اسلامیات

ماہ رمضان المبارک؛فضیلت و اہمیت

عربی زبان میں روزے کے لیے "صوم” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی رکنے کے ہیں چنانچہ روزے میں انسان اپنی خواہشات اور کھانے پینے سے اللہ کی رضا کی خاطر صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے چنانچہ ارشادِ باریٔ تعالی ہے: يا ايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون،(البقره ٧٤)  ترجمه: اے ایمان والوتم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ،
اور اس ماہ مبارک میں تمام گناہوں سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش اور سعی کرتا رہتا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے اس ماہ میں قرآن کریم کو نازل فرمایا اور ایک ایسی مبارک رات اس ماہ میں رکھی جو ہزاروں راتوں سے افضل اور بہتر ہے، اللہ کا ارشاد ہے کہ ليلۃ القدر خير من الف شه‍ر ( القدر) شب قدر(فضیلت اور برکت اور اجرثواب میں) ہزاروں مینوں سے بہتر ہے۔
اللہ تبارک و تعالی اس ماہ مبارک میں ثواب کو بہت بڑھا دیتے ہیں اور اپنی عنایت میں اضافہ فرما دیتےہیں اور ہر شوق رکھنے والے کے لئےخیر کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ سرکار دوعالمﷺ  نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہےتوجنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں جنت کے دروازے اس لیے کھول دیے جاتے ہیں کہ اس ماہ میں اعمال صالحہ کی کثرت ہوتی ہے اور ایمان والوں میں رغبت اورشوق پیدا کرنا مقصود ہوتا ہےاور جہنم کے داروازے اس لئے بند کر دیے جاتے ہیں کہ بداعمالیاں کم ہو جاتی ہیں،
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من صام رمضان ايمانا واحتسابا غفر له ماتقدم من ذنبه (بخاری حدیث نمبر ١٩١٠)
ترجمہ جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی اس قدر برکتوں اور سعادتوں والی ہے کہ باقی گیارہ مہینے ملکر بھی اس کی برابری نہیں کرسکتے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ مروی ہے کہ الصِّيَامُ جُنَّةٌ يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ، (مسند احمد:١٤٦٦٩)
روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔
اور ایک دوسری روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: الصوم جنۃ من عذاب الله (شعب الإيمان: ٣٣٠٧)
روزہ اللہ تعالی کے عذاب سے (بچاؤ کی )ڈھال ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تبارک و تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال ( کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے(بخاري:٢٨٤٠)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت کے( آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ۔ریان ۔ ہے جس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہوجائیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔(مسلم:١١٥٢)
حضرت امام احمد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کو رمضان میں پانچ ایسی فضیلتیں دی گئی ہے جو اس سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں۔
(1)روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عزیز ہے۔
(2)صبح سے لے کر افطار تک ملائکہ روزے دار کے لیے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔
(3)ہر روز جنت کو سجایا جاتا ہے اور حق تعالیٰ فرماتے ہیں عنقریب میرے نیک بندے مشقت اور پریشانی کے بوجھ سے نکل کر (اے جنت) تیرے اندر داخل ہوں گے۔
(4) سرکش شیاطین بیڑیوں میں باندھ دیئے جاتے ہیں چنانچہ غیر رمضان میں ان کا جوقابو چلتا تھا وہ رمضان میں نہیں چلتا۔
(5)آخری رات میں تمام روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے پوچھا گیا یا رسول اللہﷺ! کیا ہو رات شب قدر ہے؟ ارشاد ہوا کہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ مزدور جب اپنا کام پورا کرلیتا ہے تو اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔
(پورے مہینہ حقوق کےساتھ روزے رکھنے کا بدلہ یہی ہے کہ روزے دار کی بخشش کردی جائے)
یہ پانچ فضیلتیں صرف اور صرف امت محمدیہ کو عطا کی گی ہے یہ اللہ کا احسان اور بڑا فضل و کرم ہے اس نے ہم کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔
اس ماہ مبارک کی اور بہت سی فضیلتیں ہیں؛ اس مہینہ میں قرآن کریم کی تلاوت بہت زیادہ کی جاتی ہےاس مہینہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ شخص جو پورا سال قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا یا مکمل قرآن کریم کونہیں سنتا ایسے شخص کے لیے اللہ تعالٰی نے تراویح کا بہترین نظام بنایا ہے،اسی طریقے سے اس مہینے کے آخری عشرے میں اعتکاف بھی کیا جاتا ہے؛ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشرالاواخر من رمضان (ابن ماجه١٧٧٣)
ترجمہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اسے نیک اعمال کرنے والے کے مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں (ابن ماجہ ٢١٧٨١)
اعتکاف کی فضیلت کے متعلق اور بہت سی بے شمار احادیث موجود ہیں، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نقل کیا ہے کہ جو شخص رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرے کے برابر ہے۔ مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ (شعب الإيمان :٣٦٨٠)ہم کو اس وقت چاہیے کہ رمضان المبارک کی پوری پوری قدر کریں؛ پورے روزے رکھیں ،نوافل کا اہتمام کریں، ذکر و اذکار کا معمول بنائیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، تراویح کی نماز کو ادا کریں،موقع ہو تومسنون اعتکاف کریں، حسب استطاعت صدقہ اور خیرات کریں، اپنے مال پر اگر مکمل سال ہوچکا ہو تو زکوۃ ادا کریں، پڑوسیوں اور غرباء کا اس ماہ مبارک میں خاص طور پر بہت زیادہ خیال کریں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو ماہ رمضان کی تمام نعمتوں سے نوازے اور ہمارے لئے آخرت میں مغفرت کا ذریعہ بنائے آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×