سیاسی و سماجی

کورونا وائرس کی مصیبت اور خود احتسابی کی ضرورت! (۲)

دوسرا گناہ جو ہمارے سماج میں بہت ہی توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے ظلم، اللہ تعالیٰ نے کفر کے بعد سب سے زیادہ ظلم کی مذمت کی ہے اور ایمان کے بعد سب سے زیادہ عدل کا حکم فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان ہم نے اس کو حرام کر دیا ہے؛ لہٰذا اے میرے بندو! تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو: فلا تظالموا الخ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۷۷)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں؛ لیکن جب اس کا ظلم حد سے گذر جاتا ہے اور اللہ اسے پکڑتے ہیں تو پھر اسے چھوڑتے نہیں ہیں (مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۸۲) اگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، تو صرف کفر کی وجہ سے نہیں آیا، یہ عذاب اس وقت آیاجب وہ کفر کے ساتھ ساتھ ظلم پر بھی کمربستہ ہوگئے، جتنی مہذب اقوام ہیں، آپ ان کی تاریخ پڑھ لیں، فرعون پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا؛ لیکن صرف اس لئے نہیں کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا؛ بلکہ وہ بنی اسرائیل پر ظلم بھی کرتا تھا، یہاں تک کہ جو اولاد نرینہ بنی اسرائیل میں پیدا ہوتی، وہ اسے قتل کر دیا کرتا تھا، اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے سامنے یہ بات رکھی کہ کم سے کم بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دو، ہم ان کو لے کر فلسطین چلے جاتے ہیں، تمہاری زمین چھوڑ دیتے ہیں تو اس کو بھی فرعون نے قبول نہیں کیا، اور ان کو زبردستی غلام اور باندی بنا کر رکھا،، تب اللہ تعالیٰ کا ان پر عذاب آیا، اور وہ بحر قلزم میں اپنی قوم کے ساتھ غرق کر دیا گیا، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے صرف یہ نہیں کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایمان نہیں لائے؛ بلکہ انھوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو بہت تکلیف دی، ان پر پتھر پھینکے اور ان کا تمسخر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا اور اُن کے اوپر ایسا طوفان آیا کہ ان کا نام ونشان تک مٹ گیا، اہل مکہ نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار ہی نہیں کیا؛ بلکہ جو لوگ مسلمان ہوئے، ان کے ساتھ سخت ظلم کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی پیش کش کی تھی کہ تم کو اگر اسلام قبول نہیں کرنا ہے تو تم اپنے مذہب پر رہو؛ لیکن جو لوگ اسلام قبول کر لیں، ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دو؛ لیکن اس کو بھی انھوں نے قبول نہیں کیا، تب ان پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ ہوئی اور غزوۂ بدر میں ان کو عبرتناک شکست ہوئی، اور ان کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے۔
تو اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی حد تک شرک کو برداشت کر لیتے ہیں؛ لیکن ظلم کو برداشت نہیں کرتے، اگر ہم دیکھیں تو اس وقت ہمارے معاشرہ میں ظلم کی مختلف صورتیں بہت کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہیں، اور دن رات اس کا مشاہدہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا رہتا ہے، کوئی دن ایسا نہیں کہ اخبار میں قتل نا حق کی خبر نہ آتی ہو، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ کو قتل کے واقعات میں کئی واقعات ایسے مل جائیں گے ، جس میں ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کو قتل کیا ہے، بہت ہی سفاکی کے ساتھ، ظلم کے ساتھ، دن رات ہمارے سامنے ایسے واقعات آتے رہتے ہیں، یہ ظلم کی ایک صورت ہے، ظلم کی ایک اور صورت جو ہمارے معاشرے میں بہت مروج ہو چکی ہے، وہ زمین وجائداد پر ناجائز قبضہ ہے، بھائی بھائی کے حصہ پر قبضہ کر لیتا ہے، بہن کا حصہ تو دیا ہی نہیں جاتا، بھائی اس پر قابض ہو جاتا ہے، اگر دیا بھی تو کچھ پیسے دے دئیے؛ لیکن باپ کے مال پر جو ترکہ ہے اور جس میں سب کا حصہ ہے، وہ بہن کو نہیں دیا جاتا، پورے ترکہ پر بھائی قبضہ کر لیتا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ہم لوگ دن ورات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اسی طرح زمین پر ناجائز قبضہ کا معاملہ ہے، آج ہمارے معاشرہ میں جو لینڈ گرابر ہیں جس میںبڑی تعداد مسلمانوں کی ہے ، ان کا حال یہ ہے کہ ایک ہی پلاٹ یکے بادیگرے کئی لوگوں کو فروخت کر دیتے ہیں، بیچارے غریب مسلمان جو زندگی بھر پسینہ بہا کر اور محنت ومشقت کر کے تھوڑا بہت پیسہ جمع کرتے ہیں، انھوں نے کبھی پچاس گز یا سو گز کا پلاٹ خرید تو وہ پلاٹ ان کا بھی چھین لیا جاتا ہے، وہ روتے اور بلکتے رہ جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں ظلم کی ایک اور صورت اس وقت بہت بڑھتی جا رہی ہے، مقروض ہے تو قرض دینے والے پر ظلم کرتا ہے اور قرض واپس نہیں لوٹاتا؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی ایک بالشت زمین کسی کے لے لے، یا ایک شخص دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین پر ظلماََقبضہ کر لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سطح زمین سے لے کر نیچے تک ستر تہیں زمین کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا (بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۵۲) سوچئے کیا کسی انسان میں یہ طاقت ہے کہ وہ ایسا بوجھ اپنی گردن پر اُٹھا سکے۔
ظلم ہی کی ایک اور شکل سود ہے، سود لینا ایک مالی ظلم ہے، اور یہ ظلم جسمانی ظلم تک بھی پہنچ جاتا ہے، سود خور کی طبیعت میں اتنی شقاوت پیا ہو جاتی ہے کہ اگر مقروض مجبور بھی ہو تب بھی وہ اس سے پیسے وصول کرتا ہے، چاہے اس کا گھر فروخت ہو جائے، یہاں تک کہ بعض دفعہ اس کی عزت وآبرو کا سودا کرنے کو تیار ہو جاتا ہے، یہ بھی ایک بہت بڑی لعنت ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ جو فائنانسر پرائیویٹ طور پر سود دیتے ہیں، ان میں اچھی خاصی تعدا مسلمانوں کی بھی ہے، ہمارے شہر حیدرآباد میں کچھ عرصہ پہلے پولیس نے فائنانسروں کو پکڑنے کی ایک اچھی کوشش شروع کی تھی ، اس میں کتنے سارے مسلمان پکڑے گئے، ایسے مسلمان بھی جو نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، بظاہر دین کے اعمال بھی کرتے ہیں، عمرہ بھی کرتے ہیں؛ لیکن دوسرے انسانوں سے سود بھی وصول بھی کرتے ہیں، اور اس کے لئے ان پر ہر طرح کا ظلم وجبر روا رکھتے ہیں، سوچئے یہ کتنا بڑا ظلم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سودی معاملے کو لکھنے والے پر، اس کا ڈوکومینٹ بنانے والے پر اور اس کا گواہ بننے والے پر ان سبھوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اتنی ساری لعنتیں ایک مسلمان اپنے سر پر لے لے اور وہ بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی، سوچئے یہ کس قدر جسارت کی بات ہے؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں؛ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو بھی اللہ تعالیٰ کی اجتماعی پکڑ کا سبب قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی قوم میں زنا اور سود یہ دونوں چیزیں عام ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دینے کا حکم جاری فرما دیتے ہیں: اذا ظھر الزنا والربا فی قریۃ اذن بھلاکھا(ابن ماجہ:۳۴) تو سود بھی اجتماعی عذاب کا ایک سبب ہے، اور سود لینے والوں کا بھی قصور ہے کہ وہ کسی اہم ضرورت کی بناء پر نہیں؛ بلکہ اپنے ارمان پورے کرنے کے لئے، اپنے چونچلوں کے لئے اور اپنی مصنوعی دولت مندی کے اظہار کے لئے سود لیتے ہیں، شادی پر خرچ کرتے ہیں، مکانات پر خرچ کرتے ہیں، تقریبات پر خرچ کرتے ہیں، پھر مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں، لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں سے پیسوں کا مطالبہ ، کھانے کا مطالبہ، جہیز کا مطالبہ، گاڑیوں کا مطالبہ، یہ ظلم کی ایک بدترین صورت ہے، عجیب بات ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ سب سے زیادہ محبت کا رشتہ ہوتاہے، بیوی زندگی بھر کی ساتھی ہوتی ہے، خوشی کی، غم کی؛ لیکن جب آپ شادی کرتے ہیں تو اس کے ماں باپ کو ستاتے ہیں، اس کو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں، یہ ظلم کی مختلف صورتیں ہیں، جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مروج ہو گئی ہیں، اور یہ چیز اللہ کے عذاب کو دعوت دینے والی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اہم بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ظلم کرتے تو نہیں ہیں؛ لیکن ہم ظلم کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، ہمارے خاندان میں، ہمارے گھر میں ایک بیٹی ترکہ سے محروم کی جا رہی ہے، ایک بھائی دوسرے بھائی کے ترکہ پر قبضہ کر رہا ہے، ہمارا ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی پر ظلم کر رہا ہے؛ لیکن ہم صرف تماشا بیں کے طور پر اسے دیکھتے رہتے ہیں، ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہے، ان کے سامنے ایک شخص نے دوسرے شخص پر قاتلانہ حملہ کیا اور لوگ صرف تماشائی بنے رہے، اس کی ویڈیو فلم بناتے رہے، اور قاتل کا ہاتھ تھامنے کی کوشش نہیں کی، ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش نہیں کی، یہ بھی ظلم کی ایک شکل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب لوگوں کا مزاج یہ ہو جائے گا کہ وہ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں گے؛ لیکن ان کو ظلم سے روکنے کی کوشش نہیں کریں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یاخذ واعلیٰ یدیہ أوشک أن یعمھم اللہ بعقاب (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۶۸) تو معاشرہ میں ایسی جرأت اور ایسی انصاف پسندی ہونی چاہئے کہ اگر سماج کا ایک شخص دوسرے شخص پر ظلم کررہا ہو تو وہ اس ظلم کو روکنے کی کوشش کرے، اپنی طاقت کا جہاں تک ہو سکے، اس ظلم کو روکنے کے لئے استعمال کرے؛ ورنہ اس کا بھی شمار اللہ تعالیٰ کے یہاں ظالموں میں ہوگا۔
تیسری چیز جو اجتماعی عذاب کا سبب بنتی ہے، وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دینا ہے، جب کوئی سماج نیکی کی دعوت دینا چھوڑ دے، برائی سے روکنا چھوڑ دے، تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، اس کو عذاب میں مبتلا فرما دیتے ہیں، اور خود جب وہ اللہ سے دعاء مانگتے ہیں تو ان کی دعاء رد کر دی جاتی ہے، ہمارے سماج میں اللہ کا شکر ہے کہ امر بالمعروف کا کام تو کسی حد تک ہو رہا ہے، مدارس ہیں، مسجدوں کا نظام ہے اور دعوت وتبلیغ کی محنت ہے، سب حضرات امر بالمعروف کا کام کر رہے ہیں؛ لیکن اس کا دوسرا حصہ نہی عن المنکر ہے اس پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے، عوام تو عوام علماء بھی اس پر توجہ نہیں دیتے، ہمارے اہل تعلق میں لوگ کسی گناہ میں مبتلا ہیں اور ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوتی کہ نرمی اور بہی خواہی کے ساتھ کبھی ان کو ان کی برائی پر ٹوک دیں، معلوم ہے کہ یہ شخص ظالم ہے، اس نے بہت غریبوں کی زمین پر زبردستی قبضہ کر رکھا ہے، تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم ایسے شخص کو جا کر اپنی طرف سے اللہ رسول کا حوالہ دے کر سمجھائیں، معلوم ہے کہ لڑکے والے مطالبہ کر کے جہیز مانگ کر شادی کر رہے ہیں، لڑکی والے مجبور ہو کر جہیز دے رہے ہیں، پیسے دے رہے ہیں، گھوڑے جوڑے کے مطالبہ کو پورا کر رہے ہیں؛ لیکن ہم بے تکلف ان کی دعوت پر شادی میں چلے جاتے ہیں، نوشے کو مبارک باد دیتے ہیں، جس نے یہ ظلم کیا ہے، اس کے باپ کو بھی مبارک باد دیتے ہیں، جس نے اپنے بیٹے کو ظلم پر اُکسایا ہے، سوچئے کیا اللہ تعالیٰ کے یہاں اس پر ہماری پکڑ نہیں ہوگی؟
کتنے سارے ظلم ہیں جس میں لوگ مبتلا ہیں؛ لیکن ہم اس ظلم کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے؛ بلکہ ہم اپنے عمل سے یہ بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے ہیں کہ ہم ان کے اس عمل کو برا سمجھتے ہیں، وہ محسوس کریں کہ سماج میں ہمیں ہماری اس حرکت کی وجہ سے حقیر سمجھا جاتا ہے، اس کو اس احساس ہی نہیں ہو پاتا، معلوم ہے کہ یہ شخص رشوت لیتا ہے، اس کا ذریعہ آمدنی حلال نہیں ہے، اس کا ذریعہ معاش جائز نہیں ہے؛ لیکن ہمارے تعلقات، ہمارے سلوک اور ہمارے رویہ سے کبھی اس کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ کا یہ عمل میرے لئے تکلیف دہ ہے، یہ مجھے پسند نہیں ہے؛ بلکہ ہم ہنسی خوشی اس کو اور عزت دیتے ہوئے ہم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، تو معاشرہ کے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ اس میں شاید کوئی برائی نہیں ہے، اس سلسلہ میں یقیناََ ہم لوگ یعنی علماء اور مشائخ کا طبقہ بھی قصوروار ہے، ہم لوگ اپنے بیانات میں جن گناہوں کو بیان کرتے ہیں، ان ہی گناہوں کا ارتکاب کرنے والے جب ہمیں دعوت دیتے ہیں تو ساری باتوں سے واقف ہونے کے باوجود ہم پہنچ جاتے ہیں، اور جا کر ان کو مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں، تو برائیوں سے نہ روکنا بھی ایک ایسا سبب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف وتنھون عن المنکر اور لیوشکن اللہ أن یبعث علیکم عقابا ثم تدعونہ فلا یستجاب لکم (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۱۶۹)
اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے اور اس عذاب کا ایک پہلو یہ ہوگا کہ تم اللہ سے دعاء مانگو گے؛ لیکن تمہاری دعاء بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
غرض کہ اس وقت کرونا کی شکل میں جو عالمی مصیبت آئی ہوئی ہے، اس کے لئے جو تدبیریں کی جانی چاہئیں ، وہ ضرور کرنی چاہئے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لئے سبب بنایا ہے، اس ظاہری سبب کو اختیار کرنا چاہئے اور اسی کا نام تدبیر ہے، اور یقیناََ اس پس منظر میں ہمیں دعاء کرنی چاہئے، ہمیں گناہوں سے توبہ کرنا چاہئے، ہمیں استغفار کرنا چاہئے، ہمیں ان اذکار کا اہتمام کرنا چاہئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مصیبت کے مواقع کے لئے سکھائی ہیں؛ لیکن ہمیں اپنے آپ کا محاسبہ بھی کرنا چاہئے کہ آخر اللہ کی یہ پکڑ ہمارے ساتھ کیوں ہوئی؟ اللہ نے بہت ڈھیل دی، اللہ نے ہم سے بہت چشم پوشی فرمائی؛ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر انسانیت کی پکڑ ہو رہی ہے۔
دنیا کی قومیں تو واقعات کو ظاہری اسباب کی ترازو میں تولتی ہیں؛ لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فریضہ ہے کہ جو بھی واقعہ پیش آئے، ہم اس کو قرآن وحدیث کی ترازو پر تولیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی روشنی میں اس کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کریں؛ کیوں کہ ہمارا یقین ہے کہ زمین پر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا جب تک کہ اللہ کی مشیت نہ ہو۔
٭ ٭ ٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×