آئینۂ دکن

بڑوں کا ادب اور اہل دل کی صحبت کے بغیر باطن کی اصلاح ممکن نہیں

حیدرآباد: 11؍اکٹوبر (عصر حاضر) اسلام میں آداب واخلاق کی بڑی اہمیت ہے بلکہ دین اسلام سراپا ادب کا نام ہے، صرف چند مخصوص امور کے انجام دینے کا نام ادب نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز ادب میں داخل ہے جس سے انسانیت راحت محسوس کرتی ہو ، ان کے نفع کو اپنی ذات پر ترجیح دینا اور ان کو خود سے بہتر جان کر ان کے ساتھ حسن خلق سے پیش آ نے کا نام ادب ہے ،امام المحدثین عبداللہ ابن مبارک ؒ ادب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں زیادہ علم حاصل کرنے کے مقابلہ میں تھوڑا سا ادب حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، ابوللیث سمر قندیؒ ادب کو اسلام کے قلعوں میں سے ایک اہم قلعہ بتا تے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلام کے پانچ قلعے ہیں’’ یقین، اخلاص، فرض، سنن اور ادب‘‘ ،جب تک انسان ادب کی حفاظت کرتا ہے اور اخلاق وادب کا بھر پور مظاہرہ کرتا رہتا ہے تو شیطان اس سے مایوس ہوتا رہتا ہے اور جب یہ ادب چھوڑنے لگتا ہے تو شیطان اس سے بقیہ چاروں چیزیں چھڑادیتا ہے، حضرات صحابہ ؓ وتابعینؒ ادب کے مینار نور تھے،رسول اللہ ؐ کی صحبت وتربیت اور آپ ؐ کی تعظیم وادب نے ان کے قلوب کو سورج کی طرح روشن کر دیا تھا ،نگاہ نبوت نے ان کے دلوں کو منور کر دیا تھا ،وہ اخلاق وکردار کے بلندیوں پر فائز تھے ، آپ ؐ نے ان کی زندگیوں کو مثالی نمونہ بتاکر قیامت تک لوگوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تعلیم دی ہے،اہل علم اور اہل دل کے ادب واحترام اور ان کی صحبت وتربیت سے دلوں کا تزکیہ وتصفیہ ہوتا ہے ،باطن کی اصلاح ہوتی ہے اور گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے ، تاریخ میں جو مشہور ومعروف اہل اللہ وبزرگان دین گزرے ہیں ان کی کامیاب اور مثالی زندگی کے پیچھے ان کے مخلص اساتذہ اور شیوخ کاملین کی صحبت وتربیت اور روحانی توجہات کا بڑا دخل تھا ،مادہ پرستی اور حرص وہوس اور دین بیزاری کے اس دور میں جہاں انسان مذہبی تعلیمات سے دور ،فرائض وواجبات سے غافل اور اخلاق وادب سے بے پرواہ اور انسانیت سے دور اور حیوانیت سے قریب ہوتا چلا جارہا ہے ،ایسے ماحول میں اشد ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلاح وتربیت کی فکر کرے اور مستند اہل علم ،اہل اللہ اور تربیت یافتہ اہل نظر کی صحبت وتربیت میں کچھ وقت گزار کر ان سے تربیت حاصل کرے اور اس کے ذریعہ اپنی زندگی کو سنوار نے اور دیندارانہ مزاج اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے ،خانقاہ مظفریہ میں ماہانہ مجلس ذکر وسلوک سے خطاب کرتے ہوئے عارف بااللہ مولانا شاہ محمد اظہار الحق قریشی چشتی صابری مظفر قاسمی خلف اکبر وخلیفہ مجاز حضرت قطب د کن ؒ ان خیالات کا اظہار فرمارہے تھے ،عزیزم سید انس احمد کی تلاوت قران سے مجلس کا آغاز ہوا، جبکہ حضرت انور حسین انور صابری ،قاری سید بشیر احمد ،حکیم شرف الدین حاجی،محمد اسماعیل چشتی اور معین نواب نے بارگاہ نبوی ؐ میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا ،اس موقع پر مفتی عبدالمنعم فاروقی خطیب جامع مسجد اشرفی وخلیفہ مجاز حضرت مظفر قاسمی نے شان صحابہ ؓ اور آداب شیخ کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لئے انبیاء ؑ کا انتخاب فرمایا اسی طرح اپنے حبیب ؐ کی صحبت ورفاقت کے لئے صحابہ ؓ کا انتخاب فرمایا تھا، جماعت صحابہ ؓ جماعت انبیاء ؑ کے بعد سب سے مقدس ترین جماعت ہے ،آپؐ نے انہیں ستاروں سے تشبیہ دے کر ان کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید فرمائی ہے ،ان کی شان میں ادنیٰ بے ادبی اعمال کے ضیا ع اور ایمان کے سلب ہوجانے کا خطرہ ہے،بڑوں کا ادب چھوٹوں پر لازم ہے اور ان کی بے ادبی سخت گستاخی ہے ،آدمی کتنا ہی بڑا ہوجائے وہ اپنے بڑوں سے بڑا نہیں ہو سکتا ،بساواقات بڑوں کی گستاخی آدمی کو بلندی سے پستی کی طرف پہنچادیتی ہے ، خاص کر اپنے والدین ، پھر علم وعمل ،عمر وبزرگی اور نیکی وپرہیز گاری میں جو لوگ بڑے ہیں ان سب کا ادب واحترام ضروری ہے ،ان میں نقص نکالنا حماقت اور جہالت ہے،ذکر جہری کے بعد نگران مجلس کی دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا،مولانا عبدالواسع حسامی ،مولانا عبدالرافع قریشی،مفتی عبدالرحمن الماس،حافظ سید فیروز،حافظ سید رضوان ،حافظ انور ،محمد ارشاد اور دیگر نے انتظامات میں حصہ لیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×