احوال وطن

بابری مسجد پر سودے بازی کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا

مالیگاؤں: 11؍اکٹوبر (پریس ریلیز) لکھنؤ میں بابری مسجد کے سلسلے میں منعقد کی گئی دانشوران کی میٹنگ کو لیکر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے کہا کہ بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہےاور ہماری طرف سے بابری مسجد کے سلسلے میں جو دستاویزات اور دلائل دیئے جانے تھے وہ ہم سپریم کورٹ میں پیش کرچکے ہیں٬نومبرمیں سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ صادر ہونے کا امکان ہےاب اس سے پہلے بابری مسجد کے معاملہ میں ایک مرتبہ پھر سے مصالحت کی بات چھیڑنا اور بابری مسجد کی جگہ حکومت کے سپرد کردینےکی بات کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے مصالحت کے لئےایک تین رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے مصالحت کےلئےکوشش کی اور فریقین سے مختلف مرحلوں میں گفتگو کی آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ذمہ داران نے بھی اس کمیٹی کی چاھت پرکمیٹی کے سامنےاپنا مؤقف پوری مضبوطی کے ساتھ رکھاتھا٬مصالحت کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی اوراب فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپنے اپنے دلائل پیش کئےجارہے ہیں٬اس سلسلے میں سپریم کورٹ دلائل کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنائےگا٬لیکن لکھنؤ میں منعقد کئےجانے والےمشورتی اجلاس نے ایک مرتبہ پھر شکوک وشبہات کو جنم دیا ہےاورجن حضرات نے اس کنونشن میں شریک رہ کر بابری مسجد کو حوالے کردینےکی بات کہی ہے ان کی نیت پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے٬بابری مسجد کے سلسلے میں پوری وضاحت اور صفائی سےانہوں نے اپنا یہ اسٹینڈ رکھا کہ بابری مسجد کو ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیا ہےاور افسوس ہے کہ بابری مسجد کو ڈھا دینے والے مجرم کھلے بندوں پھر رہے ہیں اور اب تک انہیں قرار واقعی سزانہیں دی گئی٬بابری مسجد کے سلسلے میں جو کیس چل رہا ہے وہ کسی آستھا یا عقیدے کا کیس نہیں ہےبلکہ وہ ٹائٹل سوٹ کا کیس ہے٬کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ زمین کس کی ملکیت ہےایسی صورتحال میں اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہی مناسب راستہ ہے٬انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بابری مسجد کے سلسلے میں ماضی میں بھی سودے بازی کی جو کوششیں ہوئیں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیاگیا اور اب بھی جو کوششیں کی جارہی ہیں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ان شاءﷲ لکھنؤ کے کنونشن میں شریک ہونے والے دانشوروں کوانہوں نے یہ مشورہ دیاکہ وہ بابری مسجد کے معاملے میں اظہار خیال مشورتی اجلاس میں کرنے کے بجائےملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی معاشی بحران٬کرپشن اور اخلاقی دیوالیہ پن کو روکنے کی کوششوں میں لگ جائیں٬یہ ان کے لئے بھی اور ملک کے لئےبھی زیادہ مفید ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×