اسلامیات
موجودہ حالات میں اسوۂ معاویہ کی معنویت
ہندوستان میں دوہزاربیس(2020ء)کاسورج مسلم قوم کے حق میں گہناکرظاہرہوا، جس کاآغازپی جے پی کے دوبارہ الیکشن جیت کرزمام اقتدارتھامنے سے ہوا، تین طلاق کے خلاف بل بہ زورطاقت پاس کیاگیا، بابری مسجدکافیصلہ پوری دھاندلی کے ساتھ کیاگیا، طاقت کے ٹٹوپرسوارہوکرکشمیرسے اس کے خصوصی ریاست کے درجہ کوصرف اس لئے ختم کردیاگیاکہ وہ مسلمانوںکے ساتھ منسوب ہے، سی اے اے کاقانون بناکرمسلمانوں کودوسرے درجہ کاشہری ہوکرجینے پرمجبورکرنے کی زبردست سازش کی گئی، یہ بالکل آخری مرحلہ تھا، اب اگرآواز نہ اٹھائی جاتی توپھراس قوم کومکمل طورپرمردہ تصورکرلیاجاتا؛ لیکن بروقت یونیورسٹیوں کے طلبۂ عزیزنے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی اوراس قانون کے کالعدم قراردئے جانے تک شاہین باغ میں تسلسل کے ساتھ دھرنے کاانعقادکیاگیا؛ لیکن بھلاہوکوروناکا، اس نے ایک سوایک دن تک جاری رہنے والے عظیم الشان دھرنے کی بیخ کنی کردی۔
اس دھرنے کوبنیادبناکردہلی کا الیکشن لڑاگیا، جس میں پی جے پی کوزور کا جھٹکا لگا اور’’آپ‘‘کی حکومت قائم ہوئی، مسلمانوں کوپی جے پی کے مقابلہ میں اس میں کچھ راحت محسوس ہوئی کہ اس سے قبل اس نے ہندومسلم کاکارڈ نہیں کھیلاتھا؛ لیکن شایداب اس کوبھی یہ محسوس ہونے لگاتھاکہ اقتدارپررہنے کے لئے انسانیت کے بجائے مذہبیت کارول زیادہ اس ملک میں کامیاب ہے، لہٰذا الیکشن سے قبل ہی ’’آپ‘‘کے چیف نے ہنومان چالیساکاپارٹ کرناشروع کردیا، اس کے اس رویہ سے بہت سارے دانشوران قوم کوتشویش توہوچلی تھی؛ لیکن ڈوبتے کوتنکے کاسہاراسمجھ کرخاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔
دہلی الیکشن کے بعدشاہین باغ کوبنیادبناکروہاں فسادکرایاگیا، جس میں اقلیتی طبقہ کاکافی نقصان ہوا، جانی بھی اورمالی بھی، جس کی اشک سوئی دہلی کی اس حکومت کوکرنی چاہئے تھی، جس سے مسلمانوں کو کافی امیدیں تھیں؛ لیکن انھیں مایوسی ہی ہاتھ آئی، اب ’’آپ‘‘کی سوچ کھل کرظاہرہوئی کہ جس پارٹی کی بنیادصرف کام پررکھی گئی تھی اور جس کی وجہ سے مسلمانوں نے بھی بھرپورساتھ دیا، اب وہ بھی ’’الکفرملۃ واحدۃ‘‘کانمونہ تھی، فسادات کے تعلق سے اس کی جانب سے کوئی ایسی کارکردگی سامنے نہیں آئی، جس سے یہ سمجھاجاسکتاہے کہ اس کے اندرکاسیکولرزم ابھی زندہ ہے؛ بل کہ آناًفاناً اس فسادکاماسٹرمائنڈاپنی جماعت کے ایک فردطاہرکوقراردئے جانے میں کسی طرح کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی، نہ تواس کی طرف سے اس کی تردیدہوئی اورناہی اس نے اپنی جماعت کے آدمی کوبچانے کی کوئی کوشش کی؛ البتہ اپنی پارٹی سے نکال کریہ ثابت کرنے کی سعی کی گئی کہ اس کے ماسٹرمائنڈ ہونے میںشبہ نہیں۔
پھرہندوستان میں کوروناکی آمدنے مسلمانوں کے خلاف سامنے آنے میں اس کی بڑی مددکی، جس کاآغازتبلیغی مرکزسے ہوا، لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں پھنس جانے والے لوگوں کو’’چھپے ہوئے‘‘ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کی گئی، اس کے لئے میڈیا برادری نے پوراپوراساتھ دیا، حالاں کہ مرکزکی طرف سے کئی بارتحریری طورپرانتظامیہ کواطلاع دی گئی تھی اورپاسزجاری کرنے کی مانگ کی گئی تھی؛ لیکن پہلے سے طے شدہ سازش یا اتفاقیہ موقع ملنے کافائدہ اٹھایاگیااوراس بری طرح سے اٹھایاگیاکہ کچھ کوچھوڑکر پوری عوام کوتبلیغی نہیں؛ بل کہ پوری قوم کے خلاف اکسادیاگیا، یہ اوربات ہے کہ اب بات لوگوں کی سمجھ میں آرہی ہے؛ لیکن سمجھ میں آتے آتے اتناکچھ ہوگیا، جس کی تلافی ممکن نہیں۔
کوروناکو مسلم بنانے میں جتناہاتھ پی جے پی کارہاہے، اتناہی ؛ بل کہ اس سے دوقدم آگے ’’آپ‘‘کاہاتھ رہاہے، میڈیاکے سامنے باربارآکرمرکزکے متاثرین کی تعداد بتائی گئی، جب کہ مرکزکے علاوہ کی تعدادکوقصداً گول کیاجاتارہا، یہی کام ہیلتھ منسٹرنے بھی کیا، اس نے بتایاکہ متاثرین میں۳۰؍فیصدتبلیغی ہیں؛ لیکن ۷۰؍فیصد کوجان بوجھ کرگول کردیاگیا، ایسے موقع پرمیڈیاکوسوال اٹھاناچاہئے تھا؛ لیکن چوں کہ ہندوستانی میڈیاکی مثال اس جانورکی سی ہوکررہ گئی، جوہڈی کے پیچھے دم دباکربھاگتاہے اورجس کی طرف سے جتنی بڑی ہڈی دی جائے، اس کے سامنے تابعداری کادم اسی قدرزورسے ہلاتاہے؛ اس لئے اس نے بھی ۷۰؍ فیصدسے متعلق کوئی سوال نہیں چھیڑا، نتیجہ یہ ہوا ہندوسان میں کورونامشرف بہ اسلام ہوگیا۔
پی جے پی اورآپ نے اس موقع پرمسلمانوںکے ساتھ ایساسلوک کیا، جس کی نہ توہندوستان کی تاریخ میں کوئی مثال ملتی ہے اورناہی آزادی کے بہترسالوں کے بعدمسلمانوں کواس کی امیدتھی، تبلیغیوں کی کردارکشی توہوئی ہی، اس کی تلاشی اس طرح شروع کی گئی، جیسے آئی ایس آئی کے آتنگیوں کی ایک بڑی تعدادملک کے اندرداخل ہوگئی ہو، مسجدمسجدجاکرتلاشی لی گئی، یوگی حکومت نے تواس آگے قدم بڑھایااوران کے پاسپورٹ تک ضبط کرلئے، قانوناً یہ کہاں تک درست تھا؟ دہلی اورکئی دیگرحکومتوں نے ان پریہ مقدمہ بھی دائرکیاکہ سیاحتی ویزاکے ذریعہ سے دھرم کی تبلیغ کرتے ہیں، جودستورکے اعتبارسے درست نہیں؛ حالاں کہ مقدمہ حکومت پر ہونا چاہئے ؛ کیوں کہ تبلیغ کے لوگ آج پہلی بار سیاحتی ویزاکے ذریعہ سے یہاں نہیں آئے؛ بل کہ سالہاسال سے اسی ویزے پریہاں آرہے ہیں، پھریہ مرکزملک کی راجدھانی دہلی میں ہے، مرکزکی ساری تفصیلات وہاں کی حکومت کے پاس رہتی ہے، کتنے لوگ آرہے ہیں اورکتنے جارہے ہیں اورکس ویزے پرآجارہے ہیں، سب انھیں معلوم ہی نہیں؛ بل کہ وہی حودویزے جاری کرتے ہیں، آج سے پہلے تک توساری چیزیں گواراتھیں؛ لیکن اب کیوں نہیں؟ اورحکومت آج تک ان کوسیاحتی ویزے کیوںجاری کرتی رہی؟ عدالت کو حکومت کاگریبان پکڑناچاہئے۔
اب محسوس ایساہورہاہے کہ مرکزاوردہلی حکومت دونوں مسلمانوں کے تعلق سے ایک ہی ڈھرے پرچل نکلے ہیں، پی جے پی کی توخیرسرشت ہی مسلم دشمنی ہے؛ لیکن آپ کاتوحال یہ نہیں تھا، ہوسکتاہے کسی دباؤیامادی منفعت کے نتیجہ میں وہ ایساکرنے پرمجبورہو؛ لیکن جوبھی ہو، اس کی مسلم دشمنی کھل کرسامنے آچکی ہے، اپنی پارٹی کے جیتے ہوئے فرد امانت اللہ خان کووقف بورڈ کے چیئرمین کی کرسی سے ہٹایاگیا، طاہرحسین کواصل مجرم ثابت کیاگیا، مرکزپردھاوابولاگیا، مولاناسعدکے خلاف کئی قسم کے مقدمات درج کئے گئے، ان کی پراپرٹی کاجانچ کی گئی،مرکز کی آمدنی پرسوال کھڑا کیاگیااوراب ڈاکٹرظفرالاسلام خان کواقلیتی کمیشن کے چیئرمین کے عہدہ سے ہٹانے کے لئے عدالت کارخ کیاگیا، یہ سب اس بات کاپتے دیتے ہیں کہ اب ’’آپ‘‘آپ کی نہیں رہی، اس کے سیکولزرم کاجنازہ نکل چکاہے۔
اس ملک کی آزادی کے بعدسے مسلم دشمنی میں شدت آتی گئی ہے اورآرایس ایس کی آئیڈیالوجی نے اس پرتیل کاکام کیاہے، اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی اونچے اوراہم عہدہ پرکسی ایسے مسلم کوبرداشت نہیں کیاجارہاہے، جوحق کی آواز بلندکرسکے، جوانصاف کی بات کہہ سکے، جواپنی قوم کی حمایت میں کھڑاہوسکے، ڈاکٹرظفرالاسلام کی غلطی بس اتنی ہے کہ انھوں نے اپنی قوم پرہونے والے مظالم کے خلاف نہ صرف یہ کہ طاقت ورترین مضامین کے ذریعہ آوازبلندکرتے رہے ہیں؛ بل کہ انھوں نے ان لوگوں کو سراہابھی، جنھوں نے ہندوستانی مسلمانوں پرہورہے مظالم کے خلاف آوازبلندکیا، یہ کون ساجرم ہے؟ ظفرالاسلام خان کے ٹیوٹ سے زیادہ خطرناک تووہ ٹیوٹ ہیں، جس میں مسلمانوں کو’’سور‘‘جیسے الفاظ سے پکاراگیا، کیااس کے خلاف ایکشن لیاگیا؟ اس پرایک قوم کے دل کومجروح کرنے پرمقدمہ چلایاگیا؟ خان صاحب کے ٹیوٹ کوملک کی سلامتی کے خلاف قراردیاگیااوران پرملک سے غداری کامقدمہ دائر کردیا گیا، عدالت کی طرف سے اگرچہ کچھ راحت مل گئی ہے؛ لیکن ایسی شخصیت کاملک سے غداری کامقدمہ دائرکرنا، وہ بھی ایک ایسے ٹیوٹ کی بنیادپر، جس میں حقیقت بیانی کی گئی تھی، کسی طوربھی اسے درست نہیں کہاجاسکتا۔
یہاں رک کرہمیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اتنے کمزورکیوں ہوگئے ہیں، جہاں جوجیساچاہتاہے، ہمارے ساتھ سلوک کرنے کی کوشش کرتاہے؟ اس سلسلہ میں بہت سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اورپھراس کی روک تھام کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، اب صر ف اس حوالہ سے کام نہیں چلے گاکہ ہم نے اس ملک میں آٹھ سوسال حکومت کی ہے؛ بل کہ پھرسے اس پوزیشن میں آناہوگا، جہاں حکمرانی کرنے کے قابل ہوسکیں، اگرہم وزیراعظم نہیں بن سکتے توکیاہوا؟ وزیراعلیٰ توبن سکتے ہیں نا؟ اس کے لئے جس طرح کی کوشش ہوسکے، ہمیں کرنی چاہئے اورایک ایسی حکومت کی داغ بیل ڈالنی چاہئے، جسے دیکھ کرعوام خودآپ کی حکمرانی کی خواہش کریں۔
وقت بہت نازک ہے، ایسے موقع پربہت ہی سوچ سمجھ کرقدم اٹھانے کی ضرورت ہے؛ بل کہ اس موقع کوہم بطورنشأۃ ثانیہ کے استعمال کرسکتے ہیں، ہماری بہت ساری تنظیمیں ہیں، ان تمام تنظیموں کوالگ رہتے ہوئے بھی ایک اکائی میں جمع ہونے کی ضرورت ہے، جس دن ہماری ساری تنظیمیں ایک اکائی میں جمع ہوجائیں گی، اسی دن سے ہمارے دن پھرنے شروع ہوجائیں گے، ہرانسان کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے، لہٰذا ہمیں یہ یادرکھناچاہئے کہ جہاں رائے ہوں، وہاں اختلاف توناگزیرہے؛ لیکن اس اختلاف کے باوجودوحدت پیداکرنے کی ایسی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے دشمن کی ہوانکل جائے، اس موقع پرہمیں اس واقعہ کوبھی یادرکھناچاہئے، جوحضرت امیرمعاویہ ؓ کے ساتھ پیش آیا، وہ جب حضرت علیؓ کے ساتھ برسرپیکارتھے، رومیوں کی طرف سے خط آیاکہ آپ چاہئیں توہم آپ کے ساتھ مل کرعلی سے جنگ کرسکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں آپ کی فتح یقینی ہے، ہمارے اورآپ کے جیسے لوگ ہوتے توخوش ہوجاتے اوراس تعاون کومخلص جان کرقبول کرلیتے؛ لیکن قربان جایئے حضرت امیرمعاویہؓ پر! انھوں نے دوٹوک اندازمیں جواب دیا کہ ’’اورومی مردو! اگرتم نے علی کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھنے کی جراء ت بھی کی توتم مجھے علی کے لشکرکاادنیٰ سپاہی پاؤگے‘‘۔
ہمیں بھی اسی اسوہ کواپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ ویسے بھی ڈاکٹرظفرالاسلام خان جیسے لوگ گنتی کے ہیں، ایک ایک کرکے ان کوبھی بے قلم وبے زبان کردیاجائے گا، پھرہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888