حیدرآباد و اطراف

موجودہ حالات میں مسلمان اتحادِ ملت‘ دعوتِ دین اور خدمتِ خلق کو اپنائیں

حیدرآباد: 2؍جنوری (پریس ریلیز) ہندوستانی مسلمان ملک کے جن ناگفتہ بہ دشوار ترین اور ناقابلِ تصور حالات سے دوچار ہیں، ان حالات میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کے لئے نبوی طریقہ اور اسوۂ حسنہ کو اختیار کرتے ہوئے ان تین اہم ترین امور کو اختیار کریں اور آنے والے چیلنجس کا مقابلہ کریں۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں باوجود یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مادی طورپر کمزور تھے، ان صحابۂ کرام کو شیر و شکر کی طرح متحد اور مضبوط رکھا اور مدنی زندگی میں بھائی چارہ کا پیارا نظام قائم فرماکر انصار و مہاجرین میں اتحاد و اتفاق کی تازہ روح پھونک دی اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً کا مضبوط ماحول مدنی دور میں قائم ہوگیا۔ آج سے دیڑھ سو سال پہلے تک مسلمانوں کی جماعت میں مسلک کی چھاپ نہیں تھی، نہ کوئی بریلوی تھا نہ کوئی دیوبندی، نہ کوئی جماعت اسلامی کا تھا اور نہ کوئی تبلیغی جماعت کا، نہ کوئی اہل حدیث تھا اور نہ کوئی اہلِ قرآن، سارے مسلمان انما المومنون اخوۃ کی بنیاد پر پہچانے جاتے تھے۔ آج ہم مسلک، مکتب فکر اور نظریات کی بنیاد پر منقسم ہوگئے۔ اگر آج بھی ہم جاگ جائیں اور سارے مسلمان ایک ہوجائیں تو سارے دشمنوں کے ہوش اڑجائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار منبر و محراب فاؤنڈیشن کے بانی و محرک مولانا غیاث احمد رشادی نے اپنے صحافتی بیان میں کیا اور کہا کہ اتحادِ ملت کے ساتھ باقی دو اہم کام اب مسلمانوں کو انجام دینے ہیں۔ ایک ہے دعوتِ دین اور دوسرے خدمتِ خلق۔ اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کی جو نعمت ہمیں دی ہے یہ نعمت بھی ہے اور امانت بھی۔ اس دینِ حق کی امانت کو جن برادرانِ وطن تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر تھی ہم نے اس ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔ ہم مسلمانوں نے اپنی توانائیاں مجموعی طورپر فضول خرچی، نام و نمود اور دوسروں پر مادی اعتبار سے برتری حاصل کرنے میں خرچ کی۔ ہم مسلمانوں کیلئے آزادی کے یہ ستر سال سنہری موقع تھے کہ ہم ان ستر سالوں میں اپنے قرب و جوار میں آباد غیر مسلموں کو اپنے اخلاق و حسن معاشرت سے گرویدہ کرسکتے تھے اور ان تک قرآنِ مجید کا حقیقی پیغام پہنچاسکتے تھے۔ افسوس کہ ہم خود قرآنِ مجید پر تدبر و تفکر سے محروم ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو زندہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد مکی زندگی میں اپنی توانائی دینِ اسلام کی دعوت میں صرف فرمائی اور دین کی دعوت کا فریضہ انجام دیا۔ ہندوستان کے موجودہ حالات او رچیلنجس سے نمٹنے کے لئے اتحادِ ملت اور دعوتِ دین کے ساتھ ساتھ انسانیت کی بنیاد پر خدمتِ خلق کا فریضہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال تک مکۂ مکرمہ میں مسلسل مکہ والوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و دردمندی، احسان و ایثار اور خدمتِ خلق کا فریضہ انجام دیا ۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا، پیاسوں کو پانی پلانا، بیواؤں کی خبر گیری کرنا، مسافروں کو ٹھکانہ دینا، یتیموں کے سروں پر شفقت کے ہاتھ پھیرنا، کمزوروں کا بوجھ اٹھانا، مصیبت زدہ افراد کی امداد کرنا وغیرہ۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستان کے ان تشویشناک حالات میں مسلمانوں کو ان تین امور میں پوری ذمہ داری کے ساتھ حصہ لینا چاہئے کہ وہ آپس میں متحد رہیں۔ دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھیں اور مخلوقِ خدا کی خدمت کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing