
اسلامیات
جگرپہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا
دودن قبل (۱۱؍اگست ۲۰۲۰ء)پیغمبراسلام کے خلاف دریدہ دہنی کے نتیجہ میں بنگلورمیں ہنگامہ آرائی ہوئی، جس کے نتیجہ میں توڑپھوڑکے ساتھ ساتھ آتش زنی کے واقعات بھی پیش آئے اورتین نوجوانوں کی جانیں بھی چلی گئیں، یہ تمام چیزیں نہایت ہی افسوس ناک ہیں اوران کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری کس پرعائد ہوتی ہے؟ ہنگامہ کرنے والوں پر؟ اس شخص پر، جس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی؟ یاپھرانتظامیہ پر؟ اگرغورکیاجائے توتینوں کم یازیادہ ذمہ دارقرار پائیں گے۔
اصل ذمہ دارتووہ ہے، جس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی شروع ہوئی، یعنی جس نے دریدہ دہنی کی، اصل ذمہ داروہی ہے، اس نے بلاوجہ ایسی حرکت کیوں کی؟ پیغمبرنے اسے کیاتکلیف پہنچائی تھی؟ اگراسے کسی مسلمان نے تکلیف پہنچائی تھی تواسے پیغمبرسے انتقام لینانہیں چاہئے تھا، تکلیف کسی سے پہنچے اورگالی پڑوس کودے، اسے درست نہیں کہا جاسکتا، اس کے بعدذمہ دارانتظامیہ ہے؛ کیوں کہ جب مجرم نے غلط حرکت کی توانتظامیہ کوفوراً ایکشن لیناچاہئے تھا، اگرانتظامیہ حرکت میں آجاتی توہنگامہ برپانہیں ہوتا، ظاہرہے کہ غلط پوسٹ کے سوشل میڈیامیں ڈالے جانے کے فوراً بعدتوہنگامہ ہوانہیں ہوگا، اتنی مہلت ضرور ملی ہوگی، جس میں انتظامیہ معاملہ کواپنے ہاتھ میں لے کرکنٹرول کرسکتی تھی اورآج کل توہرموڑاورچوراستہ پرپولیس کھڑی رہتی ہے، معاملہ کوابتدائی مرحلہ میں ہی کنٹرول کیاجاسکتاتھا؛ لیکن ایسانہیں کیاگیا، وجہ جوبھی رہی ہو؛ لیکن اس کی وجہ سے نقصان مالی کے ساتھ ساتھ جانی بھی ہوا۔
تیسرے نمبرپرذمہ دارہنگامہ آرائی کرنے والے ہیں، یہ ذمہ داراس طورپرہیں کہ انھوں نے پرتشددمظاہرہ کیا، احتجاج اورمظاہرہوناچاہئے تھا؛ لیکن تشددکے ساتھ نہیں، اس میں نقصان کس کاہوا؟ عوام اورحکومت کا اوردونوں صورتوں میں نقصان خودکاہوا، عوام کاتعلق ہم سے ہی ہے، لہٰذااس کانقصان ہمارانقصان ہے اورحکومت کانقصان بھی ہمارا ہی ہے کہ ہمارے پیسے ہی سے حکومت کے کام نکلتے ہیں، بہرصورت ہماراہی نقصان ہوا، بلاشبہ ایمان والوں کے دلوں میںاپنے پیغمبرکی محبت کی چنگاری اتنی ضرورہے، جوان کے خلاف دریدہ دہنی کی صورت میں خاک کوبھی خاکسترکرسکتی ہے؛ لیکن ٹھنڈے بیٹوں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیاواقعتاً ہمیں پیغمبرسے اتنی محبت ہے؟
دنوں ورات ہم ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں؛ بل کہ یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ آج ہماراتقریباہرعمل ان کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف ہوتاہے، ایک بال ہی کولے لیجئے، صرف ایک محلہ کاجائزہ لیں تومعلوم ہوگابیسیوں قسم کے فیشن بال رکھنے کے نکل آئیں گے اوران میں وہ طریقے زیادہ ہوں گے، جن کوپیغمبرکی زبان نے صاف منع کررکھاہے، لباس کابھی وہی حال ہے، پھران کے ساتھ ساتھ ان فرائض کی ادائے گی سے مکمل طورپرغفلت ہے، جن کی ادائے گی کوہم پرلازم کیاگیاہے؛ بل کہ اس سے چارہاتھ آگے بڑھ کرہم حرام کاموں کے ارتکاب سے بھی نہیں چوکتے، یہ کونسی محبت ہے کہ ایک طرف توان کی کسی بات پرعمل نہیں کرتے اوردوسری طرف ان کے نام پراتنابڑے ہنگامہ کے لئے بھی ہم تیارہوجاتے ہیں؟
یہ بات توسچ ہے نا کہ جوشخص گھرمیں اپنے باپ کی عزت نہیں کرتا، آہستہ آہستہ یہ بات پورے محلہ میں پھیل جاتی ہے، پھرمحلہ والے اس کے باپ کی عزت نہیں کرتے، اب اگرمحلہ کاکوئی فرداس کے باپ کوگالی گلوج کرے تواس بیٹے کوکیاحق پہنچتاہے کہ وہ بھی باپ کی طرف سے گالم گلوج کرے؟ یہ نوبت کیوں آئی؟ کبھی اس پربھی توجہ دی؟ یہ سب بیٹے کی ہی وجہ سے ہی توہواہے، اگربیٹاگھرمیں باپ کی عزت کرتاتومحلہ میں کسی کی مجال تھی کہ اس کے ساتھ گالی گلوج کردے؟ یہی حال پیغمبرکے ساتھ بھی ہے، ہم اپنے گھر میں ان کی عزت نہیں کرتے ، جس کوپوری دنیا جانتی ہے، ہماری پوری زندگی ان کے سامنے ہے، اسی کودیکھ کربعض ناہنجاروں کویہ جراء ت ہوتی ہے اورپیغمبرکے خلاف دریدہ دہنی کرتے ہیں، پھران میں سے بعض توکہتے بھی ہیں کہ جب تم ان کی توہین کروتوتم پرکوئی اثرنہیں ہوتااورجب ہم کچھ کہہ دیں توپھرتم آگ بگولہ ہوجاتے ہو، حقیقت بھی یہی ہے، آج بھی اگرہم اپنے پیغمبرکی اس طرح عزت کرنے لگیں، جیسی عزت کرنی چاہئے تودنیاکاکوئی فرد ان کے تعلق سے ایسی حرکت کرنے کی جراءت نہیں کرے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا بھی ہوتاہے کہ پیغمبرکی محبت ہی کے نتیجہ میں توہم ایسا کرتے ہیں؛ لیکن اگرباریک بینی کے ساتھ غورکیاجائے توحقیقت وہ نہیں؛ بل کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی توہین کابدلہ لیناچاہتے ہیں، یہی وجہ یے کہ جب شیخ الہندسے یہی سوال کیاگیاکہ مسلمان کتنے بھی گرجائیں؛ لیکن پیغمبرکی محبت ان کے دل میں ضرور ہے اوراسی محبت کی وجہ سے ان کے خلاف ادنیٰ اہانت کو بھی برداشت نہیں کرپاتے توانھوں نے اس کاجواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’سوچوگے تودرحقیقت آں حضرتﷺ کی سبکی میں اپنی سبکی کاغیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتاہے، مسلمان کی خودی اورانانیت مجروح ہوتی ہے، ہم جسے اپناپیغمبراوررسول مانتے ہیں، تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے، چوٹ درحقیقت اپنی اسی’’ہم‘‘پرپڑتی ہے؛ لیکن مغالطہ ہوتاہے کہ پیغمبرﷺ کی محبت نے انتقام پران کو(احتجاج ومظاہرہ کرنے والوں کو) آمادہ کیاہے، نفس کایہ دھوکہ ہے، اپنی جگہ ٹھنڈے دل سے جوغورکرے گا، اپنے طرزِعمل کے تناقض(ضد) کے اس نتیجے تک پہنچ سکتاہے، بہرحال!محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہورہی ہے اورلایعنی اورلاحاصل گپوں سے بھی جواپنے آپ کو جدا کر کے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لیناچاہئے کہ محبت کادعوی اس کے منھ پرکس حد تک پھبتاہے‘‘۔
اس کامطلب ہرگزیہ نہیں کہ ایسے لوگوں کوچھٹے سانڈ کی طرح چھوڑدیاجائے؛ بل کہ گرفت ہونی چاہئے اورس کے لئے حکومت سے اس قانون کے تحت گرفتارکرنے کاپرزورمطالبہ بھی کرناچاہئے،جوI.P.C Section 153A,295 & 295A میں موجودہے اورہندوستان کی تمام تنظیموں(بالخصوص مسلمانوں کی)اورلیڈروں کواس کے لئے سرفروشانہ آگے بڑھناچاہئے، یہی طریقہ مناسب اورقانون کے دائرہ میں ہے، ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اگرچہ کہ ہمارے بہت سارے حقوق یہاں چھینے جارہے ہیں، اس کے باوجودایسی حرکت، جوخودہمارے خلاف ہی ثبوت اورگواہ بن جائے، جس سے خود ہم بدنام ہوجائیں اورجس سے ہماراہی نقصان ہو، کسی طورمناسب نہیں، ہم نے جوش میں آکر ہنگامہ آرائی کردی، تین نوجوانوں کی جان چلی گئی، ہم چاہے انھیں شہیدکہہ لیں؛ لیکن آپ جاکران کے گھروالوں سے پوچھئے، ان کے غم کومحسوس کیجئے، تب آپ کواحساس ہوگا، پھریہ سوچ لیجئے کہ اس کی جگہ اگرآپ نشانہ پرآجاتے توآپ کے گھروالوں کی حالت کیاہوتی؟ پپیغمبرکے خلاف زباں درازی سے ہماراجگربھی چھلنی ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے ہمیں اپنا توازن کھونانہیں چاہئے، ہمیں آپے سے باہر نہیں ہوناچاہئے، غصہ میں کام بگڑتے ہیں، سنجیدگی سے کام بنتے ہیں؛ اس لئے، ہمیں جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے، خصوصیت کے ساتھ اس ملک میں، جہاں ہماری شناخت ہی داؤں پرلگی ہوئی ہے۔
شاہین باغ میں احتجاج اورمظاہرہ ہواتھا، اس نے تاریخ رقم کی، پوری دنیامیں اس کی گونج سنی گئی، وجہ صرف یہ تھی کہ وہ پرامن تھا، پرتشددنہیں، اگرچہ کہ کئی مرتبہ کوشش کی گئی کہ اسے بھی پرتشدد بنادیاجائے، اس کے لئے بم پھینکنے کے ساتھ ساتھ گولی بھی چلوائی گئی؛ لیکن سلامتی ہوان مظاہرین پر، جوہوش میں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ احتجاج ایک سو ایک دن تک تسلسل کے ساتھ جارہی رہااورقوی امیدتھی کہ تبدیلی آجائے گی؛ لیکن کورونا… آہ کورونا…اس نے سب کچھ نگل لیا، تاریخ بتانا مقصود نہیں؛ بل کہ کہنایہ ہے کہ تشدد سے مسائل پیداہوتے ہیں، مسائل حل نہیں ہوتے، کیا دیکھتے نہیں کہ پوری دنیانام نہاددہشت گردی کوختم کرنے کے لئے خوددہشت مچارہی ہے، کیااس سے دہشت گردی ختم ہوگئی؟ یاپوری دنیادہشت میں آج بھی مبتلاہے؟
یہ بات بھی قابل غورہے کہ جس وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی، اس پرکیاکارروائی کی گئی؟ اگرخاطرخواہ کارروائی نہیں ہوئی توعلاقائی لیڈران اس کی طرف توجہ دیں اورسزا دلانے کی فکرکریں، ہنگامہ کرنے والے نوجوانوں کوگرفتارکرنے سے معاملہ تھمنے والانہیں؛ کیوں کہ یہ ہنگامے تب تب ہوتے رہیں گے، جب جب ایسی حرکت کی جاتی رہے گی؛ اس لئے انتظامیہ کوچاہئے کہ بند اس پرباندھیں کہ آگے کوئی ہنگامہ ہی نہ ہو، اگرڈیم کے پشتے میں سوراخ ہوجائے تواسے بندکرناضروری ہے، اسی طرح یہاں بھی ایساقانون بنانااوراس کونافذ کرناضروری ہے، جس میں کسی کویہ جراء ت نہ ہوسکے کہ کسی بھی مذہبی شخصیات کے خلاف ایسی حرکت کی جائے، اگرایسا ہوجاتا ہے توہنگامہ آرائی کی نوبت ہی نہیں آئے گی، اسی کی فکرکرنی چاہئے اوراسی کاپرزورمطالبہ بھی