افکار عالم

کلمۂ طیبہ لکھے ہوئے سعودی پرچم کی دل چسپ تاریخ، جانیے کن کن مراحل سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچا؟

سعودی عرب کے قومی پرچم کی تاریخ کافی دل چسپ ہے۔ تاریخی حوالوں میں سعودی پرچم کئی مراحل سے گذر کر موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔ جب سعودی حکمرانوں نے پرچم اٹھائے، دعوت کو پھیلایا اور اپنے اثر ورسوخ کے علاقوں میں اضافہ کیا اور پہلی سعودی ریاست کے دوران اتحاد ویکجہتی کی علامت کے طور پر پرچم بلند کیا گیا۔
شاہ سعود یونیورسٹی کے کالج آف ٹور ازم اینڈ آرکیالوجی کے ڈین ڈاکٹر عبداللہ المنیف نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے سعودی پرچم کی تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب جانتے ہیں کہ جھنڈا عقیدے اور وطن کی علامت ہے۔ پرچم قوموں اور اوطان کی علامت ہے۔ ہر پرچم کے الگ معنی اور علامتی مفہوم ہیں جو اس کے رنگوں، سائز اور سجاوٹ سے نمایاں ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاریخی مطالعوں سے ثابت ہوا ہے کہ سعودی عرب کے ہر پرچم کے وسط میں کلمہ توحید”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ [خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں] درج ہے۔ آل سعود کے تمام حکام نے اسی پرچم کی وراثت کو آگے بڑھایا۔ یہ پرچم ہر سعودی عرب کی حکومت اور ریاست دونوں کی علامت ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سعودی پرچم کی ابتدائی شکل سبز تھی، جو موتیوں اور ریشم سے بنا تھا۔ اس پر”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ یہ پرچم پہلے بانی محمد بن سعود کے دور میں سعود کبیر اور ان کے صاحب زادے عبداللہ بن سعود کے دور تک رائج رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بینر سبز کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کے بیچ میں ایک واضح لائن میں کلمہ طیبہ لکھا گیا۔ کلمہ طیبہ کے نیچے تلوار کھینچی گئی تھی۔ خدا کی راہ میں طاقت اور جہاد کی علامت ہے تاکہ پوری کائنات میں اعلائے کلمۃ الحق کیا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ عبدالعزیز کے دور میں پرچم مستطیل شکل کا تھا اور اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے دو تہائی کے برابر تھی جب کہ اس کا سبز رنگ بینر کے سرے تک پھیلا ہوا تھا۔ تاکہ مخالفین دور سے دیکھیں اور ان پر رعب طاری ہو۔ شاہ عبدالعزیز کے دور کے پرچم میں دو تلواروں کے بیچ شہادتین درج تھے۔ درمیان سے اس کارنگ سفید تھا۔

الریحانی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں جو جھنڈا اٹھا رکھا تھا وہ سفید تھا، اور اس کا کچھ حصہ سبز تھا، اور اس کے بیچ میں چوکور تھا جس میں کلمہ طیبہ تحریر تھا۔ اس کے اوپر دو کراس شدہ تلواریں تھیں، پھر اس کی شکل بدل گئی، اس کے بعد کلمہ طیبہ کے نیچے ایک تلوار بنائی گئی اور اس کے ساتھ ’نصر من اللہ وفتح قریب‘‘ کی عبارت تھی۔
پرچم کی سلائی، تیاری اور تحریر کے بارے میں ڈاکٹر المنیف نے کہا کہ ریاض میں ایک معروف گھرانے کو جو پرچم کی تیاری کا کام کرتا تھا کو سعودی پرچم کی تیاری کا حکم دیا گیا۔ یہ خاندان عبداللہ بن محمد بن شاہین تھا جسے شاہ عبدالعزیز کے دور میں تیارکیے گئے پرچم کی سلائی کی ذمہ داری سونپی گئی۔۔ اس کے بعد یہ ذمہ دار سعد بن سعید اور اس کے بیٹےعبدالمحسن کو پرچم کی سلائی کڑھائی کا کام سونپا گیا۔
انہوں نے کہا 12/1/1357 ہجری بمطابق 3/13/1938 کو جھنڈا بلند کرنے کا نظام عظیم شاہی فرمان نمبر 1/4/7 کے ذریعے جاری کیا گیا اور اسے سرکاری گزٹ میں شائع کیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ سعودی پرچم میں سبز رنگ جنت کے باغات کی علامت ہے۔ کلمہ شہادت خدا کی وحدانیت کا اظہار کرتی ہے۔ یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ تلوار طاقت، انصاف، بہادری اور دو شہادتین امت، توحی اور وطن کے دفاع کی علامت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہادتین سعودی پرچم میں ثلث رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ پرچم کا مجموعی رنگ سبز ہے۔ شہادتین کے بیچ میں متوازی شکل میں ایک تلوار کھینچی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×