اسلامیات

صفر المظفر اور موجودہ دور کی توہم پرستی

اپنے گناہوں کی نحوست کو دوسرے انسانوں حیوانوں مہینوں یا پھر کسی اور کی طرف منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ،،،،،
 ایک کالے حبشی شخص کو راستے میں ایک شیشہ پڑا ہوا ملا اس حبشی نے اس سے پہلے کبھی اپنا چہرہ شیشے میں نہیں دیکھا تھا اس حبشی نے پڑا ہوا شیشہ اٹھا کر جب اس میں اپنا منھ دیکھا تو بہت بدنما اور بَھدا محسوس ہوا، ناک بڑی، رنگ کالا وغیرہ تو اس حبشی کو اپنا چہرہ برا معلوم ہوا اور فورا غصے میں آکر اس شیشے کو زمین پر پھینک مارا اور کہا کہ تواتنا بدصورت اور بدنما ہے اسی لئے تو تجھے کسی نے یہاں پھینک رکھا ہے،
 جس طرح اس حبشی نے اپنی بدصورتی کو اس شیشہ کی طرف منسوب کیا اسی طرح دنیا میں لوگ اپنی بد عملی کی نحوست کو دوسری چیزوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ نحوست انسان کے اپنے اعمال کے سبب ہے۔
ما اصابك من حسنة فمن الله
وما اصابك من سيئة فمن نفسك
ترجمہ:کوئی بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور کوئی برائی جو تمہیں پہنچے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے (النساء: ٧٩)
ماہ صفر کے ساتھ "مظفر” لگانے کی وجہ تسمیہ:
 زمانۂ جاہلیت میں صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور آج بھی اس مہینے کو بہت سے لوگ منحوس بلکہ آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھتے ہیں اسی وجہ سے اس مہینے میں خوشی کی بہت سی چیزوں مثلا شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات کو منحوس یا معیوب سمجھتے ہیں، جبکہ اسلامی اعتبار سے اس مہینے سے کوئی نحوست وابستہ نہیں اور اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں اس مہینے کے ساتھ نحوست وابستہ ہونے کی سختی سے تردید کی گئی ہے،
لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ
[بخاری 5707]
 ترجمہ: کوئی بیماری متعدی نہیں ہے (یعنی ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی۔) نہ بدشگونی کا کوئی تصور ہے‘اور ہامہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے
 اس لیے صفر کے ساتھ "مظفر” یا "خیر” کا لفظ لگا کر "صفرالمظفر” یا "صفرالخیر” کہا جاتا ہے تاکہ اس کو منحوس اور شروآفت والا مہینہ نہ سمجھا جائے، بلکہ کامیابی والا اور بامراد نیز خیر کامہینہ سمجھا جائے۔۔۔
ماہِ صفر میں نہ خاص فضیلت ہے اور نہ ہی نحوست:
ماہ صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے علاوہ کوئی خاص عبادت نہ خود کی ہے اور نہ ہی ہمیں اس کی تلقین کی اور نہ ہی کسی خاص بَلا و مصیبت سے بچنے کے لیے خبردار کیا۔ توہمات اور بدشگونی جو اس ماہ سے منسوب کیے گئے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے،بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بد شگونی کو شرک کا ایک حصہ قرار دیا ہے،
الطيرة من الشرك وما منا ولكن الله يذهبه بالتوكل۔ ترمذی:٢٦٦
 درسِ ترمذی: ٢٧٠/٥
ماہِ صفر کی دو بدعتیں:
جس طرح مختلف مہینوں کے بارے میں بدعات و رسومات رواج پا گئی ہیں یا گڑھ لی گئی ہیں، جیسے محرم الحرام کے مہینے میں پنجے(پنجتن پاک) شربت، تعزیہ اور علَم، شعبان المعظم کے مہینے میں حلوہ خوری، ربیع الاول کے مہینے میں مروجہ میلاد اور ربیع الثانی میں گیارہویں کا رواج پا گیا ہے، اسی طریقہ سے ماہ صفر میں دو بدعتیں مسلمانوں خصوصا عورتوں میں مروج ہیں،
(١) تیرہ تیزی کی بدعت (٢)آخری چہار شنبہ کی بدعت -تفصیل ذیل میں ملاحظہ فرمائیں_
تیرہ تیزی عوام کی نظر میں:
تیرہ تیزی (صفر کے شروع کے تیرہ دن) ایک منحوس اصطلاح اور ایک خاص تلمیحی اشارہ ہے،جس کا اصل تعلق توہمات اور رسومات سے ہے،
لوگ کہتے ہیں کہ ماہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں میں نحوست ہے کیونکہ ان دنوں میں سرکار دوعالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت (تیز) بیمار ہوگئے تھے، یہ بیماری ان دنوں کی نحوست کا اثر ہے، اسی لیے ان میں اللہ کے رسول علیہ السلام سخت بیماری میں مبتلا ہوئے،گویا یہ دن اتنے منحوس ہیں کہ ان میں کوئی خوشی و مسرت کا کام نہیں کیا جاسکتا اور کیا جائے تو بھی نحوست کے اثر سے وہ کام نہ ہوگا یا رنجیدہ ثابت ہوگا۔ے کی صبح صبح عورتیں رتی انڈے دال وغیرہ اور اب اور فقراء میں تقسیم کرتے ہیں ہیں تاکہ ہم پر آنے والی مصیبتیں پریشانیاں ٹل جائے
رسول اکرم ﷺ کے ایامِ مرض:
 عوام الناس کا یہ وہم کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفرالمظفر کے ابتدائی 13 دن بیمار رہے اس کا جواب حضرت مولانا مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی دامت برکاتہم (بنگلور) نے اپنے تحقیقی رسالے ماہ صفر کی دو بدعتیں اس رسالہ میں حضرت نے دو قول نقل کیے ہیں ایک یہ کہ ایام مرض صفر کے آخری اور ربیع الاول کے ابتدائی ایام تھے جیسا کہ علامہ ابن حجر کی فتح الباری(١٢٩/٨) سے واضح ہوتا ہے اور اسی طرح ثقات ابن حبان (١٣٠/٢)سے بھی واضح ہوتا ہے، دوسرا قول مرض الوفات صفر کے آخری دنوں میں یا ربیع الاول کے ابتدائی دنوں میں شروع ہوا جیسا کہ سیرت ابن ہشام (٦٤٢/٢)میں ہے
( ماہ صفر کی دو بدعتیں ص٤)
 تاریخی اعتبار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کا یہ سمجھنا کہ آپ صفر کے شروع میں تیرہ دن سخت بیمار رہے غلط ہے،بلکہ صحیح یہ ہے کہ آپ کی بیماری صفرالمظفر کے اخیر ایام میں شروع ہوئی اور ربیع الاول کے ابتدا میں بیمار ہوکر وفات پائے،
 واللہ اعلم بالصواب
آخری چہارشنبہ عوام کی نظر میں:
ہندوپاک میں میں اور ہمارے شہر سرحیدرآباد کے بہت سے علاقے ہیں جہاں پر صفرالمظفرکے اخیر چہارشنبہ کو بہت زیادہ اہمیت دیا جاتا ہے ہے اور اس کے متعلق یہ گڑھ لیا گیا ہے کہ اس میں آپﷺ کی طبیعت سازگار ہو گئی تھی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا تھا،اسی کے ساتھ لوگ اس ہفتے میں گھروں میں خوشیاں مناتے ہیں، سیروتفریح کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں، کارخانوں میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی جاتی ہے،اور بھی بہت سے خرافات ہوتے ہیں،
بعض نے تو یہ شعر بھی گڑھ لیا ہے  ؀
    آخری چہارشنبہ آیا ہے
   نبی نے غسل صحت پایا ہے
آخری چہار شنبہ اور احمد رضا خان صاحب کا فتوی:
اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل صحت فرمانا کہیں ثابت نہیں بلکہ بہت سے محققین اور اہل علم حضرات کی تحقیق کے مطابق اس دن تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کو شدت ہوئی تھی جس میں آپ صلی وسلم کا وصال مبارک ہوا اور اسی کی خوشی میں دشمنان اسلام نے یہ رسم ایجاد کی جو مسلمانوں میں درپردہ داخل ہوگئ…
بریلوی مکتبئہ فکر کے اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتوی اس سلسلے میں یہ ہے:
آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثبوت ہے۔ بلکہ مرض اقدس جس میں وفات ہوئی اس کی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔
احکام شریعت ١٨٣/٢)
اللہ تبارک وتعالی عوام کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور دینی مسائل و فضائل  اور وعیدوں سے متعلق  علمائے اسلام سے رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین
نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×