شخصیات

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

اب نہ فریاد،نہ ماتم، نہ فغاں اے ساقی
نطق و گویائ کی طاقت ہی کہاں اے ساقی

اس کی یاد میں خاموش ہے غوغائے حیات
بجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ شعلہ اظہار بیاں اے ساقی (عامر)
حدیث نبوی "کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل” میں اس حقیقت کو صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے،اور اس سفر زندگی کی آخری اور حقیقی منزل آخرت ہی ہے،لیکن اس راہ گذر کے کچھ مسافر ایسے بھی ہوتے ہیں،جن کا سفر تنہا نہیں ہوتا بلکہ ان کی حیثیت سالار قافلہ اور میر کارواں کی ہوتی ہے..
پھر جب ان کی میعاد سفر تمام ہوتی ہے تو ان کی رخصتی پر سارا ہی قافلہ اپنے اپنے تعلق اور رشتہ و رابطہ کے اعتبار سے، اپنے میر کی جدائی پر پر غم،نمناک،اشکبار،غمگیں اور حزیں ہوجاتا ہے۔۔۔
حضرت الاستاذ حضرت مولانا سید ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حادثہ وفات پر بھی سارے ہی قافلہ کا یہ حال ہے،

ماتھے پر تحریر ہے غم کی،خشک ہیں لب،آنکھیں نم ہیں
ہم سے ہمارا حال نہ پوچھو،ہم تو سراپا ماتم ہیں
(عامر)

جس طرح ہر بڑے آدمی کے دنیا سے رخصت ہونے پر جو غم کی عمومی فضا قائم ہوجاتی ہے اور فوری طور پر سب ہی کی آنکھوں سے بے اختیار اشکہاے فراق بہ جاتے ہیں۔۔( اور یہ فی الواقع اس شخص سے تعلق،ربط اور محبت ہی کے نتیجہ میں ہوتا ہے)،حضرت مولانا کی خبر وصال سے بھی نہ جانے کتنی آنکھیں اشکبار ہوئی ہوں گی،اور خدا معلوم کتنے ہی دلوں پر یہ خبر،صاعقہ اثر بنی ہوگی،لیکن صحیح معنوں میں حضرت الاستاذ کی جدائی کا غم دن دو دن کا نہیں ہے،کہ آنسو بہاکر دلوں کو کچھ تسلی ہوجائے،
حضرت مولانا کی یاد اس قافلہ کو سفر زندگی کے ہر اس موڑ پر ستاۓ گی اور خوب ستاے گی،جہاں جہاں مولانا کے وجود سے ملت کی رہبری ہوا کرتی تھی،

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی۔۔ ( فراز)

عام طبقہ تو خیر اپنے اعتبار سے ان کی کمی کو محسوس کرتا ہی رہے گا،لیکن طبقہ خواص اور اقرباء و اعزباء،قرابت دار و اہل تعلق کو ان کی یاد رہ رہ کر آتی رہے گی۔

جان کر من جملہ خاصان مۓ خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے، (جگر)
ذیل کی سطور میں مولانا کے حوالے سے کچھ باتیں پیش ہیں۔۔
مولانا کے مثالی اور قابل تقلید اوصاف:
ہمارے مولانا بہت ہی خوش مزاج تھے،ہنس مکھ چہرہ،اور اس پر مستزاد ان کا پیارا لب و لہجہ دلوں کو بہت بھاتا تھا،وہ ہم سب کے خیر خواہ تھے،اور اپنے عزیروں اور طلبہ کے مشفق و مہربان رہنما و رہبر،ان کی ذات ہی میں ایک قسم کی جاذیبت، اور کشش تھی،وہ ملنسار،ہم درد،غم خوار،غم گسار اور سب کے کام آنے والے،اور سب سے باخبر رہنے والے تھے ،بل کہ ان کے چھوٹے اور ان سے تلمذ کا تعلق رکھنے والے بھی اگر ان سے رابطہ کرنے میں تاخیر کرتے تو وہ خود ہی آگے بڑھ کر ان کی بذریعہ فون خیر خیریت دریافت کرتے تھے ،اور اس میں ذرا بھی تکلف نہیں کرتے،وہ اپنے شاگردوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے، اور ان کی ترقی کے لئے کوشاں بھی رہتے تھے،
آہ! مولانا کی خورد نوازی کے یہ نمونے اب کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔۔
مولانا وقت کے پابند تھے،اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت فکرمند اور بے چین،
میرا مدرسہ مظہر العلوم میں تین سالہ تعلیمی دورانیہ ہے،مجھے یاد نہیں ہے کہ اس مدت میں مولانا نظام آباد میں ہوں اور کوئ اور دینی تقاضہ یا بیان نہ ہو اور ان کی مدرسہ میں دیر حاضری رہی ہو۔وہ مدرسہ کے ناظم تھے لیکن اساتذہ سے پہلے مدرسہ میں حاضر رہتے،طلبہ کی نگرانی کرتے،ان کے حفظ و ناظرے کے روزآنہ امتحانات لیتے اور خود ہی ترقی و اعادہ لکھتے،عالمیت کی بعض کتابیں پڑھاتے،کارکنان و اساتذہ کی کارکردگی کی خبر گیری کرتے رہتے،میں نے انہیں بیماری اور شدید بیماری کے ایام میں انتہائی درد کی حالت میں بھی مکہ مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے ( جہاں ان کی امامت تھی) باوجود رکنے اور آرام کرنے کے اصرار پیہم کے، جاتے دیکھا ہے،ان کے یہاں اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی گویا حرام کا درجہ رکھتی تھی،ایک موقع پر مجھ سے طلبہ کے تعلیمی معیار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوۓ فرمایا تھا کہ "مجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے میں کررہا ہوں،ان شاء اللہ میں عنداللہ ماخوذ نہیں ہوؤں گا۔۔”
وہ اپنے بڑوں کا بہت احترام کرتے تھے،اور ان سے مسلسل رابطہ میں بھی رہتے تھے،ان کے احترام اکابر کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بڑوں کے سامنے خطاب یا بیان نہیں کرتے تھے،ایسا متعدد دفعہ ہوا کہ ان کی خطابت شباب پر تھی اور سامعین سارے ہی ان کی طرف متوجہ اور موضوع بھی انتہائی اہم،لیکن جلسہ گاہ میں کوی بڑے عالم دین( جن کا صدارتی خطاب رہتا،یا مولانا کے بعد ان کا بیان طۓ رہتا) تشریف لے آے اور مولانا نے آن واحد میں موضوع سمیٹا اور خود کرسی سے یہ کہتے ہوۓ اٹھ گۓ کہ اصل تو ہمارے ان بڑوں سے ہم کو مستفید ہونا ہے۔۔۔۔خطابت کے عین عالم شباب میں اپنی تقریر کا کامیابی کے ساتھ خاتمہ کرنا،جہاں خطابت پر قدرت کی ایک واضح علامت ہے،وہیں مولانا کا یہ عمل بھی ہم خوردوں کے لئے بجائے خود مثالی ہے۔۔

ع۔۔اب انہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر

بدعات کی سرکوبی کے لیے ان کی مثالی جدوجہد:

امام قرطبی رح نے فرمایا: لن یعمل بالسنن ولن ینکر البدع الا من ھون اللہ علیہ باسخاط الناس(کہ سنتوں پر عمل اور بدعات پر نکیر اسی کے لئے بتوفیق خداوندی آسان ہوتی ہے جس پر لوگوں کی ناراضگی اور مخالفت کا کچھ اثر نہیں ہوتا)۔
سنتوں کی ترویج اور بدعات کی بیخ کنی کے لئے مولانا کی مسلسل کوششیں ان کی کتاب حیات کا ایک جلی عنوان ہے،
میں نے خود مولانا کی زبانی سنا ہے کہ جب مولانا نۓ نۓ دارلعلوم دیوبند سے پڑھ کر آۓ تھے تو ضلع نظام آباد بدعات کا گڑھ تھا، ایسے ماحول میں سنتوں کا احیاء اور بدعات کی سرکوبی ایک طویل اور صبر آزما کام ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائ پرمشقت بھی تھا۔۔لیکن مولانا استقامت کا پیکر تھے،انہوں نے خدا کی توفیق سے اور اپنے آہنی عزائم کے ساتھ اس مخالفت کے ماحول میں چلنے والی تند و تیز ہواؤں کا بھر پور مقابلہ کیا،اور زندگی بھر ضلع نظام آباد اور اس کے اطراف و اکناف میں بدعات کے خاتمے کے لیے شمشیر بے نیام بنے رہے، انہیں اس پر خطر راہ میں مصائب و مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا،بل کہ کچھ شر پسند عناصر تو مسلسل درپۓ آزار بنے رہے حتی کہ انہیں جان کی بھی دھمکیاں سنائ گئی، لیکن یہ مرد خدا تھا جو کوہ استقامت بنارہا،
اور ہمیشہ یہی کہتا رہا
نواے حق کو اگر یہ دنیا قرار دیتی ہے باغیانہ
میں تہمت بزدلی نہ لوں گا مجھے گوارا ہے سر کٹانا،
(عامر).

اپنے اکابر کے افکار و نظریات کی ترجمانی:
مولانا اپنی فراغت کے بعد سے تا دم آخر نظام آباد میں مختلف دینی و ملی خدمات میں ہمہ تن مصروف رہے، اور ہر موقع پر اور ہر پلیٹ فارم پر وہ اپنے اکابر( اکابر دیوبند) کے افکار اور نظریات کی ترجمانی کرتے رہے،اس صحیح و سلامت روش پر قائم رہنے اور اس کی ترجمانی کرنے میں جس قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اس کا کافی تجربہ رکھتے تھے،چنانچہ جب کبھی انہیں طلبہ مدارس دینیہ یا فضلاۓنو سے خطاب کا موقع ملتا یا کوئ نو فارغ عالم دین ان کی خدمت میں بغرض استفادہ حاضر ہوتے،تو مولانا کی اس حوالے سے مشاہداتی و تاثراتی گفتگو میں بہت ہی قیمتی اور رہنمایانہ خطوط ان کو حاصل ہوتے۔۔

متنوع کمالات والی شخصیت:
مولانا کی خدمات دینیہ متنوع الجہات تھی، انہوں نے تیس سال تک مدرسہ کی نظامت، چار دہائیوں تک مسجد کی امامت اور جمعہ کی خطابت، ١٥/ سال تک جمیعۃ العلماء و شرعی پنچایت اور مسلم پرسنل لا کی صدارت کے فرائض انجام دۓ اور اس سلسلے میں ان کی کوششیں اور محنتیں قابل رشک ہیں،جمیعۃالعلماء کے تحت منعقد ہونے والے پروگرام اور اس میں ان کی سرگرمیاں اور دیہاتوں کے دورے اور اس جیسے دیگر دینی و ملی کام مولانا کی ناقابل فراموش خدمات ہیں،قابل فخر ہے کہ مولانا کے قرآن کریم کے تفسیری دروس ٣٧/ سال کے لمبے عرصے تک جاری رہے،اور چار دفعہ دروس میں قرآن کریم کی تفسیر مکمل کی ہے، ۔۔۔۔۔۔یقینا مولانا کی خدمات میں سے ہر ایک موضوع ایسا ہے کہ ان کے سوانحی نقوش میں بالتفصیل سنہرے حروف سے وہ( خدا نے چاہا تو) لکھا جائے گا۔۔

مرض الموت اور دم واپسیں:
مولانا عرصہ سے شکر کے مریض تھے،اور اس کی دوای بھی مستقل استعمال کرتے تھے،لیکن اب کی جو مولانا پر بیماری کا حملہ ہوا وہ بالآخر جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔تقریبا ایک ہفتے تک مولانا بیمار رہے،ڈاکٹروں کی تشخیص تھی کہ پھیپھڑوں میں انفیکشن ہوا ہے،اور آکسیجن کی بھی کمی ہے،لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صحت یک لخت گرگئ اور کاتب تقدیر نے مولانا کی جو کتاب زندگی لکھی تھی،کل ١٧/جولائی ٢٠٢٠ ء کو بوقت نو بج کر دو منٹ,جمعہ و ہفتہ کی درمیانی شب میں اس کا آخری ورق تمام ہوا،اور طائر روح ہمیشہ کے لیے قفس عنصری سے آزاد ہوگیا۔
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں
۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اب حدود سود و زیاں سے نکل گۓ۔۔

پس ماندگان:

مولانا کے پس ماندگان میں مولانا کی اہلیہ محترمہ اور ہم طلبہ کی اماں جان ادام اللہ ظلھا اور ایک حقیقی بھائ اور بہنوں کے ساتھ ان کی اولادیں ہیں،گرچہ مولانا کی اپنی کوئ صلبی اولاد نہیں لیکن ان کے علمی و روحانی وارثین کی تعداد ہزاروں میں ہے،جن کے دل میں مولانا کے لئے اپنے حقیقی باپ کی سی محبت ہے، جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک مولانا کے لئے صدقہ جاریہ اور مولانا کے کام و کاز اور فکر کو آگے بڑھانے والی ہے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×