سیاسی و سماجی
آیا صوفیا: جمہوری مسلمانوں کیلئے ایک پیغام
جمہوری ملک ترکی کے دارالحکومت، تاریخی شہر استنبول کی تاریخی عمارت *آیا صوفیا* کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کیے جانے والے عدالت کے *تاریخی فیصلے* پر خوشی منائی جارہی ہے یقینا عالم اسلام کے لئے باعث خوشی و مسرت ہے لیکن اسی تاریخی فیصلے کے پس پشت ایک ایسی *سیاسی تاریخ* پوشیدہ ہے جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں دراصل یہ تاریخ ان ترک اسلام پسندوں کی ہے جنہوں نے جمہوری چیلنجوں کا پوری استقامت کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے جمہوری میدان میں فتح حاصل کی ہے اس لیے آج ہماری یہ تحریر تاریخی عمارت کے بجائے تاریخی شخصیت کے پس منظر میں ہیں جس کی *کامیاب سیاسی حکمت عملی* کی بدولت آج یہ تاریخی فیصلہ صادر ہوا.
آئیے آج ہم اس تحریر میں تاریخی شخصیت *رجب طیب اردگان* کی جمہوری میدان میں کی جانے والی سیاسی کاوشوں کا تلخیصاًجائزہ لیتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلے آیا صوفیا کے عدالتی فیصلے کے پس پشت کس طرح سے بلند حوصلے صبر و تحمل نئے نئے چیلنجوں اور سازشوں کا کامیاب سامنا کارفرما تھا…..
*فلاحی سیاست* : رجب طیب اردگان صاحب دوراندیش اور عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بچپن سے ہی سیاست کی کشمکش دیکھتے ہوئے پروان چڑھے تھے اسی لئے انہوں نے خاص ترتیب سے شہر استنبول میں *سیاسی محنت* شروع کی، جس میں طالب علموں اور عورتوں کے شعبے کو خاص مرکزی حیثیت حاصل تھی پورے شہر استنبول میں ہر تحصیل، ہر محلہ، ہر گلی تک اپنا جال بچھا دیا تھا خواتین میں خواتین ہی جاکر دعوت دیتی تھی اس طرح سے پانچ سال گھر گھر جاکر محنت کی بے شمار کارکنوں کا اضافہ کیا،کام کی ترتیب تبلیغی جماعت کے کام سے مشابہت رکھتی تھی حالانکہ خالص سیاسی کام تھا اسی دوران انہوں نے *فلاحی سیاست* شروع کر دیا وہ اس طرح کے ہر گھر تک رسائی ہونے کی وجہ سے ہر گھر کی معلومات پتہ تھی کہ کہاں یتیم بچے ہیں، کہاں بیوہ ہے جماعت کی مالی حالت کمزور ہونے کے بعد بھی مقامی کارکن اپنی حیثیت سے ضرورت مند افراد کی خدمت کرتے تھے اسی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اسلامک وژن دینا بھی ان کا خاص ہدف تھا سارا کام اللہ کی خوشنودی کے لیے سرگرمی کے ساتھ کیا جاتا تھا *حقیقت میں اسلامی رنگ تھا اسلام کا نام لیے بغیر*……. حتی کہ وہ غیر مشروع مقامات میں جاکر دعوت دینا بھی شروع کردیےتھے مثلا اپنی جماعت کے کارکنوں کے ساتھ قحبہ خانہ جاکر ذہن سازی کی جارہی تھی
یہاں تک کہ 1994ء میں الیکشن بلدیاتی کا وقت آگیا اسلامی پارٹی کا نوجوان الیکشن کے لیے کھڑا ہوا پانچ اہم پارٹیوں میں سے چھوٹی پارٹی نوجوان امیدوار اپنی مہم کے لیے مالی لحاظ سے بھی کمزور جب کہ فریق مخالف جعلساز سیاستدان تھے لیکن پھر بھی پانچ سال پہلے کی گئی محنت کی بدولت بہت ساری دھمکیوں اور ناجائز حربوں کے باوجود الیکشن کے نتیجہ نے تصدیق کی مہرثبت کردی اور اردگان نے سب کو شکست دے کر میئر بن گئے ہیں اور یہ پارٹی کے صدر نجم الدین اربکان صاحب کی سیاسی لیڈرشپ کی بہت بڑی کامیابی تھی ، (ملخصا از : ترک ناداں سے ترک دانا تک)
*پارلیمان سے زنداں تک* : اردگان صاحب کے میئر بننے کے بعدان کی سیاسی پارٹی 1996ء میں قومی اسمبلی الیکشن میں پہلی دفعہ اربکان کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی،جس نے 150 سیٹیں حاصل کی،اس طرح 1996ء میں مشترک حکومت بن گئی ، معاہدات کے مطابق ایک سال اربکان وزیر اعظم رہیں گے اور دو سال فریق مخالف پھر دو سال اربکان وزیر اعظم۔۔۔
پہلے سال کے نصف میں ہی ترکی میں عجیب و غریب تیز رفتار ترقیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی غیر معمولی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسلام دشمن دوسری پارٹیوں نے ایک ایسا منصوبہ بندی کی،کہ جس وقت سال مکمل ہوا اور حکومت جیسے ہی فریق مخالف کو دی گئی اس وقت تک فریق مخالف کے تمام ارکان کو خرید لیا گیا تھا اور پھر حکومت پر اسلام دشمن قابض ہوگئے،،اور حکومت نے دین دار لوگوں پر سختی شروع کردی، جو کبھی چھپ کر نماز پڑھتا ہوا دیکھ لیا جاتا اسے کسی نہ کسی طرح فرضی اسباب بناکر معذول کردیا جاتا،نیز اربکان اور ان کی پارٹی پر فوج نے بھی میڈیا کا سہارا لیکر اسلامی پارٹی کو رجعت پسندی کا بار بار طعنہ دینے لگے اور عوام کو ورغلانے لگے یہاں تک کہ خود اربکان اور ان کی پارٹی کے بہت سے افراد پر آئیں کی خلاف ورزی کے عنوان سے طرح طرح کے مقدمات بنادئیے گئے، اس طرح اسلامی پارٹی پر اگلے پانچ سال کیلئے پابندی لگاکر *سیاست کے دروازے بھی بند کردئیے* اور اُدھر شہر استنبول کے مقبول نوجوان مئیر رجب طیب اردگان صاحب پر ایک تقریر کے دوران کچھ اشعار پڑھنے پر مقدمہ قائم کردیاگیا، پھر اس مقدمہ میں *دس مہینے کی سزا* سنائی گئی اور *سیاست کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردیئے*،اور وہ چند اشعار یہ تھے…..
*””مسجدوں کے مینار ہمارے نیزے ہیں، مسجدوں کے گنبد ہماری آہنی ٹوپیاں ہیں، مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں، اہل ایمان ہمارے لشکر ہیں، ہمارے ایمان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا "”*
*زنداں سے پارلیمان تک* :
مخالفین نے اپنے طور پر اسلام پسندوں کی سیاسی زندگی کا خاتمہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، مگر اسلام پسندوں نے اس سفر میں صبر و تحمل، استقامت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا، یہاں تک کہ اسلام پسندوں نے اس سفر میں پانچ ناموں سے کام کرتے رہے، ملی پارٹی، ملی سلامت پارٹی، رفاہ پارٹی، فضیلت پارٹی، سعادت پارٹی غرض حالات کے نشیب و فراز اور لادین طبقوں کی مخالفت کے سبب وقتا فوقتاً *ہر پارٹی پر پابندی عائد ہوتی گئی*، وجہ وہی اسلامی نام اور اسلامی کام قرار پایا.
مخالفین کی اتنی ساری فریب کاریوں کے بعد بھی خدا کو کچھ اور ہی منظور ہوا، اس لئے ترک اسلام پسندوں نے پھر ایک *نئ پارٹی "انصاف اور ترقی” جسٹس اینڈ ڈیولپمینٹ* پارٹی کے بدلے ہوئے نئی جماعت کے تحت کام کرنے لگے، اصلاح پسندوں کی اس نوخیز جماعت کے پہلے صدر عبداللہ گل کو بنایا گیا، جماعت میں طیب اردگان جیسا مقبول قائد موجود تو تھا لیکن ان پر تاحال سیاست پر پابندی عائد تھی، لہذا ان کے پرانے دوست عبداللہ گل صاحب کو سامنے لانے کا فیصلہ لیا گیا اور ان کی یہ سیاسی حکمت عملی بے انتہا کامیاب رہی جس کیلئے ایک اقتباس پیش خدمت ہے..
*””نام بدل کر سامنے آنے والی نوزائیدہ جماعت نے نئے انتخابات میں 35 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئ، اسمبلی میں صرف دو پارٹیاں ہی آنے میں کامیاب ہوسکی ،اس لئے تمام وزارتیں انہی دونوں کے درمیان تقسیم ہوئیں، عبداللہ گل جس کی جماعتی نشستوں کی تعداد 362 تھی ،بھاری اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ،اسے وزیر اعظم بنادیا گیا ،اس دیرینہ رفیق طیب اردگان دس مہینے کی سزا پانے کے سبب تاحال سیاست کے منظر نامے سے غائب کردیئے جانے کی سازش کا شکار تھا ،یہ سازش آئیں کی ایک شق کا سہارا لے کر کی گئی تھی ،عبداللہ گل نے وزیر اعظم بننے کے بعد اسمبلی میں اس شق میں ایسی ترمیم منظور کروائی جس کے سبب طیب اردگان کیلئے ضمنی انتخابات کے ذریعے اسمبلی میں آنے کی راہ ہموار کردی، اس رکن کی نشست اس علاقے میں تھی جہاں پر تقریر کرنے پر اردگان کو نااہل قرار دیا گیا تھا، اردگان اسی شہر اور حلقے سے جیت کر اسمبلی کارکن بنا جس میں شعر پڑھنے پر اس پر پابندی لگائی گئی تھی، اس شہر کا نام کارکن ہے یہ اردگان کا سسرالی شہر بھی ہے ،اس کے بعد کی تاریخ وفا و حکمت بھی یادگار رہے گی ،اب کی مرتبہ عبداللہ گل نے وزارت عظمی سے استعفی دے دیا اور اس کی جگہ نوجوان قائد رجب طیب اردگان تمام رکاوٹیں عبور کرتا ہوا وزیر اعظم کے منصب تک جا پہنچا،مخالفین منہ تکتے رہ گئے اور اسلام پسندوں کی حکمت و فراست نے نئی تاریخ رقم کردی ۔۔۔*(ترک ناداں سے ترک دانا تک صفحہ 72)
مذکورہ تاریخی پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، سیکھنے کی کوشش کریں کہ ہم جیسے لوگ، ان جیسے حالات میں ہمارے ملک میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ دیکھئے قرآن مجید کی اس آیت میں بھی اسلام سے دفاع اور کفار کے مقابلے کیلئے تیاری کا حکم ہے ، *واعدوالھم ما استطعتم من قوة*، اس آیت میں من قوۃ کا عام لفظ اختیار فرماکر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ قوت ہر زمانہ اور ہر ملک و مقام کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے نیز *ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم* فر ماکر حکمت اور مقصد بھی واضح فرما دیا کہ اصل قتل و قتال نہیں ہے بلکہ کفر و شرک کو زیر کرنا اور مرعوب و مغلوب کردینا ہے جو کبھی صرف زبان و قلم بھی ہوسکتا ہے اور کبھی قتل و قتال سے….. جیسی صورت حال ہو اس کے مطابق دفاع کرنا فرض ہے… (معارف القرآن ج سوم)
*ڈپینڈ کے بجائے دفاع کریں* : ہمیشہ یہ دیکھنے میں آیا کہ الیکشن کے دور میں پورے مسلمان کسی نہ کسی پارٹی پر ڈپینڈ کرتے ہیں کہ یہ سیکولر ہے وہ سیکولر ہوگی مگر جب حقیقت پر سے پردہ اٹھتا ہے تو پھر سونچتے ہیں کہ اب کیا کریں، مختصر یہ کہ اب ضرورت ہے کوکسی بھی پارٹی پر ڈپینڈ (Depend) کرنے کے بجائے دفاع کی تیاری کریں جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے،میری اس تحریر کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سفید جھبہ پہن کر سفید ٹوپی گھنی داڑھی مکمل متشرع انسان اس سیاست کے اس بازار میں جائے جہاں جھوٹ، رشوت خوری، دغابزی، فریب کاری زوروں پر ہو بلکہ ایسے متشرع یا علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ایک ایسا حلقہ تو ضرور بنائیں جس کے عمل دخل کے بغیر یا تائید کے بغیر کسی بھی امیدوار کا سرخرو ہونا محال ہوجائے، ایسی شکل میں اس متعین حلقہ کی مدد سے ایسے افراد کا انتخاب ہوتا رہے گا جو مکمل نہ صحیح لیکن کچھ تو دین و شرع کا خیال کرے گا جس سے رفتہ رفتہ سیاست کی اس تاریکی میں ایمانی شمع کی روشنی رونما ہونا شروع ہوگی جس سے گمراہ لوگوں کو صحیح راہ پر گامزن ہونا ممکن ہوگا.
فریق مخالف نہ صرف ہم سے بات کرنے پر راضی ہے بلکہ ہمیں دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے بلکہ اپنی قوت و اقتدار سے اپنا پاور دکھانا چاہتا ہے ایسے تقابلی دور میں ہم یہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آپسی بات چیت سے مسئلہ کا حل تلاش کرلیں گے اور ہمارا اس پر مصر ہونا ہماری کمزوری سمجھا جارہا ہے…. قصہ مختصر یہ کہ *بقول صاحب ترک ناداں سے ترک دانا تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں پر فرشتے نہیں اترتے ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرشتہ نہ بنیں تو شیطان کے خلاف جنگ سے پیچھے بھی نہ رہیں، ترک دانا فرشتے نہیں لیکن انسان بننے کی کوشش ہم سے بہتر انداز میں کررہے ہیں*