے کہ پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے چھپے ہونے کا لفظ استعمال کر رہی ہے ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنے اور کسی بھی چیز کی نسبت ان کی طرف کرکے انہیں مجرم قرار دینے میں لگی ہوئی ہے ، میڈیا کو مرکز میں پھنسے لوگ تو نظر آرہے ہیں مگر دہلی کے سڑکوں پر اپنے وطن جانے کے لئے کھڑے ہوئے ہزروں کی تعداد میں مزدور نظر نہیں آرہے ہیں ، پرنٹ اور سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اور بھی کئی ایسے مذہبی مقامات ہیں جہاں لاک ڈاؤن کے باوجود عقیدت مندوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری تھا ،نیز بعض سرکاری تقریبات مثلاً پارلیمنٹ کی کاروائی ، مدھیہ پردیش اور دیگر سرکاری تقریبات میں سیکڑوں کی تعداد جن میں حکومت کے وزرا بھی شامل تھے یہ سب لاک ڈاؤ ن کے بعد منعقد ہوئے تھے تو کیا یہ خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہیں؟ کیا انہوں نے سماجی دوری برتنے کی خلاف ورزی نہیں کی؟ ،سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ سب لاک ڈاؤن کے بعد منعقد ہوئے تھے تو کیا یہ تقریبات اور ان میں شرکت کرنے والے لوگ لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ تھے ؟ کیا ان کے جمع ہونے سے کورونا کا خطرہ نہیں تھا؟ اور کیا یہ لوگ خلاف قانون کرنے والے شمار نہیں ہوں گے؟ ،یہ وہ سوالات ہیں جس کا جواب سب کو معلوم ہے ،اور ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت ایک طرف اچانک لاک ڈاؤن نافذ کرتی ہے اور لوگوں سے کہتی ہے جو جہاں ہے وہیں رہے اور ریل ،ہوائی جہاز اور بس سروس بند کرتی ہے اور دوسری طرف پھنسے ہوئے لوگوں سے کہتی ہے کہ وہ گئے کیوں نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پروپکنڈہ ہورہا ہے اور اس کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے دینی ومذہبی مقامات بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور مجرمانہ حرکت کرنے میں قومی میڈیا پیش پیش ہے اور وہ حکمران جو مذہبی منافرت پھیلاکر اپنی گندی سیاست چلاتے ہیں اور اس کے سہارے اپنی کرسی بچانے کی کوکشش کرتے ہیں ،اس وقت جب کہ پورا ملک متحد ہوکر کورونا سے لڑرہا ہے اور اس کے خاتمے کے لئے ہر طرح کی قربانی دے رہا ہے ایسے میں اس طرح کی اوچھی حرکت کرنا ، مذہبی نفرت پھیلانا ،بیماری کو کسی مذہب سے جوڑنا اور اپنی سیاست کی روٹی سیکنا انہتائی گھناؤنی ،نیچ ،بد ترین اور انسانیت سے
نیچی گری ہوئی حرکت ہے ،باشندگان ہند کو چاہے وہ کسی مذہب ومشرب اور مسلک وجماعت سے تعلق رکھتے ہیں متحد ہوکر اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا،اس گھٹیا میڈیا کو اچھی طرح سبق سکھانا ہوگا اور اس کے ذریعہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں ،ایک رہیں گے اور جو نفرت پھیلانے والے ہیں وہ ملک ،قوم اور انسانیت کے دشمن ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×