ریاست و ملک

ملک کے لیے بدنما داغ ہے شہریت قانون‘ این آر سی اور این پی آر

پھلواری شریف: 22؍جنوری(عادل فریدی) شہریت ترمیمی قانون2019ء این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں کل جماعتی اجلاس امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صدارت میں امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں شریک سبھی جماعتوںکے نمائندوںنے بیک آواز سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کی اور کہا کہ شہریت ترمیمی قانون 2019ء ہندوستانی دستور کے بنیادی اصولوں اوردفعات کے خلاف ہے، آئین ہند کی دفعہ 14 اور15 میں بھارت کے سبھی شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں، اور اس میں مذہب کی بنیادپر کسی بھی تفریق کو درست قرار نہیں دیاگیاہے، شہریت ترمیمی قانون2019ء میں بغیر کسی دستاویز کے غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے لوگوں کو جو ہندو، بودھ، عیسائی، جین، پارسی، سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، شہریت دی گئی ہے، اس فہرست سے صرف مسلمانوں کو الگ رکھا گیا ہے، جومذہب کی بنیاد پر کھلی تفریق ہے، اس لئے حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ فوری طور پر اس قانو ن کو واپس لے ۔ دوسری بات یہ ہے سرکار نے اس قانون میںمذہبی بنیاد پر استحصال کو بنیاد بنایاہے ، اگر یہ بات صحیح ہے اور ظلم و ستم اور استحصال ہی بنیاد ہے توصرف افغانستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان ہی بھارت کے پڑوسی ملک نہیں ہیں ،بلکہ نیپال ، چین ، میانمار، سری لنکااور تبت وغیرہ بھی بھارت کے پڑوسی ممالک ہیں جہاں سے مذہبی بنیاد پر استحصال کے شکا ر لوگوں نے ترک وطن کیا ہے ،سری لنکا میں ہزاروں تمل استحصال کے شکار ہوئے، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ظلم کا شکار بنایا گیا ، تبت میں دلائی لاما اور ان کے عقیدت مندوں پر ظلم کیا گیا جس کی وجہ سے ان کو ترک وطن کر کے ہندوستا ن میں پناہ لینی پڑی،نیپال سے سیکڑوں گورکھا لوگوں کو پریشان ہو کر ترک وطن کرنا پڑا،ان سب کا ذکر نہ کرنا یہ بتلاتا ہے کہ یہ قانون بڑے پیمانے پر خامیوں اور مذہبی تعصب سے بھرا ہوا ہے ۔اس میٹنگ میں این پی آر کے سلسلہ میں بھی بات ہوئی اور اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے اپریل سے این پی آر پر کام کرنے کا اعلان کیا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا دھوکہ ہے اور وہ این آر سی کی شقوں کی این پی آر میںداخل کر کے اپنی پالیسی لاگو کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہمارا احساس ہے کہ این پی آر بھی ملک کے لیے صحیح نہیں ہے ۔ کیوں کہ این پی آر بھی این آر سی کا ہی پہلا قدم ہے ۔ اس لیے ہم این پی آر کی بھی سخت مخالفت کرتے ہیں اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ این پی آر کو واپس لیا جائے ۔اسی طرح بہار سرکار سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ این پی آر کی موجودہ شکل کے بائکاٹ کا واضح اعلان کرے۔اس میٹنگ میں اتفاق رائے سے درج ذیل تجاویز بھی منظورکی گئیں:(۱)مرکزی حکومت کی طرف سے یہ کہنا کہ یہ قانون شہریت دینے والا ہے ، شہریت چھیننے والا نہیں ہے ، یہ سراسر دھوکا ہے ، کیوں کہ سی اے اے کو این آر سی سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔حکومت کی پالیسی ہے کہ جو لوگ کاغذ کے ذریعہ اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکیں گے ان کو سرکار کے ذریعہ پریشان کیا جائے گا ، اس میں صرف مسلمان ہی نہیں پھنسیںگے بلکہ سبھی کمزور، دلت، آدیواسی، پچھڑے، ان پڑھ، غریب ،کسا ن ، مزدور ، شیڈول کاسٹ وشیڈول ٹرائب ، خانہ بدوش، جھگیوں میں رہنے والے، کرایہ کے مکان میں زندگی گرازنے والے، بے گھر لوگ ، سڑکوں کے کنارے اور فٹ پاتھوں کے کنارے گزارہ کرنے والے ، آشرموں میں رہنے والی بیوائیں، یتیم و بے سہارا لوگ بھی اس قانون کی زد میں آئیں گے۔ وہ لوگ جو روزانہ کماتے کھاتے ہیں ، اور جن کے لیے باپ دادا کے کاغذات اکٹھا کرنا ناممکن ہے ، ایسے لوگوں سے ان کی شہریت چھین کر ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ، ان کے ووٹ کے حق کو ختم کرنا اور ان سے ریزرویشن کا حق چھین لینا اس قانون کا مقصد ہے۔ اس لیے ہم سبھی لوگ اس قانون کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی حال میں سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو قبول نہیںکریں گے۔ (۲) اس قانون کے خلاف اس وقت تک آندولن جاری رکھیں گے جب تک قانون واپس نہ لے لیا جائے ۔(۳) ہم حکومت بہار سے اس میٹنگ کے ذریعہ مطالبہ کرتے ہیںکہ بہار حکومت این،پی،آرکا مکمل بائیکاٹ کرے ، کیوں کہ این پی آر ، این آر سی کا پہلا قدم ہے ۔(۴)یہ اجلاس اپنے ورکروں ،ضلع ، بلاک اور پنچایت سطح کے ذمہ داروں سے اپیل کرتا ہے کہ گاؤں گاؤں جاکر لوگوںکواس قانون کا نقصان بتاکر انہیں احتجاج میں شریک کیاجائے ۔(۵) ہمارا احساس ہے کہ یہ قانون ہندو سماج کے لیے بھی اس طرح نقصان دہ ہے جس طرح دوسرے مذاہب کے لیے ۔اس لیے ہندو برادران وطن کی بھی بڑی تعداد میں قانون کی خامیوں سے واقف کرایا جائے اور انہیں بھی احتجاج اور مظاہروںمیں شریک کیا جائے۔(۶) ہم سمجھتے ہیں کہ آسام کے ان ہندؤوںکو جنہوں نے کل تک ثبوت پیش کیا تھاکہ ہم بھارت کے شہری ہیں پھر بھی بارہ لاکھ سے زائد کو این،آرسی سے باہر کر دیا گیا ، انہیں بھی اس قانون کا فائدہ نہیں ملے گا کیوں کہ وہ اپنا بنگلہ دیشی یا پاکستانی اور افغانی ہونا کیسے بتائیں گے ، جو ایک مرتبہ ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کر چکے ہیں ۔ اس لیے حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ آسام این آر سی سے باہر رہ گئے ہندوستانیوں کا مستقل حل نکالے نہ کہ سی اے اے کہ ذریعہ انہیں دھوکہ دے۔(۷) پورے ملک میں اس قانون کے خلاف جو بھی پر امن احتجاج ہو رہا ہے ہم اس کے ساتھ ہیں اور ان کا ساتھ دیا جائے ۔(۸) ملک کے لوگوں کوا گر وہ تھوڑے بھی شک کے دائرے میں آگئے تواپنے ہی وطن میں بنگلہ دیشی ، پاکستانی یا افغانی کا سرٹیفکٹ لیکر رہنا ہوگا،گرچہ وہ یہاں کے اصل باشندے ہوں اور کسی بھی دھرم سے تعلق رکھتے ہوں یہ ملک کی اکثریت کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کا ناپاک منصوبہ ہے ،اس لئے ہندو سماج کے تمام لوگ اس کے خلاف کھڑے ہوں ۔(۹) یہ بھی طے کیا گیا کہ بہار ۲۵؍ جنوری کو ہونے والے ہیومن چین اور ۲۹؍ جنوری کو بھارت بند کی سب لوگ حمایت کرتے ہیں اور دونوں میں تمام باشندے شریک ہوںاس میٹنگ میں امیر شریعت حضر ت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کے علاوہ قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب، جیتن رام مانجھی قومی صدر ہم و سابق وزیر اعلیٰ حکومت بہار، جناب ادے نارائن چودھری سابق اسپیکر بہار اسمبلی، اپیندر کشواہا قومی صدر راشٹریہ لوک سمتا پارٹی، سدانند چودھری بزرگ لیڈر وایم ایل اے کانگریس پارٹی، راجیش رنجن عرف پپو یادو قومی صدر جن ادھیکار پارٹی، ستیہ نارائن چودری معز ز لیڈر بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی، دھریندر جھا لیڈر کمیونسٹ پارٹی مارکس لینن، رام لگن مانجھی وامسیف، سابق وزیر ناگمنی، وکیل احمد عرف پپو خان ٹی ایم سی ، مولانا محمد ناظم صاحب سکریٹری جمعیۃ علماء بہار(محمود مدنی)، مولانا اعجاز کریم صدر تنظیم ائمہ مساجد بہار، انوار الہدیٰ ناظم نشر و اشاعت جمیعۃ علماء و ناظم مسلم مجلس مشاورت بہار،مولانا امانت حسین شیعہ عالم، ایڈوکیٹ جاوید اقبال ، سلیم صاحب سی پی آئی ایم ، ہری لال یادو، جن مکتی آندولن، جہان آباد،کے ڈی یادو، مولانا سہیل احمد ندوی، مولانا مفتی محمد سہراب ندوی، مسیح الدین صاحب نوادہ، عظمی باری، افضل صاحؓ رابطہ کمیٹی، مولانارضوان احمد اصلاحی امیرجماعت اسلامی بہار، مفتی وصی احمد قاسمی، مفتی انظار عالم قاسمی، جناب سمیع الحق، مولانا عبد الباسط ندوی، مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی، مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی، ، مولانا عبد الجلیل قاسمی، مولانا احمد حسین قاسمی، ، پی کے آزاد، ستیندر جھا ،منورنجن کشواہا، مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی ، دھرمیندر پرساد، راکیش سنگھ کشواہا، امیش کشواہا، امریندر کشواہا، جیو بندھن نشاد صدر نشاد سنگھ، سدرشن ورماوکرم، ایڈوکیٹ اشہر مصطفی، فضل ملک، کامران، محمد مظاہر ، شمیم اقبال، مشرف علی، نجم الحسن نجمی، اجے کمار، پون ورما، روندر کمار چوپال،مولانا سہیل اختر قاسمی ، رضوان احمد ندوی،شمیم اکرم رحمانی، مولانا ارشد رحمانی،مولانا منہاج ندوی، منہاج عالم، ڈاکٹر نثار احمد ایم ایم آر ایم پارا میڈیکل، دانش جوہر کے علاوہ چھوٹی بڑی ۳۴؍ سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک تھے، نظامت کے فرائض قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی القاسمی نے انجام دیا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×