دیہاتوں میں مسلمانوں کو ارتدادی فتنوں سے بچانے کی فکر کرنا ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے
کاماریڈی: 12؍دسمبر (پریس ریلیز) مولانا منظور عالم مظاہری منتظم مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ کاماریڈی کی اطلاع کے بموجب دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ کاماریڈی میں معلمین مکاتب دینیہ سےخطاب کرتے ہوئے حافظ فہیم الدین منیری صاحب نے کہا کہ اللہ نے ہمیں علمی وراثت میں معلمیت عطاء فرمائی، ہمیں چاہیے کہ ہم ایسا کام کریں جس سے خدا کو ہمارا کام پسند آئے، ورنہ یہ مجاہدے اور قربانیاں بے سود ہیں، اللہ نے ہمیں اس محنت کے لئے قبول کیا یہ بڑی نعمت اور سعادتمندی ہی ہے، تعلیم وتربیت کے نظام کو مضبوطی سے پکڑیں، ہم جائزہ لیں کہ ہم نے اپنے علاقے میں کتنی تعلیم و تربیت کی ہے، کتنوں کو مسجد سے ہم نے وابستہ کیا، لوگوں کو نماز کا طریقہ سکھلائیں، اسکے مسائل سے واقف کروائیں، اللہ کے بندوں کو اللہ ہی کے لئے اللہ سے جوڑنا یہ عظیم خدمت ہے۔ نیز اپنے خطاب میں زور دیا کہ عوام کو باطل مشنریوں کے فتنوں سے آگاہ کریں، کیونکہ باطل کی محنتوں سے ایسے لوگ شکار ہوتے ہیں جو کم علم ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم عقائد کی تعلیم سیکھنے سیکھانے کی فکر کریں، ارتداد سے بچانے کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہفتہ واری پروگرام چلائیں، مہینہ واری پروگرام کو منظم کریں، دینی شعور اور فکر پیدا کریں، اور دینی پختگی سے سرشار کروائیں، متعلقہ مکتب میں تجوید کی تعلیم پر زور دیں کیونکہ بغیر تجوید کے پڑھانے سے اللہ کے ہاں گرفت ہوگی، نیز اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے اپیل کی کہ لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت کے سلسلہ میں لوگوں کو متوجہ کرنا، اور مستحقین کے علاج معالجہ تعلیم اور شادی وغیرہ کے سلسلہ میں مسجد کے صدر کو تیار کریں یا اربابِ مجلس سے رجوع کریں، کیونکہ بلالحاظ مذہب و ملت خدمت کرنا سنت نبوی کا جزو ہے، نیز اپنے قریبی دیہات کے مسلمانوں اور مساجد کی آبادی کی فکر کریں، ہر جگہ حالات سازگار نہیں ہوتے ہیں بلکہ حالات ہماری محنتوں سے استوار ہوتے ہیں، ہمارے اسلاف نے بالخصوص حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے حالات پڑھیں، حالات ناسازگار تھے تب بھی انہوں نے کیسی محنت کی، اسلاف گاؤں کے باہر پڑاؤ ڈال کر پورے علاقے میں کہرام مچا دیتے تھے، ہم بھی مجاہدہ کریں گے تو راہیں ہموار ہوں گی، شاہ عبدالحلیم صاحب جونپوری رحمہ اللہ اپنی جوانی میں سائیکل گاؤں میں صرف ایک مکان کے ایک فرد کی تعلیم کے لیے سفر کرتے تھے، جنکی تعلیم وتربیت کے لئے جاتے تھے اس پر سارے دیہات والوں نے جرمانہ عائد کردیا تھا، حضرت کی محنت اور قربانی کا نتیجہ ہے کہ آج وہاں ایک بڑا مدرسہ قائم ہے، ان اکابر کی محنتوں کا صلہ ہے کہ آج یہ ماحول میسر ہوا ہے،
آخیر میں قاضی افضل شریف صاحب رحمہ اللہ کے لئے تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی افضل شریف صاحب رحمہ اللہ جمعیۃ کے اکابر سے مضبوط مراسم تھے، اور قدیم وابستگی بھی تھی۔