اسلامیات

شرم وحیا اور ہمارا معاشرہ

اسلام نے شخصیت سازی پر بھر پور توجہ دی ہے, اخلاقیات کے عنوان سے انسانیت کے ہر گوشہ میں مکمل رہنمائی فرمائی ہے, ہر طریق سے بد اخلاقی کا سدباب کیا ہے, غرض یہ کہ مذہب اسلام نے انسان میں انسانیت لانے اور ادمی کو آدمیت سے مزین کرنے کے لئے بے مثال ھدایتیں جاری کی ہے, نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان لکل دین خلقا وخلق الاسلام الحیاء ہر مذہب کا کچھ نا کچھ خاص امتیازی وصف ہوتا ہے چنانچہ مذھب اسلام کا وصف خاص حیاء ہے, دیگر مذاھب کے مقابلہ میں حیاء کو اسلام کا وصف خاص قرار دینا اس بات کی علامت ہے کہ اسلام کی نظر میں اخلاقیات کی کیا اہمیت ووقعت ہے, کیونکہ حیاء ایک ایسا لفظ ہے جس کے عناصر واقسام حسن معاشرت وحسن عبادت کو جامع ہے, اس لئے کہ حیاء ہی تمام فضائل کی بنیاد, اخلاقیات کی منبع, سلوک واحسان کے تمام مراتب ومنازل کے لئے اصل الاصول ہے –
حیاء کی تعریف
حیاء کا لغوی معنی سنجیدگی, متانت, وقار اور اصطلاحی تعریف نفس کا ہر ناپسندیدہ, قبیح چیز سے رکنا, ابن حجر نے حیاء کی تعریف یوں فرمائ "حیاء ایک ایسی صفت ہے جو صاحب حیاء کو ہر ناپسندیدہ چیز سے پرہیز کرنے اور دوسروں کی حق تلفی سے باز رہنے پر ابھارتی ہے "حیاء کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ "آدمی کی وہ عادت جو آدمی کو ہر قبیح ومکروہ چیز سے محفوظ ومامون رکھے –
حیاء اور قرآنی تعلیم
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حیاء کے متعلق کہیں صراحتاً اور کہیں اشارتا تعلیم دی ہے اور کہیں بڑے اہتمام سے اس وصف خاص کو ذکر فرمایا ہے جو باری تعالیٰ کی پسندیدگی کا مظہر ہے, قرآن مجید میں تقویٰ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ولباس التقوی ذالک خیر اس جگہ امام حسن اور معبد جھنی نے لباس التقوی کی تفسیر "الحیاء "سے فرمائی ہے, معلوم ہواکہ اللہ تعالٰی کو حیاء کی صفت اور حیاء کا لباس بے حد پسند ہے اسی وجہ سے اس لباس کو سراسر خیرسے تعبیر فرمایا, قرآن پاک میں ایک جگہ شہر مدین کا تذکرہ آیا ہے کہ ایک کنویں کے قریب ایک لڑکی حضرت موسٰی علیہ السلام کو بلانے کے لئے پہنچی, اس کے چل کر آنے میں شرم وحیاء کا جو غلبہ تھا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ قد وقامت, رنگ وروپ کے تذکرہ کے بجائے خصوصیت کے ساتھ اس کی صفت حیاء کا تذکرہ فرمایا تاکہ امت کے صنف نازک کو یہ پتہ چلے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک عورت کے لیے محبوب ترین چیز حیاء, عفت وعصمت ہے اور ایک عورت یہی اصل خوبصورتی ہے, ایک جگہ قرآن نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ان ذالکم کان یؤذی النبی فیستحی منکم جب تم اپنے نبی کے گھر کھانے سے فارغ ہو جاؤ تو وہاں سے رخصت ہو جاؤکیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو تمھارے اس طرح بیٹھے رہنے سے تکلیف ہوتی ہے اگر چہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تم کو غلبہ حیاء کی وجہ سے گھر سے اٹھنے اور باہر جانے کے لئے نہیں کہ سکتے, اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا "نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا یہ نبی کے لیے ایذاء رسانی کا سبب ہو گا لیکن نبی علیہ السلام شدت حیاء کی وجہ سے منع نہیں کرینگے, اسی جگہ پر امام شوکانی رقم طراز ہےکہ "نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے بڑی حیاء آتی ہے "اب کھانا کھاچکے ہو تو کھڑے ہو جاؤ اور باہر نکلو ”
حیاء اور حدیث کی تعلیم
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے حیاء کے متعلق مرد و زن دونوں کو یکساں تاکیدی احکامات ورہنمائی دی ہے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا علموا رجالکم سورۃ المائدہ وعلموا نساؤکم سورۃ النور اپنے مردوں کو سورہ مائدہ اور عورتوں کو سورہ نور کی سکھلاؤ, کیونکہ ان سورتوں میں پاکیزہ زندگی کے طور طریق بیان کئے گئے ہیں, ایک جگہ ارشاد فرمایا الحیاء خیر کلہ حیاء سراسر بھلائی ہی ہے, والحیاء لایأتی الا بخیر حیاء سے خیر ہی صادر ہوتی ہے, ایک حدیث میں تو حیاء کو ایمان کا حصہ ہی قرار دیدیا گیا الحیاء شعبۃ من الایمان, ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مقام سے گزرہے تھے دیکھا کہ ایک شخص اپنے بھائی کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا تھا "شرم مت کرو… "نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا تو فرمایا دعہ فان الحیاء من الایمان اس کو یوں ہی رہنے دو شرم وحیاء ایمان کا حصہ ہے, ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ والبذاء من الجفاء فی النار کہ حیاء موجب دخول جنت ہے اور بے حیائی کا انجام جہنم ہے ,قدرے طویل حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا استحیوا من اللہ حق الحیاء لوگو! اللہ سے حیاء کرو جیسے حیاء کرنے کا حق ہے, صحابہ کرام نے کہا انا نستحیی والحمدللہ ہم اللہ کی توفیق سے حیاء کرتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حیاء وہ نہیں جو تم سمجھ رہے حیاء یہ ہے کہ ان تحفظ الرأس وما وعی اپنے سر کی (آنکھ, کان, زبان بشمول) حفاظت کرو اور دماغ کو خبیث افکار و خیالات سے محفوظ رکھو والبطن وما حوی اپنے پیٹ کی بشمول شرمگاہ حفاظت کرو یعنی حرام, مشتبہ غذاء سے کلی اجتناب کرو وتذکر الموت والبلی موت اور اس کے بعد کے انجام کو کثرت سے یاد کرو ومن اراد الآخرۃ وترک زینۃ الدنیا وآثر علی الاولی جو آخرت کا طلبگار ہوگا وہ دنیا کی زیب وزینت اور اس کی بوقلمونیوں سے ترک تعلق کریگا اور دنیا پر آخرت کی دائمی زندگی کو ترجیح دیگا پھر آگے ارشاد فرمایا ومن فعل ذالک فقد استحیا من اللہ حق الحیاء جو شخص یہ چار کام کر لے گا وہ حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ سے حیاء کرنے والا ہوگا, نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حیاء سے متعلق ایک ایسی بات ارشاد فرمائی اگر کسی مؤمن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان کی اہمیت اور خوف خدا رہے گا اس کا دل لرز اٹھے گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان الحیاء والایمان قرنا جمیعا فاذا رفع احدھما رفع الآخر حیاء اور ایمان دونوں ساتھ رہتے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے گا تو دوسرا بھی اٹھا لیا جائے گا, ان تمام مبارک فرمودات کا خلاصہ یہ نکلا کہ حیاء ہی سے ایمان کو جلا ملتی ہے اور حیاء ہی سے انسان کے قول و فعل میں حسن وجمال پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بے حیاء انسان کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں ہوتا ہے اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذا لم تستحی فاصنع ما شئت "بے حیاء باش وہر چہ خواہی کن "جب تمھارے اندر حیاء ہی نہیں رہی تو اب جو چاہو وہ کرو –
حیاء اور اکابرین امت
حیاء ایک انسانی فطرت ہے قدرت نے انسان کو حیاء کے ساتھ پیدا کیا ہے کسی انسان کا یہ کمال ہوتا ہے کہ وہ صفت حیاء سے فائدہ اٹھا لیتا ہے ایسے لوگوں سے اس صفت کااظھار بھی ہوتا رہتا ہے ,کسی انسان کے اندرحیاء کی چنگاری ماحول کے گرداب میں مخفی رہ جاتی ہے چنانچہ بے حیائی وبے شرمی جو کہ حیاء کی ضد ہے اس کا ظھور ہونے لگتا ہے, اکابرین امت اس فطری صفت کو جو ماحول کی پراگندگیوں کی وجہ سے قابل استفادہ نہیں رہی قابل استفادہ بنانے کی ادھیڑ بن میں رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے قول و فعل میں حسن وجمال پیدا ہوجائے, حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا من قل حیاؤہ قل ورعہ ومن قل ورعہ مات قلبہ جن میں حیاء کی کمی ہے اس میں حیاء کی کمی ہے اور جس میں ورع وتقوی کی کمی ہے جیتے جی اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے (ورع نام ہے مشتبھات سے بچنے کا) اھل ایمان کے لئے دل کا مردہ ہوجانا یہ مقام خوف ہے اسی کو قساوۃ قلبی کہاجاتا ہے جو اس دنیا میں ایک نقد عذاب سے کم نہیں ہے اللھم انا نعوذبک من قسوۃ قلبہ ومماتہ فی حین حیاتنا, ابن قیم رح نے حیاء کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا "اھل خواص اور سالکین راہ طریقت کے مدارج ومنازل میں سب سے پہلی منزل حیاء ہے جو اس صفت سے متصف ہوگیا وہ حق جل مجدہ کی معیت محسوس کریگا "یعنی حق تعالیٰ کے تجلیات وانوارت کا ادراک کرتا رہے گا یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ خدا تعالیٰ کی معیت کا احساس ہونے لگے اللھم ارزقنا منہ
حضرت جنید رح نے حیاء کی حقیقت یوں بیان فرمائی حیاء ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو مکروہ چیزوں کے ترک کرنے اور دوسروں کی حق تلفی سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے, حضرت فضیل بن عیاض نے شقاوۃ قلبی کی نشانیوں میں سے قلت حیاء کو شمار فرمایا ہے ,حضرت ابن عطاء کا کہنا ہیکہ جس شخص میں رعب اور حیاء ختم ہوجائے اب اس میں کچھ خیر باقی نہیں رہا, ابن ابی الدنیا نے کسی حکیم کا حیاء کے متعلق قول نقل کیا ہے ان تستحی أن تسأل ما تحب وتأتی ما یکرہ حیاء یہ ہیکہ آدمی اپنی پسندیدہ چیز کا سوال کرنے سے اور مکروہ عمل کے کرنے سے حیاء کرے –
قرآن وحدیث کی اس تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حیاء کی کس قدر اہمیت ووقعت ہے کیوں نہ ہو حیاء ایمان کا حصہ, ترک معصیت کا ذریعہ, طاعات کی طرف رغبت کا سبب ہے, حیاء کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ صاحب حیاء دنیا وآخرت کی رسوائی سے محفوظ رہتا ہے –
موجودہ معاشرہ کی صورتحال
جس نبی نے اپنی امت کو حیاء کا درس دیا اور حیاء کو اسلام کا طرہ امتیاز بتلایا, اور خود حیاء کا لباس زیب تن کیا, اور حیاء بھی آپ کے اندر اس قدر کہ کسی آنکھ بھر کر دیکھ نہیں پاتے, حیاء کے مزاج کو اپنے اعزہ واقربا اور اپنے اصحاب میں ایسے کوٹ کوٹ کر بسایا کہ آپ کے داماد کو کامل الحیاء والایمان کا لقب ملااور صاحبزادی نے وصیت فرمائی میرا جنازہ رات کی تاریکی میں اٹھانا تاکہ کسی کو بنت محمد کے جسم کے ساخت وپرداخت کا پتہ بھی نہ چل سکے, یہ شرم وحیاء تھی اس نبی کی اور ان کے اصحاب واعزہ کی اور آپ اسی بات کی تعلیم اپنی امت کو بھی دیتے رہے ,لیکن کیا آج اس نبی کی محبت کا دم بھرنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شرم وحیاء اس جیسی تو بعید از خیال ہے اس کی کچھ رمق بھی باقی ہے ؟اسلام کی پاکیزہ تہذیب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا صاف ستھرا بے داغ اسوہ حسنہ موجود رہنے کے باوجود ہم کو مغربی تہذیب کی چمک دمک میں ترقی اور اسلامی تہذیب و ثقافت فرسودہ پن نظر آرہا ہے, ایک دور تھا جس میں مسلم گھرانوں کی لڑکیوں کو دیکھنے آسمان ترسا کرتے تھے ایک پڑوس کو بھی پڑوسی لڑکیوں کے نشو نما کا ادراک نہیں ہوتا تھا, گھر کی لڑکیاں اپنے گھر کے صحن میں بھی باحجاب نکلا کرتی تھیں, آج ایک ایسا دور آچکا ہے کہ معاشرہ سے حیاء عنقاء ہوتی نظر آرہی ہے, حجاب کو قدامت پسندی تصور کیا جارہا ہے ,عریانیت, برہنگی کو فیشن نام دیا جارہا ہے, مرد وزن کے بے محابا اختلاط کو جدید کلچر سے تعبیرکیا جارہا ہے, گرل فرینڈ اور بائے فرینڈ کی تہذیب نے تو شرم وحیاء کا ستیاناس کردیا ہے, دوستی اورآپسی مزاج شناسی کا شریفانہ عنوان دیکر برضا ورغبت عفت وعصمت کے جنازے نکالے جارہے ہیں, اسی پراگندہ ماحول کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں قبل ازوقت بالغ اور جوان اپنی جوانی کی مٹی پلید کررہے ہیں, جدید تہذیب, بے لگام تمدن, بے غیرت ترقی نے نت نئے مسائل امت کے روبرو کردیئے ہیں, نباض وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بڑا قیمتی جملہ ارشاد فرمایا تھا کلما زادت الفجور کثرت المسائل امت میں جس قدر فسق وفجور بڑھتا جائے گا اسی قدر مسائل کی بہتات ہوگی ہم کو غور کرنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ جس تہذیب کی پیروی کرکے ترقی کے بام عروج پر پہنچنے کے خواب دیکھ رہا ہے اسی تہذیب کے موجدین اپنی تہذیب پر ماتم کناں ہے, کسی قوم کا اپنی تہذیب کو چھوڑکر دوسری اقوام کی تہذیب کو پسند کرنا اور اس کو اپنانا قولی نہ سہی حالی وعملی اقرار ضرور ہوتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی اسلامی تہذیب کو ناقص سمجھ رہے ہیں بلکہ دنیوی ترقی میں رکاوٹ, حائل مان رہے ہیں فیا للعجب
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
معاشرہ فرد سے بنتا ہے, فرد کی تبدیلی سے معاشرہ کی تبدیلی ہے, یہ معاشرہ کا ناسور ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کی اصلاح کا متمنی ہے کہ دوسرا حیاء واخلاق سے آراستہ ہوجائے ایں خیالست ومحالست وجنوں صبح قیامت تک معاشرہ میں تبدیلی نہیں آسکتی دوسری طرف معاشرہ کی اخلاقی تباہی وحیاء سوزی کے پیچھے دونوں صنف باہم متصادم نظر آتے ہیں اگر خواتین کے نزدیک مرد معاشرہ کے تباہی کے ذمہ دار ہیں تو خواتین کو چاہئیے کہ وہ اپنی کوکھ سے جنم لینے والے لڑکوں کی اسلامی نہج پر تربیت کریں انہیں باحیاء وباشرم انسان بنائیں اور اگر مرد خواتین کو معاشرہ کی زبوں حالی کا دشنام دیتے ہیں تو وہ اپنی بیٹیوں کی اسلامی خطوط پر تربیت کریں انشاءاللہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ معاشرہ شرمسارہونے سے اور اسلام رسوا ہونے سے محفوظ رہے گا –
والدین کا فرض ہے کہ اولاد کی صورت میں جو نعمت انہیں ملی ہے وہ صرف کلیجہ ٹھنڈا کرنے اور بڑھاپے کا سہارا بنے کے لئے نہیں بلکہ ان کی پرورش سب سے زیادہ حصہ تربیت کا ہونا چاہیے پھر یہی اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک, دلوں کا سرور بنے گی ورنہ……. تربیت کے فقدان کی وجہ سے جو صورتحال چل رہی ہے وہ مشاھد ہے محتاج بیان نہیں –
شریعت نے والدین اور تمام مسئول حضرات کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے وہ معاشرہ کو ہر مخرب اخلاق چیز سے محفوظ رکھے اور اس پر کڑی نظر بھی رکھے, حتی المقدور صالح معاشرہ کے لئے سعی خالص کرے
ہواؤں کا رخ بتارہا ہے ضرور طوفان آرہاہے
نگاہ رکھنا سفینہ والو اٹھی ہے موجیں کدھر سے پہلے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×