اسلامیاتفقہ و فتاوی

نابالغ کی تراویح کا حکم

لاک ڈاؤن کی وجہ بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں ، رمضان المبارک قریب ہے اورامکان یہ ہے کہ رمضان المبارک کی تراویح بھی لوک ڈاؤن کی وجہ سے معمول کے مطابق نہیں ہو پائے گی ،؛بلکہ جس طرح جمعہ و جماعت کا نظام گھروں میں ہے؛ اسی طرح تراویح کا نظام بھی گھر میں قائم کرنا ہوگا اور جس طرح لوگ اپنے گھروں میں جمعہ و جماعت کا اہتمام کر رہے ہیں اسی طرح تراویح کا بھی اہتمام کریں گے۔ اس ضمن میں بہت سے مسائل بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں اس لیے کہ عام طور پر حفاظ کی تعداد زیادہ ہوتی تھی اور جگہیں کم ہوتی تھیں اس وقت کوئی مسئلہ نہیں تھا ؛بلکہ حافظ کا لیے مسئلہ ہوتا تھا کہ ان کو کوئی جگہ نہیں ملتی تھی اس وقت صورت حال بدل گئی ہے حافظ کم ہوگئے ہیں اور جگہیں زیادہ ہیں کیوں کہ ہر گھر میں تراویح ہوگی ، اس لیے ایک مسئلہ بہت سے احباب کی طرف سے معلوم کیا جارہا ہے کہ کیا تراویح میں نابالغ کو بھی امام بنایا جاسکتا ہے اس طرح بہت سي جگہوں پر تروایح کا نظم ہوسکتا ہے ؟
نابالغ کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ یہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، امام شافعی ؒ فرض اور نفل ہر نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ فرض نمازمیں اقتداء کو درست نہیں کہتے ہیںاور نفل نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں اور احناف کے یہاں مفتی بہ روایت یہ ہے کہ فرض اور نفل دونوں میں نابالغ کی اقتداء درست نہیں ہے ۔ امام شافعی نے عمرو بن سلمہ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ان کی قوم نے ان کو امام بنایا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سات سال یا آٹھ سال کی تھی ،لیکن امام احمد ؒاو ر امام مالکؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عمر و بن سلمہؓ کے واقعہ کا علم آپ ﷺ کو نہیں تھااور نہ آپ ﷺنے عمر و بن سلمہ کو امام بنانے کا حکم دیا تھا؛ بلکہ یہ لوگوں کااپنا اجتہاد تھا ، آپﷺ نے فرمایا: کہ جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو وہ امامت کرے لوگو ں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ قرآن جاننے والے عمر و بن سلمہ ہیںاس لیے ان کو امام بنادیا ، نیز یہ اسلام کے بالکل ابتداء کا واقعہ ہے۔ علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں یہی جواب نقل کیا ہے قال احمد بن حنبل : لیس فیہ اطلاع النبی ﷺ و اجیب بأن امامتہ بہم کانت حال نزول الوحی و لایقع حالہ التقدیر لاحد من الصحابۃ علی الخطاء (نیل الاوطار ۳/ ۱۹۷)
غرض کہ یہ مسئلہ ائمہ مذاہب کے ساتھ خود احناف کے یہاں بھی مختلف فیہ ہے، احناف کے یہاں مشائخ بلخ نے جائز قرار دیا ہے اس لیے نفل نماز میں بہت سی رعایت ہوتی ہے جس کی فرض میں گنجائش نہیں ہوتی ہے، پھر نابالغ کی نماز اور تراویح کی نماز دونوں نفل ہونے میں برابر ہے لیکن احناف کے یہاں مفتی بہ قول یہی ہے کہ نابالغ کو تراویح میںبھی امام نہیں بناسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بالغ کی نماز اور نابالغ کی نماز میں فرق ہوتا ہے ، اگر چہ نابالغ کی نماز نفل ہوتی ہے اور تراویح پر بھی نفل کا اطلاق ہوتا ہے لیکن نابالغ کی نماز، بالغ کی نماز کی طرح نہیں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر بالغ مرد نفل نماز شروع کرکے اس کو فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم ہوتی ہے اور نابالغ اگر نفل نماز شروغ کرکے فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہوتی ہے معلوم ہوا کہ نابالغ کی نماز اگر چہ نفل ہے لیکن بالغ مردوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ بالغ کی نفل نماز قوی ہے اور نابالغ کی نفل نماز ضعیف ہے اور قوی نماز پڑھنے والا ضعیف کی اقتداء نہیں کرسکتا ہے ۔ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا الامام ضامن(سنن الترمذی حدیث نمبر:۲۰۷) کہ امام مقتدی کی نماز کا ضامن ہوتا ہے ، جب کہ نابالغ خود اپنی نماز کا ضامن نہیں ہوتا ہے تو وہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن کس طرح ہوگا ۔علامہ شمس الائمہ سرخسی کاقول ہے کہ بالغ مردوں کی نماز حقیقی نماز ہے اور نابالغ کی نماز حقیقی نماز نہیں ہے اس لیے نابالغ کو امام بناکر اس کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے ۔ (المحیط البرہانی ۲/ ۱۹۵)
، جن حضرات نے جائزقرار دیا ہے ان کے سامنے بھی دلائل ہیںاور جنہوں نے ناجائز قرار دیا ہے ان کے پاس بھی دلائل ہیں، احناف کے دلائل مضبوط ہیں ؛اس لیے کہ حدیث کے مطابق امام مقتدی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن ہوتاہے جب کہ نابالغ کسی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن نہیں ہوسکتا ہے؛ اس لیے کہ وہ مکلف ہی نہیں ہے ۔ اس لیے نابالغ کو تراویح میں امام بنانا درست نہیں ہے ۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تراویح کی نماز کا بہت اہتمام ہوتا ہے یہی وجہ سے جو لوگ عام دنوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں وہ بھی تراویح کا بہت اہتمام کرتے ہیں اس صورت حال میں لوگوں میں بے چینی ہے کہ ہماری تروایح کا کیا ہوگا؟ اس ضمن میں بعض حضرات نے یہ مشورہ دیا ہے کہ عام حالات میں اسی پر عمل کیا جائے کہ نابالغ کو امام نہ بنایا جائے لیکن موجودہ حالات میں جب کہ ضرورت ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے کہ نابالغ کو تراویح کا امام بنادیا جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رائے دیانت پر مبنی ہے اور فقہاء کے اقوال سے اس کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ لیکن احناف کا مفتی بہ قول عقلی و نقلی ہر اعتبار سے مضبوط ہے اور مفتی بہ رائے سے عدول کرنے کی جوضرورت ہوتی ہے وہ یہاں پر نہیں پائی جاتی ہے ؛، اس لیے کہ یہاں پر متبادل موجود ہے کہ جہاں پر حافظ موجود اور میسر ہوں وہاں پر لوگ پورا قرآن تراویح میں سن لیں اور جہاں پر حافظ موجود نہ ہو وہاں پر سورہ تراویح پڑھ لیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کی اجاز ت دینے کے بعد بھی یہ ضرورت پوری نہیں ہوگی؛ بلکہ اس کے باووجود بھی زیادہ تر حضرات کو سورہ تراویح پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔اس لیے نابالغ کو تراویح میں امام نہ بنایا جائے، عوام کا یہ جذبہ اگر چہ مبارک ہے لیکن شریعت کی طرف سے جو متبادل موجود ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے جس طرح کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آج لوگ جمعہ و جماعت کا نظام گھر میں قائم کررہے ہیں اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اگر حافظ میسر نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھ لیں ، اور دن کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں اور اگر نابالغ حافظ میسر ہوتو ان سے بلا نماز کے ہی قرآن کو سن لیں تاکہ پورا قرآن سننے کی جو برکت ہے اس سے بھی محظوظ ہو سکیں ۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں بھی اللہ تعالی سے خوب دعا کریں کہ حالات کو بہتر ہوجائے اور ہم لوگ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں سے صحیح طور پر فائدہ اٹھاسکیں ۔

E-mail: aaliqasmi1985@gmail.com
Mob: 07207326738

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×