اسلامیات

تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو۔۔۔

ہجرت مدینہ کے بعد اسلام کی قوت اور مسلمانوں کی شوکت دن بدن اضافہ ہوتا گیا اور قبائل عرب جوق درجوق اسلام میں داخل ہوتے گئے ،یہ دیکھ کر دشمنانِ اسلام چراغ پاہونے لگے ، اور جنگ بدر میں ہزیمت ناک شکست اور جنگ احد میں مکمل کامیاب نہ ہونا یہ وہ چیزیں تھیں کہ جس کی وجہ سے حزن وملال میں ان کی راتوں کی نیندیں حرام اور دنوں کا سکون غائب ہوچکا تھا ، چنانچہ سربراہان مکہ سرجوڑ کر مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنے اور انکی اجتماعیت کو ختم کرنے کیلئے نت نئے پلان تیار کرنے لگے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر زمانہ میں باطل، طاغوتی ور فرعونی طاقتیں یہی کچھ کر تی آئی ہیں اور حق کو دبا نے اور اس کے ماننے والوں کو شکست سے دوچار کرنے کا خواب آنکھوں میں سجاتے رہے ہیں،یہی کچھ حال مکہ والوں کا بھی تھا ،وہ اسلام اور مسلمانوں کے خاتمہ کیلئے ہر طرح کی قیمت دینے کیلئے تیار تھے، ادھر مدینہ میں بنونظیر کی جلاوطنی کے بعد یہ بھی مسلمانوں پر حملے کیلئے بے تاب تھے ،ان کا سردار حُی ابن اخطب مکہ پہنچ کر وہاں کے سرداروں سے ملاقات کی اوران کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کا پلان تیار کیا ،اس کے بعد یہ سازشی غطفان پہنچا اور انہیں بھی آمادہ کر لیا کہ مدینہ پر حملہ کی صورت میں وہ انکا ساتھ دیں گے ، چنانچہ دشمنان اسلام پوری تیاری کے ساتھ ابوسفیان کی نگرانی میں دس ہزار کی جمعیت لے کر مدینہ النبی ؐ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے نکل پڑے ،جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ ؐ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا ، حضرت سلمان فارسی ؓنے خندق کھود نے کا مشورہ دیا چنانچہ سب کو یہ رائے بہت پسند آئی ، صحابہؓ نے خندق کھودنی شروع کی جس میں بنفس نفیس رسول اللہ ﷺ بھی شریک تھے،خندق کی کھدائی کے وقت کا منظر بھی بڑا عجیب تھا،صحابہؓ میں ایک عجیب طرح کا شوق وجذبہ تھا ،خندق کھود تے جا رہے ہیں اور جوش محبت میں ہم آواز ہوکر کہتے جا رہے ہیں :نحن الذین بایعوا محمدا٭علیٰ الاسلام مابقینا أبدا’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو محمدؐ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے،اور آپ کے واسطے سے اپنی جانوں کو خدا کے ہاتھ فروخت کر چکے ہیں ،جب تک جان میں جان رہے گی کافروں سے لڑتے رہیں گے،چھ دن میں خندق کھودی گئی چنانچہ اسی مناسبت سے اس کا نام ’’غزوہ ٔ خندق‘‘ رکھا گیا ، ادھر خندق کھودی گئی اُدھر قریش دس ہزار کا لشکر جرار لے کر مدینہ پہنچے،رسول اللہ ﷺ تین ہزار جانثاروں کے ساتھ کوہ سلع کے قریب جاکر ٹہرے ،مسلمانوں کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا گیا تھا اور ہر شخص مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا ،عجب آزمائش کا وقت تھا ،جاڑوں کی راتیں اور کئی کئی دن کا فاقہ،قرآن کریم میں اس کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:إِذۡ جَاؤُوکُم مِّن فَوۡقِکُمۡ وَمِنۡ أَسۡفَلَ مِنکُمۡ وَإِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَا رُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوبُ الۡحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّہِ الظُّنُونَا Oہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُونَ وَزُلۡزِلُوا زِلۡزَالاً شَدِیۡدا(احزاب ۹،۱۰)یاد کرو اس وقت کو جب دشمن تمہارے سر پر آپہنچے اور اوپر کی جانب سے بھی اور نیچے کی جانب سے بھی اور نگاہیں خیرہ ہوگئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور خدا کے ساتھ طرح طرح کے گمان کرنے لگے،اس موقع پر اہل ایمان کی خوب آزمائش ہوئی اور انہیں زبردست ہلا دیا گیا۔
تقریبا بیس دن سے زائد تک اس سختی سے محاصرہ قائم رہا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ پر تین تین دن فاقے گزرے، حضرات صحابہ ؓ نے کفار کی طرف سے حصار کی شدت اور سختی کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ سے دعا کی درخواست کی ،آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ :الھم استر عوراتناوآمن روعاتنا’’ اے اللہ ہمارے عیبوں کو چھپا اور ہمارے خوف کو دور فرما‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا قبول فرمائی اور دشمنوں پر ایک سخت ہوا مسلط کی جس سے ان کے تمام خیمے اُکھڑ گئے ،خیموں کی رسیاں ٹوٹ گئی ،ہانڈیاں اُلٹ گئی گرد وغبار اُڑکر آنکھوں میں بھر نے لگا جس سے کفار کا لشکر بد حواس ہوکر بھاگنے لگا ،سخت ترین ہوا اور طوفان نے فوجوں سے بڑھ کر کام کیا ،قرآن کریم میں مسلمانوں کی مدد ونصرت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِیۡنَ آمَنُوا اذۡکُرُوا نِعۡمَۃَ اللَّہِ عَلَیۡۡکُمۡ إِذۡ جَاء تۡکُمۡ جُنُودٌ فَأَرۡسَلۡنَا عَلَیۡۡہِمۡ رِیۡحاً وَجُنُوداً لَّمۡ تَرَوۡہَا (احزاب ۸)’’مسلمانو! خدا کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم پر فوجیں آپڑیں تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور وہ فوجیں بھیجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں۔
زمانہ نبوت سے لے کر خلافت راشدہ تک اور خلافت راشدہ سے لے کر آج تک ان چودہ صدیوں میںحق وباطل سیکڑوں مرتبہ آمنے سامنے ہوئے اور باطل پوری قوت سے حق کو مٹانے اور اُسے صفحہ ہستی سے بے نام ونشان کرنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ہر موڑ پر مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کیا اور اسلام کو عزت و سر بلندی عطاکی اور کفر وشرک اور طاغوتی طاقتوں کو بکھیر کر رکھ دیا اور وہ ناکامی وہزیمت سے دوچار ہو تے رہے ،سنت اللہ یہی ہے کہ حق وباطل کی کشمکش ہر زمانہ اور ہر دور میں چلتی رہے گی اور اس کے ذریعہ اہل ایمان کی جانچ پڑتال ہوتی رہے گی اور ان کے دلوں سے دنیا کی محبت اور مادیت کی ہوس نکال کر خدا اور رسول خداؐ کی محبت وعظمت کو بٹھایا جا تا رہے گا، باطل آلات جدیدہ سے لیس ہوکر حق کی حقانیت کو مٹانے ،اس کی صداقت کو بدنام کرنے اور اس کی شجاعت کو کمزور کرنے کیلئے ٹولیوں کی شکل میں آئے گا اور اسکی سچی اور اچھی تعلیمات کو کمزور کرنے بلکہ مٹانے کیلئے ہاتھ پیر مارتا رہے گا،ان حالات سے نمٹنے کیلئے مسلمانوں کو تعلیم دی گئی اور سکھایا گیا کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں ، دنیا پر دین کو ترجیح دیں، ظاہری اسباب ووسائل کو اختیار کریں ،خواب وغفلت سے سے بیدار رہیں ،مد مقابل کو کمزور نہ سمجھیں ،مایوس اور بد دل ہوکر نہ بیٹھیں ،مصلحتوں کے خول سے باہر نکل آئیں ،فروعی اور آپسی اختلافات کو پس پشت ڈالدیں ،امت بن کر اورجماعت کی شکل میں متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کریں اور خدا ئے واحد پر مکمل بھروسہ رکھیں کہ وہی ہمارا کارساز اور ہمارے لئے کافی ووافی ہے۔
ملکی اور عالمی حالات سے ہر کوئی واقف ہے ،کسی سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ پوری دنیا یکائی بن کر اسلام اور مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے در پر ہے ،ہمارے دور بین صفت اور نگاہ دل رکھنے والے علماء اور بزرگان دین نے بہت پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اور ان حالات کے لئے ہمیں ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تیار رہنے کی تلقین کی تھی ،مگر ہماری نادانی یا بے حسی کہیے یا پھر حددرجہ لاپرواہی کا نام دیجئے کہ ہم سوتے رہے یہاں تک کہ پانی ہمارے گلے تک آپہنچا جس سے ہمارے لئے سانس لینا مشکل ہوگیا ، اب ہم بیدار ہوکر ہاتھ پیر مارنے لگے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی بھی ہم میں سے بہت سے لوگ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور خود کو جھوٹی تسلی دے رہے ہیں ،درحقیقت یہ اس بلی کی طرح ہیں جو آنکھ بند کرکے دوسروں کے نہ دیکھنے کا خیال اپنے ذہن میں جماتی ہے ،حالانکہ تاریخ اسلام اور سیرت نبوی ؐ وسیرت صحابہ ؓ کے صفحات گواہ ہیں نیز نبوی ہدایات زبان حال سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی مدد و نصرت اور کامیابی وکامرانی کے لئے جدجہد ،حوصلہ مندی اور عمل پیہم کی ضرورت ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کی مدد خاص میدان عمل میں خود کو ڈالنے کے بعد آتی ہے نہ کہ خاموش تماشائی بن کر رہنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ، اپنی قوت وطاقت کے مطابق حالات سے مقابلہ کرنے اور پھر ذات واجب الوجود سے استعانت طلب کرنے سے آتی ہے ، میدان عمل میں گودے بغیر نہ کوئی کامیاب ہوا ہے اور نہ کوئی ہو سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ جدجہد کرتے ہوئے اور اپنے وسائل کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے خدا کو پکارنے اور اس کی نصرت پر یقین رکھے والے ہی یقینا مدد کے مستحق ہوتے ہیں اور کامیابی ان کے زیر سایہ ہوتی ہے ۔
ملک کے موجودہ حکمرانوں نے سی ،اے ،اے کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت پر حملہ کی جو کچھ ناپاک کوشش کی ہے اس سے ہر شہری اچھی طرح واقف ہے ، اس کے نقصانات سے مکمل آگاہ ہے اور کرب میں مبتلا ہے ،یہ ایکٹ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ظلم وناانصافی پر مبنی ہے بلکہ ملکی آئین اور اس کے دستور کے بھی خلاف ہے ،اس وقت پورا ملک اور اس میں بسنے والے سنجیدہ اور باشعور ،اعتدال پسند اور امن پسند شہری بے چین وبے قرار ہیں ، ابھی چند روز قبل اس متعصبانہ بل کو دونوں ایوانوں میں پاس کر دیا گیا ہے اور اس پر صدر جمہوریہ کی دستخط بھی ہوچکی ہے ،یہ شہریت ترمیمی بل دراصل ین ،آر ،سی کے نفاز اور اس کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہے ،اس بل کے پاس کر لئے جانے کے بعد سے مسلسل ملک کے مختلف شہروں میں بلالحاظ مذہب وملت عوام الناس جن میں مرد وعورتیں اور طلبہ وطالبات سب شامل ہیںسڑکوں پر نکل کر اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں ،یقینا اس بل کا نفاز ملکی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے ،کیونکہ دستور کی دفعہ ۱۴،۱۵،میں ریاستوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شہری کے ساتھ عدم مساوات کا سلوک نہ کرے ،افسوس تو اس بات پر ہے کہ جنہوں نے عوامی حمایت پر اور ان کے اوٹوں کے رحم وکرم پر ایوانوں میں داخل ہوئے تھے اور اس میں کھڑے ہوکر پوری عوام کے سامنے یہ حلف لیا تھا کہ وہ ملک کے دستور اور اس میں بسنے والی عوام کی مکمل حفاظت کریں گے ،مگر یہی محافظ آج پوری قوم کے سامنے مجرم بن کر کھڑے ہیں ،گر چہ اس مذموم بل سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اس کا نشانہ راست مسلمانوں کو بنایا گیا ہے مگر یہ ان تمام پاشندگان کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے جو اس ملک میں اقلیت میں ہیں ،دراصل یہ فیصلہ اکثریت اور اقلیت میں رہنے والوں کا نہیں ہے بلکہ ان متعصب اور ملک دشمن عناصر کا ہے جو ملک میں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں ،غیر دستوری قوانین کے نفاز کے ذریعہ امن وامان کی دھجیاں اڑارہے ہیں اور اپنے شیطانی عمل سے ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ بن بیٹھے ہیں ، ملکی عوام انہیں اچھی طرح جان چکی ہے اور ان کے من کے گھوٹ سے واقف ہو چکی ہے ،انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف آپس میں لڑاؤ اور اپنی کرسی بچاؤ کے سوا کچھ اور نہیں ہے ،چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الکڑانک میڈیا کے ذریعہ موثر احتجاج کی جو خبریں آرہی ہیں جن میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے ان کے متعصبانہ فیصلے سے ہر شہری نالاں ہے ،کانگرس کے ایک قد آور لیڈر نے اس غیر دستوری قانون کے نفاز اور اس پر عوام الناس کے در عمل پر بات کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی کہ جب عوامی احتجاج ایوانوں کے فیصلے کے خلاف ہوں تو بہت خطرناک ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے عوام اس فیصلہ کے خلاف اور اس کے نفاز کے سخت مخالف ہیں۔
ہندوستان جس کی آزادی کے لئے ہمارے آباواجداد نے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی ،اپنے گھروں کو چھوڑ کر میدان کار زار میں کود پڑے تھے ،دشمن کے توپوں سے چمٹ کر آزادی کا نعرہ لگایا تھا، پھانسی کے پھندوں کو چوم کر نغمہ آزادی گنگنایا تھا، بندوق کی گولیاں کھاکر آزادی کی بنیاد رکھی تھی اور اپنی گردنیں کٹا کر خون میں نہا کر ارض وطن کی آبیاری کی تھی اور پھر آزادی کے بعد سے آج تک وطن عزیز کی ترقی اور اس کی سر بلندی کے لئے مسلسل جد جہد کرتے رہے ہیں ،ہماری اپنے وطن سے محبت غیر معمولی اور مثالی ہے جسے کسی ترازو پر تولہ نہیں جاسکتا اور نہ کسی سے تصدیق کی ضرورت ہے ،ہم نے ملک کے لئے جانی ومالی قربانیاں اور مثالی خدمات پیش کی ہیں وہی ہماری سند اور اس سے بے پناہ محبت کی دلیل ہے ، ملک کے لئے ترقی کے میدان میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں بلکہ بڑے فخر کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ قدم بقدم بلکہ دوقدم آگے ہی رہے ،آج جب کہ ملک کے دستور کی حفاظت اور اس آئین کو بچاؤ کی ضرورت ہے ، باشندگان ہند کو آنے والے خطرات سے محفوظ رکھنا ہے اور گنگا جمنی تہذیب جو صدیوں سے اس کی شناخت رہی ہے اس کی حفاظت کرنا ہے اور مذہب وملت کی بنیاد پر تفریق کی سازش کو ناکام کرنا ہے تو اس کے لئے سب سے پہلے مسلمان ہی کو کمر بستہ ہونا ہوگا ،سی ،اے ،اے اور ین آر سی جو درحقیقت ملکی کے دستور کے خلاف ،باشندگان پر ایک طرح کا ظلم اور ان کی شہریت پر سوالیہ نشان ہے ،اس کے خلاف متحد ہوکر ،پُر زور انداز میں اور نہایت مؤثر طریقے پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے حکومت کی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو مجبور کرنا ہے کہ وہ اپنے من مانی ،متعصب ، خلاف دستور اور متنازعہ بل کو واپس لیں ،اگر ایسے موقع پر مسلمان متحد ہوکر اور دیگر برادران وطن کو ساتھ لے کر صدائے احتجاج بلند نہیں کریں گے اور ملک کی حفاظت اور اپنے حقوق کے لئے جد جہد نہیں کریں گے تو آنے والی نسل انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی ۔
اسلام عدل ومساوات کا علمبردار ہے ،امن وامان اور پیار ومحبت کی تعلیم دیتا ہے ، نبی رحمت حضرت محمد مصطفی ؐ نے اپنے ماننے والوں سے فرمایا کہ ظالم اور مظلوم کی مدد کرو ،کسی نے عرض کیا کہ مظلوم کی مدد سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد سے کیا مراد ہے ؟ نبی رحمت ؐ نے فرمایا کہ ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد کرنا ہے ،اہل ایمان کی خصوصیت اور اس کا امتیازی وصف ہے کہ وہ پوری انسانیت اور بالخصوص وطن سے دلی محبت کرتا ہے ،ہم وطنوں سے ہمدردانہ سلوک کرتا ہے اور وطن کی حفاظت کو اپنا دینی ،ملی اور اخلاقی فریضہ بھی سمجھتا ہے ،اسے اپنے حقوق کے لئے جد جہد کرنا خوب آتا ہے اور خوف کے سایہ میں سر اُٹھا کر چلنے کا وہ ہنر رکھتا ہے ،وہ خواب غفلت میں زندگی نہیں گزارتا بلکہ ہمیشہ چوکنا رہتا ہے ،وہ دن میں دوڑ دھوپ کرتا ہے تو رات کی تنہائی اپنے رب سے باتیں کرکے اسے مناتا ہے ،وہ کوشش کرکے دعا کرتا ہے اور دعا کے بعد پھر کوشش میں لگ جاتا ہے ،کیونکہ نبی رحمت ؐ نے اسے اسی کی تعلیم دی ہے اور اسے اسی کا پابند بنایا ہے ،اوپر کی سطور میں دور نبوت کے واقعات اس کے سامنے ایک مثال ہیں کہ کس طرح انہوں نے جہد مسلسل سے کام لیا تھا اور کن آزمائشوں سے وہ گزرے تھے اور پھر نصرت خداوندی کے کیسے حقدار بنے تھے ،علمی دنیا کی مشہور شخصیت علامہ شیخ سعدی شیرازی ؒ نے بڑی اہم بات کہی وہ فرماتے ہیں کہ اپنے حصے کا کام کئے بغیر دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت پر بھروسہ کرکے دعا سے گریز کرنا تکبر ہے ۔
اس وقت ملک جس نازک راہ سے گزررہا ہے اور متنازعہ بل اور اس کے ذریعہ بنایا گیا قانون جو عقل سے بالاتر ہے جس میں صاف کہا جارہا ہے کہ جو اس قانون کے دائرہ میں نہیں آئیں گے وہ گھس پٹی شمار ہوں گے ان کا ملک سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ،انہیں ملک بدر کردیا جائے گا اور جو مسلمانوں کے علاوہ اس ملک کے قیام کے خواہش مند ہوں گے انہیں حکومت کاغذات بناکر دے گی ، یہ مذہبی تعصبیت کی انتہا ہے اور ظلم وناانصافی کی کھلی تصویر ہے ،یہ ایسا قانون ہے جس پر ہر عقل مند ماتم کناں ہے ، اگر اس موقع پر بھی مسلمانوں نے آوازیں بلند نہیں کی ،اس کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار نہیں کیا اور اس کی مخالفت میں جد جہد نہیں کی تو پھر کس وقت کا انتظار ہے ، یہ ایسا نازک موقع ہے جس کے لئے ہر طرح کی جد جہد کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا ،بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس موقع پر مسلمان تنہا نہیں ہیں بلکہ ہندو اور دیگر برادران وطن ساتھ ہیں ،اس کے لئے مسلمانوں کو سب سے پہلے ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ،پھر جوش کے بجائے ہوش میں رہتے ہوئے مؤثر انداز میں منظم طریقے سے مہم چلانا ہوگا، اپنے آپسی اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا اس کے بغیر کوششیں بے فیض ہیں ،افسوس یہ ہے کہ جن کے خدا کئی ہیں وہ تو ایک ہیں اور جن کا خدا ایک ،نبی ایک ،کلمہ ایک اور قبلہ بھی ایک وہ ایک ہونے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ،اگر یہ اپنی اپنی انا میں اکڑتے رہے اور ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر متحد نہ ہوئے تو پھر یہ یہاں بھی مجرم اور خدا کے وہاں مجرم شمار ہوں گے ،اس موقع پر اپنے بڑوں کی سرپرستی اور ان کے تجربات سے بھر پور فائدہ اٹھائیں ،انہیں نظر انداز کردینا اور ان کی سر پرستی کے بغیر آگے بڑھنا کشتی کو مجھدار میں پہنچانے کے مترادف ہے ،اور سب سے اہم اپنے اللہ کو راضی کرنا ہوگا اس کے درپر حاضری کے بغیر اور اسے راضی کئے بغیر نہ کامیابی مل سکتی ہے اور نہ ہی حالات درست ہو سکتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ ہم اللہ کو بھول گئے ہیں جس کے نتیجہ میں اللہ نے بھی ہم کو بھلادیا ہے، کوششیں کرتے رہیں اور ساتھ ہی حوصلہ پست نہ رکھیں ،شکستہ دل نہ ہوں ،حالات کا ادلتے بدلتے رہنا دنیوی نظام کا ایک حصہ ہے ، فی الوقت اہل ایمان جن حالات سے گزر رہے ہیں یہ حالا ت ان پر ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں،خدا تو اہل ایمان کے ساتھ ہے، ارشاد خداوندی ہے:وَلاَ تَہِنُوۡا وَلاَ تَحۡزَنُوۡا وَأَنۡتُمُ الأَعۡلَوۡنَ إِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ(آل عمران۱۳۹)’’اور (مسلمانو! حالت کے شکار ہونے پر) تم ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہوگے اگر تم پورے مومن رہے‘‘ ،اگر مسلمان متحد ہوجائیں اور جد جہد میں لگ جائیں تو حالات بدل سکتے ہیں ،حکمرانوں کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور اپنے حقوق منواسکتے ہیں لیکن اس کے لئے انہیں اپنے آباواجداد کی تاریخ دہرانی ہوگی ،ان کے نقش قدم پر چلنا ہوگا ، اپنے اندر وہ جرأت وقوت پیدا کرنی ہوگی اور ایمانی حرارت سے لیس ہوکر پُر زور اور پُر اثر احتجاج مرتب کرنا ہوگا یقینا اس سے وہ ہوگا جس کا پوری امت کو انتظار ہے اور یہ کام ہم پہلے بھی کر چکے ہیں اور اب بھی کر سکتے ہیں جس کے لئے تاریخ گواہ ہے ؎

اپنے اسلام کی تاریخ الٹ کردیکھو

اپنا گزرا ہوا دور پلٹ کر دیکھو

خود کو پہنچانو کہ تم لوگ وفا والے ہو

مصطفی والے ہو، مومن ہو ،خدا والے ہو

سارے غم سارے گلے شکوے بھلا کر اٹھو

دشمنی جو بھی ہے آپس میں بھلا کراٹھو

تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو

فتح کی اک نئی تاریخ بنا سکتے ہو
٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×