اسلامیات

ٹخنوں سے نیچے ازار باندھنے کا بڑھتا ہوا رجحان

ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے یہ صحیفۂ ہدایت ہے،اس کی تعلیمات وہدایات ایک طرف توازن واعتدال کے شاہکارہیں تودوسری طرف ان میں انسانی مزاج اوراس کی فطری ساخت کوبھی ملحوظ رکھاگیاہے،اسلام وہ بہترین چشمہ ٔ حیات ہے جوانسانی زندگی کی مرجھائے ہوئے گوشوں کوسرسبزی وشادابی عطاکرتاہے،اورپوری انسانیت کوایک ایسے نظام زندگی سے آشناکرتا ہے جوابدی اورسرمدی ہے،اورجس کواختیارکرنادونوں جہاں میں فلاح وکامیابی کاذریعہ ہے،اسلام نے زندگی کے تمام مراحل میں مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے، اورزندگی کے کسی بھی گوشے کواس نے تشنہ نہیں چھوڑاہے۔
لباس کے متعلق بھی اسلام میں کافی واضح اور دو ٹوک ہدایات ہیں، جوایک طرف عقل وانصاف کے عین مطابق ہیں تو دوسری طرف یہ انسانی فطرت سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہیں،بنیادی طورپرلباس کے حوالہ سے اسلام یہ ہدایت دیتاہے کہ مردوں کا لباس اتنالمبانہ ہوکہ ٹخنوں تک لٹکے،اورٹخنے چھپ جائیں،بلکہ بہتریہ ہے کہ نصف پنڈلی تک مردوں کے کپڑے ہوں،اگراس پرعمل آوری مشکل ہو تو ٹخنوں تک کپڑے رکھنے کی اجازت ہے، ٹخنہ چھپانے اوراس سے نیچے کپڑے رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔اس بارے میں چنداحادیث پیش کی جاتی ہیں،ایک حدیث پاک میں ہے:عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:مااسفل من الکعبین من الازارفی النار(بخاری،حدیث نمبر:۵۷۸۷)حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ازار کاجوحصہ ٹخنوں سے نیچے ہووہ جہنم میں داخل ہوگا۔ایک دوسری حدیث میںہے:۔عن حذیفۃ قال:اخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعضلۃ ساقی اوساقہ فقال:ہذاموضع الازارفان ابیت فاسفل فان ابیت فلاحق للازارفی الکعبین، (ترمذی،حدیث نمبر:۱۷۸۳)حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ آپﷺنے میری پنڈلی کاپرگوشت حصہ پکڑا، اورآپﷺنے فرمایا:یہ ازارباندھنے کی جگہ(حد)ہے،اگرتمہیں یہ پسندنہیں ہے تواس سے تھوڑانیچے تک ازاررکھ سکتے ہو، اور اگر تمہیں یہ بھی پسندنہیں ہے تو(یہ بات تمہارے ذہن نشیں رہے کہ)ٹخنوں تک کے لئے ازارکاکوئی حق نہیں ہے۔ایک حدیث شریف میں ہے:عن الاشعث بن سلیم عن عمتہ عن عمہاقال:کنت امشی وعلی بردلی اجرہ قال فقال لی رجل:ارفع ثوبک فانہ انقی وابقی،قال فنظرت فاذاہورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فقلت انماہی بردۃ ملحاء ،قال: امالک فی اسوۃ،قال فنظرت فاذاہوازارہ الی نصف ساقیہ(شرح السنۃ للبغوی،حدیث نمبر:۳۰۷۹)حضرت خالدبن عبیدۃ محاربی(جواشعث بن سلیم کی پھوپھی کے چچاہیں)فرماتے ہیں کہ میں چل رہاتھااس حال میں کہ میرے جسم پرایک چادرتھی جس کومیں گھسیٹ رہاتھا،تومجھ سے ایک شخص نے کہا:تم اپنے کپڑے اوپراٹھائو؛کیوں کہ یہ کپڑے کوپاک رکھنے اورزیادہ مدت تک باقی رکھنے میں معاون ہے،میں نے دیکھاتووہ آپﷺتھے،میں نے عرض کیا:یہ توایک دھاری دار چادر ہے، آپﷺنے فرمایا: کیا میرا اسوہ تمہارے لئے مشعل راہ نہیں ہے،میں نے دیکھا توآپﷺکا تہہ بندنصف پنڈلی تک تھا۔
ایک مومن بندہ کی امیدوں اورآرزوکی معراج یہ ہوتی ہے کہ اسے خاتمہ بالخیرنصیب ہوجائے،اوریوم آخرت میںاللہ کی رضا اورخوش نودی حاصل ہوجائے،اورمذکورہ بالااحادیث شریفہ اس بات کوواضح کرتی ہیں کہ ٹخنوںسے نیچے پاجامہ لٹکانااللہ کی ناراضگی کاسبب ہے،اوراللہ کی نظر ِرحمت سے محرومی کاذریعہ ہے،قیامت کی ہولناکیوںمیںجب کہ انسان رحمت خداوندی کامحتاج ہوگا،اوراللہ سے نظررحمت کاخواست گارہوگااس وقت ٹخنوں سے نیچے پاجامہ لٹکانے والااللہ کی عنایات وتوجہات سے محروم ہوگا،ظاہرہے کہ اس سے بڑی اورمحرومی کیاہوسکتی ہے؟اوراس سے بڑانقصان اورکیاہوسکتاہے؟دوسرے ہربندہ مومن اللہ کے رسولﷺسے عشق ومحبت کادعوی دارہے،واقعہ بھی یہی ہے کہ اللہ کے رسولﷺسے سچی محبت وعقیدت کے بغیرایک مسلمان کاایمان بھی کامل نہیںہوسکتا، کیا اللہ کے رسولﷺسے محبت اس بات کی متقاضی نہیںہے کہ ہم لباس میںاللہ کے رسولﷺکے طریقوںکواپنائیں،اوراللہ کے رسولﷺ کی ہدایات کے مطابق لباس زیب تن کریں۔
ٹخنوں سے نیچے ازارباندھناجس قدرسخت گناہ ہے،اوراللہ کے غضب وغصہ کاموجب ہے،آج ہمارے معاشرے میںاس سے اسی قدر غفلت اورلاپرواہی برتی جارہی ہے،اورٹخنوںسے نیچے پائجامہ پہننے کوفیشن اورروشن خیالی تصورکیاجارہاہے،مغربی تہذیب کی ظاہری چکاچونداوراس کی ملمع سازیوںنے ہمارے مسلم نوجوانوںکے اخلاق وکردارکوسطحی اورگھٹیابنانے میںاہم کردار ادا کیا ہے، اوران کے طرزمعاشرت اوررہن سہن کوغیراسلامی رنگ میںڈھال دیاہے،اورہماری نسل نوکواس کاپتہ تک نہیں،بقول علامہ اقبال
وائے ناکامی کہ متاع کارواںجاتارہا
کارواںکے دل سے احساس زیاں جاتارہا
ٹخنوں سے نیچے ازارپہننے کی وبااس قدرعام ہوچکی ہے کہ عوام توعوام ،بعض اہل علم حضرات بھی اس میں مبتلانظرآتے ہیں،اورجن احادیث میں ٹخنوں سے نیچے ازارباندھنے کی ممانعت آئی ہے ان کی فاسدتاویلات کرتے ہیں،اورمن مانی تشریح کرتے ہیں،آج ٹخنوں سے نیچے ازارباندھنے پراس قدراصرارہے کہ نہ صرف لوگ اس میں مبتلاہیں؛بلکہ اگرکوئی اس سے منع کرے،اوراس پراحادیث میں جووعیدیں واردہوئی ہیں انہیں سنائے توبجائے اس کے کہ وہ نصیحت کوقبول کریں،اوراس گناہ بے لذت سے کنارہ کشی اختیارکریں، الٹااس گناہ بے لذت کوجائزٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں،اورایک آدھ حدیث کے ذریعہ اپنے عمل کو سند جواز فراہم کرتے ہیں،چنانچہ ان کایہ خیال ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ازار باندھنااس صورت میں ممنوع اورحرام ہے جب کہ دل میں تکبر اور بڑائی ہو،دوسروں کے اوپر فوقیت کااحساس رکھتاہو،اگرآدمی کے دل میں عجب اورکبرنہیں ہے توٹخنوں سے نیچے ازار باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور انہوں نے اپنے دعوی کوثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کیاہے:
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشادفرمایا: جو شخص بربنائے تکبر اپنا کپڑا زیادہ نیچے کرے گاقیامت کے دن اللہ تعالی اس کی طرف نظررحمت نہیں فرمائیں گے،حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیاکہ میرا تہ بنداگر اس کاخیال نہ رکھوں تووہ نیچے لٹک جاتا ہے،حضوراکرم ﷺنے فرمایا:تم ان لوگوں میں سے نہیں ہوجوغرور اور تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔(بخاری،حدیث نمبر: ۸۴ ۷ ۵)مذکورہ بالاروایت سے استدلال کرتے ہوئے بعض حضرات کہتے ہیں کہ ٹخنوں سے نیچے پاجامہ لٹکانااس صورت میں ممنوع اورحرام ہے جب کہ غروراورتکبرکاناپاک جذبہ بھی اس میں کارفرماہو،اگرغروراورتکبرنہیں ہے تو ٹخنوں سے نیچے پاجامہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،یہ استدلال محل نظرہے؛کیوںکہ حضرت ابوبکرؓنے آپﷺکے سامنے اپناجوعذرپیش کیاتھااس کے الفاظ بچشم انصاف ملاحظہ فرمائیے:میرے تہہ بندکاایک حصہ ڈھیلا ہوجاتا ہے(اورٹخنہ تک پہونچ جاتاہے)ہاں اگرمیں تہہ بندکاخاص خیال رکھوں (تووہ ٹخنہ تک نہیں پہونچے گا)حضرت ابوبکرؓکے الفاظ صاف بتلارہے ہیں کہ ٹخنہ کے اوپرہی تہہ بند باندھتے تھے؛لیکن کھسک کر ٹخنہ کے نیچے آجاتاتھا،یہ مطلب بالکل نہیں کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ ابتداء ہی ٹخنہ کے نیچے تہہ بندباندھتے تھے۔(تفصیل کے لئے دیکھیے:سیراعلام النبلاء:۴/۳۲۰)دوسرے اسبال ازارسے متعلق جوروایتیں آئی ہیں ان میں دوالفاظ آپﷺنے استعمال کیے ہیں:۱۔اسبال ،۲۔جر۔اوران دونوں میں خاصافرق ہے،اسبال کے معنی آتے ہیں:تہہ بندلٹکانا اورجر کے معنی آتے ہیں تہہ بند کو کھینجنا، ظاہرہے کہ جراسبال سے ایک زائد چیزہے،اسبال صرف کپڑے لٹکانے پربولاجاتاہے،جب کہ جرکااطلاق اس صورت پر ہوتا ہے جب کہ کپڑے کولٹکانے میں ایسا مبالغہ کیا جائے کہ اس کے کنارے زمین پرپڑنے لگیں،جب آپ اسبال اور جر کے درمیان فرق سمجھ چکے ہیں تویہ سمجھنے میں آپ کو ذرا دشواری نہیں ہوگی کہ جس روایت میں اللہ کی نظررحمت سے محروم رہنے کی وعیدہے اس کاتعلق اس شخص سے ہے جوتکبرکی وجہ سے اپنے ازارکوگھسیٹ کرچلتاہو،لیکن اسبال ازارکی حرمت کاحکم تکبراورخودپسندی کے ساتھ خاص نہیں ہے،کیوں کہ اسبال ازارکی ممانعت کی جو روایتیں ہم نے ابتداء میں بیان کی ہیں ان میں نہ صرف یہ کہ خیلاء کی قیدنہیں ہے؛بلکہ اسبال ازارکی ممانعت کی علت کپڑے کی طہارت وپاکیزگی کوقراردیاگیاہے،اس لئے اسبال ازارکی حرمت کوتکبر و غرور کے ساتھ خاص کرنااحادیث رسول سے ناواقفیت اورجہالت کی دلیل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×