سیاسی و سماجی

ہندوستانی معاشرہ کے لئے ’’میٹھا زہر‘‘

ملک کی آزادی کے وقت کسی نے یہ سوچابھی نہیں ہوگاکہ ہماراملک ایک دن طبقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جائے گااوراس شدت کے ساتھ چڑھے گاکہ پولیس اورعدالت بھی اس کی چپیٹ میں رہیں گے، ورنہ ملک کی آزادی کی بجائے انگریزوں کی غلامی کوہی شاید ترجیح دی جاتی ؛ کیوں کہ ان کے دربارمیں کم از کم تمام ہندوستانی برابرتوتھے، ان کی نگاہ میں یہ طبقہ واریت تونہیں تھی، مصیبتیں تھیں، پریشانیاں تھیں، تکلیفیں تھیں، حیوانوں کی طرح کام بھی کرناپڑتاتھا، ماربھی کھانے پڑتے تھے، کھانے کومحتاج ہوجاتے تھے، منڈیوں پرانگریزوں کاقبضہ تھا؛ لیکن تمام ہندوستانی ان کی نگاہ میں برابرتھے، کتناہی بڑافسرکیوں نہ ہو، وہ بس ایک محکوم تھا، وہ ملازم تھااوروہ غلام تھا، بس غلام۔

ادھرچندسالوں سے ملک کے اندردوطرح کی نفرتیں شدت کے ساتھ پھیلائی گئی ہیں، ایک تومسلم کمیونٹی کے خلاف اوردوسرے دلت اورکمزوروں کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف جونفرت پھیلائی گئی ہے، وہ بالکل سورج کی روشنی کی طرح واضح ہے، اس پربہت کچھ لکھاگیاہے اورلکھاجارہاہے اورلکھاجاتارہے گا؛ لیکن دلتوں کے خلاف بھی نفرت کی کم بیج نہیں بوئی گئی ہے، دراصل ملک میں ایک طبقہ ایساہے، جس کی ذہنیت یہودیوں جیسی ہے، وہ یہودیوں کی طرح سوچتی ہے اوراسی طرح معاشرہ میں فسادمچاتی ہے، اوریہ سب اس چالاکی کے ساتھ کرتے ہیں کہ لوگوں کویہ محسوس بھی نہیں ہوپاتا، حقیقت میں یہ لوگ ہندوستانی معاشرہ کے لئے ’’میٹھازہر‘‘ہیں۔

آزادی کے بعدتمام لوگوں نے مل کریہ طے کیاتھاکہ اس ملک کا کوئی اپنامذہب نہیں ہوگا؛ تاکہ یہاں پربسنے والے تمام لوگ اپنے اپنے طورطریقے سے جی سکیں، ’’جیو اورجینے دو‘‘ کی پالیسی پرتمام لوگ عمل کرسکیں، ایک دوسرے کے دکھ دردمیں شریک ہوسکیں، ایک دوسرے کے تعلق سے بھلائی سوچیں، کسی کے دل میں کسی کے خلاف کوئی نفرت نہ ہو، گاؤں میں پہلے بھی مجلسیں لگتی تھیں، رات رات بھرچلتی تھیں، اس مجلس میں مسلم بھی ہوتے، برہمن بھی ہوتے، چماربھی رہتے، موچی بھی رہتے، تیلی بھی رہتے؛ بل کہ ہرعلاقہ کا راجہ تلاش کرکرکے تمام طبقات کے لوگوں کواپنی زمین دے دے کربساتاتھا، یہ تھی ہندوستان کی اصل روایت اورآج بھی بہت سارے دیہاتوں میں یہی روایت چلتی چلی آرہی ہے۔

لیکن اب ہندوستانی قوم بٹ چکی ہے اوراس بٹوارے کا کام یہاں کے نیتاؤں نے اپنے مفادکے لئے کیاہے، مذہب اوردھرم کے تعلق سے ہرشخص حساس ہوتاہے، وہ شخص بھی، جوکبھی دھارمک کام اورمذہبی امورانجام بھی نہیں دیتا، جب اس کے دھرم  کے خلاف بات کی جاتی ہے تووہ اسے برداشت نہیں کرپاتا، یہاں کے نیتاؤں نے سب سے زیادہ اسی کافائدہ اٹھایاہے، ایک نیتاجب مسلمان سے ملتاہے توٹوپی اوررومال ڈال لیتاہے اورجب غیرمسلموں سے ملتاہے توصرف مسلمانوں کو ختم کردینے کی بات کرتاہے، یہاں کی عوام بہت سیدھی سادی ہے، وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نیتاؤں کے دوہرے رویے اوردوغلے پن کوسمجھ نہیں پاتی اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہے، اورپھر اس وقت پچتاتی ہے، جب سب کچھ جل کرخاکسترہوچکاہوتاہے۔

بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست کواتنا گندا بنادیا گیا ہے کہ کوئی بھی شریف انسان جلدی اس میں قدم نہیں رکھنا چاہتا؛ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگرہرانسان گندگی کے سامنے سے ناک سکیڑ کرگزرجائے، کوئی اس کوصاف کرنے کے لئے تیارنہ ہوتوپھرسارے لوگ اس گندگی کی زد آجائیں گے، گندگی کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے شکار ہوجائیں گے، یہی اس ملک کی سیاست کے ساتھ ہوا، اچھے ہٹتے گئے، برے گھستے گئے، نتیجہ ہمارے سامنے ہے، اچھے کام کرتے ہیں، لوگ ان کے کام کودیکھ کرخود منتخب کرتے ہیں، برے کام نہیں کرتے ہیں، وہ ڈرپیدا کرتے ہیں اورلوگ ڈرکی وجہ سے انھیں ووٹ دیتے ہیں، نیم میں مٹھاس کی تلاش بیکار بات ہے توپھربرے میں اچھے کام کہاں تلاشتے پھریں گے؟

برے لوگ کام توکرتے نہیں؛ اس لئے ایسے ایسے موضوعات ڈھونڈکرلاتے ہیں، جن کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے قریب نہ جاسکیں، اب دیکھئے کہ ملک کے کئی صوبوں میں اس وقت بے وقت کی راگ’’لو-جہاد‘‘ پرقانون بنانے کی بات چل رہی ہے، جب کہ ان صوبوں میں خصوصیت کے ساتھ دلت طبقے کی بیٹیوں اوربہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں، ان کاریپ کرکے ماردیا جاتاہے، کوئی صوبہ اس پرقانون بنانے کی بات نہیں کرتا، کیوں؟ کیوں کہ اکثرنیتاؤں کے دامن اس قسم کے کیسزسے داغ دار ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پاورکاغلط استعمال کرکے خاطیوں کوہی بچانے کی فکرمیں لگ جاتے ہیں، ہاتھرس کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے اورابھی گلناز کا معاملہ بھی تازہ ہے اورانصاف کامنتظر۔

برہمن کی بیٹی بھی بیٹی ہوتی ہے اوردلت کی بیٹی بھی بیٹی ہوتی ہے، دونوں ماں کے پیٹ میں نومہینے رہنے کے بعد بہت تکلیفوں سے دنیا میں آتے ہیں، اس موقع سے وہ واقعہ یاد آتاہے، جس میں ایک شخص پیغمبراسلام کے سامنے حاضرہوکرزناکی اجازت مانگتاہے توپیغمبراسلام جواب میں فرماتے ہیں: کیا تم چاہوگے کہ کوئی تمہاری بیٹی، بہن اورماں وغیرہ کے ساتھ زناکرے؟ وہ کہتاہے: نہیں! توپیغمبرکہتے ہیں: تم جس کے ساتھ زناکروگے، وہ بھی توکسی کی بیٹی، بہن یاماں ہوگی؟ اورظاہرہے کہ وہ نہیں چاہے گاکہ اس کی بیٹی، بہن یاماں کے ساتھ زناکیاجائے، جیساکہ تم نہیں چاہتے۔

لوگوں کے ذہن ودماغ میں اسی سوچ کوبٹھانے کی ضرورت ہے کہ دلت کی بیٹی، مسلم کی بیٹی اورچمارکی بیٹی بھی بیٹی ہوتی ہے، اس کی اسی طرح قدرکرنے کی ضرورت ہے، جس طرح اپنی بیٹی کی قدرکرتے ہو، اوریہ اسی وقت ہوگا، جب اس طرح کے معاملات میں سخت رویہ اپنایاجائے، اگربیٹابھی خاطی نکلے تواسے بچانے کی بجائے مجرم کی طرح سزادی جائے، اوریہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ اسی وقت ہوگا، جب کہ پاورپرامانت دارودیانت دار لوگ رہیں گے؛ اس لئے اس وقت خصوصیت کے ساتھ اس ملک کی ضرورت یہ ہے کہ یہاں کے عہدہ داروں میں اچھے لوگ آئیں، اس کے لئے ہم سب کومل کرکوشش کرنی چاہئے، سیاست کے میدان کوگندہ کہہ کرصرف نظرکرنابالکل بھی درست نہیں؛ بل کہ اس گندی کی صفائی ضروری ہے، اورصاف کرنے کے لئے گندگی میں اترناہی پڑے گا، جس راستہ نے طبقہ واریت کوجنم دیاہے، اسی راستے سے اسے ختم بھی کرناچاہئے۔

Related Articles

2 Comments

  1. اسلام‌علیکم‌و رحمت اللہ وبرکاتہ

    میری ناقص سمجھ کے مطابق ہندوستان کی‌آزادی کی تو بنیاد ہی فرقہ واریت اور فرقہ پرستی پر پڑی ہے اور اسکی سب سے بڑی اور جامع مثال ہندوستان اور پاکستان کا بٹوارہ ہے تو یہ کہنا بالکل بےبنیاد ہے کہ اس وقت کسی نے یہ سوچا نہ ہوگا۔

    1. وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
      اگر آپ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اوردیگر حضرات مثلاً جمعیۃ وغیرہ فرقہ پرستی کے داعی تھے، جو چیخ چیخ کر لوگوں کوروک رہے تھے

ریحان خان کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×