اسلامیات

شب قدر (فضائل اور احکام)

شب قدر ایک نہایت ہی عظیم اور افضل رات ہے جو اللہ تعالٰی نے امت محمدیہ کو ہدیہ اور تحفہ کے طور پر عطا فرمائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع شروع میں یہ رات بتلادی گئی تھی پھر کسی وجہ سے اس کی تعیین اٹھا لی گئی،

(۱) شب قدر کب ہوتی ہے ؟

شب قدر کے بارے میں وارد احادیث کی وجہ سے تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شب قدر "رمضان المبارک” میں ہوتی ہے اور رمضان المبارک میں بھی آخری عشرہ کی کوئی رات شب قدر ہوگی خاص طور سے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک کے شب قدر ہونے کی زیادہ امید ہے

(۲) شب قدر کو پانے کے لئے کیا کریں ؟

شب قدر ایک رات ہے اور رات و دن کا نظام کائنات کا ایک حصہ ہے جو ہر کسی کے لیے چلتا ہے تو شب قدر بھی مسلم اور غیر مسلم، گنہگار مسلم یا نیک مسلم؛ ہر انسان کے پاس ضرور آتی ہے بس فرق یہ ہے کہ اسلام کا اعتقاد نہ رکھنے کی وجہ سے غیرمسلموں کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے جب کہ مسلمان اسے اہمیت دیتے ہیں ، پھر مسلمانوں میں بھی نیک لوگ یا گناہوں سے توبہ کا جذبہ رکھنے والے گنہگار لوگ اس رات کی اہمیت کو جان کر اس کی تلاش میں گناہوں سے استغفار اور عبادات کا اہتمام کرکے اسے پالیتے ہیں اور جو مسلمان اعمال صالحہ سے دور، گناہوں کے عادی، توبہ کا ارادہ نہ رکھنے والے ہوتے ہیں وہ اس عظیم رات کو ناقدری میں گذار کر اس سے محروم رہ جاتے ہیں

"تو شب قدر کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان و اعمال صالحہ، عبادات و استغفار، اور دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ یہ رات بسر کی جائے”

اب چوں کہ اس رات کا یقینی علم تو ہے نہیں اس لئے جو شخص سارا رمضان، بالخصوص آخری عشرہ اور اس کی طاق راتوں میں عبادات کا اہتمام اور گناہوں سے اجتناب کرے تو ایسے بندے نے یقینا اس رات کو اس کی قدر دانی کے ساتھ میں پالیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو وہ خیر اور بھلائی سے محروم رہا

(۳) شب قدر کے فضائل

شب قدر کی فضیلت کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں ایک مستقل سورہ اسی کے نام سے نازل کیا گیا ہے، علاوہ ازیں قرآن و حدیث میں اس رات کی جو خاص خاص فضیلتیں بتلائی گئی ہیں وہ یہ ہیں

(1) اس رات میں قرآن نازل ہوا
(2) اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بہت زیادہ ہے (کتنی زیادہ ہے ؟ اس کا علم صرف اللہ تعالٰی ہی کو ہے)
(3) اس رات فرشتے اللہ کے حکم سے بندوں کی (سال بھر کی) تقدیریں لے کر اترتے ہیں
(4) یہ رات تمام آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت والی رات ہے
(5) یہ رات سلامتی اور برکت والی ہے
(6) اس رات کی برکتوں کا سلسلہ صبح صادق تک جاری رہتا ہے
(7) اس رات بندوں کے سال بھر کی تقدیر کے فیصلے کیے جاتے ہیں
(8) جو شخص اس رات میں ایمان کی حالت میں ثواب کی امید کے ساتھ عبادت میں لگا رہتا ہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں
(9) (جس نے اسے پالیا تو اس نے خیر کو پالیا اور) جو اس سے محروم رہا تو ہر قسم کے خیر سے محروم رہ گیا
(10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کے حصول کے لیے رمضان کے آخری عشرہ کی تمام راتوں میں خود بھی عبادت کرتے اور گھر والوں کو بھی عبادت کرنے کے لیے جگا دیا کرتے تھے

(۴) شب قدر کی علامات

یوں تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ سارا رمضان اس رات کے حصول کی فکر میں عبادات میں گذاردے تاکہ یقینی طور پر شب قدر کو پانے والا سمجھا جائے اور شاید شب قدر کی تعیین اٹھا لیے جانے کی یہی حکمت بھی ہے تاہم چوں کہ تمام افراد کی جسمانی طاقت و قوت اس درجے کی نہیں ہوتی ہے کہ وہ اتنی ہمت کر سکیں؛ اس لیے اللہ تعالٰی نے امت پر فضل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں اس کے ملنے کی بشارت سنائی نیز اس کی کچھ علامتیں بھی بتلائیں تاکہ اس کی تلاش میں مشقت برداشت کرنے والوں کو زندگی میں کبھی ایک بار تو یہ تسلی ہو کہ ہاں شاید میں نے اسے پالیا ہے۔

الغرض شب قدر کی کچھ علامتیں یہ ہیں :

1))۔ یہ رات طاق راتوں میں سے کوئی ایک ہونے کی زیادہ امید ہے
2))۔ یہ رات موسم کے اعتبار سے معتدل ہوگی؛ نہ بہت زیادہ ٹھنڈی اور نہ بہت زیادہ گرم
3))۔ اس رات ستارہ نہیں ٹوٹے گا
4))۔ اس رات کی اگل صبح کا سورج ہلکے سرخ رنگ کا ہوگا بالکل صاف ہوگا جس میں آنکھوں کو چندھیا دینے والی شعائیں نہیں ہوں گی

(۵) شب قدر کے اعمال

اس رات اللہ کی طرف سے جتنے بھی نیک اعمال کی توفیق ملے ان سب کو انجام دینے کی فکر کرنی چاہیے ؛ چند اعمال یہ ہیں

1)۔ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف
2)۔ نفل اورسنت نمازیں خاص طور پر نماز تراویح اور نماز تہجد
3)۔ قرآن کریم کی تلاوت
4)۔ ذکر و اذکار کا اہتمام
5)۔ دعاؤں کا اہتمام
6)۔ چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء
7)۔ صلات التسبیح
8)۔ خاص طور سے یہ دعاء : اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى

نوٹ : اس رات کے خاص اعمال کے طور پر صرف آخری دعاء والا عمل حدیثوں سے ثابت ہے باقی تمام اعمال بندے کے اپنے اختیاری اعمال کہلائیں گے

(۶) رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف

اگر اللہ تعالٰی توفیق بخشیں تو اس رات کو پانے کے لئے مردحضرات کو چاہیے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی دس راتوں کا مسجد میں اعتکاف کریں اور عورتیں اپنے گھروں میں کسی خاص جگہ کو طے کر کے (جہاں وہ عام طور سے نمازیں وغیرہ پڑھتی ہیں) اعتکاف کریں، اگر کوئی یہ نہ کر سکے تو نفل کی نیت سے جتنے دن بھی ممکن ہو اعتکاف کر لیں کم از کم طاق راتوں کو اعتکاف کی نیت سے عبادتوں کے اہتمام کے ساتھ گذارنے کی کوشش کریں۔
نوٹ : رمضان کے آخری عشرہ کا سنت اعتکاف 20 رمضان کو غروب آفتاب سے شروع ہوجاتا ہے یعنی غروب آفتاب سے پہلے پہلے اعتکاف کی نیت سے مقام اعتکاف میں پہنچ جانا چاہیے؛ اگر کوئی 20 رمضان کے غروب سے پہلے نہ پہنچ پائے تو وہ سنت اعتکاف سے محروم ہوجائے گا، اب اس کا اعتکاف نفل کی حیثیت حاصل کرلےگا ۔، مرد حضرات کے لیے یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہوتا ہے یعنی کوئی ایک شخص بھی مکمل دس دن اعتکاف کی نیت سے مسجد میں بیٹھ جائے تو محلے کے باقی تمام لوگ اس سنت کو ترک کرنے کے گناہ سے بچ جائیں گے

(۷) قضائے عمری کی 4 رکعات نماز

چوں کہ اس رات کی عبادت 80 سال کی عبادت سے بھی بہت زیادہ ہے اس لیے بعض لوگ قضائے عمری کے نام سے صرف 4 رکعات کچھ خاص طریقے پر پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں گویا کہ ساری زندگی کی چھوٹی ہوئی نمازوں کا حساب برابر ہوگیا ؛ یہ سراسر غلط اور خلاف شریعت بات ہے کیوں کہ نمازوں کے بارے میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ ہر دن کی 5 وقت کی فرض نمازیں اور واجب الوتر کا الگ الگ حساب ہوگا، جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان تمام کی قضاء کرنا ضروری ہے صرف 4 رکعات قضائے عمری کے نام سے پڑھ لینا چھوٹی ہوئی تمام نمازوں کے برابر بالکل بھی نہیں ہوگا بلکہ قضائے عمری کی نیت سے کچھ خاص طریقے پر 4 رکعات نماز کا پڑھنا ہی بدعت ہے

(۸) کیا 27 ویں رات کو ہی شب قدر ہے؟

یہ ٹھیک ہے کہ حدیثوں میں بیان کی گئی شب قدر کی علامات اکثر لوگوں نے رمضان کی 27 ویں رات میں پائی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اب قیامت تک کے لیے 27 ویں رات "شب قدر” کے لیے طے ہوگئی کہ اس کے علاوہ راتوں میں اسے تلاش کرنےکی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ صرف اسی رات عبادت کرتے ہیں حالاں کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عشرے کی عبادات، شب قدر کے بارے میں آپ کے ارشادات ، حدیثوں میں ذکر کی گئی علامات، اور تعیین اٹھا لیے جانے کی حکمت اور مقصد کے بالکل خلاف ہے۔ یاد رکھیے شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں کسی بھی تاریخ کو ہوسکتی ہے۔
آخر میں

دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہم تمام کو عبادات اور دعاؤں کے اہتمام کے ذریعے اس رات کو پانے اور اپنے دینی و دنیاوی تمام مسائل کے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)

احاديث

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مَن قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ).

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إنَّ هذا الشَّهرَ قَد حضرَكُم وفيهِ ليلةٌ خيرٌ مِن ألفِ شَهْرٍ من حُرِمَها فقد حُرِمَ الخيرَ كُلَّهُ ولا يُحرَمُ خيرَها إلَّا محرومٌ).
عن أبي هُرَيرَةَ رضِيَ اللهُ عنهُ : أنَّ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: أُريتُ ليلَةَ القدْرِ، ثُمَّ أيقظَنِي بعضُ أهلِي فنُسِّيتُها؛ فالْتَمِسوها في العَشرِ الغَوابِرِ (رواه مسلم)

عن عبدالله بن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُما قال: سمعتُ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ يقول لليلةِ القَدْر: إنَّ ناسًا منكم قدْ أُرُوا أنَّها في السَّبع الأُوَل، وأُرِي ناسٌ منكم أنَّها في السَّبع الغَوابِر؛ فالْتمِسوها في العَشْر الغَوابِرِ (مسلم)

عن عبدالله بن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُما قال: قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ: تَحَيَّنوا ليلةَ القَدْرِ في العَشْرِ الأواخرِ – أو قال: في التِّسعِ الأواخِرِ (مسلم)

عن عائشةَ رضِيَ اللهُ عنها أنَّ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: تَحرُّوا لَيلةَ القَدْرِ في الوَتْر من العَشرِ الأواخِرِ من رمضانَ (رواه البخاريُّ )
عن أبي سعيدٍ الخُدريِّ رضِيَ اللهُ عنهُ قال: خطَبَنا رسولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّمَ فقال: إنِّي أُريتُ ليلةَ القَدْرِ، وإنِّي نُسِّيتُها (أو أُنسيتُها)؛ فالْتمِسوها في العَشرِ الأواخرِ من كلِّ وَترٍ (رواه البخاريُّ ومسلم )

عن ابنِ عبَّاس رضِيَ اللهُ عنهُما أنَّ النبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: الْتمِسوها في العَشر الأواخِر من رمضانَ؛ لَيلةَ القَدْر في تاسعةٍ تَبقَى، في سابعةٍ تَبقَى، في خامسةٍ تَبْقَى (البخاريُّ )

عن ابن عبَّاس رضِيَ اللهُ عنهُما: قال: قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ: هِي في العَشر، هي في تِسع يَمضِين، أو في سَبْعٍ يَبقَين يعني: ليلةَ القَدْر. (البخاريُّ)

عن عُبادةَ بن الصَّامتِ قال: خرَج النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ ليُخبِرَنا بليلةِ القَدْر، فتَلاحَى رجُلانِ من المسلمين، فقال: خرجتُ لأُخبِرَكم بليلةِ القَدْر، فتَلاحَى فلانٌ وفلانٌ؛ فرُفِعتْ! وعسى أنْ يكونَ خيرًا لكم؛ فالْتمِسوها في التَّاسعةِ والسَّابعةِ والخامسةِ (البخاري ومسلم)

عن عبداللهِ بن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُما قال: قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ: الْتمِسوها في العَشرِ الأواخِرِ – يعْنِي: ليلَةَ القدْرِ – فإنْ ضَعُفَ أحدُكم أوْ عَجَزَ، فلا يُغْلَبَنَّ علَى السَّبْعِ البواقِي( مسلم )

عن ابن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُ أنَّ أُناسًا أُرُوا ليلةَ القَدْر في السَّبع الأواخِر، وأنَّ أُناسًا أُرُوا أنَّها في العَشر الأواخِر، فقال النبيُّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ: الْتَمِسوها في السَّبع الأواخِرِ (مسلم)

عن ابن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُما عن النبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: تَحرُّوا ليلَةَ القَدْرِ في السَّبْعِ الأواخِرِ (مسلم)

عن ابن عُمرَ رضِيَ اللهُ عنهُما، أنَّ رِجالًا من أصحاب النبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ أُرُوا ليلةَ القَدْر في المنامِ في السَّبع الأواخِر، فقال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ: رَى رُؤياكم قد تَواطأتْ في السَّبع الأواخِر؛ فمَن كان مُتحرِّيَها، فلْيَتحرَّها في السَّبع الأواخِر (مسلم)

عن عبداللهِ بن أُنيسٍ رضِيَ اللهُ عنهُ أنَّ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ قال: أُريتُ ليلةَ القَدْر، ثمَّ أُنسيتُها، وأَراني صُبحَها أسجُدُ في ماءٍ وطِينٍ قال: فمُطِرْنا ليلةَ ثلاثٍ وعِشرين، فصلَّى بنا رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ فانصرَف، وإنَّ أثَرَ الماء والطِّين على جَبهته وأنفِه. قال: وكان عبدالله بن أُنيسٍ يقول: ثلاث وعِشرين. (مسلم)

قال أُبيُّ بنُ كَعبٍ رضِيَ اللهُ عنهُ في لَيلةِ القَدْرِ: واللهِ، إنِّي لأَعلمُها، وأكثرُ عِلمي هي اللَّيلةُ التي أَمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّمَ بقِيامِها، هي ليلةُ سَبعٍ وعِشرين (مسلم)

عن أبي هُرَيرَةَ رضِيَ اللهُ عنهُ قال: تَذاكَرْنا ليلةَ القَدْرِ عند رسولِ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّمَ. فقال: أيُّكم يَذكُرُ حين طلَع القمرُ وهو مِثلُ شِقِّ جَفْنَةٍ:؟(مسلم) (شِقِّ جَفْنَةٍ: أيْ: نِصف قَصعةٍ؛ قال أبو الحُسَينِ الفارسيُّ: أيْ: ليلة سَبْع وعِشرين؛ فإنَّ القَمَر يطلُع فيها بتلك الصِّفة

ما ورَد في علامتها

عن أُبيِّ بنِ كَعبٍ رضِيَ اللهُ عنهُ قال هي ليلةُ صَبيحةِ سَبعٍ وعِشرين، وأمارتُها أنْ تطلُعَ الشَّمسُ في صَبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها)) (مسلم)

عن ابن عباس رضي الله عنهما أنَّ النبي – صلَّى الله عليه وسلَّم – قال: ليلة القدر ليلةٌ طَلْقة، لا حارَّة ولا باردة، تصبح الشمس يومها حمراءَ ضعيفة (ابن خزيمه)
واثلة بن الأسقع – رضي الله عنه – أن النبي – صلَّى الله عليه وسلَّم – قال: ليلة القدر ليلة بَلْجة – مضيئة – لا حارَّة ولا باردة، لا يُرمَى فيها بِنَجم (طبراني)

عائشة -رضي الله عنها- عن النبي، فقالت: (كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، إذَا دَخَلَ العَشْرُ، أَحْيَا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَّ وَشَدَّ المِئْزَرَ).

رُوي عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- أنه قال: (أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأوَاخِرَ مِن رَمَضَانَ).

عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ”.

وَعَن ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ”. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِمَا.

قَالَ نَافِعٌ: وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُاللَّهِ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ. (مسلم)

وَعَنْ أَنَسٍ  قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ”. (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ.)

عن عائشةَ رضِيَ اللهُ عنها قالتْ: كان رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّمَ يُجاوِر في العَشْر الأواخِر من رمضانَ، ويقول: تَحرُّوا ليلةَ القَدْر في العَشْر الأواخِر من رمضانَ (رواه البخاريُّ ومسلم)

واللہ اعلم بالصواب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×