افکار عالم

افغانستان کا تخت چھوڑ کر فرار ہونے والے اشرف غنی کا پہلا انٹرویو منظر عام، کہا مجھے بلی کا بکرا بنایا گیا

ابوظہبی: 31؍دسمبر (ذرائع) افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کو اپنی حکومت کے خاتمے کا بنیادی سبب اور ذمہ دار قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ خفیہ طور پر ملک سے فرار ہونے کے بعد انہیں ’قربانی کا بکرا‘ بنایا گیا تھا۔

اشرف غنی اگست کے وسط میں افغانستان سے راہ فرار اختیار کرکے متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے۔ انھوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے دو مختلف دھڑے دو مختلف سمتوں سے کابل کا گھیراؤ کررہے تھے۔انھوں نے وضاحت کی کہ ’’ان کے درمیان بڑے پیمانے پر مسلح خونریزی کا قوی امکان تھا۔اس طرح یہ مسلح آویزش پچاس لاکھ کے شہر کو تباہ کردیتی اور لوگ مزید مصائب ومشکلات کا شکار ہوجاتے‘‘۔

معزول افغان صدر نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کے نتیجے میں ’’پرتشدد بغاوت ہوئی، سیاسی معاہدہ یا سیاسی عمل نہیں ہوا تھا‘‘۔

یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اشرف غنی اپنے ساتھ مبیّنہ طور پر لاکھوں ڈالر کی نقدی سے بھرے بریف کیس لے کرملک سے فرار ہوئے تھے لیکن انھوں نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا:’’میں واضح طورپربتاناچاہتا ہوں کہ میں نے ملک سے کوئی رقم نہیں لی تھی۔میرا طرزِزندگی ہر کسی کو معلوم ہے۔ میں پیسوں کا کیا کروں گا؟‘‘تاہم امریکہ ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔

ان سے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے اور افغان حکومت سے مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا توانھوں نے کہا کہ امریکہ نے ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد کو کم کیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں ہمیں امن عمل کے بجائے انخلا کا عمل ملا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاہدے نے انھیں اوران کی حکومت کو’’مٹا‘‘دیا ہے۔

اشرف غنی نے افسردہ لہجے میں کہا:’’میری زندگی کا کام تباہ ہوچکا ہے۔ میری اقدار کو پامال کیا گیا تھا۔مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے‘‘۔

لیکن بہت سے افغان بشمول ان کے ساتھ کام کرنے والے حکام اب اشرف غنی ہی کوغدار قرار دیتے ہیں اور کابل کے سقوط کی ذمے داری ان پرعاید کرتے ہیں۔

واشنگٹن میں افغان سفارت خانے میں مشن کے نائب سربراہ عبدالہادی نیجرابی نے قبل ازیں العربیہ انگلش سے انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا صدراشرف غنی سے کابل سے فرار ہونے کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہے۔ان کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے تو ان سے طالبان کی طرح کا سلوک کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر افغان عوام کے غدارہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×