تاتاری حملوں کا پیغام سوئی ہوئی قوم کے نام
ساتویں صدی ہجری عالم اسلام پر ہونے والے تاتاری حملوں کے تئیں یاد کی جاتی ہے جوکہ تاریخ عالم میں شاید ہی دوبارہ دہرائی جائے گی ، اس کی تباہی و بربادی کو تاریخ کے اوراق میں قیامت صغری سے تعبیر کیا گیا ،تاتاری قوم وہ قوم تھی جس نے عالم اسلام کی اسلامی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ، وہ جس شہر و سلطنت میں داخل ہوتے کسی کو زندہ نہیں چھوڑ تے تھے ، جن ملکوں کی طرف ان کا رخ ہوجاتا ،سمجھ لیا جاتا تھا کہ ان کی شامت آگئی ، جان و مال ، عزت و آبرو ، مساجد و مدارس کسی کی خیر نہیں رہتی تھی ، تاتاریوں کا رخ کرنا ،بربادی ، قتل عام ، ذلت و بے آبروئی کے مرادف تھا ، مسلمانوں کے دلوں میں ہونے والے تاتاریوں کی ہتبل کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ رقمطراز ہیں : مسلمانوں کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات ایک تاتاری ایک گلی میں گھستا ہے ، جہاں سو مسلمان موجود ہوتے ہیں کسی کو مقابلہ کی ہمت نہ ہوتی اور اس نے ایک ایک کرکے سب کو قتل کردیتاہےاور کسی نےہاتھ تک نہ اٹھا یا ، ایک گھر میں ایک تاتاری عورت مرد کے بھیس میں گھس گئی اور تنہا سارے گھر والوں کو قتل کردیا ، بعض اوقات تاتاری نے کسی مسلمان کو گرفتار کیا اور اس سے کہا کہ اس پتھر پر سر رکھ دے ، میں خنجر لاکر تجھے ذبح کردونگا ، مسلمان سہما پڑا رہا اور بھاگنے کی ہمت نہ ہوئی یہاں تک کہ وہ شہر سے خنجر لایا اور اس کو ذبح کیا ۔(تاریخ دعوت و عزیمت ج ۱ ص ۳۱۱)
اس فتنہ کی تباہی و بربادی کا تذکرہ کرتے ہوئے مورخ ابن اثیر اپنی قلبی کیفیت اور تأثر یوں لکھتے ہیں : ”یہ وہ حادثہ عظمی اور مصیبت کبری ٰ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی ، اس واقعہ کا تعلق اگرچہ تمام انسانوں سے ہے لیکن خاص طور پر مسلمانوں سے ہے ، اگر کوئی شخص دعوی کرے کہ از آدم تا ایں دم ایسا واقعہ دنیا میں پیش نہیں آیا تو وہ کچھ غلط دعوی نہ ہو گا ، اس کے تاریخوں میں اس واقعہ کے پاس بھی کوئی واقعہ نہیں ملتا اور شاید دنیا قیامت تک (یاجوج ماجوج کے سوا ) کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے ، ان وحشیوں نے کسی پر رحم نہیں کھایا ، انہوں نے عورتوں مردوں اور بچوں کو قتل کیا ، عورتوں کے پیٹ چاک کردیئے ، یہ حادثہ عالم گیر و عالم آشوب تھا ، یہ ایک طوفان کی طرح تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم میں پھیل گیا ۔(تاریخ دعوت و عزیمت ج ۱ ص ۳۱۶)
تاتاریوں کے ہاتھ اسلامی مرکز بغداد کی تباہی :-بغداد عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر علوم و فنون کا مرکز ، ہزار ہا علما و صلحا ء کا مسکن اور دارالخلافت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی آبرو تھا لیکن یہ وحشی عالم اسلام کو زیر و زبر کرتے ، خون کے دریا بہاتے اور آگ لگاتے ہوئے ۶۵۶ھ میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکوخان کی سرکردگی میں دنیائے اسلام کے دارالخلافت اور اس زمانہ کا سب سے بڑا علمی مرکز اور متمدن شہر بغداد میں داخل ہوئے اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی ،بغدا د کی تباہی اور مسلمانوں کے قتل عام کی تفصیل اتنی دردناک ہے ،کچھ اندازہ ان مورخین کے بیانات سے ہوگا جنہوں نے اس حادثہ کے آثاراپنی آنکھوں سے دیکھے۔
مورخ ابن اثیر ؒ لکھتے ہیں کہ ”بغداد میں چالیس دن تک قتل و غارت کا بازار گرم رہا ، چالیس دن کے بعد یہ گلزار شہر جو دنیا کا پر رونق ترین شہر تھا ایسا ویران و تاراج ہوگیا کہ تھوڑے سے آدمی دکھا ئی دیتے تھے ، بازاروں اور راستوں پر لاشوں کے ڈھیر اس طرح لگے تھے کہ ٹیلے نظر آتے تھے ، ان لاشوں پر بارش ہوئی تو صورتیں بگڑ گئیں اور سارے شہر میں بدبو پھیلی ، جس سے شہر کی ہوا خراب ہوگئی ، اور سخت وبا پھیلی جس کا اثر شام تک پہنچا ، اس ہوا اور وبا سے بکثرت مخلوق مری ، گرانی ،و با اور فنا ، تینوں کا دور دورہ تھا ۔(تاریخ دعوت و عزیمت ج ۱ ص ۳۰۸)
شیخ تاج الدین السبکی کے قول کے مطابق ” ہلاکوخان نے خلیفہ بغداد ( مستعصم ) کو ایک خیمہ میں اتارا اور وزیر العلقی نے علماء اعیان شہر کو دعوت دی کہ خلیفہ اور ہلاکو کے صلحنامہ پر گواہ بنیں جب وہ آئے تو اس نے سب کی گردن اڑا دی ، اسی طرح یکے بعد دیگرے بلایا جاتا اور سب کی گردن اڑادی جاتی،شہر بغداد میں ایک مہینہ سے زیادہ قتل عام جاری رہا ، ہلاکو نے مقتولین کو شمار کرایا تو ۱۸ لاکھ مقتول شمار ہوئے ۔
سوال یہ ہے کہ وہ کیا وجہ ہوئی جس نے تا تاریوں کو وحشی بنادیا تھا ، جس کی وجہ سے یہ قوم ظلم و بربریت میں ایک نئی مصیبت بن کر ابھری ، اس کے جواب میں تاریخ کا طالب علم تو یہی کہے گا کہ اس منحوس واقعہ کا سبب سلطان وقت علاء الدین محمد خوازم شاہ کی بظاہر ایک غلطی اور بے تدبیری تھی کہ اس نے پہلے ان تاتاری تاجروں کو قتل کروادیا ، جو اس کے ملک میں تجارت کے لئے آئے تھے ، پھر جب چنگیز خان نے اس کا سبب دریافت کرنے کیلئے ایک سفارت بھیجی تو خوارزم شاہ نے سفیر کو بھی قتل کرادیا ، اس پر تاتاری خاقان چنگیز خان نے برافروختہ ہوکر خوازشاہ کی شاہی سلطنت اورپھر پورے عالم اسلام پر حملہ کردیا ۔
لیکن قرآن مجید میں اعمال واخلاق کے نتائج اور اقوام وملل کے عروج و زوال کا جو ابدی اور عالمگیر قانون بتایا گیا ہے اس کے پس منظر میں حضرت علی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں :کہ اس فتنہ عالم آشوب اور اس وقت کی دنیا ئے اسلام کی اس قیامت صغری کا حقیقی سبب صرف اتنا نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ نے کوتاہ نظری اور بے تدبیری سے کام لیا ، اور اچانک سیلاب عالم اسلام پر امنڈ پڑا ، اور ایک فرد کی غلطی سے ساری ملت اسلامیہ کو روز بد دیکھنا پڑا جس کے لئے وہ نہ تیار تھے اور نہ اس کے مستحق ،قرآن مجید کا چراغ اگر ہاتھ میں لے کر اس وقت کے مسلمانوں کے اخلاقی ، دینی ، تمدنی ، سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح سامنے آجاتی ہے کہ یہ منحوس واقعہ اچانک پیش نہیں آیا ، اس کے اسباب اس سے کہیں زیادہ وسیع ، گہرے اور ٹھوس ہیں جتنے سمجھے اور بیان کئے گئے ہیں ، اس کے لئے ہم کو کئی سال پیچھے جاکر اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا اور اس وقت کی اسلامی سلطنتوں اہم ترین تمدنی مراکز اور اسلامی معاشرہ پر ایک اجمالی نگاہ ڈالنی چاہیئے ۔(تاریخ دعوت و عزیمت ج۱ ص ۳۰۴)
قرآن مجید کا ابدی قانون وہ ہے جو سورہ اسراء میں اللہ پاک نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :وَ قَضَیْنَا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ فِیْ الْکِتَا بِ ۔۔۔الخ ترجمہ:ہم نے بنی اسرائیل کو یہ بات بطور پیشن گوئی کے ذریعہ بتادی تھی کہ تم سرزمین شام میں دو مرتبہ گناہوں کی کثرت سے خرابی کروگے اور دوسروں پر بھی بڑا زور چلانے لگو گے یعنی ظلم و زیادتی کروگے ، اور یہ بھی بتلادیا تھا کہ دونوں مرتبہ سخت سزاوؤں میں مبتلا کئے جاوگے ،پھر جب ان دو مرتبہ میں سے پہلی مرتبہ کی میعاد آئےگی تو ہم تم پر ایسے افراد کو مسلط کریں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے پھر وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے اور تم کو قتل و قید اور غارت کردیں گے اور یہ (وعدہ سزا ) ایک وعدہ ہے جو ضرور ہوکر رہے گا ۔ ( معارف القرآن ج ۵ ص ۴۴۱)
آیت مذکورہ میں بنی اسرائیل کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمادیاتھا کہ دین سے انحراف کریں گے ذلیل و خوار کیے جائیں گے اور کا فردشمنوں کے ہاتھوں مارڈالی جائے گی اور صرف یہی نہیں کہ دشمن ان پر غالب ہوکر ان کی جان و مال کو نقصان پہنچائیں بلکہ ان کے ساتھ ان کا قبلہ جو بیت المقدس ہے اس میں گھس کر اس کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ کریں گے ،مذکورہ آیت میں ان دوواقعات کی طرف اشارہ ہے جس میں بنی اسرائیل نے اپنے وقت کی شریعت الہیہ سے انحراف کرکے سرکشی اختیار کی تو پہلے واقعہ میں ایک مجوسی کافر بادشاہ کو ان پر اور بیت المقدس پر مسلط کردیا گیا جس نے تباہی مچائی اور دوسرے واقعہ میں ایک رومی بادشاہ کو مسلط کیا جس نے ان کو قتل و غارت کیا اور بیت المقدس کو منہدم اور ویران کیا ۔
حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :کہ بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہ الہیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے ، دین و دنیا میں ان کی عزت شوکت اور مال و دولت ، اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں جب وہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت سے انحراف کریں گے ، تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلط کردیا جائے گا جن کے ہاتھوں ان کے معبد ، مساجد کی بے حرمتی بھی ہوگی ۔ (معارف القرآن ج۵ ص ۴۵۰)
قرآن مجید کی آیت کی اس تفسیر کے بعد یہ بات جاننی چاہیئے کہ تاتاری حملے کوئی اتفاقی نہیں تھے ، اور نہ ہی سلطان وقت کی کوتاہی اور کوتا ہ نظری تھی بلکہ حقیقی اسباب تو اس وقت کے مسلمانوں کی دین بیزاری ، اخلاقی بے راہ روی تھی جو رفتہ رفتہ شریعت مطہرہ سے روگردانی کا سبب بنتی جارہی تھی اسی قدر سنت اللہ کے مطابق آسمانی تنبیحات کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا جو مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کے لئے بالکل کافی تھا،لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی غفلت اور دین بیزاری کا یہ عالم تھا کہ بغداد شہر میں جب شاہی جلوس نکلتا تھا تو اس جلوس میں شرکت کرنے والے حضرات نے اس دن عید کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد قضا کی، اسی طرح اور بہت سی صفات مذمومہ کے شکار ہوگئے تھے جو تاتاری یا اس جیسےعذاب کو دعوت دینے کے لیے کافی تھے ، ذیل میں ان اسباب کا تذکرہ تاریخی حوالوں کیے ساتھ پیش کیا جارہا ہے ۔
۱۔صحیح قیادت کا فقدان اور آپسی خانہ جنگی :-سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات (۵۸۹)پر اس کی وسیع و زرخیز سلطنت اس کی اولاد و خاندان میں تقسیم ہوگئی تھی ، جو کہ اس کی صلاحیت کی وارث اور اس کی صحیح جانشین ثابت نہ ہوسکے اور ایک دوسرے سے دست و گریباں اور برسر پیکار رہے ، ان میں سے بعض نے اپنے ہی قرابتوں کے خلاف صلیبی فرمانبرواں ، فرنگی فریقوں سے بھی مدد لینے سے احتراز نہ کیا اسی خانہ جنگی کے سبب زیر فرماں ممالک میں سیاسی انتشار ، انتظامی ابتری ، اخلاقی زوال رونما تھا لوگ ایک بے یقینی کی فضا میں زندگی گزاررہے تھے ،انتظامی و اخلاقی دونوں طرح کی کوتاہیوں اور بےراہ روی کا نتیجہ تاتاری حملوں کی شکل میں رونما ہوا ۔
۲۔مادہ پرستی کا شکار :-جس وقت تاتاری قوم بخارا ، سمرقند ، نیشاپور ، ہمدان جیسے اسلامی ملکوں کو تباہ کرتی ہوئی طوفان کی طرح اسلامی مرکز بغداد کی طرف بڑھ رہی تھی اس وقت تک بغداد میں سلطنت کی ظاہری شان و شوکت ،عجمی تکلفات اور دولت و تمدن کے کھوکھلے مظاہر اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئے تھے ،”خلیفہ الظاہر کےزرخرید علاء الدین الظاہری کی سالانہ آمدنی جو اس کو اپنی جائداد سے حاصل ہوئی تھی تین لاکھ دینار تھی ، شہر بغداد میں اس کے محل کی نظیر نہ تھی ، ان لوگوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی میں جو جہیز دیا تھا جو تحائف تقسیم کئے ان کو پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ”۔(تاریخ دعوت و عزیمت )
۳۔بے جا رسو م و رواج اور دین بیزاری :- شان و شوکت کے اظہار کیلئے عید اور جانشینی کے موقع پر جو شاہانہ جلوس بغداد میں نکلتے تھے تو سار ا شہر ان میں شرکت کرنے ، ان کا تماشا دیکھنے میں محو اور خود فراموش ہوجاتا تھا ، نمود و نمائش کے ماسوا جس طرح بے تکلف دینی فرائض ان میں نظر انداز ہوتے تھے اور نمازیں قضا ہوتی تھی اس کا اندازہ کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ۶۴۴ھ کی عید الاضحی ٰ کو اہل بغداد شہرکے باہر خلیفہ کا شاہی جلوس دیکھنے نکلے اور نماز عید انہوں نے غروب آفتاب کے وقت پڑھی ۔ (تاریخ دعوت و عزیمت ج۱ ص ۳۰۷)
۴۔اخلاقی بے راہ روی :- اخلاقی بے راہ روی اتنی زیادہ بڑھ چکی تھی کہ دل بہلانے والے مشاغل کا زور تھا ، مغنیات کی کثرت تھی اور دولت جمع کرنے کا شوق حد سے زیادہ تھا ، رشوت کی گرم بازاری تھی ، باطنیوں اور ٹھگوں کی سرگرمی تیز ہوگئی تھی ۔(تاریخ دعوت و عزیمت ج ۱ ص ۳۰۷)
یہ وہ حقیقی اسباب تھے جو سنت اللہ کے مطابق تاتاری عذاب کیلئے پیش خیمہ ثابت ہوئے اورعالم اسباب ظاہری میں وہ سبب ثابت ہوا جس میں سلطان خوارزم شاہ نے تاتاری تاجروں کو قتل کروادیا تھا جو بغرض تجارت اس کی سلطنت میں آئے تھے ، پھر تاتاری سفیر کو بھی قتل کروادیا جس پر تاتاری برانگیختہ ہوکر سلطان خوارزم پر ٹوٹ پڑے پھر عالم اسلام کے پر ۔۔۔۔۔
اس مضمون کے اختتام پر قارئین کرام خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا آج کا مسلمان ان اسباب و عوامل سے گھرا ہوا نہیں ہے جو اللہ رب العزت کے عذاب کو دعوت دینے کیلئے کافی ہے ، مذکورہ تحریر کا مقصد حالات حاضرہ اور حکومت وقت کی طرف انگشت نمائی کرنے والے افراد کیلئے ہیں جو صرف امت کو ڈرانے اور دہشت پیدا کرنے کا کام کرتے ہیں نہ انہیں اتنی توفیق ہوتی ہے کہ و ہ قرآن و حدیث سے ان مسائل کا حل تلاش کریں اور نہ تاریخ کی روشنی میں مسلمانوں کی صحیح رہبری کریں ۔۔!
ہم اس وقت تک حکومت وقت کی پریشانیوں سے نجات نہیں پاسکتے جب تک کہ ہم مومن کامل نہ بن جائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا : وَلَا تَهِنُوا۟ وَلَا تَحْزَنُوا۟ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ،تم نہ ہمت ہارو اور نہ غم کھاؤ، اگر تم ایمان رکھتے ہوتو تم ہی غالب رہو گے (سورہ اٰل عمران آیت ۱۳۹) اللہ پاک ہم سب کو تاریخ سےسبق لینے کی توفیق نصیب فرمائے ،اور تادم حیات ایمان پر قائم رکھے آمین ثم آمین
ماشاء اللہ. یہ مضمون مجھے بہت پسند آیا اللہ تعالیٰ مضمون نگار کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین