سیاسی و سماجی

قیادت کا فقدان یا تسلیمِ قیادت کا بحران

آج کل ایک تحریر گشت کررہی ہے جس کا عنوان ہے ” قیادت نے بہت مایوس کیا ” ……… ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو آسان علاج ہے……… قائد بدل لیجئے، ……. مگر ٹہرئیے پہلے یہ تو بتائیے آپ نے کسی کو قائد مانا ہی کب تھا…… ؟ آپ کاحال تو یہ ہے بقول غالب ……..
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ …… قیادت کا فقدان ، یا تسلیمِ قیادت کا بحران ؟؟
جن دنوں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا آزاد اور رفیع احمد قدوائی جیسے مخلص افراد موجود تھے اس وقت کتنے فیصد مسلمانوں نے ان کواپنا قائد تسلیم کیا تھا؟ ….. کیا لاہور اشٹیشن پر حضرت مدنی کی ڈاڑھی کھینچ کر تھپڑ مارنے والا کوئی ہندو تھا؟ ……. کیا آج ہی کی طرح کے جذباتی مسلمانوں نے حضرت مدنی پر پتھراؤ کرکے اُنھیں لہولہان نہیں کردیا تھا ؟ مولانا آزاد کو ہندوؤں کا شوبوائے کہنے والے یہودی تھے ؟
وہ وقت بھی یاد کیجئے جب ڈرائنگ رومس میں آرام دہ صوفوں پر سگار کا کش لگاتے ہوئے مسلمانوں کی قیادت کا دعوی کرنے والے ہم ہندوستانی مسلمانوں پر فاتحہ پڑھ کراپنی مزعومہ مملکت خداداد کے لئے پرواز کرگئے تھے ـ……. تب یہی چند مخلص نفوس تھے جنھوں نے گالیاں بکنے والے اور پتھراؤ کرنے والے اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں کے لئے غیروں کے طعنے، تعصب اور مغلظات برداشت کئے، ……. مسلمانوں کے خلاف پھوٹ پڑنے والے فسادات کے خلاف جان ہتھیلی پر لئے سڑکوں پر نکلے، آزاد ہندوستان کے رہنماؤن پر دباو بنایا ، مسلمانوں کو بنیادی حقوق دلانے کی جدو جہد کی ـ…….. جب ہماری قوم نے اُن جانثار مخلصین کو قائد نہیں مانا تو آج کے ………. ؟؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے آخر اتنی جانفشانی کے بعد بھی ہمارے قدیم مخلص رہنماء پوری طرح مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق دلانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکے؟…….. تو دوستو ! اس کی بنیادی وجہ وہی ” تسلیمِ قیادت کا بحران ” ہے، ……. کوئی بھی لیڈر حکومتوں پر دباؤ جبھی بنا سکتا ہے جب اُس کو اپنی قوم کی مکمل پشت پناہی حاصل ہو، …… حکومتیں سب جانتی ہیں کہ کون سے لیڈر کی کتنی عوامی پکڑ ہے، حکومت کا خفیہ محکمہ ساری اطلاعات پہونچاتا رہتا ہے ـ یہی بات آزادی اور تقسیم ہند کے بعد مولانا آزاد نے بھی کہی تھی کہ اب میں کس منہ سے جواہر لال اور گاندھی سے اپنی قوم کے حقوق کی بات کروں، میری قوم کی اکثریت تو اُن لوگوں کو اپنا قائد سمجھتی رہی جو اُن پر فاتحہ پڑھ گئے …….. مولانا نے مزید یہ بھی فرمایا تھا کہ ان سب کے باوجود میں حکومتی ذمہ داروں کے پاس اس لئے بھی جاتا ہوں کہ کبھی کبھی آنکھوں کی شرم بھی کام آجاتی ہے، اس کے ذریعے بھی قوم کا کچھ نہ کچھ بھلا ہوجاتا ہے ـ
ہمارے ایک مفتی صاحب کا ایک عدد ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں موصوف خطیبانہ انداز میں ہجومی تشدد کی مذمت فرمانے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں، اگر ہم اپنے نوجوانوں کو اشارہ کردیں تو وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دےسکتے ہیں ؟
سوال ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کے پاس ہتھیار ہیں تو کہاں سے آئے؟ کون پہونچا رہا ہے؟ آپ میڈیا کے سامنے کھلے عام اعتراف فرمارہے ہیں ـ
حالانکہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے بیشتر مسلمانوں کے گھروں میں ڈھنگ کا ڈنڈا بھی نہیں ہوتا ـ
دوسری طرف مفتی صاحب کے بیان کا سائیڈ ایفکٹ بھی فورا سامنے آگیا، حکمراں پارٹی کے ایک رکن نے بیان دیدیا کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں میں ہتھیار ہوتے ہیں ایک مولانا صاحب خود کہہ رہے تھے ـ
آج ہی پارلیامنٹ میں ملک کے وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ بنگال کے مدرسوں میں آتنکی ٹریننگ دی جاتی ہے اور پڑوسی ملک کی فلاں فلاں دہشت گرد تنظیموں کا تعاون بھی اُن کو حاصل ہے ـ

مفتی صاحب کے پرجوش بیان سے متاثر ہوکر مسلم قیادت سے مایوس ہوجانے والے جذباتی افراد سے یہ سوال کیا جابا چاہیئے کہ کیا آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ مسلم قیادت تمام مسلمانوں سے اپیل کرے کہ حضرت مفتی صاحب کے بتائے ہوئے مفروضہ ہتھیار لے کر میدان میں آجاؤ اور ………. !!
ابھی ماضی قریب میں عنایت اللہ مشرقی نامی ایک شخصیت گزری ہے، انھوں تحریک خاکسار نامی ایک جماعت بنائی تھی، اُس میں تب کے بہت سے پرجوش نوجوان شامل ہوگئے تھے اور کاندھے پر بیلجہ لے کر گھومتے تھے، بیلجے کے زور پر سماج کی اصلاح کرنے کا دعوی کرتے تھے، اسی اصلاح کے جوش میں حکومت سے ٹکرا گئے، بندوقوں کے سامنے بیلچے؟…….. نتیجہ ظاہر ہے، انگریز حکومت نے کچل کر رکھ دیا، آج کوئی نام لیوا نہیں ـ
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری کی پیدائش ہونے کے باوجود اپنے قائدین میں ابوبکر وعمر جیسی خصوصیات تلاش کرتے ہیں، ابوبکر وعمر اُس جماعت کے قائد تھے جس میں عثمان وعلی، طلحہ وزبیر، عبدالرحمن وابوعبیدہ اور سعد وسعید جیسے لوگ ہوا کرتے تھے ـ

اس لئے قیادت پر تنقید سے پہلے تسلیمِ قیادت کا مزاج پیدا کیجئے ـ……. اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی قیادت آپ کے حقوق کے لئے حکومتوں کے سامنے سینہ سپر ہوجائے تو قیادت ہر اعتماد کیجئے، اس کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کیجئے ـ حالات سب دن ایک جیسے نہیں رہتے، حکومتیں آتی جاتی ہیں ـ جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی اختیار کیجئے، اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہے ـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×