کرناٹک میں حجاب تنازعہ ‘بی جے پی سیاسی ایجنڈے کا حصہ
حیدرآباد8 فبروری ( پریس نوٹ ) صدر کل ہند جمیعتہ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ پر حکومت کے سخت گیر رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کابھی اسے اعزاز حاصل ہے۔ یہاں ایک ہی مذہب اور ایک ہی تہذیب کے ماننے والے نہیں ہیں بلکہ درجنوں مذاہب کے ماننے والے اور سینکڑوں قسم کی تہذیبوں کے علمبردار پائے جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ سنگھ پریوارکی جانب سے صرف یکرنگی پیدا کرنے اور ایک ہی مذہب اور ایک ہی تہذیب کو رایج کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو اس ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے۔ انہو ںنے کہا کہ کرناٹک میں حجاب کا جو تنازعہ پیدا کیا گیا ہے وہ ہائی کورٹ میں زیر دوراں ہے اس لئے وہ اس موضوع پر کچھ کہنے سے گریز کریں گے۔ لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ اقتدار کے نشہ میں دھت ہندوتوا وادی قوتیں عدالت کا احترام کئے بغیر ہی اس کو ریاست اور ملک کا سب سے سنگین مسئلہ بنانے کی کوششیں کررہی ہیں۔ حجاب کے جواب میں گیروا پٹکاگلے میں ڈالے نوجوانوں کی ٹولیاں کالجوں کے احاطوں میں گھوم رہی ہیں۔سوشیل میڈیا پر جو ویڈیو آرہے ہیں انہیں دیکھ کر سخت فکر و تشویش ہورہی ہے اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ ملک آخرکدھر کو جارہا ہے۔ ایک کالج میں ایک اکیلی برقعہ پوش لڑکی کو دیکھ کر سینکڑوں نوجوان جو گلے میں گیروا پٹکاڈالے ہوئے تھے اس پر نعرے لگاتے ہوئے ٹوٹ پڑتے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ لوگ اس پر حملہ کردیں گے۔ یہ کھلی دہشت گردی ہے جو نہ ریاستی حکومت کو نظر آتی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کو۔ گزشتہ کئی دنوں سے یہ تنازعہ چل رہا ہے لیکن آر ایس ایس اور اس کے سربراہ شری بھاگوت نے اس تعلق سے کچھ نہیں کہا ہے۔ کرناٹک میں 2023میں اسمبلی چناؤ مقرر ہیں اور بی جے پی اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ریاست میں فرقہ پرستی کازہر گھول رہی ہے تاکہ ہندو ووٹ کو متحد کرتے ہوئے پھر سے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ جاریہ تنازعہ صرف 2023کے چناؤ کو سامنے رکھ کر پیدا کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کوسماج کے دوسرے طبقات کو ساتھ لے کر مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہئے۔ دلت طبقات اور لنگایت فرقہ کے لوگ خودکو ہندو نہیں کہتے۔ ایسے عناصر کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔