سیاسی و سماجی

عصر حاضر میں مدارس کا رجسٹریشن انتہائی ناگزیر

ملک میں فرقہ پرست طاقتیں بڑی آرزووں کے بعد اقتدار میں ہیں، میں جس فکر ونظریہ کی بنیاد رکھی گئی تھی آج وہ نظریہ تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے، ملک کے پہلے وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے جس چیز کو اس ملک کے لیے ناسور بتایا تھا یعنی اکثریتی طبقہ کی فرقہ پرستی آج وہ عروج پر ہے، میں جب اقتدار ملا تو اس زمانہ میں اس کو ای وی یم کا کمال بتایا گیا، سپریم کورٹ میں اپیلیں ڈالی گئیں، پھر کنفرمیشن سسٹم لاگو کیا گیا، کے انتخابات میں ای وی یم مشین کے ساتھ ساتھ کنفرمیشن سلپ کی مشین بھی رکھی گئی؛ مگر عجیب بات ہے کہ ای وی یم پر بھروسہ اور اعتماد پھر بھی اپوزیشن کو نہ تھا؛ چنانچہ ساری اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس نے انتخابات کے نتائج سے پہلے ہی ملک کے اعلیاقتدار کو اپنی شکایات پہنچائیں اور ای وی یم مشین اور کنفرمیشن مشین پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا؛ مگر معاملہ دور تک نکل چکا تھا اس کو اپوزیشن کی غفلت کہیں یا دانستہ چشم پوشی؛ لیکن انتخابات کے نتائج بہرحال آئے اور جو خدشہ تھا وہ بھی سامنے آیا کہ بڑی تعداد میں بی جے پی منتخب ہوکر آئی؛لوک سبھا میں اکثریت تو سابقہ انتخابات کے بعد بھی تھی؛ اس ٹرم میں راجیہ سبھا میں بھی ایک دوسال میں اکثریت حاصل ہوجائے گی؛ لیکن اس سے پہلے ہی ملک میں عجیب وغریب بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ سب چیزیں کی جارہی ہیں جس سے اس ملک کی اقلیتیں چاہے وہ مسلمان ہوں یاعیسائی خوف اور دہشت کے سایہ میں جی ئیں، پہلے تو ماب لنچنگ کا ایسا سیلاب رہا کہ ہرہفتہ ایک دو خبریں ضرور کسی نہ کسی کو لوٹنے اور قتل کرنے کی میڈیا میں چھائی رہیں، ملک کے دردمند طبقہ نے اس سلسلہ میں وزیراعظم کو متوجہ کرتے ہوئے خطوط بھی لکھے؛ مگر اس خصوص میں کوئی روک تھام نہ ہوسکی، حیرت ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی حکومت ہے وہاں ان واقعات کا رونما ہونا ممکن بھی ہو؛ لیکن مغربی بنگال میں جہاں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے وہاں پر بھی اس قسم کے واقعات کا ہونا افسوسناک ہے۔
بہرحال ملک بھر میں بے چینی اور دہشت کا ماحول ابھی بھی باقی ہے، اسی دوران پارلیمنٹ کے جاریہ سیشن میں بغیر کسی غور وخوض اور بحث ومباحثہ کے مستقل بل پاس ہورہے ہیں، ایسے بل بھی ہیں جن کا راست تعلق ملک کے آئین میں دی گئی آزادی کو قدغن لگانے سے بھی ہے؛ چنانچہ طلاقِ ثلاثہ پر مبنی بل بھی پاس ہوا، جس کی مخالفت ملک کی تمام بڑی مسلم تنظیموں نے کی، مختلف مسالک کے لوگوں نے یک آواز ہوکر اس کی دفعات کو غیراسلامی اور غیرشعوری قرار دیا، عورتیں اپنے اپنے علاقوں میں اس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالتی رہیں، کروڑوں دستخطوں پر مبنی محضر ملک کے لا ڈپارٹمنٹ کو بھیجے جاتے رہے، لیکن حیرت ہے کہ اس جمہوری ملک میں جمہور کی آواز کو دبادیا گیا، اس بات کی بھی فکر نہ کی گئی کہ کم از کم اسلام اور شریعت کا مسئلہ ہے تو اسلام اور شریعت کے ماہر علمائے کرام سے مشاورت کرلی جائے، ان سے تجاویز طلب کرلی جائیں، مسلم معاشرے کے نمائندہ تنظیموں سے اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کچھ آرا حاصل کرلی جائیں، اسی لیے عمومی احساس اس بل کے سلسلے میں یہ رہا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے لیے سود مند سے زیادہ نقصاندہ ثابت ہوگا، جس میں ایک طرف تو تین طلاق کو کل عدم قرار دیا گیا ہے؛ جب کہ دوسری طرف اسی معدوم چیز کو موجود مان کر جرمانہ اور جیل کی سزا تجویز کی گئی ہے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم معاشرے میں نکاح کا جو پاکیزہ نظام ہے، اس نظام کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے ایسا قانون لایا گیا ہے کہ انسان آزادانہ تعلقات تو رکھے لیکن نکاح جیسے مقدس رشتے تک پہنچنے سے گھبرائے، مغربی دنیا نے نکاح کو بنیاد بناکر علاحدگی کی صورت میں جوقوانین نافذ کیئے ہیں اس کے اثرات ہم سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اس معاشرہ میں آزادانہ تعلقات قابل ترجیح ہیں، بچے ہوجاتے ہیں؛ اولاد اچھی خاصی عمر کو پہنچ جاتی ہے، جب جاکر نکاح کی سوچی جاتی ہے، مسلم معاشرے پر بھی ایسے قوانین مسلط کرتے ہوئے انہیں نکاح جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتے سے برگشتہ اور خوفزدہ کیا جائے، پھر مغربی معاشرہ کی طرح نہ اپنی اولاد کی تربیت ہوپائے گی، نہ بچے اپنے سرپر اپنے بڑوں کا سایہ اور ان کی شفقت محسوس کرپائیں گے۔
ملک کے مسلمانوں کے لیے یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ وہ ادارے جنہوں نے ملک کی آزادی میں کلیدی رول ادا کیا، ہندوستان کو ہندوستان بنایا، ایسی طاقت سے لوہا لیا جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے ہزاروں فرزند جس ملک کے لیے قربان کیئے آج ایسے ہی اداروں کو مختلف بہانوں سے پریشان کیا جاتا ہے، ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کے مسلم اداروں نے دینی اور اسلامی سطح پر موجودہ دنیا کی رہبری اور قیادت کی ہے، مغرب ومشرق میں ہندوستان کے بلواسطہ اور بلاواسطہ فیضیافتہ لوگ اسلام کی شمع روشن کیئے ہوئے ہیں، ایسے اداروں کو نشانہ بنانا بہرحال مسلم معاشرہ کے لیے بے چینی اور تکلیف کا باعث، یہ نہ صرف ملک کے مسلمانوں اور سیکولر طبقہ کو متاثر کررہا ہے بلکہ بیرون ملک بسنے والے اس کے کڑوڑوں عقیدتمندوں اور ماننے والوں کے لیے بھی باعث تشویش ہے، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس طریقہ سے مسلم اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کی تفصیلات پوچھی جارہی ہیں اسی طرح تمام مذاہب کے اداروں کا کیوں احاطہ نہیں کیا جاتا؟۔
ملک میں جو حالات ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ دینی ادارے اپنے اداروں کا رجسٹریشن کروائیں اور جن اداروں کے بجٹ بڑے ہیں اور جو ادارے آوڈٹ کے زمرے میں آتے ہیں، ان اداروں کا آوڈٹ کروائیں، ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ اداروں میں جو آمدوخرچ ہے، اس سے حکومت کو کیا سروکار، حالانکہ سوسائٹی، ٹرسٹ، یاکمپنی کی شکل میں رجسٹرڈ کروائے گئے اداروں کے مستقل قوانین ہوتے ہیں، جو ادارے بغیر رجسٹریشن کے چلائے جاتے ہیں وہ قانونا غلط تصور کیئے جاتے ہیں، چھوٹے اداروں کو آوڈٹ سے استثنا ہوتا ہے، لیکن جن اداروں کا بجٹ لاکھوں میں ہو ان اداروں کے تمام اکاونٹس کا ریکارڈ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اسی طریقہ سے آنے جانے والے مہمان، طلبہ، اساتذہ ان تمام کی تفصیلات اور خاطر خواہ تصدیق اور اطمینان کے بغیر انہیں اپنے اداروں میں جگہ بھی نہیں دینی چاہیے، جو تعمیرات ہوچکی ہیں انہیں وقتاً فوقتاً آنے والی حکومت کی اسکیمات کے ذریعہ باقاعدہ بنایا جاسکتا ہے، ان تمام امور کا لحاظ رکھنا اس وقت میں ضروری ہے، بالخصوص مدارس کے ذمہ داروں اور اقلیتی عصری اداروں کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ ماہرین کے مشورہ کے ساتھ تمام امور کو قانونی کرنے کی فکر فرمائیں، اس میں ہوسکتا ہے کہ وقت لگے اور تحمل وبرداشت کے ساتھ ان تمام مراحل کے تکمیل کی ضرورت ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کو قانونی شکل دی جائے اور اس کے لیے جو صرفہ ہو اسے اپنے ادارہ کے بجٹ میں ہرسال شامل رکھا جائے۔

mufti_zubair@yahoo.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×