احوال وطن

بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت تکلیف دہ اور ہماری توقعات کے برعکس ہیں: مولانا خالد سیف الله رحمانی

دربھنگہ۔ 9؍نومبر: ( نمائندہ خصوصی ) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان و سکریٹری فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق اہم مقدمہ میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ بہت تکلیف دہ اور ہماری توقعات کے برعکس ہیں لیکن یہ فیصلہ چونکہ سپریم کورٹ کا ہے اس لئے اسے قبول کرنا ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے انہوں نے آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے جو دلائل وشواہد پیش کئے گئے ان کی روشنی میں پوری امید تھی کہ فیصلہ ہمارے موقف کے مطابق ہوگا مگر افسو س کہ ایسا نہیں ہوا،البتہ سپریم کورٹ ملک کی اعلی ترین عدالت ہے اور ہندوستان کے ہر شہری کا قانونی فریضہ ہے کہ وہ اس کے فیصلے کو تسلیم کر لے انہوں نے کہا کہ بورڈ شروع سے کہتا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم اسے تسلیم کریں گے اور اس کا احترام کیا جائے گا،اب جب کہ فیصلہ ہو چکا ہے بورڈ اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے لیکن اس تکلیف دہ فیصلہ کے باوجود دوباتیں عدالت کے حالیہ فیصلے میں نہایت اہم ہیں، ایک یہ کہ کورٹ نے فرقہ پرستوں کے اس پروپگنڈے کو رد کر دیاہے کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی اور یہ داغ جو مسلمانوں جے دامن انصاف پر سنگھ پریوار کی طرف سے لگایا جاتا رہا ہے وہ دھل گیا،دوسرے بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ تھا کہ ہم ہر ممکن حد تک مسجد کو بچانے کی کوشش کریں مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں نے بورڈ کے واسطہ سے اپنے اس شرعی فریضہ کو ادا بھی کیا اس لئے اب وہ عند اللہ جواب دہ نہیں ہوں گے، افسوس کہ اس نازک گھڑی میں بعض ناعاقبت اندیش مسلمان کی طرف سے یہ بات کہی جاتی رہی کہ پہلے ہی اس مسئلے پر صلح کرلینی چاہئے تھی اور مقدمے کو یہاں تک نہیں لانا چاہئے تھا لیکن ایسا سوچنا قطعاً درست نہیں ہے کیوں کہ اگر مسلمان صلح کر کے مسجد کو مندر کے لئے دے دیتے تو وہ عند اللہ جوابدہ ہوتے انہوں نے کہا کہ اب ہم کہ سکتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہم مسجد کو بچانے کی جو کوشش کر سکتے تھے ہم نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اگر ہم صلح کرکے مسجد کی زمین مندر کے لئے دے دیتے تو یہ اصولی طور پر بڑے نقصان کی بات ہوتی،ہم اللہ کے پاس بھی پکڑے جاتےاورآئندہ کسی بھی مسجد پر ہمارا اصرار قبول نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا کہ جب آپ نے ایک مسجد دے دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے مذہب می۔ مسجد کو مندر کے لئے دینے کی گنجائش ہے،انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کوشش دینی جد وجہد کا یہ روشن باب ہے اور اس نے جس مستعدی،حکمت عملی اور مہارت کے ساتھ مقدمے کی پیروی کی وہ بے حد قابل تحسین ہے،انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امن وامان قائم رکھیں،اگر دوسرے فریق کی جانب سے کوئی اشتعال انگیز بات ہو تب بھی صبر وحمکت کا مظاہرہ کریں دعا کا اہتمام کریں اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کریں اگر چہ مقدمہ کا فیصلہ ان کے موقف کے خلاف ہوا ہے لیکن ان کو اپنی طاقت بھر اللہ کے گھر کو بچانے کی توفیق میسر آئی،انہوں نے کہا کہ نہ ہم ڈرانے دھمکانے سے متاثر ہوئے نہ لالچ کے شکار ہوئے اور نہ مقدمہ کے کثیر اخراجات سے گھبرائے ،عدالت عظمی کے فیصلے پر نظر ثانی کے سلسلے میں پوچھے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بورڈ نے اب تک اس پر غور نہیں کیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر غور وفکر، قانونی ماہرین سے مشورہ اور تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ہی کوئی فیصلہ لیا جائے گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×