سیاسی و سماجی

تین ملکوں کا سفر— کچھ سبق آموز پہلو (۱)

افرادی قوت کے اعتبار سے بر صغیر کے ممالک (بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش)شاید دنیا کے سب سے مالدار خطے ہیں؛ اسی لئے یہاں کے محنت کار، ہنر مند اور اسکالر پوری دنیا میں افرادی وسائل کی ضرورت پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان کی صلاحیت اور جذبۂ محنت کو دیکھتے ہوئے ہر جگہ انہیں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یہاں سے لوگ جن ملکوں میں گئے ،وہاں انھوں نے اپنی خدمت اور صلاحیت کے گہرے نقوش چھوڑے اور اُس ملک کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ ادا کیا، ان میں ایک اہم ملک جنوبی افریقہ ہے، خاص کر جوہانسبرگ اور ڈربن کے علاقے، جبکہ ملک کے تیسرے اہم شہر کیپ ٹاؤن میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ملے نسل کے لوگوں کی ہے، جن کے آباء واجداد کو انگریز بیگار کرانے کے لئے لائے تھے، بر صغیر کے لوگوں میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی، یہ وہ ملک ہے جہاں کے محب وطن ہندوستانیوں نے مہاتما گاندھی کی مدد کی تھی، اور ایک گجراتی مسلمان تاجر نے ان کا تعاون کیا تھا، اب جو مسلمان وہاں آباد ہیں، ان کی آبادی کا تناسب دو تین فی صد ہے؛لیکن معاشی اعتبار سے ملک میں ان کو نمایاں مقام حاصل ہے، خاص کر تجارت کے میدان میں انھوں نے بڑی ترقی کی ہے۔
یہ زیادہ تر گجراتی مسلمان ہیں، جو کئی پشت پہلے ہندوستان سے گئے تھے، انھوں نے مشکل اوقات میں مقامی سیاہ فام آبادی کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کیا؛ اس لئے غیر مسلم بھائیوں کے اندر عمومی طور پر ان کے بارے میں اچھے جذبات پائے جاتے ہیں، ماشاء اللہ ہندوستان اور بالخصوص گجرات سے جو لوگ وہاں گئے، انھوں نے اپنی بہتر شناخت قائم کی، اب وہاں ان کی عالیشان مسجدیں اور بڑی بڑی دینی درسگاہیں ہیں، اسلامی اسکول ہیں اور وہ وہاں کی سماجی سرگرمیوں میں پورے جوش وخروش کے ساتھ شامل ہیں، وہاں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم جمعیۃ علماء ساؤتھ افریقہ ہے، اس کی حیثیت وہاں قریب قریب وہی ہے، جو ہمارے ملک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ہے، حکومت بھی حسب ضرورت مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میں ان سے مشورہ کرتی ہے۔
راقم جمعیۃ علماء کی دعوت پر پہلے بھی وہاں کاایک سے زیادہ سفر کر چکا ہے، اب پھر کئی ماہ پہلے جمعیۃ علماء کے صدر عالی قدر حضرت مولانا عباس علی جینا اور جنرل سکریٹری مولانا ابراہیم بھام نے دعوت دی کہ میں دسمبر میں، جو وہاں گرما کا موسم ہوتا ہے؛ لیکن درجۂ حرارت زیادہ نہیں ہوتا، حاضر ہوں، اور جمعیۃ کے تحت چلنے والے دارالعلوم میں بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دوں، اس سے پہلے بھی متعدد اہم شخصیتوں کو اس پروگرام کے لئے مدعو کیا گیا، جن میں مشہور فقیہ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے، یہ دو روزہ پروگرام تھا، میں ۴؍ دسمبر کو پہنچا، پانچ دسمبر کو صبح میں علماء کی خصوصی مجلس تھی؛ اگرچہ یہ زمانہ وہاں گرمی کی چھٹی کا تھا؛ اس لئے مدارس کے بہت سے اساتذہ سفر پر تھے؛ لیکن پھر بھی شہر اور مضافات کے علماء کی ایک مناسب تعداد اور جمعیۃ کے ذمہ داران وکارکنان موجود تھے، راقم الحروف کے علاوہ اس دو روزہ پروگرام میں دارالعلوم دیوبند سے استاذ حدیث مولانا محمد سلمان بجنوری اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے مفتی محمد طاہر غازی آبادی بھی مدعو تھے، مولانا بجنوری تو پہلے دن تشریف نہیں لا سکے؛ لیکن ہم دونوں کا خطاب ہوا، پہلے اس حقیر نے وہاں کے حالات کی مناسبت سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات پر پاور پوائنٹ کے ذریعہ تفصیلی خطبہ دیا، اور حاضرین کے سوالات کے جواب دیے، میں نے عرض کیا کہ آپ ہندوستان کے حالات سے سبق لیجئے، یہاں آزادی کی لڑائی ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر لڑی ہے اور ہمارے بزرگوں نے ابنائے وطن سے خوشگوار تعلقات پر بہت توجہ دی تھی، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک حلقہ کے مطالبہ کے باوجود بھارت کو ہندو راشٹر ڈکلئیر نہیں کیا گیا؛ بلکہ ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے اس کا دستور مرتب ہوا، مگر آزادی کے بعد مسلمانوں نے برادران وطن سے بہتر تعلق قائم رکھنے پر توجہ نہیں دی اور اس کے نتیجہ میں آج اس ملک سے نفرت کا آتش فشاں ابل رہا ہے، اور لوگ اس کی آگ میں جل رہے ہیں، آپ کے ملک کو آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے، اور مسلمانوں سے متعلق سیاہ فام اکثریت کے دل میں ایک نرم گوشہ ابھی بھی موجود ہے، ہمیں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور یہاں نفرت پھیلانے والی جو جماعتیں وجود میں آچکی ہیں، ان کے طاقتور ہونے سے پہلے ہی فرقہ پرستی کی آگ کو بجھادینا چاہئے، مفتی طاہر صاحب نے بھی ابنائے وطن کے ساتھ خوش اخلاقی اور تعلق مع اللہ کی طرف توجہ دلائی، سوالات سے اندازہ ہوا کہ جن امور پر توجہ دلائی گئی، حاضرین نے ان کی اہمیت محسوس کی، موضوع سے متعلق بہت سے شرعی مسائل خاص کر کرسمس وغیرہ کی تقریبات میں شرکت اور مبارکباد کے بارے میں دریافت کئے گئے اور ہندوستان کے موجودہ حالات پر بھی گفتگو ہوئی۔
۶؍دسمبر کو جوہانسبرگ کے پڑوس میں واقع ایک اور شہر لائنیشیا میں حدیث سیمینار منعقد ہوا، اس میں متعدد مقامی علماء نے بھی مقالہ یا محاضرہ پیش کیا، مولانا سلمان بجنوری، مفتی محمد طاہر غازی آبادی اور راقم الحروف کے بھی حدیث سے متعلق مختلف پہلوؤں پر مقالات پیش ہوئے؛ البتہ سوالات اور مذاکرہ کی نوبت نہیں آئی، اس سیمینار کی آخری نشست عشاء کے بعد منعقد ہوئی، جو درس بخاری شریف کی تکمیل کے لئے تھی، میں نے اس موقعہ پر دو باتوں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی، ایک یہ کہ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کے اِس آخری باب میں ان لوگوں پر نقد کیا ہے، جو غیبی حقائق اور ما بعد الطبیعی عقائد کو سمجھنے کے لئے بھی عقل کو اساس وبنیاد تصور کرتے ہیں، اور جو بات عقل میں نہ آئے، اس کو قابل رد تصور کرتے ہیں، یہ فتنہ امام بخاریؒ کے دور میں بھی تھا، جو فلسفۂ یونان سے متأثر ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، اور یہ فتنہ آج بھی موجود ہے، جو مغرب کے مادی تصور کی وجہ سے پیدا ہوا ہے؛ اس لئے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی چیز کا عقل کے خلاف ہونا الگ بات ہے اور عقل سے ماوراء ہونا الگ بات ، اگر کوئی بات اس کائنات کے خالق نے کہی ہو اور ہماری سمجھ میں نہیں آئی تو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے؛ بلکہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ہماری عقل سے ماوراء ہے، دوسری بات یہ ہے کہ بخاری شریف کے بارے میں آج کل لوگ افراط وتفریط میں مبتلا ہیں، ایک تجدد پسند طبقہ وہ ہے جو بخاری کی روایات کو بے اعتبار کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، یہ دراصل اہل یورپ کی حدیث جیسے اہم ماخذ کے خلاف کئے جانے والے اعتراضات کو تقویت پہنچانے کی ناروا کوشش ہے، دوسری طرف وہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی مضمون بخاری کی حدیث میں آگیا تو اسے بہر حال دوسری کتابوں کی احادیث پر ترجیح ہوگی، اس کی وجہ سے وہ دوسرے فقہاء پر زبان درازی کرتے ہیں اور امت میں انتشار کا باعث بنتے ہیں؛ حالاں کہ ترجیح کی صرف یہی ایک بنیاد نہیں ہے کہ کوئی حدیث بخاری میں نقل کی گئی ہو؛ بلکہ ترجیح کے ایک سو ساٹھ سے زیادہ اسباب بیان کئے گئے ہیں، ان میں ایک سبب بخاری کی حدیث کا راجح ہونا ہے؛ لیکن اس سبب ترجیح کا نمبر بہت بعد میں رکھا گیا ہے؛ اس لئے افراط وتفریط دونوں سے بچنا چاہئے، ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی حدیث بخاری میں نہ ہوکسی اور کتاب میں ہو؛ لیکن اس کو بخاری کی حدیث پر ترجیح حاصل ہو۔
جنوبی افریقہ میں ہماری دوسری منزل وہاں کا مشہور ساحلی شہر’’ ڈربن‘‘ تھا، جہاں مولانا مفتی محمد زبیر بیات کی دعوت پر جانا ہوا؛ بلکہ وہ خود ہمیں لینے جوہانسبرگ آگئے ، ڈربن میں’’ دارالاحسان‘‘ کے نام سے ان کا ایک دعوتی اور تربیتی ادارہ ہے، میں ایک بار پہلے بھی اس ادارہ میں حاضر ہو چکا ہوں؛ لیکن جب اِس بار حاضر ہوا تو بڑی خوشگوار تبدیلیاں دیکھیں، وسیع زمین، خوبصورت محل وقوع، کشادہ اور جاذبِ نظر عمارت، مختلف شعبوں کے لئے الگ الگ دفاتر، دارالاحسان کے تحت دو پروگرام ہوئے، ایک: علماء کے لئے، دوسرے: تاجروں کے لئے، علماء کے پروگرام میں راقم الحروف نے خاص کر غیر مسلموں میں دعوتِ اسلام کے کام کی طرف توجہ دلائی، ماشاء اللہ حاضرین کی بڑی تعداد تھی، توجہ سے اس حقیر کی گزارشات سنی گئیں،پھر سوالات بھی کئے گئے ، تاجروں کی مجلس میں ان کی ضرورت کے مطابق گفتگو کی گئی، غریب ہم وطنوں کے ساتھ مواسات وغمخواری کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی، کچھ گفتگو میزبان کی خواہش پر اسلام کے اصول سرمایہ کاری پر بھی ہوئی، خاص کر ہوم فائنانس اور وہیکل فائنانس کے اسلامی طریقہ کار پر، اور اخیر میں سوالات کے جوابات دیے گئے۔
جنوبی افریقہ کے سفر سے محبت کی جو سوغات اپنے ہم وطن مسلمانوں کے لئے لا سکا، ان میں تین باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ایک یہ کہ اخلاق سوز ماحول میں بھی اپنی اور اپنی نسلوں کی شناخت کو بچانا اور تردامنی سے بچتے ہوئے دریائے شور کو پار کرناجذبۂ ایمانی کا تقاضا ہے؛ کیوں کہ جو مغربی تہذیب اب ہمارے یہاں دستک دے رہی ہے اور سبک خرامی کے ساتھ اپنے قدم بڑھا رہی ہے، وہ وہاں زندگی کے ہر شعبہ میں عروج پر ہے، افریقہ کے وہ ممالک جن کو یورپ نے غلام بنایا، پھر انہیں آزادی دی؛ لیکن ذہنی غلامی کا طوق ان کے گلے میں ڈال دیا، ان میں یہ خطہ بھی ہے، وہاں یوروپ کی تمام سہولتیں بھی ہیں اور وہاں کی خرافات بھی، پھر بھی مسلمانوں نے بڑی حد تک اپنے معاشرہ کو بچایا ہے، مسلمانِ ہند کا بھی فریضہ ہے کہ وہ بھی اپنی نسل کی ایسی تربیت کریںکہ وہ حالات کے بگاڑ کا مقابلہ کر سکیں، اور اپنے وجود کو گم نہ ہونے دیں، دوسری چیز جو اس ملک کے مسلمانوں سے لینے کی ہے، وہ خدمت خلق کا جذبہ ہے، اور یہی خدمت خلق زینہ ہے تبلیغِ اسلام کا، جمعیۃ علماء تو اس میدان میں پہلے سے کام کر رہی ہے، اور اس کی خدمات بہت وسیع ہیں؛ لیکن ڈربن کے علاقہ میں خدمت اور دعوت کے کام میں دارالاحسان کی پیش رفت بھی بہت ہی قابل تحسین ہے اور روشن مستقبل کی شہادت دیتی ہے، افسوس کہ ہندوستان میں جب حالات اس کام کے لئے سازگار تھے تو اس پر توجہ نہیں دی گئی؛ لیکن اب بھی اس کے مواقع ختم نہیں ہوئے کہ اگر صبح کا بھولا شام کو آئے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس نے منزل کو پالیا۔
جو ہانسبرگ میں ایک دن ہم لوگوں کو ایک پرائیویٹ زو میں لے جایا گیا، یہ ایک مسلمان تاجر کا ہے، کافی وسیع علاقہ ہے، یہاں شیر، چیتے، زراف، بھیڑیں، جنگلی کتوں وغیرہ کی بڑی تعداد ہے اور کھلی ہوئی حالت میں ہیں؛ لیکن ہر جانور کے لئے وائر کی فینسنگ کا احاطہ ہے، انسان بالکل قریب سے فطری حالت میں ان جانوروں کو دیکھتا ہے، ہم لوگ اس وقت لے جائے گئے جو شیروں کے لئے کھانے کی سپلائی کا وقت ہے، معلوم ہوا کہ دو دن پر ان کو کھانا دیا جاتا ہے، کھانے کے طور پر ان کو ۲۰؍ کیلو گوشت فی جانور فراہم کیا جاتا ہے، پھر دو دنوں کے بعد غذا دی جاتی ہے، اس مدت میں وہ اس غذا کو ہضم کرتے ہیں، اور کھانے کے بعد وہ کافی چلتے ہیں، ایک عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی کہ شیر کتوں کی طرح کھانے کے لئے لڑتے نہیں ہیں، یہاں بیس کیلو کا گوشت کا ٹکڑا شیروں کی تعداد کے لحاظ سے پھینک دیا جاتا ہے، ہر شیر اپنا حصہ اُٹھا لیتا ہے، یا تو اسی وقت کھا لیتا ہے یا جہاں پر رہتا ہے، وہاں اس کو رکھ دیتا ہے، باپ کی شفقت ، ماں کی ممتا اورمادہ کی رعایت کا نظام ان کے یہاں بھی موجود ہے، نر شیر مادہ کے حصہ کا گوشت اُٹھا کر اس کے سامنے لا کر رکھتا ہے؛ بلکہ بعض دفعہ کھلاتا بھی ہے، اور بچوں کو گوشت کے ٹکڑے کر کے اور ہڈیوں کو گوشت سے الگ کر کے دیتا ہے، اور معلوم ہوا کہ مادہ کے پیٹ میں جب کسی نر کا بچہ پلتا رہتا ہے تو وہ اس درمیان کسی اور نر سے جسمانی تعلق قائم نہیں کرتی، یہ بات وہاں کی گائیڈ نے بتائی، یہ منظر دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ جو مرد خاندان کا ذمہ دار ہو، اس کا افراد خاندان کے لئے جدوجہد کرنا ،ضروریات زندگی کو پورا کرنا اور ایک عورت کی وفاداری کا اپنے شوہر کے ساتھ مخصوص ہونا یہ ایسا خوبصورت اور فطری نظام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض جانوروں میں بھی ودیعت فرمایا ہے اور یہ اس طرز زندگی کے قانون فطرت ہونے کی دلیل ہے؛ کیوں کہ جانور نہ کسی تعلیم گاہ میں پڑھتے ہیں اور نہ کسی مفکر کا وعظ سنتے ہیں، یہ فطرت کی آواز ہے جو خالق کائنات نے ان کے اندر رکھی ہے۔ (جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×