شخصیات

حضرت مولانا محمد شفیع الدین ندوی ؔنقشبندی

عصر عاضر اسلامی پورٹل کی خصوصی پیش کش!!:باحیات بزرگانِ دین واکابرِ امت کی خود نوشت سوانح کا زریں سلسلہ ؛جس میں مختلف سوالات کے ذریعہ زندگی کے متنوع گوشوں پر روشنی ڈالنے کی گزارش کی گئی تھی ۔اس  کے جواب میں  درج ذیل تحریر موصول ہوئی؛جوبلا کم وکاست ذیلی سرخیوں کے اضافے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

 

مکمل نام و نسب مع خانگی و خاندانی پس منظر :

عاجز کا نام:محمد شفیع الدین۔والد گرامی کا نام:جناب شیخ احمد (صاحب)۔ وطن کورٹل، ضلع کریم نگر( موجودہ ضلع جگتیال) تلنگانہ۔ خاندان ایک عام قسم کا گھرانہ تھا، کسی زمانہ میں آباء و اجداد وسط ایشیاء سے آکر خلد آباد نزد اورنگ آباد میں آباد ہوئے اور کاغذ بنانے کا پیشہ اختیار کیا،وہاں سے کچھ لوگ ہجرت کرکے پہلےموضع پلاس (نزد جگتیال) میں مقیم ہوئے پھر وہاں سے بھی ہجرت کرکے موضع کورٹلہ میں ندی کے کنارے بس گئے، اب یہ محلہ کاغذی پورو کہلاتا ہے۔

احقر کے تایا جان پیشۂ طب سے تعلق رکھتے تھے، سرکاری ملازم تھے، دینداری،عبادت اور خدمتِ خلق کی زندگی بسر کرتے تھے،احقر کو بالکل ابتدائی عمر سے ہی تایا جان کی وجہ سے عبادت اور دینی کتب کے مطالعہ کا ذوق ملا۔ والد صاحب پربھنی مرہٹواڑہ میں ایک چھوٹی سی سرکاری ملازمت پر مامور تھے، احقر کی عمر جب ۹؍سال تھی، والد صاحب انتقال فرماگئے، والدہ صاحبہ الحمدللہ اب سے ایک سال قبل 2018ء تک زندہ رہیں، والد صاحب کی پہلی زوجہ محترمہ جمال بی صاحبہ کے انتقال کے بعد ہماری والدہ حلیم النساء صاحبہ سے نکاح ہوا ۔ والدہ ماجدہ حلیم النساء صاحبہ اپنے بچپن ہی سے الحمدللہ پابندِ صوم و صلاۃ اور دینی کتابوں کے مطالعہ کی عادی تھیں۔ عبادت، تلاوت، دینی مطالعہ، خاموشی، بہترین اخلاق، ملنساری، غریبوں کی خدمت، دینی اجتماعات میں شرکت اور اولاد کو دین کی خدمت کی ترغیب آپ کی خاص صفات تھیں، احقر کے الحمدللہ سات بھائی ہیں۔ پانچ بھائیوں کی مردانہ اولاد میں ہر گھر میں ایک یا دو حافظ یا عالم ہیں۔ چند بھائیوں کی لڑکیاں بھی عالمہ ہیں، دو بہنیں ہیں، ان کے گھر میں بھی حافظ عالم اور عالمہ ہیں۔

تعلیمی سرگرمیاں :         

ابتدائی تعلیم عصری اسکول میں چھٹی جماعت تک ہوئی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ناظرہ، حفظ اور اعدادیہ کی تعلیم دارالعلوم رحمانیہ یاقوت پورہ حیدرآباد میں ہوئی۔ اس کے بعد حضرت مولانا شاہ محمد جمال الرحمن صاحب مفتاحی مدظلہ العالی کی خدمت اور تربیت میں ایک سال مکھتل ضلع محبوب نگر میں رہنے کی سعادت ملی۔

بچپن سے کثرتِ مطالعہ کی عادت کی وجہ سے دینی، تاریخی، ادبی اور معلوماتِ عامہ کی بے شمار کتب و رسائل عاجز پڑھ چکا تھا۔ عالمی حالات ،عالمِ اسلام کے حالات، دنیا میں چلنے والی مختلف سیاسی تحریکات اور اسلامی تنظیموں کے احوال سے بہت دل چسپی تھی، حضرت شاہ جمال الرحمن صاحب مفتاحی مدظلہ العالی کی خدمت میں رہ کر وحدت الوجود، سلسلہ قادریہ کی تعلیمات اور عشقِ الہی سے گہری مناسبت پیدا ہوئی، اسی دور میں عشقِ الہی اور معرفت الہی کے رنگ میں ڈوبی شعر و شاعری کا مشغلہ بھی رہا، حضرت شاہ صاحب کے والدِ گرامی حضرت صوفی غلام محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اور سلسلہ قادریہ کے جوڑ میں اپنا کلام پیش کرنے کا بھی موقع ملا۔ اسی سال ایک بار تبلیغی جماعت میں حضورِ پاک ﷺ کی غیر واضح زیارت بھی نصیب ہوئی۔ مکھتل کے بعد احقر مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور یا ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ لینا چاہتا تھا؛ لیکن داخلہ کی کارروائی میں کچھ اتفاقی رکاوٹیں پیش آئیں اور داخلہ کا وقت گزرگیا۔ مکھتل میں جامعہ دارالسلام عمر آباد کا داخلہ فارم ملا اور وہیں داخلہ مل گیا۔ اس موقع پر عاجز کا اخلاقی تصدیق نامہ حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب مدظلہ نے ہی عطا فرمایا۔

نمایاں اساتذہ و معاصرین:

چار سال وہاں تعلیم پانے کے بعد عاجز دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوا۔ عالمیت کی تکمیل 1989ء میں ندوۃ العلماء سے ہوئی۔ عاجز کے اساتذہ میں حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی مدظلہ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ ، حضرت مولانا مفتی ظہور صاحب مدظلہ، حضرت مولانا زکریا سنبھلی، حضرت مولانا ابوالفرقان ندوی، حضرت مولانا عارف سنبھلی، حضرت مولانا واضح رشید حسنی ندوی ،حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی ، حضرت مولانا سید سلمان ندوی وغیرہم شامل ہیں۔ احقر کے ساتھیوں میں آج کل حضرت مولانا ابو الحسن ندوی ؒ کے کئی کاموں میں جانشین ،پیامِ انسانیت تحریک کے سرپر ست حضرت مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی ندوی اور شہر حیدرآباد میں مقیم معروف محقق پروفیسر حضرت مولانا راشد نسیم ندوی صدر شعبہ عربی سیفل یونیورسٹی شامل ہیں۔

خدمت ِدین کے میدان میں :

 

فراغت کے بعد شہر کورٹلہ میں راقم نے حفظِ قرآن مجید کا مدرسہ ’’مدرسہ احیاء العلوم‘‘ قائم کیا۔ جو الحمدللہ اس وقت بھی اچھے ڈھنگ سے کام کررہا ہے، ایک دینی تربیت اور دینی ماحول والا اسکول قائم کیا۔ جو ایک طویل مدت سے” نو نہال ہائی اسکول” کے نام سے کام کررہا ہے۔ الحمدللہ کئی سال سے پورے تلنگانہ کے اردو میڈیم مدارس میں اس کے نتائج اول نمبر پر ہوتے ہیں۔

فراغت کے چند سال بعد مختلف الخیال طبقوں میں اتحاد پیدا کرکے ایک بیت المال قائم کیا گیا ،جو الحمدللہ 25؍سال سے زائد عرصے سے کارکرد ہے ماہانہ لاکھوں روپیے کا اس کا لین دین ہے۔ فراغت کے بعد ابتدائی چند سال شہر کورٹلہ کے محلہ محلہ اور گلی گلی میں اجتماعات اور مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ بے دینی لاعلمی ، جہالت اور رسوم و رواج کا خاتمہ کیا گیا۔ دعوت و تبلیغ کے کام کو فروغ دیا گیا۔ پورے شہر کی دینی حالت میں کافی ترقی ہوئی، بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے بچوں کو حفظ و عالمیت کے مدرسوں میں داخل کیا۔

فراغت کے سال ایک شب جمعہ میں اللہ رسولﷺ کی زیارت ہوئی، حضورﷺ کے پندرہ سو سال بعد تبدیلی آنے اور ہندو قوم کے اسلام قبول کرنے کی طرف اشارات ملے۔ ساری رات ہندوستان میں کام کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ اپنی بستی کی ابتدائی خدمت کے بعد اسلام کی دعوت کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ لکھنو کو ہجرت ہوئی۔ خواب کی ہدایت کے مطابق اپنے وقت کے اولیاء کے مرکز حضرت مولانا احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی، حضرت نے بھرپور روحانی توجہات عطا فرمائیں پھر فرمایا ہمارا دیا ہوا یہ ذکرچھ ماہ کرو پھر جو چاہے کرو۔ (یعنی ہندوستان میں دعوت کا کام کرو!) اگلے چھ ماہ جنگل میں، ندی میں روزانہ چار پانچ گھنٹے جہری ذکر کا معمول رہا، ا س کے بعد لکھنو منتقلی ہوئی۔ حضرت مولانا سجاد نعمانی مدظلہ العالی کے زیر سرپرستی ڈھائی سال تک پورے ملک میں غیر مسلموں میں دعوت کا ماحول بنایا گیا۔ اس کے بعد وطن واپسی ہوئی۔

وطن واپسی کے بعد جامع مسجد میں ہفتہ وار درسِ قرآن کا سلسلہ چلایا گیا، سامعین کے تعاون سے حراء فاؤنڈیشن قائم کیا گیا، جس کے تحت اطراف کے دیہاتوں میں مکاتب قائم کئے گئے۔ تلگو زبان بولنے والی ندّاف برادری میں دینی بیداری سرگرمیاں اور فلاحی سرگرمیاں انجام دی گئیں ۔ چند سال بعد ان مکاتب کو انجمن تحفظ ختم نبوت قائم کرکے اس میں ضم کردیا گیا۔

اس کے بعد ایک کشادہ قطعہ اراضی پر مسجد، اسکول اور مدرسہ تعمیر کیا گیا۔ اس کے بعدایک مرتبہ حضرت مولانا صلاح الدین سیفی مدظلہ کی علاقہ میں آمد ہوئی،پھر بار بار حضرت کو بلایا جاتا رہا۔ ہر سفر میں شروع سے آخر تک بندہ حضرت کے ساتھ ہوتا، اس طرح علاقہ میں پہلی بار سلوک و تصوف کا تعارف ہوا، بعد ازاں حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کی خدمت میں ، اعتکاف میں زامبیا حاضری کا سلسلہ شروع ہوا۔

تلنگانہ ، آندھرا، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے بعض علاقوں کے مسلسل اسفار کا سلسلہ چلا۔ الحمدللہ ان ریاستوں میں وقفہ وقفہ اصلاحی مجالس کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ حیدرآباد، نلگنڈہ، کریم نگر، ورنگل، پرگی، سدی پیٹھ میں ماہانہ اصلاحی مجلس کا سلسلہ ہے۔ ہندو پور ، بچکنڈہ، کورٹلہ جنگاؤں، پدا پلی ،ناگپور، کامٹی وغیرہ میں چند ماہ میں ایک بار مجلس ہوتی ہے۔

عصری تعلیم یافتہ افراد اور برسرروزگار طبقہ کو دینی تعلیم و تربیت دینے کے لیے کئی شہروں میں فہمِ دین اکیڈمی کی کلاسس چلائی جاتی ہیں۔ دین اور امت کا مستقل کارکن بنانے کے لیے ، علم ، ذکر ، تزکیہ، خدمتِ امت ، غیر مسلموں میں فلاحی کام اور دعوتی کام کے لیے کئی شہروں میں ’’دینی دوستی‘‘ کے منظم حلقے چلائے جارہے ہیں۔

تالیف و تصنیف :

عصری تعلیم یافتہ لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے، علمِ دین کا شوق دلانے کے لیے، ’’عروجِ امت کا پہلا قدم‘‘ ۔ایمان و تزکیہ کے لیے ’’اللہ کی پہچان‘‘۔ عقائد کی عقلی تعلیم کے لیے ’’فہمِ دین‘‘۔ قرآنی عربی، نماز و اذکار میں تاثیر کے لیے ’’فہمِ قرآن حصہ اول و دوم‘‘۔ امت کو مستحکم و متحد کرنے کے لیے ’’تعمیرِ امت‘‘ ۔گھروں میں استحکام کے لیے ’’گھر بنے جنت‘‘۔ امت میں اخوت و اتحاد پیدا کرنے اور دینی تربیت کے کام کو سمجھانے کے لیے ’’دینی دوستی ، دیتی تربیت کا مؤثر طریقہ‘‘ اور ’’دینی دوستی احباب کے لیے تربیتی باتیں‘‘ کتابیں احقر نے مرتب کی ہیں، یہ سب کتب اردو کے علاوہ انگریزی رسم الخط میں بھی شائع کی گئی ہیں۔

بیعت  وخلافت:

بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھیؒ ، پھر حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ؒ ،پھر حضرت قاری امیر حسن صاحب ؒ ،پھر حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب دامت برکاتہم سے رہا اور ہے، حضرت والا نے 2007ء میں خلافت دے کر سلسلہ کی خدمت کی ذمہ داری سونپی۔

متاثر کرنے والی شخصیات:

متاثر کرنے والی شخصیات بذریعہ کتب پیارے آقا ﷺ ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ بانیٔ تبلیغ، حضرت مجدد الف ثانیؒ ، صلاح الدین ایوبیؒ، امام ابن تیمیہؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت سید احمد شہیدؒ، شیخ سنوسیؒ، شیخ عبد اللہ بن یاسین جزولیؒ، شیخ حسن البناءؒ ، حضرت شیخ الہندؒ، حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ اور حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم۔

متاثر کن شخصیات بلا واسطہ و کتب والدہ صاحبہ ؒ، تایا حضرتؒ، بڑے بھائی حسن الدین صاحب ، حضرت مولانا حسن صاحب ؒ سابق صدر مدرس دارالعلوم رحمانیہ، حضرت شاہ جمال الرحمن صاحب مفتاحیؔ مدظلہ العالی، حضرت مولانا سید عبد الکبیر صاحب ؒ شیخ التفسیر جامعہ دارالسلام عمر آباد، حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، جضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھیؒ، محترم شمس نوید عثمانیؒ، حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ندوی مدظلہ العالی، حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم۔

متاثر کن کتب:

۱۔ قرآنِ پاک، ۲۔ سیرت النبیﷺ۷؍جلد و دیگر کتبِ سیرت،۳۔ احیاء علوم الدین، ۴۔ تاریخ دعوت و عزیمت، ۵۔ یہ تیرے پُر اسرار بندے، ۶۔ عرفانِ محبت (کلام مولانا احمد پرتاب گڑھیؒ، ۷۔ کلیاتِ اقبال،۸۔ خطباتِ ذوالفقار و حضرت کی دیگر کتب، ۹۔ سوانح مولانا الیاس ؒ ،۱۰۔ تذکرہ مجدد الف ثانی ، ۱۱۔ حسن البناء شہید کی ڈائری ، ۱۲۔اسلام کیا ہے ؟ ، ۱۳۔ دین و شریعت ،۱۴۔ معارف الحدیث (مولانا منظور نعمانیؒ) ۱۵۔علمِ جدید کا چیلنج (وحید الدین خان)، ۱۶۔ تاریخِ اسلام اکبر نجیب آبادی، ۱۷۔ حیاۃ الصحابہؓ، ۱۸۔ تفسیر معارف القرآن، ۱۹۔ تفسیر فی ظلال القرآن، ۲۰۔تفسیر فراہیؒ،۲۱۔ حضرت تھانوی کی کتب ِ تصوف۔ ارکانِ اربعہ وغیرہ۔

اللہ کی نبیﷺ کی زیارت والے خوب میں احقر کو جتنے کام بتائے گئے ہیں الحمدللہ سوائے ایک کے وہ تمام شعبے وجود میں آچکے ہیں، اب ان میں پختگی ،وسعت اور پائیداری آنے کی ضرورت ہے۔ دعاء ہے کہ ہندوستان میں اشاعتِ اسلام و حفاظتِ امت اور سارے عالم میں غلبۂ اسلام کے کام میں اس ناکارہ عاجز بندے اور اس کے رفقاء کو اللہ تعالی قبول فرمائے۔ آمین

بچپن، دورِ تعلیم ، دورِ خدمتِ امت ، خدمتِ اسلام کے واقعات و تجربات اور غیبی مدد اور مبشرات کے کئی واقعات قابل ذکر ہیں، ان کے ذکر کے لیے ایک پوری کتاب درکار ہے۔

اولاد و احفاد:

اولاد میں تین لڑکے ہیں پہلے عبد اللہ یاسین قاسمی، ہندوستان میں آنے والی بیرونی علماء کرام پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں، دوسرے عبد اللہ طہ ہیں جو جرمنی میں سائنس میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں، تیسرے عبد اللہ ذوالقرنین ہیں حافظ قرآن ہیں اور کمپیوٹر میں ماسٹر ڈگری پڑھے ہوئے ہیں۔ آئی ٹی میں ملازمت کررہے ہیں۔ اولا میں تین لڑکیاں ہیں ، دو لڑکیاں دنیاوی گریجویشن کے ساتھ عالمیت کے تین سال تکمیل کی ہوئی ہیں، بقیہ فاصلاتی تکمیل کا ارادہ ہے۔ چھوٹی لڑکی گریجویشن میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالی ان سب کو اپنا مطیع فرماں بردار اور دینِ اسلام کا خادم بنائے۔ آمین

Related Articles

One Comment

  1. ماشاء اللہ، اللہ پاک عصر حاضر کی اس عظیم الشان خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے، اور ساتھ ہی حضرت والا کی عمر میں خیر و برکت عطا فرمائے، آل و اولاد کو خدمت دین کے لیے قبول فرمائے اور ہم سب کو خوب سے خوب تر مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

احمد عبید اللہ یاسر قاسمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×