اسلامیات

عصری تعلیم اسلام کی نظر میں

اسلام میں تعلیم کی اہمیت
انسان فطری اورتخلیقی طور پر جاہل پیدا ہوتا ہے ،اللہ فرماتا ہے جس وقت تم ماوؤں کے پیٹ سے نکالے گئے ہو تم کو کچھ علم نہیں تھا ،ساتھ ہی اللہ نے کان آنکھ اوردل کابھی تذکرہ فرمادیا،جس کا مطلب یہ ہے کہ اسوقت انسان سن کراور دیکھ کر اپنی طاقت بھر معلومات حاصل کرتا ہے،اوروہ معلومات اس کے دل میں محفوظ ہوتے چلے جاتتے ہیں،جب قوت گویائی آئے گی توجو دل میں تھا نیک وبد سب کہے گا ،گویا یہ تعلیم کا ایک خاموش قدرتی نظام ہے ،تعلیم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے ممتاز اور اعلی واشرف بناتی ہے ،صالح معاشرہ کی تشکیل میں تعلیم کا کرداربنیادی اور اساسی رہا ہے ،جس قدرتعلیم مستحکم ہوگی ،معاشرہ میںاسی قدر امن وسکون قائم ہوگا ،اسی بنا پر تعلیم کو ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے ،دین اسلام کا آغاز تردید شرک اور آخرت کے ذکر سے نہیں ہوا،اس میں نبوت ورسالت کا اعلان نہیں کیا گیا ،اخلاقی پستیوں اور ظلم وفساد کی مذمت نہیں کی گئی ، بلکہ پہلا مشن اور اولین ترجیح تعلیم ہی رہی ہے،اسلام سے قبل عرب میںجہالت وناخوادگی عام تھی بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ مکہ میں صرف سترہ افراد کو لکھنا آتا تھا(فتوح البلدان )،اور مدینہ میںگیارہ افرادکو لکھنا پڑھنا آتا تھا،نبی ﷺکی برکت تھی کہ یہی قوم ابھی ایک صدی نہیں گذری ،علم وفن ،تہذیب وثقافت ،سائنس وٹیکنالوجی کے گویا ماہر استاذ،محقق،مجدد ہو گئے ،زمانے کیلئے مشعل راہ بن گئے، قرآن مجید میں آپﷺ کو معلم اور مخلوق کومتعلم بتایا ،یعلمھم الکتاب والحکمۃآپ ﷺ کی زندگی خواہ مکی ہو مدنی، نمایا ں پہلو تعلیم وتعلم کارہاہے ،مکہ میں ’’دار ارقم‘‘ تعلیم گاہ تھی اور مدینہ میں’’ صفہ‘‘ درسگاہ تھی ،جہاں کم وبیش چار سوسے نوسو تک طلبا زیر تعلیم تھے،غزوہ بدر کے بعض قیدیوں کا فدیہ تعلیم اور فن سکھانا ہی تھا،اسی قول وفعل کا نتیجہ رہا ہے کہ مسلمان ہر دور میں دینی وعصری علوم میں نمایاں رہے،اور ہر زمانہ میں تعلیم وتربیت ،علم کی خدمت اور تعلیمی اداروں کے قیام کیلئے فکرمند رہی ہے۔
قرآن مجیداورعصری تعلیم
یہ بات امر محقق ہے کہ نزول قرآن کا اصل مقصدبندوں کو خدا کی مرضیات ونامرضیات سے آگا ہ کرنا ہے ،آخرت واعمال آخرت کی ترغیب دینا ہے، نہ کرنے پر ترہیب کرنا ہے ، تاہم اسکی آیتوں کے ضمن میں جو علوم پنہاں رکھے ہیں، اس سے لاعلم رہنا بھی گویا علوم الہی کے استفادہ سے محروم رہنا ہے ، علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیںکہ کائنات کا کوئی علم ایسا نہیں جسے آپ قرآن سے معلوم نہ کرسکیں لیکن یہ علوم ومعارف اسپر آشکارا ہوتے ہیں جسے اللہ نے خصوصی فہم سے نوازا ہو ،مامن شیء الایمکن استخراجہ من القرآن لمن فھمہ اللہ (الاتقان ج؍۲ص؍۲۶)قاضی ابوبکرابن العربی کا بیان ہیکہ قرآن پاک کے کلمات کی تعداد جتنی ہے موجودہ علوم کی تعداد بھی اتنی ہے ،(قانون التاویل ۵۴۰)پہلی وحی کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ میں سے پہلی آیت ۔الہیات اور اخلاقیات کی تعلیم دیتی ہے دوسری آیت ۔حیاتیات اور جنینیات کی سائنسی حقائق کا انکشاف کرتی ہے ،تیسری آیت۔انسان کو عقیدہ اور فلسفہ حیات کی طرف متوجہ کرتی ہے ،چوتھی آیت ۔فلسفہ علم اور ذرائع علم پر رشنی ڈالتی ہے ،جبکہ پانچویں آیت۔میدان علم کی وسعتوں کواٹھاتی ہے(اسلام اور جدید سائنس)،اسی طرح سورہ ابراھیم میں اللہ فرماتا ہے وماارسلنامن رسول الالیطاع باذن اللہ الخ،اس آیت کے مفتی شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا ہے تواس قوم کا ہمزبان بھیجا ہے تاکہ احکام الہیہ انہی کی زبان اور انہی کے محاورات میںبتلائے اور انکوسمجھنا آسان ہو اگر رسول کی زبان امت کی زبان سے مختلف ہوتی تو ظاہر ہے کہ اسکے احکام کو صحیح سمجھنا مشکوک رہتا تھا ،(معارف القرآن ج؍۵)
احادیث مبارکہ اور عصری تعلیم
عصری تعلیم کو اسلام نے شجر ممنوعہ قرار نہیں دیاہے بلکہ بقدر ضرورت اور فرق مراتب کے لحاظ سے ترغیب دی ہے ،اسکو سیکھنے پر ابھارا ہے ،اوربعضے مواقع پر اس تعلیم کے سیکھنے پر ہمت افزائی بھی کی ہے ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تم علم نجوم سیکھو تا کہ خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ یاب ہوجاؤ،ایک روایت میں ہیکہ تم علم انساب سیکھو تاکہ صلہ رحمی ،رشتہ داری جوڑ سکو ،حافظ ابن کثیر ؒ نے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ نے عروہ ابن مسعودؓ اورحضرت غیلان ؒ کو باقاعدہ ’’جرس ‘‘ بھیجاتاکہ وہ دبابے،منجنیق اور صنوبر سیکھ کرآئیں ،جو جنگ کے موقع پر آئیں حافظ ابن جریر ؒ نے نقل کیا ہے کہ زراعت کی ترقی کیلئے نبیﷺنے اہل مدینہ کو زیادہ سے زیادہ کاشت کاری کرنے کا حکم دیا ،عبد اللہ ابن زبیر کے سو غلام تھے اور ہر غلام کی زبان الگ الگ تھی حضرت عبد اللہ ابن زبیر ؓ کوہر ایک کی زبان آتی تھی (الترتیب الادایہ للکتانی)اسلام علم وحکمت کو گمشدہ خزانہ قرار دیتا ہے ،ایک مقام پر نبیﷺ نے فرمایا من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ تم میں سے جو کوئی بھی اپنے بھائی کونفع پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسکو چاہئے کہ وہ ضروراسکو نفع پہنچائے(مسلم۲۱۹۹)اسی طرح آپﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ان اللہ عز وجل یحب العبد الحاذق فی صنعتہ(قوت القلوب ج؍۲ص؍۴۳۷) اللہ تعالی اپنے کام میں ماہر کو آدمی کو پسند فرماتا ہے ، مدینہ منورہ میںدومشہور طبیب تھے اسلام آنے کے بعد وہ مسلمان ہوگئے اور طب کو خیر آباد کہہ دیاآپ ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے انکو دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا انہوں نے عرض کیا یارسولﷺ کیا اس میں خیر ہے آپﷺ نے فرمایابلاشبہ جس ذات نے بیماری اتاری اسی نے دوا بھی اتاری اور جس چیزمیںجتنی شفا رکھنی تھی ووبھی رکھ دی (الطب النبوی لابی نعیم ۳۲)حضرت عطاؒ سے روایت ہیکہ جب صاحبزادہ رسول حضرت ابراھیم ؓ کاا نتقال ہوااور دفن کیا گیا تو نبی ﷺ کو قبر میں شگاف نظر آیا جو بند کرنے سے رہ گیا تھاآپﷺ نے اس موقع پر فرمایا کہ اس سوراخ کو بند کرو کیوں کہ یہ کا م مجھے طبیعت کو اچھا لگتا ہے ،اور یقینااللہ تعالی چاہتے ہیںبندہ کوئی کام کرے تو اسکی صفائی اور مضبوطی سے کرے،(تاریخ المدینہ ج؍۱ص؍۹۸)علامہ مناوی اس حدیث کے ذیل میںلکھتے ہیں کہ ہر صنعت کا ر پر لازم ہے کہ اللہ نے جو فن اسکو سکھلایا ہے اسکو صحیح اور ماہرانہ طور پر استعمال کرے اور مخلوق کو نفع پہنچانے کی نیت سے کرے ،محض اپنے فن کی نمائش کیلئے کروگے تو صلاحیت کے مفقود ہونے کا ندیشہ ہوگا ،حضرت زید بن اسلم ؓ سے روایت ہیکہ کے زمانہ میں ایک شخص کوکا ری زخم لگا طبیب بلانے کی ضرورت ہوئی اس شخص نے بنی انمار کے دوطبیبوں کوبلایا ،اللہ کے رسولﷺ بھی وہاں موجود تھے آپﷺ نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر فرمایا ایکما اطب ۔۔طب کے معاملہ میں تم میں سب سے زیادہ مہارت کس کو ہے(موطا مالک تعالج المریض ۱۲)ان تمام احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ کے نزدیک عصری تعلیم وفنون زمانہ کی کتنی اہمیت تھی ۔آپ ﷺ نے فرمایا تمام زبانیں اللہ تعالی ہی کی پیداکی ہوئی ہے۔
عصری تعلیم اور اقوال اکابرؒ
مشہورحنفی فقیہ علامہ سرخسی نے لکھا کہ سلمان فارسیؓ نے قرآن مجیدکا ترجمہ فارسی میں کیا ہے، عہدصحابہ میں خالد بن یزید بن معاویہ کی خواہش پر نجوم ،طب ،کیمیا سے متعلق کتابوںکا عربی میں ترجمہ کیا ،۲۹؍اکتوبر ۱۹۱۰؁میںبستر مرگ پر حضرت شیخ الہند ؒ نے نیشنل مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ،شیخ الہند اسی خطبہ صدارت میں فرمایا’’آپ میں سے جو محقق اور باخبر لوگ ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی اجنبی سیکھنے دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتوی نہیں دیا ،ہاں یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آکری اثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگ جائیں یا ملحد انہ گستاخیوں سے اپنے مذہب والوں کا مذاق کا اڑائیںاور حکومت وقت کی پرستش کرنے لگیں تو ایسی تعلیم پانے سے تو جاہل رہنا اچھا ہے ،شاہ عبد العزیز دہلوی ؒ کا فتوی ملتا ہے کہ ’’کالج جانا اور انگریزی سیکھنا بموجب مذہب کے سب درست ہے ،مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ انگریزیزبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہواور نقصان دینااس سے نہ ہوئے ،مولانا نانوتوی ؒ دارالعلوم کے نصاب میںسنسکرت زبان شامل فرمائی تھی ، حضرت نانوتوی ہی ؒ ایک مرتبہ جلسہ تقسیم اسناد میں فرمایا تھا ’’اگر اس مدرسہ کے طلباسرکاری مدرسوں میں جاکر جدیدتعلیم حاصل کریں تو یہ بات انکے کمال کی جانب بڑھانے والی ثابت ہوگی ‘‘ندوۃ العلماکی تحریک کا ایک مقصد یہ بھی تھاکہ مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ، اسی طرح مولانا مونگیری ؒ جو خطوط حکیم سید عبد الحی حسنی ؒ کو لکھا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ’’انگریزی بھی ایک زبان ہے جیسے ترکی فارسی وغیرہ اور آخر میںیہ بھی لکھا کہ ان شاء اللہ آپ بھی انگریزی میں کتب دینیہ دیکھیں گے(چند اہم علمی وفکری خطبات)،مسلم یونیورسٹی کے بعد ہندوستان میںدوسری بڑی درسگاہ ہے،جسکی بنیاد حضرت شیخ الہند نے رکھی ہے،مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے توانگریزی زبان کے حصول کوفرض کفایہ فرمایا تھا ،حضرت نانوتوی ؒ جب انگریز سے اسلام کے بارے میں ترجمان کے واسطہ سے گفتگو ہوئی اور آپ نے محسوس کیاکہ وہ
آپ کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا اس وقت نے آپ ؒ نے اس ضرورت کا احساس فرمایاکہ فی زمانہ علماء اور مبلغین اسلام کیلئے انگریزی زبان سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔لہذا ان ارشادات کی روشنی اس بات کی شدیدضرورت ہے کہ ہم سماج کے قوم کے بچوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوانے میں کوئی سمجھوتہ نہ کرے،اگر تعلیم دلوانے کیلئے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑے تو پتھر باندھو ۔لیکن اپنی اولاد کو تعلیم دلواؤ ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×