سیاسی و سماجی

’’یوم عاشقان یوم بے حیائی‘‘

اہل مغرب نے تہذیب جدید کے نام پر سال کے مخصوص دنوں کی مخصوص تاریخوں کو کسی خاص شخصیت یا پھر کسی خاص کام کی طرف منسوب کرکے اسے بطور یاد گار منانے کا عوام میں رواج ڈ الا ہے ، یہ مغرب سے نکل کر شمال ،جنوب اور پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، لوگ اسے اپناکر خود کو مغرب کا پرستار ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،وہ آنکھیں بند کرکے مغرب کی تقلید کرنے لگے ہیں اور اس پر فخر محسوس کررہے ہیں ،انہوں نے تہذیب جدید کا اسے نام دیا ہے ،اسے نہ اپنانے والے کو وہ دقیانوسی خیالات سے تعبیر کرتے ہیں ، ان خاص دنوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اسکولس ،کالجس اور دیگر اداروں میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ،بڑے چھوٹے سب اس میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے ذریعہ اس کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان مخصوص دنوں کے ذریعہ جہاں عمدہ ٹائٹل دے کر اس سے اچھاپیغام دینا چاہتے ہیں گرچہ اس طرح ترکیب سے معاشرہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ اچھی چیز کو محدود کرنے سے وہ فروغ نہیں پاتی بلکہ صرف ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے ، پھر اس سے لوگ رسم ہی کی طرح انجام دیتے ہیں ،ان میں سے بعض مخصوص دن اور تاریخ ایسے ہیں جن کے ذریعہ عوام الناس میں مثبت پیغام جانے کے بجائے منفی پیغام جارہا ہے ، لوگ اس کے منفی اثرات سے بے خبر ہوکر بڑے شور وزور کے ساتھ اسے منارہے ہیں یوں اپنے ہاتھوں سے منفی پیغام عام کر رہے ہیں ، اپنی تہذیب اور مہذب معاشرہ کا جنازہ نکال رہے ہیں ،انہیںمخصوص دنوں میں سے ایک یوم عاشقان بھی ہے جسے یوم بے حیائی کہنا زیادہ مناسب ہوگا ،یوم عاشقان درحقیقت ناجائز محبتوں کے فروغ کا دن ہے۔
یہ چودہ(۱۴) فروری کو منایا جاتا ہے ، پوری دنیا یوم عاشقان اور یوم تجدید محبت (VALLENTINE’SDAY ) بڑی دھوم دھام سے مناتی ہے ، نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو سرخ گلاب پیش کرتے ہیں ، تحفے وتحائف کے ذریعہ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کر تے ہیں، ہوٹلوں میں رقص وسرور کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ، نوجوان لڑکے لڑکیاں پارکوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں باہوں میں باہیں ڈال کر بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں، ویلنٹائن ڈے کی ابتدا کیسے، کب اور کہاں ہوئی اس کے متعلق بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں ،بعض تاریخ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ رومی عیسائیوں کے خوشی منانے کا ایک خاص دن ہے ، اس دن وہ تمام اخلاقی حدوں کو پارکرکے خوشی مناتے ہیں اوربعضوں کا کہنا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک پادری تھا جسے ایک راہبہ سے محبت ہوگئی تھی ،چونکہ ان کے مذہب کی رو سے ان دونوں کی شادی ممکن نہیں تھی چنانچہ اس پادری نے ایک من گھڑت خواب کا سہارا لے کر آپسی ملاپ کی راہ نکالی ، لیکن کلیسا کے اصولوں کے توڑ نے کے جرم میں اسے قتل کر دیا گیا ،اس کے بعد سے کچھ عاشق مزاجوں نے مل کر اس دن کو شہید محبت کا نام دے کر منانا شروع کیا، جن کے مزاجوں میں بے حیائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ،جو حرص وہوس کے پجاری تھے،جن کے تن من میں آوارگی پڑی ہوئی تھی اور جو حرام لزتوں کے عادی تھے انہیں تو گویا ایک موقع ہاتھ لگ گیا ،انہوں نے نہ صرف اسے دھوم دھام سے منانا شروع کیا بلکہ اسے فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، پھر کیا تھا دھیرے دھیرے یہ سلسلہ پھلتا اور پھیلتا گیا اور آج اس نام ونہاد مذہب معاشرہ میں اسے بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ، ویلنٹائن ڈے یوم محبت نہیں بلکہ حقیقت نگاہی سے دیکھا جائے تو یہ یومِ بے حیائی ہے ، اس بے حیائی کے دن کو کل تک صرف مغربی ملکوں میں ہی منایا جاتا تھا افسوس کہ یہ بے حیائی وبے شرمی مغرب سے نکل کر ہمارے یہاں بھی پہنچ چکی ہے، بلکہ معاشرہ کا حصہ بنتی جارہی ہے،کسی زمانہ میں ہمارے معاشرہ میں بزرگوں کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا،نظریں ملا کر دیکھنا ،بلند آواز سے ہنسنا اور گھر کے بڑوں کے سامنے میاں بیوی کا آپس میں بے تکلف بات کرنا معیوب اور تہذیب سے عاری سمجھا جاتا تھا،آج اسی معاشرہ کے نوجوان بڑے چھوٹوں کا لحاظ کئے بغیر اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے کھلے عام عشق ومحبت اور بے حیائی وبے شرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں،تیرہ فروری کی شب سے ہی فون ،واٹس اپ اور فیس بک پر محبت کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، چودہ فروری کی صبح چوراہوں پر پھولوں اور تحائف کے اسٹال سجائے جاتے ہیں ،جہاں بڑی بے حیائی کے ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیاں خریداری میں مصروف ہوتے ہیں ، ہمارے ملک کے بعض شہر اور ان کے بعض علاقے تو یورپ کے بعض شہروں کو بھی مات دے چکے ہیں ، جس نوجوان نے کبھی اپنے ماں باپ ،بھائی بہن ، بڑے بزرگ اور قرابت داروں سے اس طرح محبت کا اظہار نہ کیا تھا ، آج وہی بڑی بے غیرتی کے ساتھ غیر محرم اور اجنبیوں سے اظہار محبت میں پیش پیش ہے،یہ سب کچھ اگر غیر کرتے تو غم نہ تھا لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس طرح کے بے ہودہ ، بے شرم اور اخلاق سوز تہذیب سے عاری اور غیر اسلامی کاموں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد بھی شریک ہے، ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں تہذیب اسلامی کو چھوڑ کر ،تعلیمات نبویؐ سے منہ موڑ کر نہایت بے شرمی کے ساتھ اس طرح کی بے ہودہ ،اخلاق سوز تقریبات میں شریک ہورہے ہیں اور اسے اپنے لئے باعث فخر تصور کر رہے ہیں، حلانکہ ان کی عزت وعظمت اسلام سے وابستہ ہونے اور اسلامی تہذیب کو گلے لگانے میں ہے ،مسلمان اپنے پاس تہذیب رکھتا ہے کہ اُسے پھر کسی تہذیب کی ضرورت نہیں ،وہ کسی کی تہذیب وتمدن سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اپنی تہذیب وتمدن سے ضرور دوسروں کو متاثر کرتا ہے،مگر رونا اس بات کا ہے کہ مسلمان خود اپنی تہذیب وتمدن سے نا آشنا ہے،نہ اسے خدا کا حکم یاد ہے ،نہ رسول خدا ؐ کی تعلیمات یا د ہیں اور نہ ہی اسلامی تہذیب سے واقفیت ہے، اسلامی تہذیب وہ شائستہ تہذیب ہے جس نے پوری دنیا پر اپنی الگ چھاپ چھوڑی ، جسے گلے لگا نا باعث صد افتخار سمجھاگیا ، نہایت قلیل عرصہ میں اسلامی تہذیب نے پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا، اسی تہذیب میں لپٹ کر بے بہت سے قبائل کو عزت وعظمت حاصل ہوئی اور بہت سی قوموں کو بلندی عطا ہوئی، جب سے مسلمانوں نے اس لباس کو نکال دیا تب سے وہ ننگے نظر آنے لگے ہیں ،ان کی شناخت مٹ چکی ہے وہ مغربی تہذیب کا لبادہ اوڑھ کر ان کی تہذیب وتمدن اپناکر ذلیل وخوار ہورہے ہیں ، تاریخ گواہ ہے کہ جس وقت عرب کے صحراؤں میں اسلام آفتاب ہدایت بن کر طلوع ہوا تو اس کے نور سے سارا عالم جگ مگا اُٹھا ، دربدر بھٹکنے والے انسانوںکے لئے اسلام سایہ ٔ عافیت بن گیا اور اس کی آب حیات تعلیمات سے پژ مردہ انسانیت کو حیات نو حاصل ہوئی ،وہ آیا اور آتے ہی ساری دنیا پر چھاگیا ، اس نے ظلم کا قلع قمع کیا،بد امنی کا خاتمہ کیا،تعصبیت کی جڑوں کاٹ کر رکھ دیا ، بے حیائی اور آوارگی کو پیروں تلے روند ڈالا ، انسانوں کو جینے کا انداز بتایا اور زندگی گزار نے کا سلیقہ عطا کیا ،اس نے انسانوں کو ایسی لاجواب اور مہذب تہذیب عطا کی جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ، انسانوں کو انسانیت واخلاق ، تمیز وشرافت اور عزت وعظمت کی تعلیم دی اور درندگی وحیوانیت ،بدتمیزی وبد اخلاقی اور بے حیائی وآوار گی سے بچنے کی تلقین کی،اللہ کے آخری رسول ،انسانیت کے محسن ،دوعالم کے رحمت اور انسانوں میں سب سے ا علیٰ اخلاق وکردار کے حامل حضرت محمد مصطفی ؐ نے اپنے اقوال وافعال اور اپنے عادات وخصائل کے ذریعہ انسانوں کے سامنے ایسے بلند وبالا اخلاق پیش کئے جس کی رہتی دنیا تک نظیر ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،آپؐ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ انسانوں کو جہاں توحید ورسالت ،عبادات ومعاملات کی تعلیم دی وہیں اچھے اخلاق وکردار اپنا نے کی عملی تربیت بھی دی ، شرم و حیا کو ایمان کا جزو قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح فرمادیا ،ارشاد فرمایا ’’ حیا ایمان کا جزو ہے‘‘ (ترمذی :۲۱۵) دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا’’حیا اور ایمان ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھایا گیا تودوسرا بھی اٹھایا گیا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ :۲۳۵۰) یعنی جس شخص میں حیا کی صفت موجود ہے تو اس میں ایمانی کیفیت بھی باقی ہے اور جس میں حیا نہیں تو اس میں کا مل ایمان بھی نہیں ، دراصل’’ حیا‘‘ شریعت کی اصطلاح میں انسانی طبیعت کی اس کیفیت کانام ہے جس سے ہر نامناسب اور ہر ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض ہو اور اس کے ارتکاب سے اذیت ہو جو درحقیقت ایمان کا تقاضہ ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف ہے، اسلام میں جہاں حیا کو ایمان اور نیکی کا درجہ حاصل ہے وہیں بے حیائی ،آوارگی کو نافرمانی اور گناہ کہا گیا ہے ، جو شخص حیا وایمان سے متصف ہوگا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا اور جس میں بے حیائی اور آوارگی پائی جائے گی وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہوکر جہنم میں داخل ہوگا ،آپ ؐ کاارشاد ہے کہ ’’ حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان (اہل ایمان) جنت میں ہیں ،اور بے حیائی بدی میں سے ہے اور بدی(والے) جہنمی ہیں‘‘ (ترمذی :۲۰۰۹ ، کہا وت مشہور ہے کہ چیونٹی کے پَر نکلنا اس کی موت کی نشانی ہے ٹھیک اسی طرح کسی قوم کا بے حیا ہوجانا ،اس کے اخلاق کا زوال پذیر ہوجانا اس کی تباہی وبربادی کی علامت ہے، بے حیائی وبے شرمی موجب عذاب وعتاب ہے ،جن اسباب وعلل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ قوموں پر اپنا عذاب اتار تا ہے ان میں سے ایک بے حیائی بھی ہے ،چنانچہ جب وہ کسی قوم کو ہلاک وتباہ کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس سے حیا کی صفت ہٹا لیتا ہے اس کے بعد اس پر اپنے عذاب
کا کوڑا برساتا ہے ، آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے حیا کی صفت چھین لیتا ہے‘‘ (ابن ماجہ:۴۰۵۴)، اسلام کے اس قدر واضح احکامات اور پیغمبر اسلام کی اس درجہ پاکیزہ تعلیمات کے بعد کوئی بد بخت ہی ہوگا جو اس سے انحراف کرتے ہوئے اور اس کی تہذیب سے منہ موڑتے ہوئے غیروں کے طریقے پر زندگی گزارنے کی جرأت کرتا ہوگا، مسلمان جان لیں کہ وہ پابند شریعت قوم ہے ،وہ صرف خدا کے حکم اور رسولِ خدا ؐ ہی کے طریقے کی پابند ہے ،اسلامی تہذیب سے ہٹ کر اس کی نظر میں کسی اور کی تہذیب ناقابل قبول ہے ۔
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×