احوال وطن

وطنِ عزیز میں مختلف فتنے سر ابھار رہے ہیں اسکی خوبصورتی کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کریں: مفتی ابو القاسم نعمانی

کانپور:20؍اکٹوبر (پریس ریلیز) جمعیۃ علماء شہر ومجلس تحفظ ختم نبوت کانپور کے زیر اہتمام رجبی گراؤنڈ پریڈ کانپور میں تحفظ ختم نبوت وتحفظ حدیث کانفرنس جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی کی نگرانی میں منعقد ہوئی ۔جس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کی اور مہمان خصوصی جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولاناقاری سید محمد عثمان منصورپوری تھے۔کانفرنس میں ملک کے مشاہیر علماء کرام نے تحفظ ختم نبوت وتحفظ حدیث کے بارے میں مدلل وتفصیلی خطاب کرکے قادیانیت،انکار حدیث و شکیلیت اور گوہر شاہی جیسے فتنوں سے عوام کو آگاہ کیا اور ان سے خود کو بچنے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے کی تلقین کی۔
کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دار العلوم دیوبند نے کہا ختم نبوت کا عقیدہ بنیادی عقیدوں میں سے ہے اس کو مجروح کرنے کا سلسلہ آپؐ کے زمانے میں ہی شروع ہو گیا۔آپؐ کے زمانے میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اس سے مقابلہ کیا گیا۔ آپؐ کے وفات کے بعد سے ہی تحفظ ختم نبوت کا عملی ، علمی سلسلہ شروع ہو گیا ۔ قرآن میں اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ نبی کی اطاعت کا حکم دیا ۔نبیؐ نے جہاں ایک طرف30جھوٹے مدعیان نبوت کی بات کہی وہیں دوسری طرف یہ بھی پیشین گوئی کی کہ کلمہ پڑھنے والوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو ں گے جو پیٹ بھرے ہوئے ہوں گے وہ کہیں گے کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے ۔یہ فتنہ بھی ہمارے سامنے انکار حدیث کی شکل میں آگیا جو اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے ۔ جن کی نظر میں نعوذ باللہ احادیث کی حیثیت تاریخ سے زیادہ کچھ نہیں اوروہ حدیث کے منکر ہو گئے۔ایسے میںہمارا کام یہ ہے کہ اولاً ہم اس حقیقت کوسمجھیں کہ محمدﷺ کے اقوال واعمال یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے سامنے ہوا آپ ؐ نے اس پر خاموشی اختیار کی وہ بھی حدیث اور حجت ہے۔ محمدﷺ نے دین کے بہت سے احکامات اپنے ارشادات سے امت کو سکھلائی ہیں تو کئی چیزیں عمل کرکے سکھلائی ہیں۔ جیسے نماز پڑھ کر دکھائی اور حج کرکے دکھایا۔ حدیث میں یا قرآن میں کہیں نماز کا پورا طریقہ نہیں سکھایا گیا ۔ نبیؐ کی کچھ خصوصیات کو چھوڑ کر تمام چیزوں کی ہمیں اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں کوکاٹنا اسلام کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے۔ کچھ لوگ فہم قرآن کے حوالے سے فہم صحابہؓ کو نظر انداز کرکے اپنے فہم پر بھروسہ کرکے قرآن سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔ مولانا نے کہا کہ جس طرح قرآن اسلام کی بنیاد ہے ، اسی طرح احادیث بھی اسلام کی بنیاد ہیں۔ اب اس پر کتنا ہی خوبصورت لیبل کیوں نہ لگا دیا جائے یعنی کتنا ہی خوبصورت نام کیوں نہ رکھ لیا جائے وہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ قرآن نہ لغت سے حل ہوگا ، نہ ڈکشنری اور عربی زبان جاننے سے حل ہوگا بلکہ نبیؐ کے بتائے ہوئے معنی اور مفہوم سے ہی صحیح معنوں میں حل ہوگا۔ حدیث پاک کا انکار براہ راست ختم نبوت کا انکار اور اس منصب پر حملہ ہے، کیونکہ جو کام آپؐ کا تھا وہ کام ناخواندہ لوگ خود کرکے اس منصب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام میں حضورؐ کی ایک ایک روایت آپؐ کی ایک ایک ادا کے پس منظر کو تسلسل کے ساتھ محفوظ رکھا گیا ہے۔ اللہ کا یہ کہنا کہ’’آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا ،اور قیامت تک کیلئے دین اسلام کو پسند کر لیا ‘‘اس میں دین کے تکمیل اور دین اسلام کے قیامت تک کیلئے پسندکرنے کی گیارنٹی دی گئی ہے اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے وطن عزیز کے اندر فتنے سر اٹھا رہے ہیں، ہم فتنوں کی ظاہری خوبصورتی پر نہ جا کر اس کو صحیح طور پر سمجھیں اور نزاکت کو سمجھیں۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امیر الہند قاری سیدمحمد عثمان صاحب منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند نے فرمایا کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں اور آپ کو ایسے زمانے میں وجود بخشا ہے جوزمانہ آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی نبوت کا ہے۔ جس کو شروع ہوئے 1452سال ہو چکے ہیں۔ یعنی 14صدیاں گزر چکی ہیں۔ اس پورے عرصے کو آپؐ کی نبوت کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ آپؐ کی ہی نبوت کا زمانہ قیامت تک رہے گا۔ آپؐ سے پہلے جو حضرات انبیاء آتے تھے وہ ان کا زمانہ ہوتا تھا جب اللہ ان کو اٹھا لیتا تھا تو نیا نبی بھیجتا تھا جو ان کا زمانہ ہوتا تھا۔ لیکن حضرت محمدﷺ کو اللہ نے خاتم النبین بنا کر بھیجا ہے اس لئے آپؐ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آنے والا۔ آپؐ کی عمر 63سال تھی لیکن آپؐ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک رہے گا،اب کسی نئے نبی کا انتظار نہیں ہے ۔ اللہ چاہتے تو ہمیں کسی اور نبی کے زمانے میں بھیج دیتا لیکن یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ اللہ نے ہمیں نبیؐ کا امتی بنایا ہے اور قرآن و احادیث ہمیں دی ہیں۔ مولانا نے بتایا کہ حضرت محمدﷺ نے اپنی پیشین گوئی میں کہا کہ جلد ہی کھاتے پیتے اور اچھے خاصے لوگ کہیں گے بس قرآن کو تھام لو اور جوقرآن میں حلال بتایا گیا اس کو حلال سمجھو، جس کو حرام بتایا اس کو حرام سمجھو۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے قرآن بھی ملا ہے اور قرآن جیسی ایک چیز اور دی گئی ہے ، یہ قرآن جیسی کیا چیز ہے ، تمام فقہاو محدثین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس سے مرا دہے آپؐ کے فرامین ہیں۔ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ بواسطہ حضرت جبرئیل ؑ کے آپؐ پر آیا ۔ امت محمدیہ کا یہ امتیاز ہے کہ اس امت نے حضرت محمدﷺ کے ایک ایک بول اور فرمان کو بھی محفوظ کر لیا ، دوسری قوموں نے اس کو محفوظ نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد 30بڑے جھوٹے پیدا ہوں گے حالانکہ ’ ’ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد اللہ تعالیٰ اب کسی کو نبی نہیں بنائے گا۔‘‘ اس لئے اب بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اب کوئی نیا نبی نہیں آنے والا۔ مولانا نے حدیث متواتر کے بارے میں بتایا کہ آپﷺ کے آنے سے 570سال پہلے حضرت عیسیٰ ؑ بحفاظت تمام زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں۔ اس لئے ہمارا یہ عقیدہے کہ وہ قیامت کے قریب اتریں گے۔ حضرت مہدی کے بارے میں بتایا کہ ان کا نام محمد بن عبد اللہ ہوگا ، چونکہ اللہ نے ان کو ہدایت دی ہوگی اسلئے ان کو مہدی کہا جاتا ہے، ان کے زمانے میں جب دجال کی فوج امت مسلمہ کا محاصرہ کر لے گی تو اس وقت دمشق میں لوگ دیکھیں گے کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان سے سیڑھی سے اتریں گے ، جس کے بعد دجال کی فوج سے لڑائی لڑیں گے اور اس کے بعد صرف اور صرف اسلام کو ماننے والے ہی بچیں گے۔ اس لئے ہمیں مغالطوں سے بچنے کی ضرورت ہے ، ہم یہ کہتے کہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا بلکہ پرانے نبی یعنی عیسیٰ ؑآئیں گے یقینی آئیں گے۔نبوت جب ایک مل جاتی ہے توسلب نہیں ہوتی وہ آخری دور میں آئیں گے ان کی حیثیت نبی کے ساتھ ساتھ امت محمدیہ کی بھی ہوگی۔ شکیل ابن حنیف کہتاہے کہ حضرت مسیح اتریں گے نہیں بلکہ کسی کے پیٹ سے پیدا ہوں گے جب پوچھا جاتاہے کہ وہ کون ہوں گے تو کہتا ہے کہ میں ہی تو ہوں مسیح۔ جس نے اس کو مسیح مان لیا وہ مرتد ہو گیا۔ ہمارا جھگڑا ان سے اسی بات کا ہے کہ وہ اپنی بکواس کو دین اسلام کی بات کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، اگر وہ اپنے کو کچھ بھی کہیں ہمیں کوئی مطلب نہیں۔ اگر کوئی اپنی بیکار باتوں پر اسلام کا نام لگائے گاتو ہم بھی مسلمانوں کو ایسے جھوٹے لوگوں کے جھوٹ سے بیدار و ہوشیارکرتے رہیں گے۔ ایک ایمان والا اگر اپنے ایمان پر باقی رہنا چاہتا ہے تو ایمان پر باقی رکھنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑے گا، کسی کو طعنہ مت دیجئے، غصہ کو برداشت کیجئے، علماء سے رابطہ رکھئے۔ جو باتیں سنتے ہیں اس کو صرف سننے کی حدتک نہ رہیں ، بلکہ کتابوں کا مطالعہ مسلسل رکھیں، خود بھی بچیں اور دوسرے کو بھی بچائیں۔
کانفرنس کے روح رواں جمعیۃ علماء اتر پردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی صاحب قاضی شہر کانپور نے فرمایا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد عقیدہ تحفظ ختم نبوت ہے، اگر یہ مجروح ہو گیا تو یہ امت کبھی متحد نہیں ہو سکتی ۔مختلف رنگ و نسل، خاندان، علاقہ،ملک ،صوبہ ، شہر قصبہ ،یہاتک کہ ایک گھر کے 4بھائی ایک جیسے نہیں ، ہر مسئلہ پر ان کی رائے الگ الگ ہوتی ہیں،لیکن تمام اختلافات کے بعد دنیا کے سارے مسلمان ختم نبوت پر متحدہیں۔ قرآن اور نبی کے فرمان پر سارے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں۔جب چار سگے بھائی دنیاوی معاملے میں متحد اور ایک رائے نہیں ہوتے اگر انہیں دینی معاملے سمجھنے کی اجازت دے دی جائے تو وہ اس کا کیاحشر کریں گے؟ مولانا نے بتایا کہ چونکہ وہ مذاہب جو کبھی برحق تھے ، ان سے جب نبوت اٹھ گئی تو سخت اختلافات کے شکار ہوئے، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے کہ دیا کہ سارے جھگڑے کی بنیاد مذہب ہے کیونکہ وہ مذہب کو بگاڑ چکے تھے ۔اسی قسم کی ذہنیت ہمارے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے پورے مذہب کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ کیا کوئی ہمارے درمیان رہنے والا کہہ سکتا ہے کہ میں نبی ؐکی بات نہیں مانتا ؟ اگر کوئی کہے تواسے آپ کیا سمجھیں گے۔ہمارے نزدیک سب سے اچھاعمل تو نبی کا عمل ہے ،سب سے اچھی بات تو نبی کی بات ہے، اللہ نے اس کی سند دے کربتا دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ نبی کے اس نمونہ کی اہمیت چلی جائے، پھر اس کے بعد جس کا جس کوجی چاہے گا اس کو اپنا نمونہ بنا لے گاپھر وہ فلمی ہیرو ، ہیروئینوں میں اپنا نمونہ تلاش کریںگے، نئے نئے فیشن نکل آئیں گے ۔اس طرح دینی اعتبار سے یہ لاوارث ہو جائے گا کیونکہ اس نے اپنے اللہ کو نبی کو صحابہ،تابعین، تبع تابعین ، اولیاء اللہ اور بزرگان دین کو چھوڑ دیا۔ مولانا نے بتایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں قرآن کو ہم خود سے سمجھیں گے ان کے بہکانے کا انداز یہ ہے کہ ہم حدیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ جو حدیث قرآن سے ٹیلی کرتی ہیں ان کو مانیں گے ، جو نہیں کرتیں ان کو نہیں مانیں گے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایمان بچانا چاہتے ہو تو علماء سے جڑے رہو، کیونکہ جس طرح اگر کوئی کہے کہ ہم نبی کی بات نہیں مانتے تو وہ ایمان والا نہیں بچے گا اسی طرح اگر کوئی کہے کہ میں حدیث کو نہیں مانتا تو وہ بھی مسلمان نہیں بچتا۔مولانا نے بتایا کہ قرآن بھی وحی الٰہی ہے ، حدیث بھی اللہ کی طرف سے ہے فرق یہ ہے کہ قرآن میں الفاظ اور معنی دونوں اللہ کی طرف سے ہے اور حدیث میں مضمون اللہ کی طرف سے ہے الفاظ محمد ﷺ کے ہیں۔ قرآن ، حدیث ، نبی اور نبیؐ کی نبوت قیامت تک رہنے کیلئے ہے۔ جس طرح قرآن کو ماننا ضروری ہے اسی طرح حدیث کو ماننا ضروری ہے۔
دار العلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا محمد راشد اعظمی صاحب نے فرمایا کہ جب سے تحفظ ختم نبوت وتحفظ حدیث کانفرنس کا اعلان ہوا ہے تمام فرقہ باطل بہت پریشان ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھ لینے کی ضرورت ہے۔ رسول کا دیوانہ بنے بغیر نہ دنیا ملے گی نہ آخرت ۔ امت کا اجماع ہے کہ جس طرح اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے۔ قرآن کووحدیث کو مانے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا ہے۔منکرین حدیث اپنا شجرہ نصب دیکھیں، جب اللہ کے رسول ؐ نے رسالت کا اعلان تو مشرکین مکہ نے انکار کیا تھا، سب سے پہلے ان لوگوں نے انکار کیا تھا اب یہ لوگ کر رہے ہیں۔ کبھی بھی حدیثوں کی مخالفت نہیں کی گئی، لیکن 100-150سال پہلے مستشرقین جو صرف اس لئے قرآن وحدیث پڑھتے ہیں کہ اس میں شبہات پیدا کر سکیں۔ لیکن کبھی مستشرقین، یہودیوں ، نصرانیوں نے سب سے پہلے اعتراض کیا ۔دو طبقہ تھے ایک دین کے علم کو جاننے والے یہ لوگ متاثر نہیں ہوئے بلکہ محبت میں اضافہ ہوئے ، دوسرے کم علم جن کو دین کا علم کم تھا وہ اس سے متاثر ہوئے ۔نبیﷺ نے قرآن کو اپنے اقوال،اعمال اوراداؤں سے سمجھایا ہے انہیں کو حدیث کہتے ہیں ۔ قرآن کی فصاحت وبلاغت ہے کہ منکرین حدیث اس سے محروم ہو کر گمراہ ہیں۔مولانا نے حضرت ابی شاہؓ اور صحیفۃ الصادقہ کا واقعہ بتلاتے ہوئے کہا کہ حدیثوں کو لکھنے کا سلسلہ تو نبیﷺ کے زمانے سے ہی شروع ہو گیاتھا اس لئے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حدیثیں 200سال بعد لکھی گئیں وہ غلط ہیں۔ حضرت معاویہ ؓ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ کاتب وحی کے ساتھ کا تب حدیث بھی ہیں۔ حضورؐ کے سب سے معتبر حضرت معاویہ کی شان تو بہت بلند ہے ، اگر حضرت معاویہ پر زبان کھولیں گے تو آدھے صحابہ کو چھوڑنا پڑے گا۔ اس لئے ان پر ہمیں اپنی زبانیں نہیں کھولنی چاہئے۔حضرت ابوہریرہ ؓنے توساڑھے5ہزار سے زائد احادیث لکھی ہیں ۔ جب منکرین پھنس جاتے ہیں تو کہتے ہیں حدیث محفوظ نہیں ہیں، اس کیلئے آپ کو حدیث اس کا پس منظر جاننا چاہئے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا انتظام کس طرح کیا ہے۔حق بات کڑوی ہوتی ہے اس لئے منکرین حدیث کو اس کانفرنس سے برا ماننے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک ایک حدیث کو ماننے کی ضرورت ہے۔
بھیونڈی مہاراشٹر سے تشریف لائے مفسر قرآن مولانا سید محمد طلحہ قاسمی نقشبندی نے اپنے خطاب میں قرآن کی کئی آیتیں پڑھ کر سنائیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نبیﷺ صحابہ کرام کے سامنے آیات قرآنیہ کی تلاوت فرماتے تھے اور ان کے من کو صاف کر تے تھے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے تھے، کتاب تو الکتاب ’قرآن پاک‘ ہے اور یہ حکمت کیا چیز ہے ، یہ حکمت ’احادیث مبارکہ ہیں‘ ۔ جس کا صحابہ کرامؓ مذاکرہ بھی کرتے تھے اور یاد بھی کرتے تھے۔ یعنی قرآن مستقل ایک چیز ہے اور حدیث مستقل ایک چیز ہے، دونوں کو ماننا قرآن سے ثابت ہے، جو حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ در اصل قرآن کے منکر ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ محمد ﷺ سے پہلے جتنے بھی نبی آئے وہ سب اپنے امتیوں کوبتاتے رہے کہ وہ آخری نبی نہیں ہیں اوراپنے امتیوں سے وعدہ لیتے رہے کہ میرے بعد جو نبی آئے اس کی اتباع کرنا۔ اللہ نے بھی انبیاء کرام سے عہد لیا کہ میں نے تم کو کتاب وحکمت دینے کا فیصلہ کیا ہے پھر تمہارے بعدایک رسول آئیں گے جو تمہاری باتوں کو سچ کہیں گے ، تم سے یہ وعدہ لیا جارہا ہے کہ جب ان کی تشریف آوری ہوگی تو تم ان کے مددگار بنو گے۔ پھر اللہ نے پوچھا کیا تم سب اس کا اقرار کرتے ہو، سب نے کہا ہم کیسے انکار کر سکتے ہیں؟ تمام انبیاء نے اللہ سے کئے گئے وعدے کے مطابق لوگوں کو حضرت محمد ﷺ کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور لوگوں کو باور کرایا کہ میں آخری نبی نہیں ہوں اور یہ وعدہ لیا کہ جب حضرت محمد ﷺ آئیں گے تو ان کو مان لینا ۔ انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کی آمد سے پہلے یہ اقرار ضروری تھا کہ نبیﷺ آئیںگے ، لیکن اب حضرت محمدﷺ کے بعد یہ اقرارضروری ہے کہ اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ مولانا طلحہ قاسمی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی دوسری زندگی کے ساتھ نہیں بلکہ اسی زندگی کے ساتھ جس کو اللہ نے حضرت مریم ؑ کے پیٹ میں دیا تھاوہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ مولانا نے فتنہ منکرین حدیث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قرآن آیا ہے زندگیاں بنانے کیلئے ،اس کے احکامات ہیں عمل کرنے کیلئے، بہت سے احکامات ایسے ہیں جن پر عمل کرنا بغیر حدیث کے ممکن نہیں ہے ، مثلاً قرآن میں ہے نماز قائم کرو، سجدہ اور قیام کا تذکرہ ہے ،لیکن کہیں ترتیب نہیں بتائی گئی اب منکرین حدیث بتائیں کہ نماز کس طرح پڑھی جائے؟ حدیث کا انکار کرنے والوں سے سوال کیا کہ آخر وہ نماز کس طرح پڑھتے ہیں؟ خود اللہ نے قرآن میں اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول کی اطاعت کا مستقل تذکرہ کیا ہے۔ اللہ نے روزے، زکوٰۃ، نماز کا حکم قرآن میں دیا ، لیکن تفصیل نہیں بتائی بلکہ حضورﷺ نے اللہ کے اس حکم پر عمل کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔
کانفرنس کا آغازمدرسہ مفتاح القرآن کے استاذ قاری مجیب اللہ عرفانی نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ دہلی سے تشریف لائے جمعیۃ علماء ہند کے آرگنائیزرمولانا احمد عبد اللہ رسولپوری اورحافظ امین الحق عبد اللہ نے نعت ومنقبت کا نذرانہ پیش کیا۔ کانفرنس میں مختلف اضلاع سے تشریف لائے سینکڑوں علماء کے ساتھ ہزارو ںلوگوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے روح رواں مولانامحمد متین الحق اسامہ قاسمی اور شہری جمعیۃ کے صدر ڈاکٹر حلیم اللہ خاں نے آئے ہوئے تمام مہمانوں ، معاونین، منتظمین خصوصاً ضلع انتظامیہ ، پولیس انتظامیہ و نگر نگم کا شکریہ ادا کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×