سیاسی و سماجی

علاج کے نام پر’’ انڈرگراؤنڈ بابا ‘‘کی فتنہ انگیزی

اسلام میں بیمار پڑنے پر علاج کروانے کا حکم دیاگیا، اسلامی تعلیم کے بر خلاف فیاض بن یاسین نام کا ایک شخص اپنی گمراہ سوچ رکھتاہے، یہ شخص علاج کے نام پر ناواقف اور پریشان حال مسلمانوں میں اپنی اس گمراہ سوچ کو پھیلارہاہے۔
فیاض نامی یہ شخص حیدرآباد کے مضافات میں واقع مشہور علاقہ B.H.E.L میںM.I.G(Old) محلہ کا رہنے والاہے، یہ شخص اپنے سے رجوع ہونے والے پریشان حال لوگوں کو ڈاکٹری، حکیمی اور ہومیو پیتھی وغیرہ کسی بھی طرح کے علاج کروانے سے سختی سے منع کرتاہے، مثلاً اگر کسی کو بی پی، شوگر اور تھائیرڈ وغیرہ مستقل بیماریاں بھی ہوتو انھیں دواؤں کے استعمال سے روک دیتاہے، یہاں تک کہ اگر کوئی بہت زیادہ بیماربھی ہوجائے یاکسی آپریشن کی ضرورت پڑجائے تو تب بھی دواخانہ میں شریک ہونے اور آپریشن کروانے کی اجازت نہیں دیتا، انتہائی خطرہ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ حاملہ خواتین کو بھی دواخانہ جانے سے روکتاہے، …..پھر ان مریضوں کی بیماری کو دور کرنے کے لئے کرتا کیاہے؟ یہ شخص چند قرآنی سورتوں اور دیگراذکار کو ریکارڈ کرواکر اس کا ’’ میموری‘‘ کارڈبنواتاہے، پھر اس کو اپنے لوگوں میں تقسیم کردیتاہے، پھر ان سے یہ سورتیں واذکار ہمیشہ سنتے رہنے کے لئے کہتاہے، اس لئے فیاض نامی شخص کو اس کے لوگ ’’ میموری بابا‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں،اس کے علاوہ فیاض سے متعلق افراد کی گھروں پرمیٹنگیںبھی ہوتی ہیں، اس میں متعلقہ افراد اپنی سہولت سے شریک ہوتے ہیں، شریک ہونے والوں سے مجلس کا ذمہ دار اُن کی روداد معلوم کرتاہے، یعنی جو کچھ تم سورتیں اور اذکار سن رہے ہو اُس کا تمہیں کیا فائدہ ہوا؟ ہفتہ اور مہینہ بھر میں تم نے کتنے لوگوں تک یہ بات پہونچائی وغیرہ، شرکا ء مجلس اپنے اپنے خواب بھی بیان کرتے ہیں، پھر اس مجلس کی کاروائی کی آڈیوریکاڈنگ کر کے فیاض تک پہونچائی جاتی ہے، اس آڈیوریکاڈنگ کے جواب میں فیاض براہ راست یا اپنے نمائندوںکے توسط سے کچھ باتیں کہتاہے۔
بہر حال اس طرح کی میٹنگوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلہ صرف بیماری اور علاج کا نہیں ہے، بلکہ علاج کے نام پر ایک نئی فرقہ بندی کا ہے، اس شخص کا معاملہ حد درجہ اس لئے بھی مشکوک ہےکہ یہ آدمی منظر عام پر نہیں آتا اور نہ کسی سے براہ راست فون پر بات کرتاہے، مرد ہویا خواتین سب سے فون پر کانفرنس کال کے ذریعہ ہی بات ہوتی ہے، اس نے اپنے کئی ایجنٹ پال رکھے اور پھیلا رکھے ہیں، پریشان حال مسلمان ان ہی ایجنٹوں کے رابطہ میں آتے ہیں اور ان کو فیاض کی ہدایات ایجنٹوں کے ذریعہ ہی ملتی ہیں، اس لئے موصوف’’انڈرگراؤنڈ بابا‘‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
فیاض سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس کی ہدایت پر اتنی سختی اور شدت کے ساتھ کار بند ہوتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ صرف’’ میموری کارڈ‘‘ سنتے رہیں گے لیکن اپنا علاج کسی صورت میں نہیں کرواتے، یہاںتک کہ ماہ ڈسمبر ۲۰۱۹ء آرمور ضلع نظام آباد میں اس شخص کے خیالات سے متاثرہ گھر کی ایک لڑکی کی جان چلی گئی لڑکی کی طبیعت خراب ہونے پر گھر کے لوگ اس کو صرف قرآن کی آیات سناتے رہے، لیکن علاج نہیں کرائے، اس طرح کافی دن گذرگئے جس کی وجہ سے لڑکی کے جسم میں کا خون سوکھ گیا اور لڑکی کی موت واقع ہوگئی۔
فیاض نامی شخص کا یہ فتنہ چوں کہ حیدرآباد کے مختلف محلوں میںاور اضلاع میں پھیلتاجارہاہے، اس لئے علاج ومعالجہ کے تعلق سے اس شخص کی سوچ کے غلط اور گمراہ کن ہونے کو واضح کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمانوں کا دین وایمان محفوظ رہے اور اُن کی زندگی بھی صحیح سلامت رہے، اس سلسلہ میں چند ضروری باتیں ہم ذہن میں رکھیں:
1) علاج نہ کروانے سے متعلق فیاض کی سوچ اصولی اور بنیادی طور پر قرآن وحدیث کی واضح ہدایات اور روشن تعلیمات کےخلاف ہے، اس سے اُن تمام صحیح معتبر اور مستند احدیث کا انکار کرنا لازم آتاہے جن میں بیمار ہونے پر علاج کروانے کی تاکید کی گئی اور تدبیر بتائی گئی۔ ان احادیث کو محدثین کرام نے ’’ ابواب الطب عن رسول اللہ ﷺ‘‘ کے عنوان سے احادیث کی چھ بڑی اہم اور مستند کتابوں ’’صحاحِ ستّہ‘‘ میں نقل کیاہے، پھر ان احادیث کی روشنی میں اطباء اور حکمانے ’’طبِّ نبوی‘‘کو مستقل موضوع بناکر نہایت ہی اہم اور مفید کتابیں لکھی ہیںاور یہ ثابت کیا کہ میڈیکل سائینس کے اس دور میں بھی رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے بتایاگیا طریقہ علاج آج بھی فائدہ مند اور نفع بخش ہے، تفصیل دیکھئےکتاب ’’ طب نبوی اور جدید سائینس‘‘ ۔
دوسرے یہ کہ دین وشریعت میں جس بات کا معلوم ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہو اور وہ تو اتر کے ساتھ ثابت ہواور توارث کے ساتھ اس پرعمل بھی ہوتاہو تو اُس کے انکار سے مسلمان اسلام پر باقی نہیں رہ سکتا، اسلام سے اس کی وابستگی ختم ہوجاتی ہے، مثلاً نماز، روزہ وغیرہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہونا، آں حضرت ﷺ کا آخری نبی ہونا، دین کی یہ سب باتیں تو اتر کے ساتھ ثابت ہیں، ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنے سے آدمی دائرہ اسلام سےخارج ہوجاتاہے، ایسا ہی مسئلہ علاج ومعالجہ سے متعلق صحیح اور معتبر احادیث کا ہے، فیاض کی سوچ دراصل ان احادیث کے انکار کا نتیجہ ہے، اس لئے فیاض کے بارے میں ’’ منکر حدیث‘‘ خیال رکھاجائے تو غلط نہیں ہوگا، یہ شخص قرآن کے زریعہ علاج کے نام پر احادیث پر سے مسلمانوں کے اعتماد کو ختم کرنے کی سازش کررہاہے۔
2) اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دارالاسباب بنایاہے، یہاں انسانی ضروریات کی تکمیل اسباب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، دنیاکا کوئی کا م اسباب کو اختیار کیئے بغیر اور اُس کو استعمال کیئے بغیر نہیں ہوتا، یہ چیزتو کل کے خلاف بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہ خود اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے ، قرآن مجید کی سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ ؏؈کی ولادت باسعادت کا واقعہ ہے، اس میں بیان کیاگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت وحکمت سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ ؏؈کو پیدا فرمایا، چنانچہ جب حضرت مریم ؏؈ کو دردِ زہ ہوا تو وہ کھجور کے درخت کے پاس پہونچی، اللہ تعالیٰ نے انھیں کھجور کی ٹہنی ہلانے کا حکم فرمایا: وَہُزِّيْٓ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا۝۲۵ۡ (مریم: ۲۵) تم اپنی طرف کھجور کی ٹہنی ہلاؤ، اس سے تم پر پکی ہوئی کھجوریں گریں گی۔
غور کرنا اور سمجھنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ بغیر کسی جنسی تعلق کے حضرت مریم ؈کولڑکا عطا فرماسکتاہے تو کیا وہ بنا ٹہنی ہلائے حضرت مریم کی گودمیں کھجوریں نہیں ڈال سکتا؟ اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا کرشمہ اپنی جگہ، لیکن آدمی اسباب سے دوری اختیار نہیں کرسکتا، ایک مرتبہ ایک صحابی ؓ نے آں حضرت ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! میں اپنی سواری کو کھلاچھوڑکر اللہ پر بھروسہ کروں یا اُس کو کونٹھے سے باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھوں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی سواری کو باندھو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو، اعقلھا وتوکل (ترمذی حدیث نمبر:2517 ) پس توکل اسباب کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھنے کا نام ہے، نہ کہ اسباب سے راہِ فرار اختیار کرنا۔
بیمار ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جانا، دواؤں کا استعمال کرنا، یہ سب صرف اسباب کے درجہ میں ہے، اس لئے کوئی بھی مسلمان یہ نہیں سمجھتا کہ مجھے فلاںڈاکٹر کی وجہ سے یا فلاں دوایا نسخہ استعمال کرنے کی بناء شفاملی ہے ، کیوں کہ ہو مسلمان کا ایمان ہے کہ شفاء کا دینا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتو کوئی دوا بھی کام نہیں کرتی، موت کا وقت آجائے تو ماہر سے ماہر ترین ڈاکٹر بھی ناکام ہوجاتا ہے اور مہنگے سے مہنگا علاج بھی کار آمد نہیں ہوتا، اسی لئے قرآن وحدیث میں جہاں بیمارہونے پر علاج کرانے کا حکم دیاگیا، وہیں اس پر بھی زوردیا گیا کہ شفایابی اور صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کی مرضی و مشیت پر موقوف ہے، قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم ؈ کی زبانی فرمایا گیا : ’’ وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَيَشْفِيْنِ‘‘(سورۃ الشعراء:۸۰) جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفادیتاہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ لکلّ داءٍ دواءُ فاذا اصیب الدّاءُ للدواء برئ باذن اللہ‘‘ ہر بیماری کے لئے دواہے، جب دوامرض کے مطابق ہوتی ہے تو مریض اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔ (مسلم: حدیث نمبر:2204)
دوسرے یہ کہ اگر علاج ہی نہیں کرواناہے تو فیاض کے پیروکار قرآنی آیات کے ذریعہ بھی علاج نہ کروائیں، اس لئے کہ یہ علاج بھی بطور سبب کے ہے، جو صحیح العقیدہ حضرات قرآن مجید کی آیات سے دم وغیرہ کرکے علاج کرتے ہیں وہ بھی قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہتے کہ شفا ہوجائے گی، دیکھا جائے تو کمزور عقیدہ کے حامل مسلمانوں کے لئے قرآنی آیات سے علاج کرانے میں زیادہ خطرہ ہے، اس معنی پر کہ اگر ڈاکٹری علاج سے فائدہ نہ ہوتو مریض ڈاکٹرکی صلاحیت اور اس کی مہارت پر سوال کھڑاکرتاہے، لیکن قرآن کے ذریعہ علاج کا میاب نہ ہونے پر قرآن پر سے اس کا ایمان متزلزل ہوجائےگا۔
3) علاج نہ کروانے سے متعلق فیاض کی سوچ سے قرآن مجید کے اس حکم صریح کی خلاف ورزی اور نافرمانی ہوتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّہْلُكَۃِ۝۰ۚۖۛ وَاَحْسِنُوْا۝۰ۚۛ ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۵) اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، بیمار ی کے موقع پر علاج نہ کروانا دراصل اپنے آپ کو بتدریج ہلاکت میں ڈالناہے، حالاں کہ شریعت میں علاج و معالجہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ بدرجہ ٔ مجبوری حرام اشیاء سے بھی علاج کرانے کی اجازت دی گئی ، اس سلسلہ میں فقہ وفتاوی کی مشہور(Authentic ) کتاب ’’فتاوی عالمگیری‘‘میں اس مسئلہ کی وضاحت یوں کی گئی:
’’ یجوزللعلیل شرب الدم والبول، واکل المیتۃ للتداوی، اذااخبرۃ طبیبٌ مسلمٌ انّ شفاءۂ فیہ ولم یجد من المباح مایقوم مقامہٗ‘‘
ترجمہ: بیمار کے لئے بطورعلاج پیشاب اور خون پینا اور مردار کھانا جائزہے ، جب مسلمان ڈاکٹر نے کہاہو کہ اس سے صحت یابی ہوسکتی ہے اور مریض کے لئے اس کے قائم مقام کوئی دوسراجائز ذریعۂ علاج موجونہ ہو۔( بحوالہ فتاویٰ محمودیہ ، ج ۱۸، ص: ۲۹۸باب التداوی والمعالجۃ)
اسی طرح ایک اور مشہور اور معتبر کتاب’’ المحیط البرھانی‘‘ میں ہے :
’’ الاستشفاء بالمحرم انمالایجوز اذ الم یعلم أن فیہ شفاءً أمّا اذاعلم أن فیہ شفاءً ولیس لہٗ دوا ءٌاٰخر غیرہٗ فیجوز ألا ستشفاءُ بہ‘‘
ترجمہ: حرام سے شفا ء حاصل کرنا اس وقت جائز نہیں،جب یہ معلوم نہ ہوکہ اس میں شفاء ہے، ہاں اگر اس شفاء کا ہونا معلوم ہوجائے اور اس حرام کے علاوہ کوئی دوسری دواء نہیں ہے تو پھر حرام سے شفاء حاصل کرنا جائز ہے۔( بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ، ج۱۸، ص: ۲۹۸، باب التداوی والمعالجۃ)
4) شدید اور خطرناک بیماری میں علاج نہ کروانا بادی النظر میں ’’ خودکشی‘‘ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرناہے، اس لئے کہ علاج کی تمام سہولیات ہونے اور علاج کے اخرجات کی مکمل استطاعت اور گنجائش رکھنے کے باوجود علاج نہ کروانا گویا ایک معنی میں یہ خودکشی ہی کرناہےاور ہر مسلمان اچھی طرح جانتاہے کہ اسلام میں خود کشی کرنا حرام ہے، اس کو گناہ کبیرہ فرمایا گیاہے،دنیا میں آدمی جس انداز سے خودکشی کرےگا ،قیامت میںاُسی اندازسے اس کوسزادی جائے گی، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص پہاڑ پر سے لڑھکا کر اپنے آپ کو ہلاک کرڈالے تو قیامت کے دن وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے گرتارہے گا۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر:5442)
دوسرے یہ کہ علاج نہ کروانا اگر براہ راست خود کشی بھی نہ ہو تو یہ کم اس کم خودکشی کا ذریعہ تو ہے، شریعت میں گناہ نہ کرنے کے ساتھ گناہ کا ذریعہ بننے سے بھی منع کیا گیا، مثلاً شراب پینا حرام ہے تو اس کا بنانا اور بیچنا بھی حرام ہے، سودی لین دین حرام ہے تو سودی لین دین کے حساب وکتاب میںشرکت اور تعاون کرنابھی حرام ہے، پھر یہ کہ خودکشی کو اس لئے حرام قرار دیا گیا کہ انسان اپنی زندگی کا خود مالک نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے، امانت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اس میں کچھ اختیار نہیں ہوتا اور نہ اس کی کوئی مرضی چلتی ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص اپنے جسمانی اعضاء کو فروخت کرنا چاہے تو شرعی نقطۂ نظر سے یہ اس کے لئے جائز نہیں ہے ، (تفصیل دیکھئےکتاب ’’جدید فقہی مسائل‘‘ از حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ) امانت بہر حا ل امانت ہے، چاہے روپیہ پیسہ ہو یا کوئی چیز ، انسان جب دوسروں کی امانت میں خیانت نہیں کرتا اور اس کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت زندگی کو ہر طرح کی برائیوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھنا اور زیادہ ضروری ہوجاتا ہے، پس علاج و معالجہ صرف صحت و تندرستی کے لئے نہیں بلکہ خود کشی جیسے سنگین جرم اور امانت میں خیانت سے بچنے کے لئے بھی ہے۔
5) شدیدبیماری کے موقع پر علاج نہیں کروانا صرف شرعی احکام کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ’’ قانونی جرم ‘‘ بھی ہے،اس لئے کہ ہمارے ملک کے قانون ’’دستورہند‘‘ کی دفعہ21/کے تحت صحت مند زندگی ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اس حق سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے،جب بیمار ہونے پر علاج کروایا جائے، اس لئے اگر کوئی شخص اپنی غلط سوچ کی وجہ سے کسی کو علاج سے روکتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کے شہر یوں کو ان کے دستوری حق سے محروم کرنے کی کوشش اور سازش کررہاہے، ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کررہاہے، یہ شخص قانون کی نظر میں مجرم قرارپائے گا اور پولس کو اس کے خلاف کاروائی کرنے کا پورا اختیار رہے گا، چند سال پہلے پولس نے بعض نام نہاد باباؤں کے خلاف قانونی کا روائی کی ہے، چنانچہ بدنام زمانہ’’ بابا رام رحیم ‘‘کو جن مختلف جرائم کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ان میں ایک جرم اپنے مریدوں کو ’’ نامرد‘‘ بنانا بھی ہے، اس کےعلاوہ اگر کوئی آدمی اپنے بعض مذہبی رسوم وروایات کی بنیاد پر اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالتاہے تو یہ بھی غیر قانونی حرکت ہے، چنانچہ جین مذہب میں ’’ سنتھارا‘‘ ایک رسم ہے، اس رسم میں اس مذہب کا پیروکار اپنی موت تک بھوکا پیاسارہنے کا عہد کرتاہے، وہ اپنی موت تک کچھ کھاتا پیتا نہیں، یہاں تک اسی حالت میں اس کی موت ہوجاتی ہے، اگست ۲۰۱۵ء میں اس رسم کے تحت راجستان میں جین مذہب کی ۸۲/سالہ معمر خاتون نے فاقہ کشی شروع کی ، اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ، ۱۰/اگست ۲۰۱۵ ء میں راجستھان ہائی کورٹ نے مقدمہ کی سماعت کرنے کے بعد اس رسم کو غیر قانونی قراردیا اور کہا یہ تعزیراتِ ہند کی دفعہ 306 کے تحت خودکشی میں مدد کرنے کے مماثل ہے اور مستوجبِ سزاء جرم ہے۔(حوالہ ، روزنامہ منصف حیدرآباد، مورخہ ۶/ستمبر ۲۰۱۵ءملخضاً)
اس سے معلوم ہواکہ شدید بیماری میں علاج نہ کرانا قرآ ن وحدیث کی واضح تعلیمات کی صریح مخالفت ہے ہی، اس کے ساتھ ملکی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ، قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی بنا آخرت میں تو گنہ گار ہوگا ، دنیاوی قانون کے لحاظ سے مجرم قرار پاکر سزا پائے گا۔
6) قرآن کےذریعہ علاج کے نام پر فیاض سے وابستہ بعض افراد کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن مجید کی سورتیںسنتے رہنے سے صحت ہوگئی اور ہماری بیماری دور ہوگئی، یہ اپنی غلطی اور گمراہی پر جمے رہنے کا ایک دھوکہ اور فریب ہے، اس لئے کہ ایک سچے مسلمان کے لئے صحت وتندرستی سےزیادہ ایمان کی بقاء وسلامتی اہم ہے، لوگ کہتے تو ہیں ’’ جان ہے تو جہاں ہے‘‘مگر ایک صاحب ایمان اس کو زیادہ اہم سمجھتاہے کہ ’’ ایمان ہے تو جان ہے اور جہاں بھی‘‘ ایمان کے بغیر زندگی موت سے زیادہ بدترہے ، دوسرے یہ کہ گمراہی وبے دینی پر مبنی طریقہ علاج سے صحت یابی کو صحیح مان لیا جائے تو بہت سے غیر مسلم مریض مندروں اور آشرموں پر جانے سے صحت یاب ہوجاتےہیں ، کیا اس کو سچا اور صحیح مان لیا جائے گا اور کیا یہ مان کر کہ اللہ تعالیٰ مندروں اور آشرموں پر جانے سے بھی شفادیتے ہیں،مسلمان مندروں اور آشرموں کو جانا شروع کردیں ؟؟ اصل بات یہ ہے کہ بندہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس کے گمان کے مطابق ہوتاہے، بندہ جیسا اللہ تعالیٰ سے گمان رکھے گا ،اُسی گمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کےساتھ معاملہ فرمائیں گے (صحیح بخاری،حدیث نمبر:7405) اب یہ بندہ کے فہم وفراست پر منحصر ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ اچھایا غلط گمان رکھے، مثلاً اللہ تعالیٰ’’ رازق ‘‘ ہے، چوری اور ڈاکہ زنی سے بھی آدمی رزق پاتاہے، کیا اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ چوری کرنے پر بھی رزق دیتے ہیں تو آدمی چوری کر تا رہے گا؟؟ پس مسئلہ صرف رزق کے ملنے کا نہیں اس کے ذریعہ کا ہے، یہاں بھی مسئلہ فیاض کے طریقہ علاج سے صحت یابی کا نہیں بلکہ اس شخص کی گمراہ سوچ کا ہے، یادرکھیئے ! ایمان کے ساتھ چندروزہ زندگی کفر وضلالت والے علاج سے ملنے والی سوسالہ صحت مندزندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ اللھم من احییتہ منافاحییہ علی الاسلام ومن تو فیتہ منا فتوفہ علی الایمان۔
فیاض کے بعض گمراہ کن خیالات:
فیاض نامی شخص کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کے نام پر علاج تو صرف ایک ’’ بہانہ‘‘ ہے اصل ’’نشانہ‘‘ پریشان حال مسلمانوں کا عقیدہ وایمان ہے، یہ شخص قرآنی آیات کے ذریعہ علاج کم اپنے گمراہ خیالات کو زیادہ پھیلارہاہے، اور یہی اس شخص کا اصل مقصد اور منشاہے، اس شخص کے گمراہ خیالات کی ایک دومثالیں ملاحظہ ہوں، فیاض اپنے متعلقہ افراد سے دورانِ گفتگو کہتاہے:
1) یہ شخص اپنی اطاعت و پیروی کو فرض بتاتاہے :
۱) ایمان اصل میں میری پیروی کرنا اور اللہ کی پیروی کرناہے۔
۲) میری اطاعت نہ کرنے والے پر گمراہی کا مہر لگ چکاہے۔
۳) میری اطاعت کے بغیرنماز اور حج کی عبادتیں بھی بے کارہیں۔
۴) ایک خاتون نے اس کی باتوں کو جھٹلایا تو کہا: ایمان کا راستہ بتانے والے پیغمبر کو تم نے جھٹلادیا۔
۵) مجھے نہیں ماننا ایمان کی جھوٹی گواہی دیناہے۔
۶) جو میری اطاعت نہیں کرے گا ،میں اُس کو آخرت میں نہیں بچاسکتا۔
۷) اللہ کی طرف سے آگے پیش آنے والے حالات کی مجھے خبر دی جاتی ہے۔
فیاض کی ان باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ یہ شخص درحقیقت اپنے آپ کو ــ ’’ مفترض الطاعۃ‘‘ سمجھتاہے، یعنی ہر حال میں اس کی اطاعت فرض ہے اس طرح کی سوچ عقیدہ ٔ ختم نبوت کے بالکل خلاف ہے، اس لئے کہ ختم نبوت کا معنیٰ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ پر نبوت ورسالت کے اختتام کے ساتھ نبوت وپیغمبری کے لازمی صفات وامتیازات بھی ختم ہوگئے، مثلاً وقت کے نبی اور پیغمبر کے لازمی اوصاف یہ ہے کہ وہ’’ معصوم عن الخطاء ‘‘اور ’’ مفترض الطاعۃ‘‘ ہوتے ہیں، آں حضرت ﷺ کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کسی کی یہ حیثیت ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو ’’ معصوم عن الخطاء‘‘ اور ’’ مفترض الطاعۃ‘‘ تسلیم کروائے، اپنی اطاعت وپیروی کے تعلق سے فیاض کی گفتگو خود کو’’ مفترض الطاعۃ ‘‘سمجھنا اور سمجھانا ہے، جو بادی انظرمیں عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
2) فیاض دعا کے بارے میں،انبیاء کرام اور رسول اللہﷺ سے متعلق نہایت گستاخانہ باتیں بھی کہتاہے:
۱) انبیاء کی دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔
۲) دعاء کرنا در اصل ایک ضد ہے یعنی اللہ تعالیٰ پرزبردستی کرناہے کہ یہ کام کرو۔
۳) حضرت ابراہیم ؈نے اپنے باپ کے حق میں دعاء کرکے نادانی کی۔
۴) رسول اللہ ﷺ بھی دعائیں کرتے کرتے الٹا لٹک گئے۔ (استغفراللہ)
دعا ء سے متعلق فیاض کی ان باتوںسے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ فیاض کی گمراہی کس حدتک بڑھی ہوئی ہے، قرآن وحدیث میں دسیوں جگہ دعاء کی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی اور بار بار دعاء کرنے کا حکم دیاگیا، نمازوں میں ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستہ کی رہنمائی کے لئے دعاء کرناہے’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ ‘‘قرآن مجید میں مختلف انبیاء کرام کی دعاؤوں اور ان کے قبول ہونے کا تذکرہ ہے، حضرت ابراہیم ؈ نے نیک صالح اولاد کی دعاء مانگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ؈ کو حضرت اسماعیل ؈ جیسا ہونہار اور بردبار فرزند عنایت فرمایا، رَبِّ ہَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۰۰ فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ(الصافات،آیات :۱۰۰-۱۰۱) حضرت موسیٰ ؈اور حضرت ہارون؈ نے فرعون کی بربادی اور تباہی کے لئے دعاء کی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں حضرات کی دعاء قبول فرمائی ’’ قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا‘‘ تم دونوں کی دعا ء قبول کرلی گئی(سورہ یونس: ۸۹) حضرت یونس ؈کے دعاء کرنے پر اللہ تعالیٰ آپ ؈ کو تاریکیوں سے نجات عطافرمائی، فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ۝۰ۙ وَنَجَّيْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ۝۰ۭ (الانبیاء:۸۸) ہم نےان کی فریاد سن لی اور ان کو اس گھٹن سے نجات دے دی، حضرت ایوب ؈نے شدید بیماری کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعاء کی ، تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؈ کی بیماری کو ختم فرمادیا، فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَكَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ(الانبیاء:۸۴) ہم نے ان کی فریاد سن لی اور پھر ان کی تکلیف دور کردی۔
یہ اور اس طرح کی بے شمار آیات اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ دعاء کرنا انبیاء کرام ، صحابہ عظام اور بزرگانِ دین کا ہمیشہ کا معمول رہا، دعاء کرنا ضد نہیں عبادت ہے، اس کے ذریعہ بندہ اپنےخالق و مالک کے حضور اپنی عاجزی وانکساری کا اظہار کرتاہے، اپنی بے بسی اور بے چارگی کا اقرار واعتراف کرتاہے، پس معلوم ہوا کہ دعاء کے سلسلہ میں فیاض کی سوچ دراصل دعاء سے متعلق آیات واحادیث کا صریح طور پر انکار کرناہے، پھر انبیاء کرام کی دعاؤں سے متعلق اس شخص کے گستاخانہ کلمات نے اس کو کفروارتداد کی راہ پر لاکھڑاکردیا، ایسے گمراہ وبے دین شخص کے یہاں علاج کے لئے رجوع ہونا اپنے دین وایمان کا ستیاناس کرناہے۔
اسی لئے فیاض کے گمراہ وگستاخانہ خیالات پر مبنی تحریر بطور استفتاء جب دارالافتاء جامعہ نظامیہ میں پیش کی گئی، تو جامعہ نظامیہ کے معتبر اور کہنہ مشق مفتی حضرت مولانامفتی عظیم الدین صاحب دامت برکاتہم نے واضح طور پر اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس سے وابستہ لوگوں پر توبہ ، تجدید ِایمان و نکاح لازم ہے، فتوی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’ بشرط صحتِ سوال صورت مسئول عنھا میں مذکور شخص خارج عن الاسلام ہے، مسلمانوں پر لازم ہے اس کے بددینی امور سے اجتناب کریں ، اس کی اتباع کرنے والے بھی خارجِ اسلام ہیں، ان پر تو بہ ، تجدید ایمان ونکاح لازم ہے، فقط و السلام‘‘
۱۹/محرم الحرام ۱۴۳۸ھ، مطابق ۱۰/اکتوبر ۲۰۱۷ء
علاج ومعالجہ کے سلسہ میں قرآن و حدیث کی سچی تعلیمات اور اس کے بالمقابل فیاض کی گمراہ کن سوچ اور اس کے گستاخانہ خیالات کی تفصیل سے فیاض نامی شخص کی گمراہی اور بد عقیدگی خوب اچھی طرح واضح ہوگئی، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نئے فتنہ سے ہوشیار وچوکنا رہےاور جو لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں ان سے ازراہِ ہمدردی وخیر خواہی عرض ہے کہ وہ فی الفور فیاض سے مکمل بے زارگی اور بے تعلقی اعلان کریں، اس میں ان کے عقیدہ وایمان کی بقاء وسلامتی ہے اور دنیاوآخرت میں نجات وکامیابی بھی۔
کچھ رہے یا نہ رہے پَر تمنا ہے امیر
آخری وقت سلامت میراایمان رہے
٭ ٭ ٭ ٭ ٭

Related Articles

One Comment

  1. حضرت مفتی صاحب جزاک اللہ
    فیاض کے تعلق سے کوئ کتاب چہ اگر مجلس تحفظ ختم نبوت سے شائع ہوا ہو تو برائے کرم مجلس کی وب سائسٹ پر اپلوڈ کردیں مہربانی ہوگی.
    فقط السلام
    محمد غیاث کورٹلوی

محمد غیاث کورٹلوی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×