سیاسی و سماجی

وطن سے محبت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے

2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور دوبارہ حکومت کی تشکیل کا موقع ملا تو وزیراعظم نریندر مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کا نعرہ دیا اور اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے کا اعلان کیا وزیر اعظم کے اس نعرے کا مختلف تنظیموں و سماجی کارکنوں نے خیرمقدم کیا اور باالخصوص مسلمانوں کے اندر بی جے پی کے قریب آنے کا کچھ حوصلہ ملا لیکن بی جے پی کے چھوٹے کارکنان و آر ایس ایس کے لوگ شاید یہ نہیں چاہتے کہ بی جے پی اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور اسی لیے یہ لوگ ہجومی تشدد کو ایک بار پھر بڑھاوا دینے میں سرگرم ہوگئے اور حال ہی میں جھارکھنڈ میں تبریز انصاری پر چوری کا الزام عائد کیا گیا اور ظلم وستم کا پہاڑ توڑا گیا اور تڑپا تڑپا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یعنی ایک اور مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہو گیا یہ ایک گھناؤنا فعل ہے انتہائی حساس معاملہ ہے جمہوریت کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش ہے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے ہجومی تشدد بدترین دہشتگردی ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے دراصل کچھ لوگ اقتدار کے نشے میں چور ہیں وہ ہندوستان کو ایک مخصوص رنگ دینا چاہتے ہیں ایک الگ پہچان بننا اور بنانا چاہتے ہیں مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں وہ سیاست، ملازمت سے مسلمانوں کو بے دخل کرنا چاہتے اور یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے کبھی گائے کے نام پر کبھی گوشت کے نام پر مسلمانوں کو مارا پیٹا جارہا ہے اور دن پر دن یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے آخر انکی پشت پناہی کون کر رہا ہے ملک کا امن و چین برباد کرنے میں انکا تعاؤن کون کر رہا ہے کہ انکے حوصلے اتنے بلند کیوں ہیں وزیراعظم کوغورکرنا چاہیے کہ کیا دوہرا موقف کامیاب ہو سکتا ہے ایک طرف آپ مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف شرپسند عناصر مسلمانوں کا جینا دشوار کرنے پر تلے ہوئے ہیں مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگوا رہے ہیں جب ملک کے آئین نے سب کو مذہبی آزادی دے رکھی ہے تو پھر کسی کو دوسرے مذہب کا نعرہ لگانے کے لئے کیوں مجبور کیا جارہا ہے پوری دُنیا جانتی ہے کہ جے شری رام کا نعرہ سیاسی نہیں ہے سماجی نہیں ہے بلکہ مذہبی ہے مسلمانوں کا نعرہ نعرہ تکبیر و رسالت ہے تو مسلمان تو کبھی کسی کو نعرہ تکبیر و رسالت بلند کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا یہاں تک کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو بھی نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا زبردستی نہیں کرتا اور مذہب اسلام زبردستی نعرے بازی کی اجازت بھی نہیں دیتا ہاں دنیا کے کچھ ملکوں میں کچھ تنظیمیں ہیں جو اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر انسانوں کو قتل کررہی ہیں لیکن قرآن مقدس نے لا اکراہ فی الدین کی شکل میں اعلان کرکے واضح کردیا کہ دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے اب جو قرآن کے خلاف چلے تو وہ تو خود ہی قرآن کا مخالف ہوگیا دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا اب وہ ڈاڑھی رکھ لے اور مسلمانوں جیسا لباس پہن لے تو مسلمان نہیں ہو جائے گا بلکہ ایک طرف اگر وہ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر انسانوں کو قتل کر رہے ہیں اور دوسری طرف جے شری رام کا نعرہ لگا کر کچھ لوگ مسلمان کو قتل کررہے ہیں تو کہیں دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ تو نہیں نہ ہیں اس لیے کہ کام دونوں کا ایک ہے ایک کسی اور مذہب کا حلیہ بنارکھا ہے تو دوسرے نے کسی اور مذہب کا حلیہ بنا رکھا ہے اور ممکن ہے کہ آپس میں معاہدہ کررکھا کیونکہ یہودی بہت شاطر دماغ ہوتے ہیں وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اس معاملے میں مذہب اسلام نے اپنا نظریہ صاف کر دیا ہے کہ ایک ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے جس نے بھی خون ناحق بہایا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک بھی خون ناحق بہنے سے بچایا تو اس نے پوری انسانیت کو قتل ہونے سے بچایا اب جو اس کی مخالفت کرے اور زمین پر فساد برپا کرے تو ایسے لوگ خود اللہ تعالیٰ سے بغاوت کا اعلان کررہے ہیں اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرے اور نعرہ تکبیر و رسالت کے ماننے والے اپنے نعروں کی اہمیت جانتے ہیں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو میدان بدر میں فتح حاصل ہوگئ کفر و اسلام کے مابین فیصلہ ہوگیا قیامت تک کے لیے مذہب اسلام کا پرچم بلند ہوگیا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو خیبر کا دروازہ اکھڑ گیا اور صداقت کا پرچم بلند ہوگیا یہی نعرہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لگایا تو یزید کی دھجیاں اڑ گئیں یہی نعرہ مجدد الف ثانی نے لگایا تو دین الہی قائم کرنے والے اکبر بادشاہ لرزہ براندام ہوگیا اور جے شری رام کا نعرہ لگانے والے خود اپنے نعرے کی اہمیت سے ناواقف ہیں اور جے شری رام کا نعرہ لگواکر دنیا کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں مذہبی نعروں کو لگانے کے لئے کسی کو مجبور کرنا اور موت کے گھاٹ اتار دینا خود اپنے مذہب کی توہین ہے کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو جے شری رام کا نعرہ لگائے گا وہی دیش بھگت ہے اگر آپ کی یہ سوچ ہے تو غلط ہے کیونکہ یہ نعرہ تو بیس پچیس سال سے وجود میں آیا ہے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر جیسا نعرہ چودہ سو سال پہلے سے لگایا جارہا ہے اور انگریزوں کے قدم بھی اسی نعرے کی وجہ سے اکھڑے یعنی مسلمانوں نے آزادی کی تحریک میں بھی یہ نعرہ بلند کیا اور بیشمار علماء کرام پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے آخری ہچکی لیتے ہوئے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی فلک شگاف صدائیں بلند کیں اس کے باوجود بھی آج مسلمانوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جارہا ہے کبھی جے شری رام تو کبھی جے ہنومان کا نعرہ لگانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے جبکہ تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کوئی دوسرے مذہب کا ماننے والا جے شری رام کا نعرہ لگانے سے وہ ہندو ہوجائے گا یا نہیں بہر حال اس معاملے میں وزیراعظم مودی جی کچھ کیجئے ورنہ آپ کا دیا ہوا نعرہ ٹائیں ٹائیں پھس ہوجائے گا اور آپ اقلیتوں کا اعتماد بھی نہیں حاصل کرپائنگے اور یہ ہجومی تشدد کا سلسلہ جاری رہا تو ملک میں امن و سکون کیسے قائم رہ سکتا ہے مسلمان تو آج بھی یہ مانتا ہے کہ اس ملک کی دو آنکھیں ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو پیر ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو ہاتھ ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان، اس ملک کے دو کان ہیں ایک ہندو دوسرا مسلمان یعنی ہندو اور مسلمان اس ملک کا جسم ہے اور جسم کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور یاد رہے کہ کہ مسلمانوں کو تو مذہب اسلام نے تعلیم دی ہے کہ جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو احترام کرو اس کی حفاظت کرو اور جب جب بھی موقع آیا ہے تو مسلمانوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بہاکر ملک کی حفاظت کی ہے اس لیے وزیراعظم کو خود پہل کرنی ہوگی ہجومی تشدد کو روکنے کیلئے، چھوٹے چھوٹے لیڈروں کی اشتعال انگیز بیانات و تقریر پر قد غن لگانے کیلئے تاکہ پھر کوئی تبریز انصاری کی طرح ہجومی تشدد کا نشانہ نہ بنے صرف یقین دہانی زبانی ہمدردی سے کچھ ہونیوالا نہیں ہے صرف افسوس کا اظہار کردینے سے کچھ ہونیوالا نہیں ہے ملک کے حکمراں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ ملک میں امن و امان کو یقینی بنائے ملک کی عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے ساتھ جو ملک کے آئین کی خلاف ورزی کرے ملک میں ہنگامی حالات پیدا کرے جو قتل و غارت گری کا بازار گرم کرے اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کیجائے جو ظالموں کی حمایت کریں انکی پشت پناہی کریں انکے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے اور آج تو ہجومی تشدد کا ماحول جس طرح فروغ پارہا ہے ملک کے مختلف شہروں میں آئے دن جس طرح کی واردات ہورہی ہیں ضرورت ہے کہ ہجوم زنی کو روکنے کیلئے خصوصی قانون بنایا جائے اور پوری طرح اس پر عمل درآمد کیا جائے مسلمانوں سے صرف حب الوطنی کا ثبوت نہ مانگا جائے ملک سے وفاداری مسلمانوں کے خون میں شامل ہے مذہب اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے مسلمان کل بھی وطن کی ایک ایک اینٹ ایک ذرے سے محبت کرتاتھا اور آج بھی کرتا ہے –

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×