اسلامیات

شادی ہو تو سادی

نکاح ایک معاہدہ ،سماجی بندھن ،خوہش کی تکمیل کا جائز راستہ ہی نہیں بلکہ ایک اہم ترین عبادت ہے ، اسلام نے عبادت کا درجہ دے کر نکاح کو مقدس ترین بنادیا ہے ، نکاح کی محفلوں کو مسجدوں میں منعقد کرنے کی تعلیم وترغیب دی گئی ہے جس سے نکاح کی اہمیت اور اس کا عبادت ہونا واضح ہوجاتا ہے،محفل نکاح میں خطبہ نکاح کا حکم اس کی عظمت کا بین ثبوت ہے،یہ واحد عبادت ہے جو جنت میں ادا کی گئی ہے یعنی ابوالبشر سیدنا ادم ؑ وسیدہ حوائؑ کا نکاح جنت میں انجام پایا اور یہ وہ واحد عبادت ہے جو جنت میں پہنچنے کے بعد بھی باقی رہے گی یعنی جو دنیا میں شوہر بیوی تھے وہ دخول جنت کے بعد وہاں بھی اسی رشتے کی بنیاد پر ایک ساتھ رہیں گے ، بلکہ اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ ایسی عبادت ہے جو نکاح کے بعد تاحیات جاری وساری رہتی ہے ،بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلام نے نکاح کوجو مقام ومرتبہ اور اس رشتہ کو جو عظمت وپاکیزگی عطا کی ہے کسی اور مذہب میں اس کا تصور بھی محال ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جس قدر یہ اہم اور انسانوں کے لئے ضروری ہے اتنی ہی سہل اور نہایت آسان بھی ہے ،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے نکاح کو جس قدر آسان کیا ہے کسی اور مذہب میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،اس کے لئے نہ تو دن وتاریخ متعین ہے اور نہ ہی جگہ ومقام کا التزام ضروری ہے ،صرف گواہوں کی موجود گی میں ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے ۔
اسلام نے جہاں اچھے کاموں کی تعلیم دی ہے وہیں بُرے کاموں سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے ، انسانی خواہشات ایک فطری چیز ہیں اور فطری طور پر وہ اس کی تکمیل کی خواہش رکھتا ہے ، اسلام نے جنسی فطری خواہش کے جائز تکمیل کے لئے نکاح کا حکم دیا ہے ،اگر نکاح کا حکم نہ دیا جاتا تو انسان جنسی خواہشات کی تکمیل میں بے لگام ہو جاتا اور حیوان بن کر انسانیت سے گر جاتا جو اس کے لئے ذلت ورسوائی کا سبب بن جاتا اور انسانی معاشرہ کے لئے مہلک ترین ثابت ہوتا تھا ،اس لئے اسلام نے خواہشات کی تکمیل کیلئے نکاح کو لازم کر کے خواہشاتِ نفسانی کے تمام بے ہودہ راستوں کا سد باب کیا ہے ، نکاح اسلام کی نظر میں صرف جائز طریقہ سے نفسانی تسکین کا نام نہیں بلکہ ایک خوبصورت عبادت بھی ہے ،یہی وجہ ہے کہ انبیاء ؑ بھی رشتہ ازدواج سے منسلک رہے اور خود امام الانبیاء محمد مصطفیؐ نے نہ صرف نکاح فرمایا بلکہ اسے اپنی عظیم سنت بھی قرار دیا ہے ،ارشاد فرمایا :النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی( ابن ماجہ )’’ نکاح میری سنت ہے جس نے میری اس سنت پر عمل کرنے سے گریز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘ ، آپ ؐ نے تجرد انہ زندگی گزار نے کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:لا رھبانیۃ فی الاسلام ( نیل الاوطار )’’ اسلام میں رہبانیت (دنیا سے الگ تھلگ ہوجانا) نہیں ہے‘‘، ایک موقع پر آپؐ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے نکاح کی اہمیت ،شادی شدہ زندگی کی مسرت اور اس کے اخلاقی فوائد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یا معشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ،فانہ اغض للبصر واحصن للفرج،ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم،فانہ لہ وجاء(بخاری)’’اے نوجوانو! تم میں سے جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت رکھتا ہو اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ شادی نگاہ کو پست رکھتی ہے اور شہوانی خواہشات کو بے لگام نہیں ہونے دیتی ،اور جو کوئی نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے اس لئے کہ روزہ شہوت کو توڑ نے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے‘‘۔
چونکہ نکاح انسانوں کی ایک اہم ترین ضرورت ہے ،یہ دو خاندانوں کے پروان چڑھنے اور انسانیت کی بقا اور توالد وتناسل کا نہایت اہم ذریعہ ہے ، اسی لئے شریعت نے اسے انتہائی آسان اور سہل بھی بنایاہے ،صرف دو گواہوں کی موجود گی میں عاقل وبالغ کا ایجاب وقبول انہیں ہمیشہ کیلئے ازدواجی بندھن میں باندھ کر ایک دوسرے کی ذات کو حلال وطیب بنا دیتا ہے ، نکاح دراصل دنیوی اور دینی دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہے ، جہاںایک طرف یہ سماجی بندھن اور آپسی جوڑ کا نام ہے تو وہیں دوسری طرف فعل عبادت اور باعث اجر وثواب بھی ہے اور عبادت بھی ایسی کہ اس کا سلسلہ نکاح سے شروع ہوتا ہے اور نکاح ٹوٹنے تک باقی رہتا ہے۔
رسول اللہؐ نے نکاح کو نہ صرف آسان اور سادہ طریقے پر انجام دینے کا حکم دیا بلکہ دعوت ولیمہ کو بھی سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہوئے فضولیات سے بچنے کی ترغیب فرمائی ہے ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ (شعب الایمان )’’ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے‘‘مذکورہ بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے محدث جلیل مولانا محمد منظور نعمانیؒ لکھتے ہیں کہ ’’اس حدیث کا مقصد صرف ایک حقیقت بیان کر دینا نہیں ہے بلکہ اس میں امت کو ہدایت اور رہنمائی دی گئی ہے کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں ،اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری شادیوں اور اس کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی ، آگے لکھتے ہیں کہ آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو الجھنیں ہیں ان کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح وشادی کے بارے میں حضور ؐکی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں(معارف الحدیث :۷؍ ۲۹) ۔ شادی اور دعوت ولیمہ کے سلسلہ میںخودرسول اللہ ؐ کا عملی نمونہ موجود ہے کہ جس وقت آپ نے ازواج مطہرات سے نکاح فرمایا اور اس پر جو ولیمہ کی دعوت فرمائی وہ انتہائی سادہ اور ہلکی پھلکی تھی صرف حضرت زینب بنت جحش ؓ کا ولیمہ چھوڑ کرجس میں پوری ایک بکری پر دعوت ولیمہ کی گئی تھی اس کے علاوہ بقیہ سب کا ولیمہ ہلکے پھلکے انداز میں فرمایا تھا ،بعض ازواج مطہرات کا ولیمہ تو صرف دوسیر جو کے ساتھ کیا اور ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کے ولیمہ میں تو صحابہ ؓ نے اپنے اپنے پاس سے کچھ کھجوریں ،پنیر اور گھی لائے ،ان سب کو ایک دستر خوان پر رکھ دیا گیا اور سبھوں نے مل کر کھایا یہی ولیمہ کی دعوت بھی ہوگئی تھی،( بخاری)۔
ولیمہ مسنونہ کے سلسلہ میں رسول اللہ ؐ کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل امت کے سامنے واضح طور پت موجود ہے کہ آپ ؐ نے نکاح کی محفل اور دعوت ولیمہ کی تقریب کو کس طرح سادگی کے ساتھ انجام دیا اور اسراف وفضول خرچی سے کس قدر دور رکھا ،آپ ؐ اور آپ کے اصحاب ؓ کی شادیاں اور دعوت ولیمہ اسراف سے پاک ،سادگی کا عمدہ نمونہ اور برکتوں سے لبریز تھے ،بدقسمتی سے آج مسلمانوں نے اس عظیم سنت کو اور نہایت آسان عمل کو مصیبت بنالیا ہے ، مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی نادانی ، من مانی بلکہ خواہشات کی تکمیل کی خاطر ایسی بہت سی چیزوں کو نکاح کا حصہ بنا لیا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نکاح جیسی عظیم سنت اور نہایت مہتم بالشان عبادت خرافات کی زنجیروں میں جکڑ کر رحمت کے بجائے زحمت بن گئی ہے ، مسلمانوں میں سے اکثروں کے نکاح اور ولیمہ کی تقریبات غیر شرعی امور کی آماجگاہ بن چکے ہیں ،جس کا سلسلہ شادی کے دوچار روز قبل سے شروع ہوتا ہے اور ولیمہ بلکہ بعضوں کے پاس جمعگیوں تک جاری رہتا ہے ، ناچ گانا ،بے جا اسراف جس میں گھروں کی غیر ضروری سجاوٹ ،بجلی کے قمقمے ،نمائش وتفاخر ، بے ہودہ رسومات اور رات دیر گئے تک شور شرابہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ شریعت کے ماننے والے نہیں بلکہ شیطان کے غلام ہیں ،بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر مسلمانوں میں فضولیات کا فیصد غیروں سے زیادہ ہے ،بعض لوگ نکاح کی تقریب مسجد میں نہایت سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ،دولہا نہایت سادہ لباس میں ملبوس ہوتا ہے اور حاضرین مجلس سادگی کا پیکر نظر آتے ہیں ،مگر دعوت نکاح کے موقع پر دیکھ کر پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کی سادگی پر دیندار رشک اور فرشتے فخر کر رہے تھے ،ابھی کچھ دیر قبل آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی تلاوت کے ذریعہ خوبصورت محفل منعقد ہوئی تھی اور حاضرین عقیدت کی مورت بن کر اپنی فرمابرداری کا ثبوت دے رہے تھے ،اس وقت ان کا طرز عمل کچھ اور ہے ،لباس بدل چکا ہے،سر پر نبوی عمامہ نہیں غیروں کی رنگ برنگی پگڑی سجی ہے ،موسقی کا شور برپا ہے اور یہ بڑی بے حیائی کے ساتھ اس کی دھن پر رقص کر رہے ہیں ، افسوس کہ یہ سب نکاح جیسی عظیم عبادت اور مبارک سنت کے نام پر ہورہا ہے ، مسلمانوں میں آج شادیوں کے موقع پر جس طرح ادھم مچایا جا رہا ہے اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کیا جا رہا ہے ،سڑکوں سے بارات گزرتی ہے جسے دیکھ کر سر جھک جاتا ہے،کیا نوجوان اور کیا بوڑھے سبھی مستی میں مست ہیں ،نہ انہیں راہگیروں کا خیال ہے اور نہ ہی بیمار وپریشان حال افراد کا لحاظ ہے ، انہیںناچتے ہوئے دیکھ کر باپ اور چچا فخر کر رہے ہیں ،انکی بے لگامی دیکھ کر ڈرہوتا ہے کہ کہیں خدا کا غضب نہ نازل ہوجائے ،یہ وہ قوم ہے جن کے آباواجداد اذان کی آواز پر لبیک کہتے تھے اور یہ ہیں کہ موسقی کی آواز پر تھرکنے لگے ہیں ،اسے دیکھ ایسا لگتا ہے کہ یہ بارات ،یہ تقریبات اور دعوت طعام مسنونہ نہیں بلکہ دعوت ِ زحمت ہیں ،رسول اللہ ؐ نے باہم مقابلہ کرنے والوں اور فخر ونمائش کیلئے دعوت دینے والوں کی دعوت کھانے سے منع فرمایا ہے ،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ : نہی عن طعام المتبارئین ان یوکل( ابوداؤد) ’’ رسول اللہ ﷺ نے باہم مقابلہ کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا‘‘ ۔
مسلم معاشرہ میں شادی اور ولیمہ کے موقع پر پُر تکلف دعوت پر فضول خرچی اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کرتے ہوئے پانی کی طرح پیسے بہائے جارہے ہیں ، جھوٹی شان جتانے کے لئے مہنگے شادی خانے لئے جارہے ہیں جن کے صرف کرائے سے یتیم ویسیر دوتین لڑکیوں کی شادیاں کی جا سکتی ہیں ، مفلس ومستحق اور بیوہ وبے سہارہ عورتوں کی مدد کی جا سکتی ہے جو محض عزت نفس کی خاطر دست سوال سے گریز کرتے ہیں ، مگر سچ پوچھئے تو مسلم معاشرہ کا یہ وہ ناسور ہے جس نے سینکڑوں گھر وں کو تباہ اور ہزاروں ماں باپ کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، ان کی اس غیر شرعی ،بے دینی ،بے غیرتی اور غیر اخلاقی حرکتوں کو دیکھ کر من میں سوال آتا ہے کہ کیا یہ وہی قوم ہے جو کبھی بے سہاراؤں کا سہارا بناکرتی تھی ،یتیموں کے سروں پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا کرتی تھی،مسکینوں کی مدد کیا کرتی تھی ،فریادوں کی داد رسی کرتی تھی اور شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے ماں باپ کے آنسو پوچھا کرتی تھی ،جس مذہب نے شادی کیلئے مہر کو لازم قرار دیا ہے اور اس کے بغیر نکاح کو نامکمل قرار دیا ہے اور مہر کی ادائیگی کی نیت نہ ہو تو پوری زندگی کو حرام بازی سے تعبیر کیا ہے ،اسی کے ماننے والے مال حرام یعنی جوڑے کی رقم کے سودے کر رہے ہیں اور اس کے لئے محفلیں سجاکر دوسروں کو اپنے گناہ کا گواہ بنارہے ہیں ،معاشرہ کے ان بے رحم ،ہوس پرست اور درندہ صفت لوگوں نے شادیوں کو اس قدر مشکل اور تکلیف دہ بنادیا ہے کہ آج غریب تو کیا اوسط درجہ کی مالی حیثیت رکھنے والے لوگ بھی اپنی نو جوان لڑکیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جن کی عمریں تیزی سے بڑھتی جا رہیں ہیں ، غریب ومفلس والدین کے آنکھوں سے آنسو ؤں کی جھڑی دیکھ کر جسم میں رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بے ساختہ خود کی آنکھیں بھی بہنے لگتی ہیں مگر ان بے رحم اور فخر ومباحات کے خاطر بڑی دھوم دھام سے شادیاں کرنے والوں کو رحم نہیں آتا اور نہ ہی دل کے کسی نہال خانہ میں ان غریبوں کا خیال آتا ہے۔
مسلم معاشرہ میں جہاں بہت سی بُرایاں پائی جاتی ہیں ان میں خطرناک ترین بُرائی شادیوں کے نام پر بے جا اسراف اور فضول خرچی ہے ، شادی بیاہ کی موجودہ صورت حال دیکھ کر کسی صاحب دل بزرگ نے بڑی عجیب بات ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ ’’بخدا! خدا تعالیٰ کفر کو تو برداشت کر تا ہے مگر اپنے محبوب کی توہین سنت ہر گز بر داشت نہیں کر تا‘‘ ، شادی بیاہ جو عظیم سنت ہے اس کا سہارا لے کر جس طرح سنت کو پامال کیا جا رہا ہے اور بے خوف شریعت اسلامی کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہاہے اسی کی نحوست ہے کہ آج بیشتر مسلم گھرانے انتشار کا شکار ہیں ،ان کا سکون وچین غارت ہو چکا ہے ،اولاد ماں باپ کی نافرمانی کر نے لگیں ہیں اور معاشرہ بے سمت دوڑنے لگا ہے ،یقینا خیر امت ہونے کے ناطے ایسے حالات میں امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور خاص کر امت کا وہ طبقہ جنہیں امت مسلمہ کا مقتدیٰ کہا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں فکر کریں اور اپنی حیثیت وصلاحیت کے مطابق امت کو شادی بیاہ کے معاملہ میں توجہ دلائیں بلکہ ایسے شادیوں اور تقریبات کا بائکاٹ کریں جہاں شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہے ،خلاف شرع امور انجام دئے جاتے ہیں ، فضول خرچی اور تفاخر سے کام لیا جاتا ہے اور سنت کی توہین کی جاتی ہے،قوم کے دینی رہبر ورہنما ؤں کا ایسی محفلوں میں شریک ہونا ان کے عمل قبیح کی تائید کے مترادف ہے ،چاہے میزبان اہل تعلق اور اہل قرابت ہی کیوں نہ ہو، فقہائے کرام نے خصوصاً دینی رہنماؤں کو اس میں شریک ہونے سے منع کیا ہے ، بسااقات شادی بیاہ کی ایسی تقریبات کے بارے میں جان کر بڑا دکھ ہوتا ہے جہاں علانیہ طورپر شرعی احکامات نظر انداز کئے جاتے ہیں اور بڑے زور وشور کے ساتھ فخر ومباحات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ان میں دینی رہنما بڑی بشاشت کے ساتھ مسکراہٹ بھکیر تے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی موجود گی کے ذریعہ گویا اس عمل پر مہر لگاتے ہیں ،اگر ایسے موقع پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو پھر بھلا اور کہاں کریں گے ، منکر پر نکیر یہاں نہیں تو کہاں کریں گے ، مصلحتوں کے خول سے نکل کر حقیقت کا اظہار بہت ضروری ہے، یقینا وہ حضرات لائق تحسین ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں جو مالی حیثیت رکھنے کے باوجود شریعت وسنت کے مطابق سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کی تقریباتانجام دیتے ہیں ،بلاشبہ دور حاضر کی یہ ایک عظیم خدمت ہے ،مالداروں کی سادگی دیکھ کر متوسط اور اس سے بھی کم طبقہ والے لوگ اپنے بچوں کی شادیوں کو سادگی سے انجام دینے کی طرف مائل ہوں گے ، نیز دیندار حضرات اس جانب مسلسل توجہ دلاتے رہیں تو امید ہے کہ ان کی کوشش رنگ لائیں گی اور معاشرہ کو اس مہلک بیماری سے نجات حاصل ہوگی ،یاد رکھیں دین اسلام سادگی کا علمبرادر ہے اور نبی اکرمؐ کی پوری حیات طیبہ سادگی سے عبارت ہے اور یہی ہماری شان بان اور اسی میں ہماری عزت و عظمت پوشیدہ ہے ؎ ؎
فاخرہ پیرہن عروسی آہ!

سادگی حُسنِ دین احمد ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×