سیاسی و سماجی
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں، مزدور کی دنیا کالی ہے
ملک بندی اپنے تیسرے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے اوراس کے ساتھ ہی یومیہ مزدوری کرنے والے لوگوں کی رہی سہی آس ٹوٹنی شروع ہوچکی ہے، ایک سوتیس کروڑکی آبادی والے ملک میں بغیرسوچے سمجھے ملک بندی بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے تھی، پہلے اس کے لئے پلاننگ کی جاتی، پھرعوام میں اس کی تشہیرکے ساتھ انھیں کچھ دنوں کی مہلت دی جاتی، پھرملک بندی کی جاتی توملک بندی کامیاب ہوتی، جس وقت اچانک یہ فیصلہ لیاگیا، اس وقت بھی کچھ دوررس دانشوران نے اس کی مخالفت کی تھی؛ لیکن نقارخانہ میں طوطی کی صداکون سنتاہے؟
ملک بندی کے نتیجہ میں لاکھوں مزدوربے یارومددگارہوگئے، کارخانے اور فیکٹریاں بندہونے کی وجہ سے یومیہ یاہفتہ واری مزدوری کرنے والے بالکل یتیم ہوگئے، کچھ دنوں تک جمع پونچی سے کام چلایا؛ لیکن جب وہ بھی ختم ہوگئے تواب ان کے سامنے نہ جائے رفتن تھی اورناہی پائے مانندن، کرتے توکیاکرتے اورجاتے توکہاں جاتے؟ بل کہ کھاتے توکیاکھاتے اورکہاںسے کھاتے؟ابتدائی دنوں میں مخیرحضرات کی ایک بڑی تعدادسامنے آئی؛ لیکن جب خودہی جان کے لالے پڑے ہوں تووہ بھی کب تک دوسروں کی جان بچاپاتے؟ جان بچانے کے لئے آمدبھی توہونی چاہئے اوروہ توسرکارنے بندکررکھی ہے۔
ملک بندی کے کچھ ہی دنوں کے بعدبھوک سے بے برداشت ہوکرایک بھیڑ سڑکوں پرامڈآئی، ان کے لئے نقل وحمل کے کچھ ذرائع کابندوسبت کیاگیا، جب کہ ایک بڑی تعدادپیادہ پاہی اپنے گھروں کی طرف نکل کھڑی ہوئی، کچھ توگھرپہنچ گئے، کچھ راستوں میں ہی ہلاک ہوگئے، کچھ گھرپہنچ کرہلاک ہوگئے اورکچھ نے راستے ہی میں خودکشی کرکے اپنی جان لاک ڈاؤن کی بھینٹ چڑھادی، ان سب کے باوجودحکومت کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگی، زبانی جمع خرچ کرتی رہی ، عملی طورپربالکل نکمی رہی، اس وقت بھی اگر مزدوں کوان کے گھرپہنچانے کاانتظام کردیاجاتاتوکم از کم وہ جان سے تورہتے؛ لیکن یہاں جان کی پرواہی کب ہے؟ یہاں توبس اس بات کی فکرہے کہ اپنے مشن کی تکمیل کیسے کی جائی؟ حالاں کہ یہ وہی بھیڑہے، جس کانعرہ تھا’’ہرہرمودی، گھرگھرمودی‘‘، اب یہ مودی جی کہاں ہیں؟ پانچ سودے کرکوئی بڑاتیرنہیں مارلیا، بلینوں آئے بھی توہیں، اس میں سے کچھ لوگوں کوپانچ پانچ سودینے کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے سمندرسے قطرہ نکالاجائے۔
اورپانچ سوآج کل ہوتاکیاہے بھئی؟ ایک ہفتہ کابھی راشن نہیں آنے والا، توپھرنام کے لئے پانچ سودیکر عوام کے حق میں کوئی خیرخواہی نہیں ہے، اس سے زیادہ توہمارے ملک کے کئی دیش واسیوں نے دیدئے، حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت کوعوام کی فکرکبھی رہی ہی نہیں ہے، اس کے فیصلوں پرنظرثانی کرلیجئے، کوئی ایک بھی فیصلہ ایسانہیں ہوگا، جس میں سوفیصدعوام کافائدہ ہو، چاہے وہ نوٹ بندی کافیصلہ ہویاملک بندی کا، یاپھرجی ایس ٹی کا، ہرجگہ اپنے مفادکومقدم رکھاگیاہے، آپ کیاسمجھتے ہیں کہ رام مندر کے فیصلے میں عوام کافائدہ ہے؟بالکل بھی نہیں، عوام میں سے ایک بڑی تعدادتووہ ہوگی، جن کواس کے قریب تک بھٹکنے نہیں دیاجائے گا، حالاں کہ یہ وہی عوام ہوگی، جن کوہمیشہ انھوں نے اپنے کام کے لئے استعمال کیاہے، بالخصوص دنگوں میں، معاشرہ کوہندومسلم بانٹ نے میں؛ لیکن اب وہی لوگ درشن کوترسیں گے۔
کئی اسٹیٹس کی حکومتوں نے لاکھوں کی تعدادمیں پھنسے ہوئے مزدوروں کولاک ڈاؤن کے تیسرے دورمیں ان کے گھربھیجنے کاعمل شروع کیا، یہ ایک اچھی بات ہے؛ لیکن اس کام کولاک ڈاؤن کے پہلے مرحلہ میں ہی ہوجاناچاہئے تھا، اگراسی وقت ہوجاتاتواس وقت جوافرتفری نظرآرہی ہے، وہ نہیں ہوتی اوراگرلاک ڈاؤن کرنے سے پہلے ہی ان مزدوروں کوان کے گھرجانے کی مہلت دیدی جاتی تولاک ڈاؤن کامیاب بھی ہوتااورسیکڑوں ان مزدوروں کی جان بھی بچ جاتی، جوراشن پانی نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منھ چلے گئے۔
پھربھیجے جانے والے ان مزدوروں سے اس وقت ٹرین کاٹکٹ بھی لیاجارہاہے، جب کہ انھیں اپنی جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ٹرین کی سروس توایسے موقع پرفری ہونی چاہئے تھی؛ لیکن مرے کوماریں شاہ مداروالامسئلہ یہاں بھی ہے، اورمیں مستقل یہ بات کہہ رہاوں کہ یہ حکومت غریبوں کی حکومت ہے ہی نہیں، یہ مالداروں کی حکومت ہے، غریبوں سے تعلق بس اتناہے، جتنامالک اورآقا کواپنے نوکرسے رہتاہے، یا (معذرت کے ساتھ)گاہکوں کوقحبہ خانوں کی عورتوں سے ہوتاہے، جب ریلی کی گھڑی آئے گی تودودوسوکے بدلے انھیں مزدوروں کے ہاتھ میں پارٹی کاجھنڈا پکڑاوا کر’’ہرہرمودی، گھرگھرمودی‘‘کے نعرے لگواجائیں گے، جب الیکشن کاوقت ہوگاتو انھیں کو دارواورکباب کھلاکران کے ووٹ کوکیش کریں گے اورجب دنگے فسادکی گھڑی آئے گی توبھڑکاؤبھاشن دے کرانھیں سے دنگے کروائیں گے اوران کوموت کے منھ میں جھونک کر خود پتلی گلیوں نکل جائیں گے، کیاکوئی بتائے گا کہ بھڑکاؤبھاشن دینے والاکوئی نیتاکسی دنگے میں کام آیا؟
اس وقت مزدوروں کی حالت انتہائی نازک ہے، حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ انھیں ان کے گھرتک بالکل مفت پہنچاتی؛ لیکن افسوس! حکومت کواس سے کوئی سروکار نہیں، پھرہمارے ملک کاسب سے مالدارشعبہ ریلوے کوگرداناجاتاہے، اس کی مالداری کااندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ حال ہی میں اس نے اس پی ایم کیئرفنڈ میں ایک سو اکیاون کروڑروپے عطیہ دئے، یہ بڑی اچھی بات ہے؛ لیکن جوشعبہ اتنی بڑی رقم دے سکتاہے، وہ کیامزدوروں کومفت سروس فراہم نہیں کرسکتا؟یہ بات بھی یادرہنی چاہئے کہ ریلوے کوان مزدوروں سے سے کافی پیسے حاصل ہوتے ہیں، وہ اس طورپرکہ ریلوے پانچ پانچ سوتک کاویٹنگ ٹکٹ کاٹتاہے، یہ ویٹنگ لینے والے درااصل وہی مزدور طبقہ ہوتاہے، جسے صرف اتنی فکرہوتی ہے کہ وہ کام پرکیسے پہنچے؟ اس کے لئے وہ ویٹنگ ٹکٹ لے کرہی سوارہوجاتے ہیں، ریلوے ان سے پورے پیسے وصول کرنے باوجودان کے لئے بیٹھنے تک کاانتظام نہیں کرتا؛ حالاں کہ وہ اگرچاہے دوتین ڈبوں کا اضافہ کرکے ویٹنگ والوں کے لئے جگہ بناسکتاہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہندوستان کے جو لوگ دوسرے ملکوں میں پھنسے ہوئے ہیں، انھیں خصوصی ہوائی جہازسے بالکل مفت سروس فراہم کرکے ملک واپس لانے کی کوشش ہورہی ہے، سوال ہے کہ ہوائی جہازوالوں کوتومفت سروس فراہم کی جارہی ہے، جب کہ ٹرین والوں کونہیں، کیوں؟ کیوں کہ ٹرین والے مزدوراورغریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اوران کی مثال ارباب اقتدارکی نظرمیں بس اتنی ہی ہے، جو بیان کی گئی، جب کہ ہوائی جہازوالے اپرکلاس کے لوگ ہیں، تجارت پیشہ یانیتاکے رشتہ دارہیں، وہ مزدور نہیں اوریہ حکومت توامیروں کے ہی تلوے چاٹتی ہے نا؛ اس لئے انھیں ہی مفت سروس فراہم بھی کرے گی۔
یہ خبربھی اخبارات کی زینت بنی کہ کچھ لوگوں کے قرضہ جات معاف کئے گئے ہیں، معا ف کئے گئے قرضہ جات کی رقم ۶۵؍ہزارکروڑہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لاک ڈاؤن کی اس مہاماری میں چلوکچھ بے چارے غریبوں کابھلاہوگیاہوگا؛ لیکن نہیں، ایساکچھ بھی نہیں، امیروں کے قرضہ جات معاف ہوئے ہیں اوروہ بھی ان امیروں کے ، جوگزشتہ سالوں میں کروڑوں روپے کاچونالگانے کے بعدملک سے بھاگ گئے تھے، یعنی نیرومودی وغیرہ جیسے لوگوں کے قرضہ جات، سوچئے اورعقل پرماتم کیجئے، ان کے قرضہ جات معاف کرنے کی ضرورت کیاتھی؟ وہ توایک جھٹکے میں اداکرنے کے قابل ہیں، قرضہ توان غریبوں کامعاف ہوناچاہئے تھا، جواداکرسکنے کے قابل نہیں اوراس چکر میں جوپھانسی کے پھندے کواپنے گلے لگالیتے ہیں؛ لیکن ظاہرہے کہ ایسانہیں ہوسکتاکہ یہ حکومت آپ کی نہیں، غریبوں کی نہیں، مزدوروں کو نہیں؛ بل کہ ارپ پتیوں، چونالگانے والوں اورغنڈے موالیوں کی ہے، لہٰذاآپ کوامیدبھی نہیں رکھنی چاہئے کسی تعاون اورمددکی اورلاک ڈاؤن کے اس زمانہ میں ان کے تعلق سے سبق بھی سیکھ لینی چاہئے، اسی میں آپ کی ، ہماری اورپورے ملک کی بھلائی ہے۔
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888