سیاسی و سماجی

تھے تو یہ آباء ہی تمہارے مگر تم کو کیا ہو؟

۱۵؍ اگست انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے،ملک بھر میں جشن کا ماحول ہے ، خوشی کی شاہنائیوں پر برادران وطن ناچتے اور آزادی کا پرتپاک استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہے جن کو آزادی پھول کے گلدستہ کی شکل میں ملی ، انہیں اکابرین کی ناقابل تردید قربانیوں کا دانستہ یا نادانستہ کوئی علم نہیں ہے ، جو کہ ایک مخصوص نظریہ کے تحت پردہ راز میں رکھا گیا ہے، اب حالت یہ ہوگئی کہ قوم کا بچہ بچہ انہیں رٹائے ہوئے چند ناموں کو نجات دہندہ مانتا ہے لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کا آپ خودہی فیصلہ کریں ۔
ہندوستان امن وآشتی کا گہوارہ ، رافت ورحمت کا مسکن ،اور انصاف کا محور ۱۳۰۰؍ سالہ مسلم حکمرانی کا عکاس تھی لیکن ۱۴۹۸؁ء کی رات ساحل ہند پر انگریزوں کے ناپاک قدم پڑے اور ۱۶۰۱ء؁ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملک میں تجارت کے بہانے قدم جماکرعوام کو تختہ مشق بنانا شروع کیااور استعمار وفسطائیت کی مہیب گھٹا چھاگئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملک چھوڑنے کا حکم سب سے پہلے ۱۶۸۶؁ء میں اورنگ زیب عالمگیرؒ نے دیا پھر جب ظلم و زیادتی بڑھی تو ۱۷۵۷؁ء میں پلاسی کے میدان میںسراج الدولہ نے انگریزوں کو چیلنج کیا ،پھر جب انگریزوں نے غداروں کے ساتھ ساز باز کرکے ہندوستان پرقابض ہونے کی کوشش کی تو ۱۷۸۲؁ء تک انگریزوں کے راستہ کا کانٹا میسور میں حیدر علی تھا ۔
پھر ۱۷۹۱ء؁ سے لیکر ۱۷۹۹؁ء تک انگریزوں کی نیندیں حرام کرنے والا شیر میسور ٹیپو سلطان تھا، جس کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ اس کے جیتے جی کسی انگریز میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کو اپنا ملک کہہ سکیں ، اور جب ۱۷۹۹؁ء میں ٹیپو یہ کہتے ہوئے شہید ہوئے کہ’’ گیدڑ کی سو سال کی زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی تب بہتر ہے‘‘،تب ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر انگریزی جرنیل یہ کہتا تھاکہ’’ آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔
پہلی مسلح جنگ آزادی : پھرجب ۱۸۰۳؁ء میں انگریزوں نے دہلی پر جابرانہ قبضہ کرکے یہ اعلان کیا کہ’’خلق خدا کی ، ملک بادشاہ سلامت کا ، اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘تو ساراہند سکتہ میں آگیا طاغوتی طاقت کے مقابلہ کسی میں چوں وچرا کی ہمت نہ رہی،ششدر وحیرانی ہر ایک پر چھاگئی مگرسب سے پہلے مستقبل کے نقشہ کو بھانپ کرفتوی جہادکے ذریعہ مسلمانوں کو گرمانے والے ایک بوریہ نشین فقیر شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے صاحبزادے شاہ عبد العزیزؒ تھے، انہیں معلوم تھا کہ اگر علم جہاد بلند نہ کیا گیا تو پھر ہماری نسلیں غلامی کے طوق میں دم توڑدیں گی ، اگر شمشیر کو بے نیام نہ کیا گیا تو پھر غیروں کی تلواریں ہوں گی اور ہماری گردن ، اگر ایمانی شعوربیدار نہ کیا گیا تو پھر کوڑیوں کے عوض اسکے خریدار موجود ہوںگے چنانچہ ۱۸۲۴؁ء سے۱۸۳۱ء؁ تک انگریزوں کو لوہے کے چنے چبوانے والے شاہ عبد العزیزؒ کے سرپرستی میں سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید تھے جو مسلح جنگ آزادی کے اولیں سرخیل اور قائد تھے یہی پہلی مسلح جنگ تھی جس میں صرف اور صرف مسلمان ہی تھے بالآخر یہ مقدس قافلہ انگریزوں کے چاپلوس راجہ رنجیت سنگھ سے مقابلہ کرتا ہوا ۱۸۱۳؁ء کو بالا کو ٹ یہ کہتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
جہاں جہاں نظر آئے تمہیں لہو کے چراغ مسافران محبت ہمیں دعا دینا
دوسری مسلح جنگ آزادی: بالاکوٹ کے شہداء کا لہو ۱۸۵۷؁ء کی شکل میں رنگ لایا اور شعلہ جوالہ بن کر پھوٹ پڑا ، انگریزوں کے خلاف نفرت کا زہر ابل پڑا، ہر کس وناکس حقیقت حال سے آگاہ ہوکر آزادی کی جنگ میں حصہ لینے لگا اور مستقبل کو تابناک کرنے کی جد وجہدبغاوت کی شکل میں سامنے آئی،اس جنگ کی قیادت اکثر وبیشتر علماء کرام کررہے تھے،جس میں ۵؍ لاکھ مسلمانوں کا لہو نے زمین کی پیاس بجھائی جن میں۵۸؍ ہزارسے زائد علماء تھے ، ان کے ساتھ جووحشت وبربریت کی داستان دہرائی گئی اسکی نظیر تاریخ میں ملنے سے قاصر ہے، زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سی دیا گیا ، سولی پر چڑھانے سے پہلے ان پر سور کی چربی چڑھادی جات جب اس سے بھی سکون نہ ملتا تو مسلمانوں کو توپ کے سامنے رکھ کر ان کی چیتھڑے اڑادئے جاتے اس منظر کو دیکھ کر سگریٹ کے کش لیتے اور ہنسی اڑائی جاتی، خلاصہ یہ کہ ان میں انسانیت کی ادنی سی رمق باقی نہیں تھی ، اور وہ انسان نما جانور اور درندے بن گئے تھے۔
قیام دارالعلوم اور تیسری جنگ آزادی:سر زمین ہند کو شہداء کا مسکن بنانے کے بعد انگریز اس خام خیالی میں مبتلا تھے اب ہم نے مخالفین کو سرنگو کردیا لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک فقیرہندوستان کا مستقبل سنوارنے کیلئے اورحالات سے نبرد آزمائی کیلئے ۱۸۶۶؁ء میں دیوبند کی سرزمین پر دارالعلوم کی شکل میں ایک ثمر آور درخت بو رچکا تھا پھر ۶؍ مہینہ بعد مظاہر العلوم کا اور رفتہ رفتہ ہندوستان میں مدارس کا جال بچھتا چلا گیالیکن تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے اس بے بسی وبے کسی کے عالم میں مفت میں تعلیم وتربیت دینا ممکن نہیں تھا چنانچہ ساری قوم کو متوجہ کردیا گیا کہ جب تک یہ مدارس ہے تم سلامت ہو جب یہ مدارس ختم ہوجائیں گے تم بھی ختم ہوجاو گے اس کا مقصد یہ تھا کہ جہاںایمان وایقان کی سلامتی ہو وہی ملک وملت کی نگہبانی بھی، چنانچہ اسی مدرسہ نے اپنا سب سے پہلا طالب علم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒکا مجاز حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒکے شاگر د شیخ الہند محمود الحسن دیوبند ی ؒ کو جنم دیا کہ جس کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ خود انگریز کا افسر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ
’’ اگرمحمود حسن کو جلاکر راکھ کردیا جائے تو اس کی راکھ کے اندر سے انگریز کی دشمنی کی بو آئے گی‘‘۔
قیام دارالعلوم کے چند سال بعد انجمن ثمرۃ التربیت کے تحت انگریزوں سے مقابلہ کیلئے جانبازوں کو تیار کیا گیااور ۳۰؍ سال کے طویل عرصہ محنت کے نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شخص انگریز کی آنکھ میں آنکھ ڈالنے لگااس محنت کو حتمی شکل دینے کیلئے ۱۹۰۵؁ء میں شیخ الہند نے دستار بندی کا لیبل لگاکر تحریک ریشمی رومال کا باضابطہ آغاز کیا ، جسمیں ابتداء ا ۳۰؍ ہزار افراد نے شرکت کی اور یہ۱۸۵۷؁ء کے بعد مسلمانوں کا جو سب سے بڑا مجموعہ ، جس کو دیکھ کر انگریز کے ہوش ہوا ہوگئے ، بدقسمتی سے وہ ناکام ہوگئی اوربشمول آپ کے ہندوستان بھر سے بڑی تعداد میں علماء دار ورسن کو چوما اور جزیرہ انڈمان اور مالٹا کی ویران گھنڈرات کو آباد کیا،اگر وہ تحریک کامیاب ہوتی تو آج ہندوستان کا منظر کچھ اور ہی ہوتا ۔
اس ناکامی نے بجائے پژمردگی کے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عزم وحوصلہ کو مہمیز لگائی چنانچہ پھر ۱۹۱۹ء؁ میں جمعیۃ العلماء ہند کی بنیاد پڑی اور شیخ الہند جیل سے واپسی کے بعد پہلے سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ میدان عمل میںرو بقدم ہوئے اور اسی پلیٹ فارم سے آپ نے دوڑ لگائی بالآخر دو صدیوں سے بہتا ہوا شہداکا لہو ۱۵؍ اگست ۱۹۷۴؁ء کو آزادی کی شکل میں رنگ لایا ملک نے شہنائی بجائی ابھی وہ تھمنے نہ پائی کہ انگریزوں کی مکاری سے فرقہ واریت نے اپنوں کے ہی گریبان کو چاک کیا اور قتل وغارتگری عام ہوگئی افرا تفری کا ماحول گرم ہوگیا ایسے ناگفتہ بہ ماحول میں جمعیۃ العلماء ہند کے قائدین بالخصوص مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا ابو الکلام آزاد، مجاہد ملت حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے مسلمانوں کی سراسیمگی دور کرکے عزم وحوصلہ عطا کرنے میں جو خدمات انجام دی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے،انہیں کی جد وجہد کاثمرہے کہ آج ہندوستان کا قانون سیکولر ہے،اور آج ہم اپنے ملک میں آزادی کی سانس لے رہے ہیں۔
تھے تو وہ آبا ہی تمہارے تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
یہ وہ تاریخ کے تراشے ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ آزادی کی ابتداء مسلمانوں نے ہی کی تھی اور انتہاء تک جد وجہد بھی مسلمانوںنے ہی کی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہیاور ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہاہے وہ اخلاقی زوال کامظاہرہ ہے احسان فراموشی کی اس سے بدترین مثال کیا ہوگی کہ آزادی کیلئے فضا جنہوں نے ہموار کی اور مردہ دلوں میں روح جنہوں نے پھونکی ، خواب گراں میں مست لوگوں کو جنہوں نے جنجھوڑکر آزادی کا راہ رو بنایا اور برطانوی استعمار کے مقابلہ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، پھانسی کے پھندوں کو چوما اور سینوں پر گولیاں کھائی اور شہیدان قوم وملت کی فہرست میں اپنا نام سنہرے حروف سے نقش کرایا آج انہی علماء کے مخلصانہ خدمات کو ملکی تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا اور وہ مسافر جو اس کفن بردوش قافلہ کے سرراہ آکر شامل ہوگئے تھے ان کو قافلہ کی قیادت کا تاج پہنادیا گیا حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی کے وقت گاندی جی سوت آفریقہ میں تھے ، جواہر لال نہرو اکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے ، اور کانگریس جس کا قیام ۱۸۸۵؁ء میں ہوا دہلی میں انگریزوں سے ساز بازکیلئے غلط فہمی کے ازالہ کی کوشش کررہی تھی،اور مسلم لیگ بھی اپنے مفاد کے درپے اگر نقارہ خانہ میں طوطی کی کوئی آواز تھی تو وہ صرف علمائے دیوبند کی ہی تھے ۔
فرقہ واریت نے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ، اور اپنی تاریخ کو نسیا منسیا کردیالیکن یاد رکھیں! جو قوم اپنے بڑوں کی تاریخ کو بھلادیتی ہے وہ کبھی اپنے مستقبل میں کامیاب نہیں ہوسکتی ، اسی لئے اپنی تاریخ کا مطالعہ کریںاور اپنی حقیقت کو پہچان کر یہ عزم مصمم کرلیںکہ
ملے گی منزل مقصود یہ ایمان رکھتے ہیں ہم اپنے رہنمائی کیلئے قرآن رکھتے ہیں
وفاداری وطن سے ہو یہی اسلام کہتاہے ہم اپنے دل کے ہر گوشہ میں ہندوستان رکھتے ہیں
اور اس تناظر میں آپ خود فیصلہ کریں کہ علماء کو اگر جنگ آزادی سے بے دخل کردیا جائے تو کیا تاریخ روشن ہوگی یا تاریک؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×