نسل نو کے ایمان کی حفاظت والدین کا اولین فریضہ :حافظ پیر شبیر احمد
حیدرآباد: 9؍جنوری (راست)حضرت حافظ پیر شبیر احمد صد ر جمعیتہ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے نماز جمعہ سے قبل مسجد زم زم باغ عنبر پیٹ حیدر آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں مسلمانوں کو بہت تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ کو اور اپنے گھر کے ماحول کو دیندار بنائیں، سورہ تحریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس (جہنم کی) آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے, یعنی انسان کی ذمہ داری جس طرح یہ ہے کہ وہ خود اللہ کو راضی کرے اور جنت حاصل کرے اسی طرح اس پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو دیندار بنانے کی فکر کرے تاکہ وہ بھی جنت کے مستحق بنیں اور جہنم کی آگ سے بچیں,اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار اور ان کی بات کا جواب دہ ہے.سلسلہ بیان جاری رکھتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ اس حدیث میں جس ذمہ داری اور جواب دہی کا تذکرہ ہے اس میں ان کی دنیوی ضرورتوں کے ساتھ آخرت میں ان کی کامیابی کو یقینی بنانا بھی ہے، یعنی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے اس بابت بھی سوال ہوگا کہ اس نے اپنے گھر والوں کو جنت میں پہنچانےاور جہنم سے بچانے کی کیا کوشش کی تھی؟ اور اگر اس سلسلہ میں اس سے کچھ کوتاہی ہوئی تھی تو اس سے مواخذہ ہوگا.قرآن مجید نے کئی انبیا ومقبولان بارگاہ الہی کے سلسلے میں بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی دینی تربیت کیسے کرتے تھے اور اسے کتنا ضروری خیال کرتے تھے.اس سلسلہ میں قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے اہل خانہ کو وعظ ونصیحت کا اہتمام بطور خاص کیا کرتے تھے، مثلا سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے سلسلہ میں ارشاد ہوا ہے: ابراہیم ویعقوب نے صحیح دین پر کاربند رہنے کی نصیحت اپنے بیٹوں کو کی. حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صفات حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے ان کی ایک صفت بطور خاص یہ بتائی ہے کہ اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے اسی طرح حضرت یعقوب کی بابت قرآن مجید نے بتایا ہے کہ جب ان کا آخری وقت آگیا تو انہوں نے اپنی اولاد کو اپنے بعد توحید خالص پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے , انہوں نے کہا کہ اپنے اہل خانہ کو نصیحت کرنے والے یہ کون حضرات ہیں، اور ان کے وہ اہل خانہ کون ہیں جن کو یہ دین پر گامزن رہنے کی نصیحت کرنے کا اہتمام کررہے ہیں.حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے ایسے محبوب ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے، ور صاحبزادگان کون ہیں؟ حضرت اسماعیل وحضرت اسحاق علیہما السلام، یعنی ایسے صاحبزادگان جو خود انبیا ہوئے، لیکن خلیل اللہ ان کو بھی دینی نصیحت فرمانے کا اہتمام کررہے ہیں، وہ بھی اہل خانہ کو وعظ ونصیحت کا خاص طور پر اہتمام کرتے تھے، جب خلیل اللہ کے خانوادہ کے بڑے نسل در نسل اپنی اولاد کے دین کے لیے ایسے فکر مند رہتے تھے تو ہمیں اس سلسلہ میں کتنا فکرمند ہونا چاہیے، اور اس کے لیے کس قدر اہتمام کرنا چاہیے.انبیائے کرام کے اس اسوہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان گھرانوں میں وعظ ونصیحت کا مسلسل اہتمام ہونا چاہیے , صدر محترم نے کہاکہ اگرگھر کے بڑے سرپرست دین دار ہونگے تو وہ بھی اپنے اہل عیال کو دین دار بنانے کی فکرکریں گے , شوہر دین دار ہے تو اس کی اہلیہ اور بچے بھی دین دار ہونگے گھر کے سربراہ خانہ یہ کام کرسکتا ہو تو وہ خود یہ کام کرے اور اگر وہ خود اس کی اہلیت نہیں رکھتا تو پھر اہل خانہ کو کسی وقت جمع کرکے دینی کتابوں (قرآن، حدیث کی کتابوں یا علما کے مواعظ وغیرہ) کو پڑھ کر سنانا اس کا بہترین بدل ہوسکتا ہے، اور تجربہ سے نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے. اس کا اہتمام نہایت ضروری اور لازمی ہے، اس کے بغیر گھروں میں دینی ماحول بننے کی کوئی زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہے. جن گھروں میں اس کا اہتمام ہوجاتا ہے وہاں چند ہی ہفتوں میں نہایت مبارک تبدیلیاں وجود میں آنے لگتی ہیں، یہ انبیا کا وہ اسوہ ہے جس کا تذکرہ قرآن نے بہت اہتمام کے ساتھ کیا ہے، اور جس پر عمل بہت آسان اور بڑی مبارک تبدیلیوں کا باعث ہے. اور موجودہ دور میں اس کی اہمیت اور زیادہ ہے,کیونکہ گھر کا ماحول دین دارنہیں ہونے کی وجہ سے ہمارے لڑکیاں غیر مسلم لڑکیوں کیساتھ شادی بیاہ کرکے اپنا دین وایمان خراب کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.