آجاؤ الله کی طرف، اگر دل میں ندامت بھی پیدا ہوجائے تو خدا معاف کردے گا
حیدرآباد: 28؍مئی (عصرحاضر) ملک بھر میں جاری کورونا وبا اور کثرتِ اموات کے باعث پیدا شدہ حالات میں شہر حیدرآباد کے متعدد چینلوں کی جانب سے ایک آن لائن دعائیہ اجتماع منعقد کیا گیا۔ اس اہم دعائیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ ناظم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا ایک خطرناک وبا کی لپیٹ میں ہے اور مشرق سے لیکے مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک ساری دنیا کے ممالک اور ممالک میں بسنے والے انسان اور حکومتیں سب کے سب حیران اور پریشان ہیں۔ ایک سال گزرگیا ہے دوسرے سال میں ہم داخل ہوچکے ہیں صورتحال کم زیادہ ہوتے رہتی ہے لیکن ابهی تک اس بلا سے اس وبا سے نجات حاصل نہیں ہوسکی۔ ہم سب ایمان والے ہونے کی حیثیت سے ہمارا یقین ہے کہ یہ سب الله تعالی کے احکام کے ما تحت ہیں۔ اور الله رب العزت کی ربوبیت قدرت اور حکومت دنیا کے سارے نظام اور سسٹم کو چلاتی ہے۔ الله تعالی کے حکم سے ہی ہم لوگ ان حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ حالات اچھے ہوں یا بُرے ہوں یہ سب اس کے پیچهے الله تعالی کی جو حکمت ہوتی ہے وہ اچھی ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اہل السنۃ والجماعۃ نے جو عقائد کی کتابیں لکھی ہیں اس میں یہ عقیدہ بھی لکھا ہے کہ ہر چیز اس کائنات میں الله تعالی کی قدرت و مشیت سے چل رہی ہے اور الله کے فیصلے ہی نافذ ہوسکتے ہیں اور الله تعالی کا فیصلہ چاہے کسی شکل میں نظر آرہا ہے وہ حسن ہے جمیل ہے۔ یعنی الله تعالی کا ہر فیصلہ اس کے انجام کے اعتبار سے بالکل بہتر ہے عمدہ ہے حکمت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں فائدہ ہے کبھی ہم کو فائدے دکھائی دیتے ہیں کبھی دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مومن ہونے کے ہم کو ہر فیصلے کو تسلیم کرلینا چاہیے جس کو رضا کہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حالات جو اس دنیا کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہمارے مصلحتوں کے مخالف نظر آتے اور ہمیں اس سے تکلیف و اذیت ہوتی ہے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوتے ہیں الله تعالی فرماں برداروں اور نافرمانوں کو دیکھے بغیر ہی اس دنیا میں اپنی نعمتوں کا انعامات و احسانات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور انسانی ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے تو کبھی اس طرح کی مصیبتیں کیوں نازل کرتا ہے؟ تو کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ حالات میں بندوں کے اعمال کا دخل ہوتا ہے۔ یہاں سے بندے اچھے اعمال پیش کرتے ہیں تو فیصلے اچھے نافذ ہوتے ہیں اور اگر بد امنی پیدا کرتے ہیں بُرے اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں اور الله رب العزت کے مقاصد پورے ہونے نہیں دیتے اور ایک پاکیزہ نظام جو الله تعالی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کو اپنے اعمال کے ذریعہ خراب کرتے ہیں، انسانوں کے امن و امان کو برباد کرتے اور انسانیت کے چین و سکون سے رہنے کے ذرائع کو چھین لیتے ہیں تو الله تعالی کی طرف سے اسی طرح کے احکامات نازل ہوتے اور خاص بات یہ ہے کہ اگر بندہ بُرے اعمال انفرادی طور پر کرتا ہے تو الله تعالی چشم پوشی فرماتے ہیں اگر یہ بُرے اعمال اجتماعی طور پر ڈھیٹ بن کے کرتے ہیں تو الله تعالی اس کو گوارا نہیں فرماتا کیوں کہ اس سے الله کے بندوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ الله کی بے جان مخلوق کو تک نقصان پہنچتا ہے تو الله تعالی کی گرفت مضبوط ہوجاتی ہے۔ اور اس کی لپیٹ میں سب آجاتے ہیں۔ صحیح حدیث ہے بخاری شریف کی حضرت عائشہ صدیقہؓ نے سوال کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ایک لشکر کعبۃ الله کے انہدام کے لیے سفر کرکے مکہ مکرمہ کی طرف جارہا ہوگا مکہ کے باہر جب مقامِ بیضاء میں یہ پہنچے گا تو الله تعالی ان کے اولین و آخرین کو زمین میں دھنسا دے گا۔ تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا یا رسول اللهﷺ قافلہ میں تو سب لوگ اسی غرض سے شامل نہیں ہوتے قافلہ میں بعض لوگ تجارت کے لیے تیمار داری کے لیے حج کے لیے مختلف اغراض کو لیکر بھی شامل ہوتے ہیں تو پھر سب پر کیوں عذاب آئے گا؟ تو رسول اللهﷺ نے فرمایا تو کہ اس دنیا میں تو یہی ہوگا کہ الله تعالی کا اجتماعی عذاب یونہی آتا ہے کہ سب اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور بروزِ محشر یہ سب جب اٹھائے جائیں گے تو اس وقت ان کی نیتوں کا اعتبار ہوگا۔ اسی لیے ان حالات میں کسی کو یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم تو نمازی ہیں پرہیز گار ہیں حلال کھانے کا بھی اہتمام ہوتا ہے پھر بھی ہمارے اوپر مصیبت کیوں آرہی ہے؟ تو سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب الله تعالی کی عام پکڑ آئے گی تو سب پر آئے گی۔ حضرت عائشہؓ کے ایک سوال کے جواب میں الله کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ الله کے باغیوں کے حق میں اس کا عذاب ہے اور الله کے فرماں برداروں اور ایمان والوں کے حق میں رحمت ہے۔ تو الله تعالی کی یہ مصیبتیں کسی کے حق میں امتحان، کسی کے حق میں رحمت، کسی کی حق میں الله تعالی کا یہ سخت عذاب ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ الله تعالی کی یہ مصیبتیں کسی حق میں رفعِ درجات کا سبب بنتی ہے، کسی کے حق میں گناہوں کے مٹنے کا سبب ہے تو کسی کے حق میں الله تعالی کا عذاب اور اس کی ناراضگی ہے۔ موجودہ وباءاگر ہمارے لیے نجات کا سبب اور رفع درجات کا ذریعہ ہے تو یہ ہمارے لیے سستا سودا ہوگا اور ہمیں اس پر صبر کرنے بہترین بدلہ میسر آئے گا۔ ہمیں الله تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ حضرت معاذؓ کے بیٹے کی موت پر الله کے نبی علیہ السلام نے حضرت معاذ کو جو تعزیتی خط لکھا اس میں ایک جملہ یہ بهی لکھا کہ یہ الله تعالی کے شکر کا موقع ہے ہم اور آپ الله تعالی کا شکر ادا کریں۔ یعنی ایسے غم و حزن کے موقع پر الله کے نبیﷺ نے بھی شکر کی تلقین کی ہے تو ہم کو بھی شکر ادا کرنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خطاب کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ دکن کی نہایت برگزیدہ شخصیت محدث دکن پیرِ طریقت ابوالحسنات عبدالله شاه صاحب علیہ الرحمہ کے ایک مرید نے اپنی مصیبتوں کا ذکر کیا اور سخت ترین حالات کے گزرنے کا تذکرہ کیا۔ اس موقع پر حضرت نے ان کو دو باتیں بتائی جس پر ہم کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات حضرت نے یہ فرمائی کہ مصیبتیں الله تعالی کی طرف سے آتی ہیں الله تعالی جن سے محبت کرتے ہیں ان کو آزمائش میں ڈال کر ان کی محبت کا امتحان لیتے رہتے ہیں اسی لیے رضا بہ رضا رہو اور اپنی مصیبتوں کا ذکر نہ کرو۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ آپ نے جو حالات مجھے لکھے ہیں اس میں مجھے آپ کی مصیبتوں کا تذکرہ سن کر اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی کہ آپ کی نماز روزہ چھوڑنے کی وجہ سے ہوئی۔ ان دو باتوں کا اس وقت ہر مسلمان کو یاد رکھنا نہایت ضروری ہے اور اس پر عمل کرنا ایمانی و اسلامی تقاضہ ہے۔ اس وقت ہمارے گناہ زیادہ ہے اور نیکیاں کم ہیں تو کیسے الله کی رحمت کو متوجہ کریں گے اسی لیے ایسے حالات میں تو کم از کم موٹے موٹے گناہوں کو تو چھوڑدیں اور نمازوں کا اہتمام کریں۔ چاہے ہم سے جتنے بھی گناہ سرزد ہوجائیں الله تعالی معاف کرنے والا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر ایمان والے کے دل میں گناہوں پر ندامت بھی پیدا ہوجائے تو الله تعالی معاف کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ تو آجاؤ اپنے رب سے معافی کا عزم لیکر اور گناہوں سے خوب توبہ کریں۔ مولانا نے امام رازیؒ کا یہ قول بھی نقل کیا کہ بندوں کے اپنے اوپر ظلم کرنے کے اعتبار سے تین درجے ہیں، ظالم اس سے بڑھ کر ظلوم اور اس سے بھی بڑھ کر ظلّام ! حق تعالی نے ان کے مقابلے میں اپنے بھی تین نام رکھے ہیں، غافر؛ غفور؛ اور غفّار! گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بندے! نافرمانی کے کسی مرحلے میں مجھ سے مایوس نہ ہوجا،تو ظالم ہے تو میں غافر ہوں، تو ظلوم ہے تو میں غفور ہوں، اور اگر تو حد سے بڑھ کر ظلّام بن گیا ہے تو میں بھی تیرے حق میں غفّار ہوں، تو میری طرف لوٹ کے تو آ، پھر دیکھ کرم کا یہاں کیا مقام ہے۔ دعاء سے قبل مولانا نے تمام صحافیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے آج اس دعائیہ مجلس کو منعقد کرنے میں حصہ لیا اور ان کی اس خدمت کو سراہا۔ خاص طور پر ان لوگوں کا ذکر کیا جو اس موقع پر بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں اور امت کے لیے راحت رساں بنے ہوئے صحت سے متعلق صحافت سے متعلق اور معاشی ملی رفاہی جس لائن سے بھی خدمت کررہے ہیں یہ سب کے سب قابلِ قدر اور لائق ستائش ہیں۔ پروگرام کے شروع میں مولانا عبدالرحیم خرم جامعی نے بھی خطاب کرتے ہوئے موجودہ حالات میں چل رہی بے اعتدالیوں کی طرف عوام کو متوجہ کیا اور خاص طور پر لاک ڈاؤن کی نازک ترین صورتحال میں تاجرین جو عوام سے زیادہ رقومات وصول رہے ہیں معمولی معمولی چیزوں کو بڑی قیمتیں وصول رہے ہیں ان کو انسانی ہمدردی اور ایمانی حمیت کے ساتھ کاروبار کرنے کی ترغیب دی۔ مولانا عبدالقوی صاحب نے پروگرام کے اخیر میں رقت انگیز دعاء فرمائی۔تمام بیماروں تیمار داروں، خدمتِ خلق سے وابستہ افراد اور ملی فلاحی سیاسی سماجی خدمت میں مصروف افراد کے لیے بہ طورِ خاص دعائیں مانگی۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور عبادات و فرائض سے غفلت و کوتاہی کو دور کرنے کے لیے دعاء کی۔