سیاسی و سماجی

میرے اَجداد کی حکمرانی تو دیکھ!

دنیا میں انسانوں کے آباد ہونے کے بعد سے لے کر آج تک نہ جانے کتنی ہزار صدیاں گزر گئیں ہوں گی اور نہ جانے مشرق ومغرب میں کتنے حکمرانوں نے حکمرانی کی ہوگی مگر ان میں سے چند ایک ہی ایسے حکمران ہیں جن کی حکمرانی کے چند ایک واقعات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور ان میں سے بھی بعض حکمران وہ ہیں جن کی حکمرانی کے واقعات کی صد فیصد تصدیق کرنا مشکل ہے،ان حکمرانوں میں بعض وہ تھے جنہوں نے لوگوں کے جسموں پر حکومت کی تھی یعنی حکومت واقتدار کے نشے میں چور ہوکر لوگوں پر ظلم ستم ڈھایا تھا اور عوامی املاک کا ناجائز استعمال کرکے عیش وعشرت کی زندگی گزاری تھی ، لوگ ان کی حکمرانی سے تنگ آچکے تھے ،بچہ، بڑا، پیر وجوان ہر کوئی ڈر وخوف کے ماحول میں جیتا تھا،کسی کو لب کُشائی کی اجازت تک نہ تھی ،حکمران عارضی اقتدار کو دائمی سمجھ بیٹھے تھے بلکہ اپنے طرز عمل سے خدا بن بیٹھے تھے، آخر کار ان کا انجام بھی بہت بُرا ہوا،وہ رہتی دنیا تک کے لئے عبرت کا نشان بن کر رہ گئے ،اور بعض حکمران وہ تھے جنہوں نے لوگوں کی دلوں پر بادشاہت کی تھی ،اپنی حکومت و کرسی کو شخصی جاگیر نہیں بلکہ امانت سمجھ کر بھر پور امانت داری کا مظاہرہ کیا تھا ، وہ اپنی رعایا کے ساتھ افراد خاندان جیسا برتاؤ کرتے تھے ،جس طرح ایک چرواہا اپنے بکریوں کی حفاظت کرتا ہے وہ اس طرح اپنی رعایا کی دیکھ بھال کرتے تھے ،ان کے دور حکومت میں ہر طرف امن ومان تھا ،شادابی تھی اور لوگ خیر وبرکت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے ،وہ جب تک رہے رعایا نے انہیں پلکوں پر بٹھائے رکھا اور جس وقت وہ دنیا سے رخصت ہوئے عوام کے ساتھ زمین وآسمان بھی ان کے غم میں شریک رہے ۔
بلاشبہ اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے اس کے فرزندوں نے اپنے اپنے دور میں ایسی حکومتیں کیں اور عوام کی اس درجہ خدمت کی جس کی تاریخ میں کوئی نظیر ومثال نہیں ہے، ان عظیم حکمرانوں میں سب سے اوپر خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کا نام درج ہے ،چودہ صدی گزرنے کے بعد بھی پوری دنیا میں اور بڑے بڑے ایوانوں میں ان کی طرز حکمرانی کے چرچے ہیں ،اپنے تو اپنے غیر بھی ان کی حکمرانی کے معترف ہیں ، حکمرانی کے گر سکھانے والوں نے عمدہ حکمرانی کے لئے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط و مربوط ،مستحکم ومنظم ، پُر امن اور خشحال حکومت کے لئے عظیم وباکمال اور لائق صد احترام شخصیت محمد ؐ کے دونوں ساتھیوں کی حکومتوں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ،ان کے دور حکومت کا مطالعہ کئے بغیر اور ان کے نقش قدم پر چلے بنا بہترین اور خوشحال حکومت کا تصور محال ہے ،چنانچہ بابائے قوم مہاتما گاندھی جو عدم تشدد کے زبر دست حامی تھے بلکہ انسانیت نواز اور پیار ومحبت کے سچے علمبردار تھے انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد جب یہاں جمہوری حکومت کاقیام عمل میں آیا تو اس وقت پہلی وزارتی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سی اہم ترین باتیں کہی تھیں اس میں حکمران کو توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ حضرت ابوبکر کا دور حکومت اور حضرت عمر ؓ کی حکمرانی بہترین مثالی ہے ،ہم اس سے رہنمائی لے سکتے ہیں ،اس کے برعکس ہمارے پاس رام وغیرہ کی حکمرانی کی جو مثالیں ہیں ،کیا کریں ،وہ سب طلسماتی ہیں ،شخصیات بھی طلسماتی ہیں جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ‘‘، ان الفاظ کے ذریعہ مہاتما گاندھی نے گویا حکمرانوں کو نصیحت نہیں بلکہ وصیت کی تھی کہ اگر کامیاب حکومت چاہتے ہو ،خوشحال عوامی زندگی کے خواہش مند ہو اور ملک کی ترقی کے علمبردار ہو تو تم کو محدود سوچ کے خول سے باہر نکل کر ان شخصیات کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے ،انہوں نے اپنے کو عوام کا حاکم نہیں بلکہ خادم سمجھاتھا ،ملک کی املاک کے وہ مالک نہیں امین تھے ،رعایا کے ساتھ ان کا برتاؤ اولاد جیسا تھا،عدل وانصاف ان کی پیشانی سے جھلکتا تھا، ان کی سادگی اور تواضع پر تو قربان ہوجانے کو دل چاہتا ہے ،جب حکمران ایسے ہوتے ہیں تو کوئی اور نہیں بلکہ عوام ہی ان کی محافظ ہوتی ہے ۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت سیدنا عمر فاروقؓ دونوں جلیل القدر ،عظیم المرتبت اور نہایت بزرگ ترین شخصیات کو اسلامی تاریخ میں ’’ شیخین ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا دور خلافت مختصر ترین رہا یعنی دوسال چند ماہ پر مشتمل ،مگر اخلاص وللہیت ،خوف خدا اور جس عزم وحوصلہ ،قوت ارادی اور بروقت فیصلہ کے ذریعہ حکومت کے جو کام انجام دئیے اس کے اظہار کے لئے بڑے بڑے الفاظ بھی چھوٹے معلوم ہوتے ہیں ،دنیا کے حکمرانوں کو ضرور اس کا مطالعہ کر نا چاہیے ، رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد آپ ؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا تو دوسرے دن مسجد نبوی تشریف لائے اور ممبر پر بیٹھ کر لوگوں سے بیعت عامہ لی ،اس کے بعد کھڑے ہوکر اللہ کی حمد وثنا بیان کی،پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اے لوگو! میں تمہارا حاکم بنادیا گیاہوں ، ( نہایت تواضع کے ساتھ فرمایا) حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں ،اگر میں ٹھیک ٹھیک رہوں تو میری مدد کرو اور اگر بُری راہ اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو، ( یاد رکھو)سچ امانت(ہے) اور جھوٹ خیانت ہے ،اور تم میں سے جو کمزور ہے ،وہ میرے نزدیک قوی ہے ،جب تک میں اس کا حق اسے نہ دلوادوں ،اور قوی میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق واپس نہ لے لوں ،کوئی شخص جہاد ترک نہیں کرے گا ،کیونکہ اللہ جہاد ترک کرنے والوں پر ذلت ڈال دیتا ہے ،تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ کی اور رسول اللہ ؐ کی اطاعت کرتا رہوں ،اور جب نافرمانی کرنے لگوں تو میری اطاعت نہ کرو ،اچھا اب نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ اللہ تم پر رحم فرمائے ‘‘،آپ ؓ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ،خلافت کی ذمہ داری کے بعد چونکہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے تھے اس لئے سیدنا عمر فاروق ؓ کے مشورہ پر بیت المال سے گھر کے اخرجات کے لئے وظیفہ مقرر ہوا جو اوسط درجہ کے مہاجر کی ضروریات کو کفایت کر سکتا تھا ، نہایت سادہ لباس اور سادہ غذا پر قناعت کرتے تھے ،تکلفا ت سے پاک تھے ،وفات سے قبل ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا ’’ جب سے خلافت کا بوجھ میرے کندھوں پر پڑا ہے میں نہایت معمولی غذا اور موٹے کپڑے پر قانع رہا ہوں ،اس وقت میرے پاس ایک حبشی غلام ،ایک اونٹ اور ایک پُرانی چادر کے سوا بیت المال کی کوئی چیز نہیں ،میرے بعد یہ چیزیں عمر بن خطاب ؓ کے حوالے کر دینا‘‘، آپ ؓمسند خلافت پر متمکن ہونے اور دن بھر حکومت کے کام کاج میں مصروف رہنے کے باوجود ضرورت مندوں کی ضرورریات پوری فرماتے تھے ،حاجت مندوں کی حاجت کی تکمیل کرتے تھے اور ساتھ ہی کمزور اوربے سہاراؤں کی خدمت بھی کیا کرتے تھے ،چنانچہ ابن عساکر ؒ نے ابوصالح سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ ایک نابینا عجوزہ ( بوڑھیا) کا جو مدینہ کے قرب وجوار میں رہتی تھی رات کو پانی بھر دیا کرتے تھے اور دوسرے تمام کام کر دیا کرتے تھے اور اس کی پوری پوری خبر گیری کرتے تھے ،ایک روز جب آپ ؓ اس کے یہاں تشریف لے گئے تو اس کے روز مرہ کے تمام کام نپٹے ہوئے پائے اور پھر تو روز کا یہ معمول بن گیا کہ آپ ؓ کے پہنچنے سے پہلے اس کے تمام کام کوئی شخص کر جاتا تھا ،اس بات سے حضرت عمر ؓ کو بہت حیرت ہوئی ،آپ ؓ اس کی کھوج میں لگ گئے ،ایک دن دیکھا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں اور یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آپ خلیفۃ الرسول تھے ،آپ کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے کہا اپنی جان کی قسم یہ آپ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے‘‘۔
اسلام کی دوسری عظیم شخصیت جس نے حکومت کرکے ایک مثال قائم کردی اور حکمرانی کے ایسے ان منٹ نقوش چھوڑے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ،وہ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ہیں ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد آپؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور نہایت قلیل مدت میں اسلامی ریاست کو دور دور تک پھیلادیا، بڑے بڑے شہر اور ممالک فتح ہوکر ا سلام کے زیر حکومت آئے ،شام ،مصر ،عراق ،آذربائیجان ،فارس اور ایران ، تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ نے کل دس سال چار ماہ چند دن مسند خلافت پر فائز رہے اور اتنے عرصہ میں ۲۲۵۱۰۳۰ مربع میل علاقہ پر اسلامی حکومت قائم تھی،اتنے بڑے علاقہ کا خلیفہ اور حکمران مگر طرز زندگی انتہائی سادہ ، اپنی رعایا کی مکمل خبر گیری فرماتے تھے ، ان کے حالات سے واقفیت کے لئے راتوں میں گشت لگایا کرتے تھے ، آپ ؓ کے زمانے میںعدل وانصاف وامن وامان کی حکمرانی تھی ، مظلوم کو انصاف دلانے تک آپ ؓ چین نہیں پاتے تھے ،آپ ؓ کی دور خلافت کو بطور مثال پیش کرنے پر دشمن بھی مجبور ہیں،سیدنا عمر فاروقؓ خلیفہ بننے کے بعد بھی وہی طرز عمل اختیار کیا جو سیدنا ابوبکر ؓ کا تھا، بیت المال (حکومت کے خزانے) سے بقدر ضرورت ہی لیا کرتے تھے ، چنانچہ ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن آپ ؓ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک باندی گزری ،بعض نے کہا یہ کس کی ہے ،یہ سن کر سیدنا عمر ؓ نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے ،میرے لئے تو صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا سردی کا، اور اوسط درجہ کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے ،باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے ‘‘، سیدنا عمر فاروق ؓ کا سب سے نمایا وصف عدل وانصاف اور رعایا کی خبر گیری تھا ،جہاں کہیں ظلم وزیادتی دیکھتے تھے فوراً ظالم کو اس کی سزا دیتے تھے اور مظلوم کو انصاف دلاتے تھے ، انصاف کے معاملہ میں بڑے سخت تھے ،ہر گز رعایت سے کام نہ لیتے تھے ،چاہے غلطی کرنے والا بڑے درجہ کا کیوں نہ ہو، اسے برابر سزا دیتے تھے ،غسان کے حکمران جبلہ بن الایھم کا واقعہ عدل فاروقی کی عظیم مثال ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ؓ کے نزدیک آقا وغلام بادشاہ وگدا میں فرق نہ تھا ،ابن الایھم نے دوران طواف ایک بدو کو تھپڑ مارا وہ امیر المومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا ،آپ ؓ نے فرمایا کہ ابن الایھم کو پکڑ کر بدو کے حوالے کیا جائے اور وہ اس کے منہ پر اسی طرح تھپڑ رسید کرے جس طرح اس نے مارا تھا ،ایک بار مدینہ میں گشت کر رہے تھے کہ بچوں کے رونے کی آواز سنی ،تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر میں فاقے ہیں اور تین دن سے بچے بھوکے ہیں اور ماں ان کو بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں چمچ پھیر رہی ہے ،آپ ؓ فوراً واپس آئے بیت المال سے آٹا ،گھی ،گوشت اور کھجوریں لیں اور اپنی پیٹھ پر اٹھا کر خود ان کے گھر پہنچے اور عورت سے کہا کہ کھانا پکاکر بچوں کو کھلاو ٔ جب تک بچوں نے کھانا نہ کھالیا آپ ؓ وہی بیٹھے رہے ،عورت اس حسن سلوک سے بہت خوش ہوئی ،وہ چونکہ آپ ؓ کو نہیں پہچانتی تھیں اس لئے اس نے کہا کہ’’ امیر المؤمنین ہونے کے مستحق آپ ہیں نہ کے عمر‘ ‘ ۔
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور حکمرانی اور ان کا عدل وانصاف ، خزانے کی حفاظت ، اس کا صحیح استعمال ،بنیادی ضروریات کا خیال ،کشادہ ذہنی ،خدمت کے جذبات سے سرشار ،تمام رعا کے ساتھ مساوات وبرابری اور ضرورت مندوں کی ضرورریات کا بھر پور خیال ،یہ وہ چیزیں ہیں جسے اپنا کر ہی حاکم حقیقی معنی میں حاکم کہلانے کے مستحق بن سکتے ہیں ،ورنہ تو یہ حاکم نہیں بلکہ ظالم کہلائے جائیں گے ، یہ حقیقت ہے کہ رعا یامیں سے کسی کی غلطی اس کی شخصیت تک محدود ہوتی ہے مگر حکمرانوں کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ بساواقات اس کا خسارہ آئندہ نسلوں کو بھی جھیلنا پڑتا ہے ،دنیا کے حکمران اسلام کے ان عظیم فرزندوں کی زندگی اور ان کے طرز حکومت کا گہرائی سے مطالعہ کریں ،اسے نافذ کرکے دیکھیں سالوں نہیں بلکہ مہینوں میں ایک انقلاب برپا ہو تا نظر آئے گا اور رعایاکو وہ خوشی میسر ہوگی جس کا انہیں برسہا برس سے انتظار ہے ، ملک کی موجودہ حکومت اور حکمران وقت کو ان عظیم ہستیوں کے حالات زندگی اور عدل وانصاف پر مبنی طرز حکومت سے واقف ہونے کی اشد ضرورت ہے ،کوئی ہے جو انہیں بتائے کہ اس قدر زبردست اور طاقتور حکومت کرنے کے باوجود انہوں نے عوام اور اپنی رعایا کی کیسی خدمت کی تھی اور خود دھوپ کی سختی برداشت کرکے اپنی رعایا کو کس طرح سکون وچین کی چھاؤں میں رکھاتھا،انہوں نے کبھی بھی رنگ ونسل ،ذات بات اور چھوٹے بڑے کے درمیان فرق نہیں کیا تھا ،ان کے پاس چھوت اچھوت کوئی چیز نہیں تھی ،مگر موجودہ حکومت تعصبیت اور مذہب وملت کے دلدل میں دہستی جارہی ہے ،اس کے فیصلے اور عوام مخالف ومتنازعہ بل بتارہے ہیںکہ وہ کس قدر چھوٹے ذہن اور تنگ نظر ہیں ، ملک کا ہر بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے فیصلے جمہوریت اور عوامی مفادات کے سخت خلاف ہیں بلکہ ملک کی امن وسلامتی کے دشمن ہیں ، حالانکہ انہوں نے ہر انتخابات کے موقع پر بڑے زور وشور کے ساتھ زبانی الگ الگ نعرے تو لگائے تھے مگر ان کا طرز عمل بتارہا ہے وہ نعرے صرف نعروں کی حد تک ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،یہ مذہبی تعصبیت کی آگ میں عوام کو جلا کر اپنی سیاست کی روٹی سیکنا چاہتے ہیں اور بھولی بھالی ، معصوم عوام کے درمیان مذہبی دیوار کھڑی کرکے انہیں منتشر ،متفرق اور مصیبت میں ڈال کر خود عیش وعشرت کی زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں،یہ ملک پر ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ایک لمبے عرصے سے کوششیں کرتے آرہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کسی ایک کی جاگیر نہیں بلکہ سب کا مساوی حق ہے ،سبھوں نے مل کر اس کے لئے آزادی لڑائی لڑی تھی ،سبھوں کی قربانیوں سے یہ ملک آزاد ہوا تھا،اور پھر سبھوں کے اتفاق سے نظام جمہوریت قائم کیا گیا،کسی بھی بل کے ذریعہ ان کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانا باشندگان ہند کی توہین ہے ،وہ اسے کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے،عوام نے حکمرانوں کو بہتر حکمرانی کے لئے کرسی پر بٹھایا ہے نہ کہ ان پر ظلم کرنے کے لئے،تعجب ہے کہ عوام کے لئے فلاحی کام کرنے کے بجائے ان کے لئے عرصہ حیات ہی تنگ کیا جارہا ہے ، ان کی حد دھر می دیکھ کر ہٹلر کی یاد تازہ ہورہی ہے ،یہ اپنی اناکی خاطر لاکھوں شہریوں کے جذبات مجروح کر رہے ہیں ،بلکہ انصاف کے نام پر ظلم کا بازار گرم کر رہے ہیں ،انہیں اوروں کی تو فکر ہے مگر لگتا ہے اپنوں سے بیر ہے ، یہ ایوان میں بیٹھ کر اسی کے قانون کا مذاق اُڑارہے ہیں ، یہ جھوٹ میں تو ماہر ہیں مگر عوامی فلاح وبہبود میں صفر ہیں جس کا بین ثبوت ملک کی معیشت کی گرواٹ ہے ،یہ جھوٹ بول کر تو پھیلا سکتے ہیں لیکن حق کی آواز کو دبا نہیں سکتے ،جس کا ثبوت ملک کے کونے کونے میں منعقد ہونے والے احتجاجی جلسے وجلسوس ہیں جس میں سبھی باشندگان شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں ،بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ کا نعرہ دینے والوں کے قول وفعل میں واضح تضاد نظر آرہا ہے ،یہ شاید آزادی کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ صنف نازک اتنی کثیر تعداد میں حق کا علم لے کر اٹھی ہیں ،افسوس تو اس بات پر ہے کہ جن کے پاس بیٹی کو لکشمی کا درجہ دیا جاتا ہے وہی لوگ بیٹیوں کی توہین میں مصروف ہیں ،ان معصوم خواتین پر بے جا الزامات لگائے جارہے ہیں ، منظم اور پُرامن احتجاج کرنے والیوں کے متعلق ایسے نازیبا جملے استعمال کر رہے ہیں اور وہ بھی موجودہ حکومت کے بڑے لیڈران جسے سن کر شرم محسوس ہو رہی ہے ، عجیب بات ہے کہ حکمران تو حکومت اور اس کے دستور کے محافظ ہوتے ہیں مگر ان کا معاملہ اس کے برعکس ہے ،اس کے پاس دستور بچانے والے اور اس کی حفاظت کا عہد کرنے والے تو مجرم ہیں مگر سرعام قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے معصوم ہیں ، حکومت کی کرسی بیٹھنا تو بہت آسان ہے مگر عدل وانصاف کے ساتھ نظم چلانا بہت مشکل ہے اس کے لئے کشادہ دلی ،رحم دلی ،محبت اور بڑے ظرف کی ضرورت ہے ،موجودہ حکومت کو عادل اور انصاف پرور بادشاہوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے اور اگر صحیح ڈھنگ سے حکومت چلانا ہے تو اسلام کے عظیم فرزندوں خصوصاً سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق ؓ کی طرز حکمرانی سے سبق لینا ہوگا ، یاد رکھیں حکومتوں پر فائز لوگ انسان ہیں اور ان کے پاس ایک محدود طاقت ہوتی ہے اور وہ بھی ایک وقت تک کے لئے ،مگر ان پر بھی ایک طاقت ہے جو حکمرانوں اور طاقتوں کی بھی مالک ہے،سب کچھ اسی کے ہاتھوں میں ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، حکومتیں غربت کے ساتھ تو چل سکتی ہیں مگر ظلم کے ساتھ نہیں ،کیونکہ اللہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اسے انصاف کرنے والے پسند ہیں اور ظلم کرنے والے سخت ناپسند ہیں ،نبی رحمت ؐ نے حکام کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ہر امیر کو اورحاکم کو چاہیے کہ وہ (صرف) دس آدمیوں پر ہی حکمران کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس طرح لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں ایک طوق ہوگا ،یہاں تک کہ اس کو اس طوق سے اس کا ( ماتحتوں سے کیا گیا) عدل وانصاف نجات دلائے گا پھر اس کا (ماتحتوں پر کیا گیا) ظلم اسے ہلاک وبرباد کر دے گا( مسنداحمد)۔
٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×