اسلامیات

بدعت ایک سنگین جرم

اسلام خالق کائنات کا منتخب کردہ ،پسند کردہ ،مرتب کردہ ، ایک پاکیزہ اور نہایت مقدس مذہب ہے ، خالق ومالک نے اسے انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اُتا را ہے،اس کی تعلیمات پوری انسانی زندگی کے لئے کافی ووافی ہیں،اس میںانسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے سارے احکامات وقوانین درج ہیں،وہ کسی وقت ِمتعینہ ،یاکسی خاص علاقہ ،یاپھر کسی مخصوص قوم کے لئے اُتارا نہیں گیا ہے ،بلکہ وہ تو قیامت تک پوری انسانیت کی رہبری کے لئے نازل کیاگیا ہے، انسان خالق کا عظیم شاہکار اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق ہے ، خالق نے اسے شرافت وکرامت کا لباس پہنایا ،اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھا اور اسے زمین میں اپنا نائب وخلیفہ بناکر اُتارا،انہیں اپنے احکامات وفرمودات اور قوانین و ہدایات کا مکلف بنایا ،انسان کے علاوہ ایک دوسری مخلوق بھی ہے جسے دین و شریعت کا پابند اور احکام شرعیہ کا مکلف بنایا گیا ہے اور انسانوں کے ساتھ اسے بھی قوانین شریعت کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ،شرعی احکام کی خلاف ورزی اور حکم عدولی پر سخت ترین سزا کی وعید سنائی گئی ہے، اپنی مرضیات لوگوں تک پہنچانے کے لئے خالق نے انسانوں ہی میں سے کچھ بر گزیدہ اشخاص کو منتخب فرمائے اور ان کے سر پر نبوت ورسالت کا تاج رکھ کر انہیں اپنے احکامات ومرضیات لوگوں تک پہنچانے کے لئے مختلف خطوں اور منتخب علاقوں میں بھیجا، ابوالبشر سیدنا آدمؑ سے یہ سلسلہ شروع ہوکر امام الانبیاء ،خاتم المرسلین سیدنا محمد ﷺ پر ختم ہوتا ہے ، خالق ومالک نے خاتم الانبیاء ﷺ کے ذریعہ جہاں نبوت ورسالت کے باب کو بند کر دیا وہیں آپ ؐ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کردیا اور قرآن مجید میں آیت تکمیل دین اُتار کر قیامت تک کے لئے اس پر تکمیل دین کی مہر ثبت کر دی، ارشاد خداوندی ہے : اَلۡیَوۡمَ أَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَیۡۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الإِسۡلاَمَ دِیۡنًا (المائدہ:۳)’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘ تکمیل دین کے بعد اب اس میں کسی بھی قسم کی کمی وزیادتی ،اونچ نیچ اور رد وبدل کی گنجائش باقی نہیں ،جو اس میں دخل اندازی کی مذموم کوشش کرے گا وہ خدا کے نزدیک مجرم قرار پائے گا اور قیامت کے دن ایک خطر ناک باغی کی حیثیت سے اُسے پیش کیا جائے گا،دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا اور اسے دین کا حصہ تصور کرنا،اس پر اجر وثواب کی امید رکھنا بدعت ہے ،کفر وشرک کے بعد یہ بہت خطر ناک جرم اور بدترین قسم کا گناہ ہے، قرآن مجید میں اپنی طرف سے کسی کام کے ایجاد کرنے ، اسے عبادت اور باعث اجر وثواب سمجھنے کو بدعت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے خلاف شرع بتایا گیا ہے ،در حقیقت یہ خدا کی خوشنودی کے لئے اتباع نہیں بلکہ یہ ددین میں ابتداع ہے،ارشاد خداوندی ہے:وَرَھۡبَانِیَۃَ نِ ابۡتَدَعُوۡھَا مَا کَتَبۡنٰھَاعَلَیۡھِمۡ اِلّا ابۡتِغَآئَ رِضۡوَانِ اللّہِ فَمَارَعَوۡھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا(الحدید:۲۷)’’ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی،ہم نے ان پر اسے واجب نہیں کیا تھاسوائے اللہ کی رضا جوئی کے ،تو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہیں کی‘‘ بدعت کی ابتداء ہوئی اس کے متعلق علماء ومفسرین فرماتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ ؑ کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی ،جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا،انہوں نے بادشاہ کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں میں پناہ لے لی،یہ اس کا آغاز تھا جس کی بنیاد اضطرار پر تھی،لیکن ان کے بعد والوں نے اسے عبادت سمجھ لیا اور اپنے کو گرجاگھروں اور معبدوں میں محبوس کرنے لگے ، تفسیر ابن کثیر میں سورۂ مائدہ کے پہلے رکوع کی تفسیر میں ابن ابی حاتم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص جو بڑا دیندار اور پابند تھا ،ایک زمانہ کے بعد شیطان نے اسے بہکادیا کہ جو اگلے کر گئے ہیں وہی تم بھی کر رہے ہو ،اس میں کیا رکھا ہے ،اس کی وجہ سے نہ عام لوگوں میں تمہاری قدر ہوگی اور نہ شہرت،تمہیں چاہئے کہ کوئی نئی بات ایجاد کرو،اسے لوگوں میں پھیلاؤ ،پھر دیکھو کیسی شہرت ہوتی ہے اور کس طرح جگہ جگہ تمہارا ذکر ہونے لگتا ہے،چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا،اس کی وہ باتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور ایک زمانہ اس کی تقلید کرنے لگا، یہ دیکھ کر جب اسے ندامت ہوئی تو اس نے ملک چھوڑ دیا اور تنہائی میں خدا کی عبادتوں میں مشغول ہوگیا،لیکن خدا کی طرف سے اسے جواب ملا کہ ’’ صرف تیری خطا ہوتی تو معاف کر دی جاتی ،لیکن تونے عام لوگوں کو بگاڑا اور انہیں گمراہ کیا ہے اور بہت سے اسی پر چلتے چلتے مر گئے ہیں ،ان کا بوجھ تجھ پر سے کیسے ہٹے گا ،لہذا تیری توبہ قبول نہیں کی جاتی‘‘ ، اس طرح بدعت کی شروعات ہوئی اور لوگ گمراہ ہوتے چلے گئے اور گمراہی کو دین سمجھ کر اختیار کر نے لگے ،بدعتی اپنے ساتھ اوروں کو بھی لے ڈوبااور خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ بدعت کہلاتا ہے اور یہ بدترین قسم کا گناہ اور نہایت خطرناک قسم کی گمراہی ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے بدعت کی جو تعریف کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’دین میں کوئی ایسا نظریہ وطریقہ اور عمل ایجاد کرنا بد عت ہے جوطریقۂ نبویؐ کے خلاف ہوکہ آپؐ سے نہ قولاًثابت ہو،نہ فعلاً نہ صراحتاً ،نہ دلالۃ اور نہ اشارۃ، صحابہ ٔ کرام ؓ کے زمانہ میں اس کا وجود نہ ہو،جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبویؐکی غرض سے بطور ضد وعناد اختیار نہ کرے ،بلکہ بزعم خود ایک اچھی بات اور ثواب کا کام سمجھ کر اختیار کرے،وہ کسی کا کسی دینی مقصد کا ذریعہ وسیلہ نہ ہو،بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے،بدعت کی چار قسمیں ہیں،(۱)اعتقادی بدعت جیسے شرک کی تمام قسمیں،(۲)قولی بدعت جیسے شرکیہ کلمات ،شرکیہ وظائف،(۳)فعلی بدعت جیسے مبتدعین کے مروجہ گھڑے ہوئے افعال،(۴) بدعت فی الشرک جیسے وہ تمام قولی وفعلی سنتیں جن کے ترک کو دین سمجھ لیا گیا ہو،بدعت اعتقادیہ کی بعض قسمیں تو بالکل کفر ہیں اور بعض کفر نہیں لیکن وہ ہر گناہ کبیرہ سے بڑھ کر ہیں۔
دین میں ایجاد کردہ نئی نئی چیزیں قابل مذموم بلکہ قابل ترک ہیں ،رسول اللہ ؐ نے نہایت تاکید کے ساتھ اس سے بچنے اور اسے رد کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس سے نہ صرف دین کا حسین چہرہ بگڑ تا ہے بلکہ تکمیل دین کے باوجود دین کے ناقص ونامکمل رہ جانے کا خیال پیدا ہوتا ہے ،بدعتی رسول اللہ ؐ کی تنقیص کرتا ہے ،اس لئے کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اس کار خیر کو چھوڑ دیا تھا جسے وہ پورا کر رہا ہے، اسی وجہ سے امام مالک ؒ ،علامہ ابن قیمؒ اور علامہ شاطبیؒ فرماتے ہیں کہ مبتدع رسول اللہ ؐ کی تنقیص کرتا ہے اور مبتدع بدعت کرکے صحابہ ٔ کرامؓ اور سلف صالحینؒ کی توہین کرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے دین میں نئی چیز کو مردوداور متروک قرار دیا ہے ، ارشاد فرمایا: جو شخص دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردودہے(بخاری:۲۶۹۷)،اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے نہایت وضاحت کے ساتھ بد عت سے بچنے ،اسے اختیار کرنے سے احتراز کرنے اور اسے اپنے سے دور کرنے کی تاکید فرمائی ہے ،کیونکہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور جو دین اور شعبۂ دین نہ ہو وہ متروک ومردودہے،رسول اللہ ؐ نے کتاب اللہ کو سب سے بہترین کلام اور طریقوں میں سب سے بہترین طریقہ نبوی طریقہ بتایا ہے اور بدترین کام دین میں نئی چیز کا ایجاد کرنا بتایا ہے،ارشاد فرمایا’’دوچیزیں ہیں ایک کلام اللہ اور دوسرا طریقہ،پس سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمد ؐ کا طریقہ ہے ،خبر دار نئی نئی باتوں سے بچنا کیونکہ بدترین کام دین میں نئی چیزیں پیدا کرنا ہے،جبکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (ابن ماجہ:۴۶)،ایک دوسری حدیث شریف میں آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے‘‘(نسائی:۱۵۷۸)،اس قدر قبیح اور لعنتی عمل ہونے کے باوجود اگر کوئی عمل بدعت کو اپناتا ہے تو اس پر خدا کی پھٹکار پڑتی ہے اور اس عمل قبیح کی وجہ سے اس کے دیگر اعمال بھی اکارت جاتے ہیں،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص دین میں نئی بات (بدعت) پیدا کرے یا کسی نئی بات پیدا کرنے والے کو جگہ دے ،اس پر خداکی،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ،نہ اس سے کوئی نفل عبادت قبول کی جائے گی ،نہ فرض(بخاری:۱۸۰۷)، اس حدیث شریف میں بدعتی کو کس قدر سخت وعید سنائی گئی ہے کہ دین ،شریعت دین ، سنت رسولؐ اور سنت خلفاء کو چھوڑ کر نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے والے پر اللہ کی پھٹکار اور اس کے فرشتوں کی لعنت پڑتی ہے اور اس کے فرائض ونوافل یعنی دیگر اعمال بھی ضائع کر دئے جاتے ہیں۔
گناہ کرنے والا کبھی بھی گناہ کو ثواب نہیں سمجھتا بلکہ اسے گناہ ہی جانتا ہے لیکن نفس وشیطان کے جال میں پھنس کر گناہ کرتا رہتا ہے لیکن کسی نہ کسی وقت اسے اپنے ان بُرے افعال پر پچھتاوا ہوتا ہے ،اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے ، وہ اپنی نگاہوں میں گرجاتا ہے ،اسے احساس ندامت ہونے لگتا ہے ، جس کی وجہ سے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے،لیکن چونکہ بدعتی اپنے فعل کو دین اور کار ثواب سمجھ کر کرتا رہتا ہے اس لئے اسے مسلسل کر تا رہتا ہے اور اسی زعم فاسد کی وجہ سے اسے توبہ کی توفیق نہیں ہوتی ، اس سے عبادات کی قبولیت روک دی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت سے کٹ کر الگ ہوجاتا ہے ،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ ’’ اللہ تعالیٰ بدعتی کی نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج ،عمرہ،جہاد،صدقہ،فدیہ کچھ بھی قبول نہیں فرماتے بلکہ وہ اسلام سے ا یسے باہر ہوجاتا ہے جیسے آٹے سے بال نکال لیا جاتاہے‘‘(ابن ماجہ:۴۹)۔
کسی بھی کام میں حد سے تجاوز کرنا امر مستحب کا التزام کر لینا،دینی امور کو انجام دینے کے لئے اوقات کو متعین کر لینا، اور رسول اللہ ؐ کے نام پر اور آپ ؐ کی عقیدت میں ان چیزوں کا اختیار کرنا جو صحابہ ؓ سے ثابت نہیں ،یا کسی ولی اللہ سے محبت میں شرعی حدود کو تجاوز کر دینا بدعت وگمراہی کو دعوت دینا ہے، بہت سے لوگوں نے نفلی عبادات اور کار خیر کو انجام دیتے ہوئے حد درجہ تجاوز کر تے ہوئے اس کے کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیا اور نہ کرنے والے پر لعنت وملامت کر نے لگے ، بعض محبت رسول ؐ کے نام پر نئی نئی کئی ایسی چیز وں کو ایجاد کر لیا جس کا نہ صحابہ ؓ سے کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی سلف صالحین ؒ سے کوئی چیز منقول ہے اور بعضوں نے اولیاء اللہ ؒ کی عقیدت ومحبت میں کچھ اس طرح ہوش کھوبیٹھے کہ انہیں دین وشریعت تک کا لحاظ نہ رہا ، جس کے نتیجہ میں وہ بھی بدعات میں مبتلا ہوگئے اور معاشرہ کو بھی بدعات وخرافات اور بہت سی بے ہودہ رسومات کی آماجگاہ بنا دیا ،جب کے سچائی یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد بدعات وخرافات کا قلع قمع کرنا اور معاشرہ کو غیر شرعی و بے ہودہ رسومات وخُرافات سے پاک کرنا ہے ،سچے عشاق ِ رسول ؐ اور حقیقی محبین اولیاء ؒ وہ لوگ ہیں جو ہر کام میں شریعت کے مزاج ومذاق کی رعایت کرتے ہیں،نفس وخواہش کی نہیں بلکہ رب ذوالجلال ورسول اللہ ؐ کی پیروی کرتے ہیں،اپنے قول وفعل سے سچے اور پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں،بلاشبہ رسول اللہ ؐ کی تشریف آوری پوری انسانیت کے لئے باعث ہدایت و رحمت ہے ،اگر مسلمان اپنے نبی سے سچی محبت کرتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ نبیؐ کی لائی ہوئی شریعت اور ان کی مبارک تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک اسے پہنچانے کی کوشش بھی کریں، درحقیقت یہی سچی محبت و حقیقی تعلق ہے ،اور دین کی صحیح معنوں میں اتباع ہے،بدعتی جب تک اپنے فعل بد اور اعمال بدعت سے توبہ نہیں کرتا اس کا ہر عمل عبث وبے کار جاتا ہے ،جب وہ ان سے توبہ کر لیتا ہے تو پھر اس کی توبہ قبول کرلی جاتی ہے اور اس کے اعمال بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پانے لگتے ہیں،رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جب تک وہ بدعت نہ چھوڑ دے‘‘(ابن ماجہ:۵۰)،اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت اور اس کی گمراہی سے بچائے اور سنت اور اس کی شاہ راہ پر چلائے آمین۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×