آئینۂ دکن

آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا شہر حیدرآباد‘ تاریخ ساز ملین مارچ کا پُر امن اختتام

حیدرآباد: 4؍جنوری (عصر حاضر) شہر حیدرآباد میں چالیس ملی جماعتوں کی جانب سے تیار کی گئی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے آج عظیم الشان پیمانہ پر ملین مارچ کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ جس میں مختلف ملی‘ سیاسی اور سماجی قائدین نے مخاطب کرتے ہوئے این آر سی‘ این آر پی اور سی اے اے کے خلاف اپنے اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے حکومت سے اس کوفوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ۔ اس موقع پرغیر مسلم خاتون نے بتایا کہ یہ ہندو یا عیسائی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہم تمام کا مسئلہ ہے ۔ اگر ہم آج اس بات کو محسوس نہیں کریں گے ، توہم ایک بڑی غلطی کریں گے ۔ یہ قانون ہمارے دستور کے خلاف ہے ۔  مرکزی حکومت اور اس کے متعصبانہ ایجنڈوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک کی ترقی کی فکر کے بجائے یہاں پر بسنے والی عوام کو آپس میں دست و گریباں کرنے کے در پے ہے۔ حکومت کا یہ کالا قانون سی اے اے جس کو لوگ محض مسلمانوں سے منسوب کرکے دیکھ رہے ہیں در اصل یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین اور جمہوریت کے سراسر خلاف ہے‘ کسی خاص طبقہ کو نشانہ بناکر قانون بنایا گویا ملک کی بنیادوں میں دراڑیں پیدا کرکے اس کو کمزور کرنا ہے۔ مقررین نے عوام الناس سے یہ عہد لیا کہ ہم این پی آر اور این آر سی کا مکمل بائیکاٹ کریں گے کوئی فارم کی خانہ پُری نہیں کریں گے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر مشتاق ملک نے کہا کہ یہ قضیہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ کے سی آر صاحب اس معاملہ میں اپنی خاموشی نہیں توڑ پارہے ہیں حالانکہ انہوں نے اس پر قائدین کی ملاقات پر دو دن میں موقف واضح کرنے کا تیقن دلایا تھا‘ ہم تلنگانہ کے چیف منسٹر سے این آر سی سے متعلق واضح طور پر مؤقف جاننا چاہتے ہیں‘ کے سی آر اپنی خاموشی توڑیں اور اسمبلی میں یہ قرار داد منظور کریں کہ یہاں پر این آر سی اور این پی آر لاگو نہیں کیا جائے گا یہ حکومت اس کی مخالف ہے۔ انہوں نے عوام الناس کو مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کو مشتعل نہیں ہونا ہے ابھی تو ہم نے انگڑائی لی ہے ہمیں دور تک جانا ہے یہاں تک حکومت جھک جائے اور امیت شاہ کا بیڑه غرق ہوجائے۔ ہم لوگوں کی خاموشی بہت ہوچکی ہے اب ہم لوگ خاموش بیٹھنے والے نہیں ہے۔ یہ جد و جہد کو مسلسل جاری رکھیں گے۔ یہ ملین مارچ شہر حیدرآباد کے حسین ساگر سے متصل دھرنا چوک اندرا پارک پر دن میں 2؍بجے سے شروع ہونا تھا لیکن شہر حیدرآباد کی عوام کا صبح 11؍بجے سے ہی دھرنا چوک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوچکا اور دیکھتے ہی دیکھتے راستے بند ہوتے چلے گئے اور عوام کا اژدحام بڑھتے بڑھتے دھرنا چوک کے اطراف پانچ چھ کیلو میٹر تک دکھائی دینے لگا۔ لاکھوں کی تعداد میں گویا انسانی سروں کا ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر ہے۔ اجلاس کے ختم کے بعد مجمع کی کثرت کی وجہ سے شہر کی سڑکیں کافی دیر تک جام رہیں اور پورے شہر میں قومی ترنگا لہراتا نظر آرہا تھا۔ اس اجلاس کو کنوینر مشتاق ملک کے علاوہ ڈاکٹر کمار بام سیف‘ اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر‘ کانگریسی لیڈر وی ہنمنت راؤ‘ امیر وحدتِ اسلامی مولانا نصیر الدین‘ امیر جماعت اسلامی حلقہ تلنگانہ آندھرا و اڑیسہ حامد محمد خان‘ ایم بی ٹی لیڈر امجد الله خان خالد‘ سی پی آئی لیڈر عزیز پاشاہ سابق ایم پی‘ علیم خان فلکی‘ عبدالوحید خان‘ کے علاوہ ملک بھر کی مختلف تنظیمیں سماج وادی پارٹی‘ آل انڈیا مسلم لیگ‘ غلامانِ مصطفی کمیٹی حیدرآباد کے صدور و ذمہ داران نے اظہار خیال کیا اور حکومت کے سیاه قانون اور ملک کی اقلیتوں کے مخالف پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور این آر سی ‘ این پی آر اور سی اے اے کی بھر پور مذمت کی۔ تلنگانہ پرائیویٹ اسکولس ایکشن کمیٹی اور مختلف پرائیویٹ اسکولس فیڈریشن کے ذمہ داروں اور طلبہ بھی نے ملین مارچ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس میں شرکت کی۔احتجاج میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے جو اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھامے ہوئے تھے۔ان بچوں نے پلے کارڈس پر یو پی اور دہلی پولیس کے نامناسب رویہ کی مذمت کی۔مختلف مسلم جماعتوں،تنظیموں کے ساتھ ساتھ سیکولر اور سماجی و عوامی تنظیموں نے اس مارچ کی اپیل کی تھی۔ نظم وضبط کی برقراری کیلئے والنٹرس کو متعین کیا گیا تھا۔شہر حیدرآباد کے ساتھ ساتھ اضلاع سے کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کرتے ہوئے اس متنازعہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی آواز اٹھائی۔ ملین مارچ میں مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی، ملی، فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے طلبہ، انجمنوں، صحافیوں، دانشوروں نے شرکت کی۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×