احوال وطن

متھرا: تاریخی شاہی مسجد کو منتقل کرنے کی عرضی‘ عدالت میں سماعت کے لیے منظور

متھرا: 16؍اکتوبر (عصر حاضر) پچھلے مہینے متھرا کی سول عدالت کی جانب سے شاہی جامع مسجد کو ہٹانے کے لئے دائر مقدمے کو کالعدم قرار دینے کے بعد اتر پردیش کی متھرا عدالت نے جمعہ کے روز ‘کرشن جنم بھومی’ سے متصل تاریخی شاہی جامع مسجد کو ہٹانے کی درخواست پر سماعت کے لیے منظوری دے دی ہے۔ اس ضمن میں جمعہ کو ضلعی جج سادنا رانی ٹھاکر کی عدالت نے اپیل منظور کرلی۔ عدالت آئندہ 18 نومبر کو اس معاملے کی سماعت کرے گی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ
لوگوں کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’17 ویں صدی میں تاریخی شاہی جامع مسجد کو کتھرا کیشو دیو مندر کے 13 ایکڑ کے احاطے میں ‘کرشنا کی جائے پیدائش’ میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس سے قبل سینئر سول جج چھایا شرما کی عدالت میں دائر درخواست میں شری کرشنا جنمسٹن سیوا سنستھان اور شاہی مسجد عیدگاہ انتظامیہ کمیٹی کے مابین ہونے والے اراضی کے معاہدے کی توثیق کرنے والے 1968 کے متھرا عدالت کے فیصلے کو بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔یہ مقدمہ گذشتہ ماہ رنجانہ اگنی ہوتری اور سات دیگر افراد کے ذریعہ اگلے دوست کے طور پر ‘دیوتا بھگوان شری کرشن وراجمان’ تنظیم کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ‘اگلا دوست’ اس شخص کے لئے قانونی اصطلاح ہے جو کسی ایسے شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو براہ راست مقدمہ دائر کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔تاہم پنڈیتوں کی ایک اور جماعت نے شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کے لئے درخواست داخل کرنے کی مذمت کی ہے۔اکھل بھارتیہ تیرت پروہیت مہاسبھا کے صدر مہیش پاٹھک نے کہا کہ ‘کچھ بیرونی لوگ متنازعہ مندر ۔ مسجد کے معاملے کو اٹھا کر متھرا میں امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘ تاریخی اعتبار سے بیس ویں صدی میں دونوں فریقوں کے مابین سمجھوتہ کے بعد متھرا میں سری کرشنا جنمسٹن میں مندر ۔ مسجد کا تنازعہ نہیں ہے۔ بعد کے کچھ لوگوں نے اسے تنازعہ بنا کر پیش کیا ہے’۔بتادیں کہ مقامات عبادت (خصوصی دفعات) قانون 1991 میں آزادی کے بعد تمام مذہبی مقامات کو قانونی طور پر جوں کا توں برقرار رکھنے کے بات کہی گئی ہے۔اس قانون کے حوالے سے مسلم فریق کا کہنا ہے کہ ‘مذہبی مقامات کی حفاظت کی بات خود بھارت کا دستور کرتا ہے۔ جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا’۔متھرا میں ایک فریق کے جانب سے بار بار مسجد کے انہدام کی بات کہی جانے پر مسلم فریق نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×